کشف و الہام کے ذریعہ تصحیح ہونےوالی ا حادیث(قسط اوّل)
ایسی معروف احادیث و حوالہ جات جن کی تصحیح بذریعہ کشف بزرگان سلف نے تسلیم کی ہے
مورخہ 15؍جنوری 2021ء کو الفضل انٹرنیشنل میں ایک مضمون بعنوان ’’کیا خدا تعالیٰ کا حقیقی ولی اپنے کشف اور الہام کے ذریعہ تصحیح احادیث کر سکتا ہے؟‘‘شائع ہوا ۔جس میں کشف و الہام کے ذریعہ تصحیح احادیث کے جواز کو پیش کیا گیاہے اور اس موقف کے قائلین بعض بزرگان کےچندحوالہ جات بطور دلیل پیش کیے گئے ہیں کہ وہ بھی کشف والہام کے ذریعہ سے تصحیح احادیث کو جائز قراردیتے تھے ۔
اس عنوان کے تسلسل میں بطور ثبوت مزیدایسی معروف احادیث و حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن کی تصحیح بذریعہ کشف بزرگان سلف نے تسلیم کی ہے اور وہ احادیث بطورتائید اس موقف کو مزید مضبوط کرتی ہیں:
1۔أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم
بذریعہ کشف تصحیح ہونےوالی احادیث میں سے ایک معروف حدیث’’أصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ ہے۔جسے علمائے فن حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔جیساکہ علامہ ابن عبد البر(متوفی:463ھ) نے لکھا ہے کہوَهَذَا مَذْهَبٌ ضَعِيْفٌ عِنْدَ جَمَاعَةٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رَفَضَهُ أَكْثَرُ الْفُقَهَاءِ وَأَهْلُ النَّظَرِ ۔(جامع بيان العلم وفضلهٖ جزء2صفحہ 898)
یعنی اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے اور اکثر فقہاء اور اہل نظر نے اس کا انکار کیا ہے۔
علامہ شوکانی (متوفی:1250ھ)لکھتے ہیں:وَهَذَا الحَدِيْث لَمْ يَصح عَن رَسُول اللّٰه صلى اللّٰه عَلَيْهِ وَسلم وَآله وَسلم، كَمَا هُوَ مَعْلُوم عِنْد أهل هَذَا الشَّأْن، فقد اتَّفقُوا على أَنه غير ثَابت۔(قطر الولي على حديث الولي ۔ ولاية اللّٰه والطريق إليها صفحہ 318)یعنی یہ حدیث رسول اللہﷺ سے صحیح ثابت نہیں جیساکہ یہ بات اس فن کے ماہرعلماء کے نزدیک معلوم ہے اور اس حدیث کے غیر ثابت ہونے پر ان سب کا اتفاق ہے۔
لیکن یہ حدیث اہل کشف و رؤیا کے نزدیک صحیح ثابت ہے۔چنانچہ امام شعرانیؒ (متوفی:973ھ)اپنی تصنیف’’المیزان الکبریٰ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:’’ویؤیدنا حدیث اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم انتھی وهذا الحديث وإن كان فيه مقال عند المحدثين فهو صحيح عند أهل الكشف۔‘‘(الميزان الكبرىٰ للشعرانی جزء1صفحہ29)حدیث ’’اصحابی‘‘ بھی ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے۔بے شک محدثین کے نزدیک اس حدیث میں کلام ہے لیکن اہل کشف کے نزدیک یہ صحیح حدیث ہے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ امام شعرانیؒ کا مذکورہ بالا حوالہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’پھر صفحہ 33 میں فرماتے ہيں کہ بعض حديثيں محدثين کے نزديک محل کلام ہوتی ہيں مگر اہل کشف کو اُن کی صحت پر مطلع کيا جاتا ہے جيسا کہ اصحابی کالنجوم کی حديث محدثين کے نزديک جرح سے خالی نہيں مگر اہل کشف کے نزديک صحيح ہے۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد 3صفحہ176)
یہ بھی پڑھیے:
2۔اذکروا اللّٰہ حتی یقولوا مجنون
امام شعرانیؒ(متوفی:973ھ)اپنی تصنیف’’الطبقات الکبریٰ‘‘میں حضرت ابوالمواھب شاذلیؒ(متوفی:بعد850ھ) کاتذکرہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
