مرٰاۃ الجہاد(قسط20)
(مصنفہ حضرت مولوی سید وزارت حسین صاحب رضی اللہ عنہ)
’’مصنف موصوف نے اس کتاب کے لکھنے میں بہت محنت اور جانفشانی سے کام لیا ہے اپنے اور بےگانوں کی کتابوں کا بہت غور سے مطالعہ کر کے مفید عبارتیں ہر جگہ سے نقل کی ہیں۔ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی کتب اور مسائل ہنود میں ہندوؤں اور آریہ کی مستند کتب کے حوالہ جات کے ساتھ اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچایا ہے کہ اسلام میں اگر کوئی جہاد ہے تو وہ عین فطرت انسان کے مطابق اور بنی نوع انسان کی ضروریات کے موافق ہے‘‘
امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی آواز پر سعید روحوں نے لبیک کہا اور دور دراز سے آپ پر ایمان لانے کے لیے قادیان دار الامان کی مقدس بستی کی طرف گامزن ہوئے۔ قادیان، پنجاب سے مشرقی جانب صوبہ بہار موجود ہے جواُس وقت متحد بنگال کا حصہ تھا۔ امام الزمان کی اس آواز کےنتیجے میں صوبہ بہار سے15 سے زائدخوش نصیب احباب کو آپؑ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان خوش نصیبوں میں پہلا نام حضرت مولانا حسن علی صاحبؓ کا ہے۔ آپ کو صوبہ بہار میں پہلا احمدی ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپ 313 اصحاب صدق و صفا میں بھی شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ سعادت مکرم سیدوزارت حسین صاحبؓ اورین کے حصہ میں آئی۔
تعارف مصنف سید وزارت حسین صاحبؓ
’’ولادت 1882ء، بیعت کے بعد 1903ءمیں چند ماہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی ایک کلاس میں تعلیم دی جس کی بدولت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کلاس کے معلم ہونے کا فخر بھی حاصل ہوا بعدہ کئی ماہ تک ریو یو آف ریلجنز کے تنہا انچارج رہے۔ پٹنہ ہائی کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ میں جب علی الترتیب احمدیہ مسجد مونگھیراور احمدیوں کے فسخ نکاح کے مقدمات دائر تھے اور چوہدری محمد ظفر اللہ صاحب نے کامیاب وکالت کی تو آپ نے ضروری مواد کی فراہمی میں بڑا کام کیا۔ ان ہر دو مقدمات میں جماعت احمدیہ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 1924ء میں علاقہ ملکانہ میں تین ماہ تک تبلیغی جہاد کیا۔ 1906ء سے1946ء تک آپ مونگھیرکے راجہ صاحبان کی ملازمت میں رہے۔ مگر جہاں گئے اسلام و احمدیت کی تبلیغ میں مصروف رہے۔ آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے ہیں۔ حضرت مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری کی وفات کے بعد سال ہا سال تک امیر جماعت احمدیہ بہار رہے (الحکم 17؍فروری1901ء صفحہ8پر آپ کی بیعت درج ہے۔ وفات یکم مئی 1975ء)‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ201)
معروف عالم دین
حضرت سید وزارت حسین صاحبؓ اپنے علاقے کے معروف عالم دین تھے۔ آپ کئی کتب کے مصنف بھی تھے۔ اس وقت آپ کی کتب میں ’’مرٰاۃ الجہاد ‘‘ میسر ہے۔ اس کتاب میں آریہ سماج کے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا کافی و شافی جواب دیا گیاہے۔ اور خصوصاً پنڈت لیکھرام کے اسلام کے خلاف کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیاہے۔ آریہ سماج کے متعلق آپ کی معلومات پختہ اور دلائل انتہائی مضبوط ہوا کرتے تھے۔
آج کےاس مضمون میں خاکسار آپ کی کتاب مرٰاۃ الجہاد کا تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ کتاب 1905ء میں قادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہتمام میں اُن کے مطبع انوار احمدیہ میں 700کی تعداد میں شائع ہوئی۔ نور الدین لائبریری قادیان میں یہ کتاب علمائےسلسلہ کی کیٹگری (Category)میں زیر نمبر2533موجود ہے۔ اس کے چند ایک نسخہ جات موجود ہیں۔