کان رضی اللّٰہ عنہ یقول: رأیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فسألته عن الحديث المشهور ’’اذكروا اللّٰه حتى يقولون مجنون‘‘ وفي صحيح بن حبان ’’أكثروا من ذكر اللّٰه حتى يقولون مجنون‘‘۔ فقال عليه الصلاة والسلام: صدق ابن حبان في روايته، وصدق راوي ’’اذكروا اللّٰه‘‘ فاني قلتهما معًا، مرة قلت هذا،ومرة قلت هذا‘‘(الطبقات الکبریٰ للشعرانی جزء2صفحہ151)ابوالمواھب شاذلی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے رؤیا میں رسول اللہﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے آپ سے حدیث مشہور کے متعلق سوال کیا:اذکروااللّٰہ حتی یقولون مجنون یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو یہاں تک کہ لوگ مجنون کہیں۔جو کہ صحیح ابن حبان میں یوں ہے:اکثروا من ذکر اللّٰہ حتی یقولوا مجنون۔یعنی ذکرالٰہی کی کثرت کرو یہاں تک کہ لوگ مجنون کہیں۔توحضور علیہ السلام نے فرمایا:ابن حبان اپنی روایت میں سچا ہے جبکہ اذکرواللّٰہ کا راوی بھی سچا ہے کیونکہ میں نے دونوں طرح فرمایا ہے ایک دفعہ اس طرح اور دوسری دفعہ اس طرح۔
3۔علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل
اس حدیث کے بارے میں محدثین عظام اور علمائے فن حدیث نے کہا ہے کہ ’’لَا أَصْلَ لَهُ‘‘یعنی اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔چنانچہ ملا علی قاری لکھتے ہیں:’’حَدِيثُ: ’’عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ‘‘ فَقَدْ صَرَّحَ الْحُفَّاظُ كَالزَّرْكَشِيِّ وَالْعَسْقَلَانِيِّ وَالدَّمِيْرِيِّ وَالسُّيُوْطِيِّ أَنَّهُ لَا أَصْلَ لَهُ‘‘(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح جزء9صفحہ3932)یعنی حدیث’’ عُلَمَاءُ أُمَّتِي…‘‘کے بارے میں علامہ زرکشی، علامہ عسقلانی،علامہ دمیری اور علامہ سیوطی جیسے حفاظ کرام نے صراحتاً کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔
دَورحاضر کے عالم محمد بن علی بن موسیٰ نے سنن ابن ماجہ کی شرح ’’مشارق الانوارالوھاجة و مطالع الاسرار البھاجة‘‘ میں علامہ البانی کا قول درج کیا ہے کہ’’وقال الشيخ الألبانيّ رحمه اللّٰه: لا أصل له باتفاق العلماء، وهو مما يَستدلّ به القاديانية الضالّة على بقاء النبوّة بعده۔صلى اللّٰه عليه وسلم۔ ولو صحّ لكان حجة عليهم، كما يظهر بقليل من التأمّل۔ انتهى‘‘(مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجة جزء3صفحہ 188)یعنی شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل نہ ہونے پر علماء متفق ہیں اور یہ وہ حدیث ہے جس سے قادیانی رسول کریمﷺ کے بعد نبوت کے بقا(جاری رہنے) کا استدلال کرتے ہیں۔اگر یہ حدیث صحیح ہوتو ان کےلیے بطور حجت ہے جیساکہ اس پر تھوڑے سے غوروفکر سے بھی ظاہر ہے۔ انتہی۔
ان سب کے بالمقابل سید علی حرازم ابن العربی برادہ المغربی الفاسی(متوفی:1214ھ) اپنی تصنیف ’’جواہر المعانی و بلوغ الامانی فی فیض سیدی ابی العباس التجانیؓ‘‘ میں لکھتے ہیں :’’(وسئل سيدنا رضي اللّٰه عنه) عن مسائل،منها قوله عليه السلام :’’علماء أمتي كأنبياء بني إسرائيل‘‘…(الجواب:) واللّٰه الموفق بمنه وكرمه للصواب – أما ما ذكرت من الحديث وهو ’’علماء أمتي … الخ‘‘ فليس بحديث نص عليه السيوطي في الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة، وسأل صاحب الإبريز شيخه رضي اللّٰه عنه،فقال له: ليس بحديث وذكره من جهة الكشف لأنّه لا دراية له بعلم الحديث،وقوله حجة على غيره لأنّه قطب رضي اللّٰه عنه كما صرح به صاحب الإبريز المذكور‘‘(جواهر المعاني و بلوغ الامانی جزء 2صفحہ 275،مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت ،لبنان)سیدابو عباس التجانیؓ سے بعض مسائل کے بارہ میں دریافت کیا گیا۔ان میں سے ایک حدیث رسول ؐ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘کے متعلق بھی سوال تھا۔انہوں نے جواب دیا کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے احسان و کرم سے درست بات کی توفیق دینے والا ہے‘‘۔جہاں تک اس مذکورہ حدیث ’’علماء امتی…الخ ‘‘ کا تعلق ہے تو یہ حدیث نہیں ہے جسے علامہ سیوطیؒ نے اپنی تصنیف ’’الدر المنتثرة فی الاحادیث المشتھرہ‘‘ میں درج کیا ہے۔صاحب الابریز(ابو العباس احمد بن مبارك بن محمد بن علی بن مبارك السجلماسی اللمطی:متوفی:1156ھ)نے اپنے شیخ(عبد العزیز دباغ:متوفی1131ھ) سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث نہیں ہے لیکن انہوں نےاس کا ذکرکشفی طور پر کیا کیونکہ ان کوعلم حدیث کی درایت نہیں ہے۔پس ان کا یہ قول دوسروں کی رائے پر حجت ہے کیونکہ وہ قطب(ولی اللہ)کے مقام پرہیں جیساکہ صاحب الابریزمذکور نے بھی صراحت کی ہے۔
4۔شیخ محی الدین ابن عربیؒ (متوفی:638ھ)کا بذریعہ کشف صحت حدیث معلوم کرنا
مشہورصوفی بزرگ اور عالم شیخ الاکبرمحی الدین ابن عربیؒ بھی بذریعہ کشف تصحیح حدیث کے قائل تھے۔آپ نے اپنی تصنیف فتوحات مکیہ میں اس موقف کا بدلائل مفصل ذکر کیا ہے جس میں خود اپنے واقعات بھی بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ ملاعلی قاری(متوفی:1014ھ) شرح مشکوٰة المصابیح میں بیان کرتے ہیں کہقَالَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ بْنُ الْعَرَبِيِّ: أَنَّهُ بَلَغَنِي ’’عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ سَبْعِيْنَ أَلْفًا غُفِرَ لَهُ، وَمَنْ قِيْلَ لَهُ غُفِرَ لَهُ أَيْضًا‘‘، فَكُنْتُ ذَكَرْتُ التَّهْلِيْلَةَ بِالْعَدَدِ الْمَرْوِيِّ مِنْ غَيْرِ أَنْ أَنْوِيَ لِأَحَدٍ بِالْخُصُوْصِ، بَلْ عَلَى الْوَجْهِ الْإِجْمَالِيِّ، فَحَضَرْتُ طَعَامًا مَعَ بَعْضِ الْأَصْحَابِ، وَفِيْهِمْ شَابٌّ مَشْهُورٌ بِالْكَشْفِ، فَإِذَا هُوَ فِي أَثْنَاءِ الْأَكْلِ أَظْهَرَ الْبُكَاءَ فَسَأَلْتُهُ عَنِ السَّبَبِ فَقَالَ: أَرَى أُمِّي فِي الْعَذَابِ فَوَهَبْتُ فِي بَاطِنِي ثَوَابَ التَّهْلِيْلَةِ الْمَذْكُوْرَةِ لَهَا فَضَحِكَ وَقَالَ: إِنِّي أَرَاهَا الْآنَ فِي حُسْنِ الْمَآبِ، قَالَ الشَّيْخُ: فَعَرَفْتُ صِحَّةَ الْحَدِيْثِ بِصِحَّةِ كَشْفِهِ، وَصِحَّةَ كَشْفِهِ بِصِحَّةِ الْحَدِيثِ۔(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کتاب الصلاة باب ما علی الماموم من المتابعة و حکم المسبوق)شیخ مُحِیُّ الدین ابن عر َبیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے آنحضرتﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جو شخص ستر ہزار بار ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘ پڑھے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔اسی طرح جس شخص کےلیے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت کردی جاتی ہے۔چنانچہ میں اس کلمہ کو روایت کردہ عدد کے مطابق خاص طور پر کسی کی نیت کیے بغیر پڑھا کرتا تھا۔ اتفاقاًایک روز میں بعض اصحاب کے ساتھ ایک دعوت میں موجودتھااوران میں ایک نوجوان بھی تھا جو کشف کے بارے میں بہت مشہور تھا۔کھاناکھانے کے دوران اچانک وہ رونے لگا،میں نے اس سے اس کاسبب پوچھا توبولا کہ ’’میں کشفی طور پراپنی ماں کوعذاب میں مبتلادیکھ رہاہوں‘‘۔اس پر میں نے کلمہ مذکورہ کا ثواب دل میں ہی اس کی ماں کےلیے بخش دیا ۔ اس پروہ جوان ہنسنے لگا اور بولا کہ ’’اب میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں‘‘۔شیخ ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس حدیث کی صحت اس (نوجوان وَلی) کے کشف سے معلوم کی اور اس کے کشف کی صحت حدیث سے۔
علامہ شعرانی (متوفی:973ھ)اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی (متوفی:1350ھ) احادیث رسولﷺ کی بذریعہ کشف و الہام تصحیح کے متعلق علامہ ابن عربیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں:’’و قد صححت منہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عدة احادیث قال بعض الحفاظ بضعفھا فاخذت بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیھا و لم یبق عندی شک فیما قالہ و صار ذالک عندی من شرعہ الصحیح اعمل بہ و ان لم یطعنی علیہ العلماء بناء علی قواعدھم…‘‘(سعادة الدارین لیوسف بن اسماعیل نبھانی صفحہ 440)کہ میں نے کئی احادیث کی تصحیح رسول اللہﷺ سے کروائی۔ جن احادیث کو بعض حفاظ نے ضعیف قرار دیا ان کے متعلق میں نے رسول اللہﷺ سے راہنمائی لی اور مجھے ان کے بارے میں کوئی شک نہ رہا اور وہ میرے لیے شریعت کے عین مطابق ہوگئیں اور میں اس پر عمل کرتا بے شک علماء اپنے بنائے ہوئے قواعد کی بنا پر میری اس بات کو نہ مانیں۔
امام جلال الدین سیوطیؒ کا بذریعہ کشف تصحیح حدیث
امام عبد الوہاب شعرانی ؒعلامہ جلال الدین سیوطیؒ کا ایک ایسا واقعہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’ورأيت ورقة بخط الشیخ جلال الدین السيوطي عند أحد أصحابه وهو الشيخ عبد القادر الشاذلي مراسلة لشخص سأله في شفاعة عند السلطان قايتباي رحمه اللّٰه تعالى: ’’اعلم يا أخي إنني قد اجتمعت برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى وقتي هذا خمسا وسبعين مرة يقظة ومشافهة ولولا خوفي من احتجابه صلى اللّٰه عليه وسلم عني بسبب دخولي للولاة لطلعت القلعة وشفعت فيك عند السلطان وإني رجل من خدام حديثه صلى اللّٰه عليه وسلم وأحتاج إليه في تصحيح الأحاديث التي ضعفها المحدثون من طريقهم ولا شك أن نفع ذالك أرجح من نفعك أنت يا أخي‘‘(المیزان الکبریٰ للشعرانی جزء1صفحہ44،الطبعة الاولیٰ، شرکة مصطفىٰ البابي الحلبي مصر 1940ء)یعنی میں نے امام جلال الدین سیوطیؒ کے شاگردوں میں سے ایک شخص شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک رقعہ دیکھا جو آپ نے اس آدمی کےلیے بھیجا جس نے آپ سے سلطان قایتبای کے پاس سفارش کی د رخواست کی تھی۔فرمایا :اے میرے بھائی! تجھے معلوم ہے کہ اب تک میں بیداری کی حالت میں بالمشافہ 75مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوچکا ہوں۔ اگر حکام کے پاس جانے کی وجہ سے مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ سرکار علیہ الصلوٰة والسلام مجھے اس شرف سے محروم فرمادیں گے تو میں قلعہ میں جاکر سلطان کے پاس تیری سفارش ضرور کرتا جب کہ میں آپ کی احادیث شریفہ کے خادموں میں سے ہوں اور مجھے ان احادیث کی صحت کے بارے میں جنہیں محدثین نے اپنے طریق کے مطابق ضعیف قرار دیا ہے حضور نبی پاکﷺ سے استفادہ کرنا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فائدہ تیرے ایک شخص کے فائدے سےکہیں زیادہ ضروری ہے۔
اس کے بعد امام شعرانیؒ فرماتے ہیں:’’ویؤید الشیخ جلال الدین فی ذالک مااشتھر عن سیدی محمد بن زین المادح لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ کان یری رسول اللّٰہ صلعم یقظة و مشافھة ولما حج کلمہ من داخل القبر‘‘(المیزان الکبریٰ للشعرانی جزء1صفحہ44،الطبعة الاولیٰ، شرکة مصطفىٰ البابي الحلبي مصر 1940ء)شیخ جلال الدین کی اس بات کا مؤید وہ واقعہ ہے جو سید محمد بن زین سے مشتہر ہے وہ آنحضرتﷺ کی زیارت سے بیداری میں مشرف ہوتے جب حج کو جاتے تو روضۂ مبارک میں آپ سے ہمکلام ہوتے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ؑنےبھی کشف کے ذریعہ تصحیح حدیث کامضمون بیان فرماتے ہوئے امام شعرانی کی کتاب میزان الکبریٰ کے حوالے سےاس واقعہ کاذکراپنی تصنیف ازالہ اوہام میں تحریرفرمایا ہے۔چنانچہ فرمایا:’’بہتیرے اولیاء اللہ سے مشتہر ہوچکا ہے کہ وہ آنحضرت صلعم سے عالم ارواح میں یا بطور کشف ہم مجلس ہوئے اور اُن کے ہمعصروں نے اُن کے دعوے کو تسلیم کیا۔پھر امام شعرانی صاحب نے ان لوگوں کے نام لیے ہیں جن میں سے ایک امام محدث جلال الدین سیوطی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق جلال الدین سیوطی کا دستخطی اُن کے صحبتی شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس پایا جو کسی شخص کے نام خط تھا جس نے اُن سے بادشاہ وقت کے پاس سفارش کی درخواست کی تھی سو امام صاحب نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ میں نے آنحضرت صلعم کی خدمت میں تصحیح احادیث کے لئے جن کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حاضر ہوا کرتا ہوں چنانچہ اس وقت تک پچھتر دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہوچکا ہوں اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بادشاہ وقت کے پاس جانے کے سبب اس حضوری سے رُک جاؤں گا تو قلعہ میں جاتا اور تمہاری سفارش کرتا۔‘‘(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد3صفحہ 177)
شمس محمد بن ابی حمائل کا رسول اللہﷺ سے براہ راست مسائل دریافت کرنا
علامہ یوسف نبھانی علامہ ابن حجر ہیثمی کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہوذکر رحمہ اللّٰہ مثل ذالک في شرحه على همزية الامام البوصيري عند قوله:
ليته خصني برؤية وجهه
زال عن كل من رآه الشقاء
قال في آخر كلامه هناك: ولقد كان شيخي وشيخ والدي الشمس محمد بن أبي الحمائل يرى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم يقظة كثيرًا حتى يقع له أنه يُسأل في الشيء فيقول: حتى أعرضه على النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ، ثم يدخل رأسه في جيب قميصه ثم يقول: قال النبي صلى اللّٰه عليه وسلم فيه كذا فيكون كما أخبره لا يختلف ذالك أبدًا فاحذر من إنكار ذالك فإنه السم۔(سعادة الدارين صفحہ422تا423)علامہ ابن حجر ہیثمی بیان کرتے ہیں کہ میرے شیخ اور ان کے والد شمس محمد بن ابی حمائل بیداری کی حالت میں رسول اللہﷺ کی زیارت کا بکثرت شرف پاتے تھے اور جب ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا اور اس میں مشکل پیش ہوتی تو وہ کہتے کہ میں اسے نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کرکے دریافت کروں گا۔پھر آپ اپنا سر اپنی قمیص کے گریبان میں ڈالتے اور پھر فرماتے کہ نبی کریمﷺ نے اس بارے میں یہ فرمایا ہے۔چنانچہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا جیساکہ وہ بیان کرتے تھے پس اس بات کے انکار میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس کا انکار زہر کے مترادف ہے۔
(جاری ہے)