خوش قسمتی سے اس کتاب پر تبصرہ و ریویو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو جید صحابہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم و حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایڈیٹر البدر نے اپنے مؤقر اخبارات میں کیا ہے۔ قارئین الفضل انٹر نیشنل کے لیے اس تعارف کو ہی بغیر کسی اضافہ کے پیش کیا جا رہا ہے۔
مرٰاۃ الجہاد پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم کا تبصرہ
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کا جماعت احمدیہ کی تاریخ میں جو مقام و مرتبہ ہے اسےبیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے اپنے مؤقر اخبار الحکم کے ذریعہ عظیم الشان خدمات سر انجام دی ہیں۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے اخبار الحکم کو اپنا ایک بازو قرار دیا تھا۔ آپ 21؍اگست 1923ء کے اخبار الحکم میں مرآۃ الجہاد کتاب پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’آریوں کی طرف سے مسئلہ جہاد پر بہت اعتراضات کئے گئے ہیں۔ لیکھرام مقتول نے اس پر ایک خاص کتاب لکھی ہے اور آج آریوں نے شدھی کی تحریک کی بنیاد اسی پر رکھی ہے کہ اسلام بذریعہ تلوار پھیلا ہے۔ اس کتاب میں اس مسئلہ کی حقیقت عملی اور تاریخی حیثیت سے اس قابلیت سے بیان کی گئی ہے کہ بےاختیار مصنف کی محنت اور ہمت کی داد دینی پڑتی ہے۔ اس کتاب میں آریوں کے قتل و غارت لوٹ مار اور بےحد ظلم اور زیادتیوں کا تاریخی ثبوت ایک خاص فصل میں دیا ہے۔
کتاب قابل دید ہے۔ اور اس کی کثرت اشاعت کی ضرورت ہے۔ 312 صفحہ کی کتاب ہے اور آٹھ آنہ فی جلد کے حساب سے دفتر الحکم قادیان سے ملے گی۔ محصول ڈاک اس کے علاوہ ہے یہ کتاب مولوی سید وزارت حسین صاحب اورین مونگھیریکی تالیف ہے۔‘‘ ( اخبار الحکم 21؍اگست 1923ء صفحہ 1)
مرٰاۃ الجہاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایڈیٹر البدر کا ریویو
حضرت مولوی سید وزارت صاحبؓ کی کتاب مرٰاۃ الجہادپر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایڈیٹر اخبار البدر قادیان نے بھی ریویو فرمایا ہے۔ وہ یہاں پر احباب کے فائدہ کے لیے پیش ہے۔ آپ بعنوان’’مرٰاۃ الجہاد ‘‘ لکھتے ہیں کہ’’اس نام کی ایک کتاب ہمارے دوست وزارت حسین صاحب ساکن اورین ضلع مونگھیر نے تصنیف کرکے چھپوائی ہے اور ہمارے پاس ریویو کے واسطے بھیجی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے ممبروں کو اسلام کی سچی محبت اور دین محمدﷺ کی خدمت کا دلی جوش عطا فرمایا ہے۔ اور یہی اس ا مر کا ثبوت ہے کہ اس زمانہ میں اسلام اگر کسی فرقہ میں پایا جاتا ہے تو وہ یہی فرقہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف موصوف نے اس کتاب کے لکھنے میں بہت محنت اور جانفشانی سے کام لیا ہے اپنے اور بےگانوں کی کتابوں کا بہت غور سے مطالعہ کر کے مفید عبارتیں ہر جگہ سے نقل کی ہیں۔ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی کتب اور مسائل ہنود میں ہندوؤں اور آریہ کی مستند کتب کے حوالہ جات کے ساتھ اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچایا ہے کہ اسلام میں اگر کوئی جہاد ہے تو وہ عین فطرت انسان کے مطابق اور بنی نوع انسان کی ضروریات کے موافق ہے۔ جہاد کا وعظ کیا گیا ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنا اُن اقوام کے واسطے جائے شرم ہے۔ یہ کتاب 312صفحہ کی ہے اور اس میں بہت سے مفید مسائل پر عمدہ بحث کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر چند ایک سرخیاں فہرست مضامین میں نقل کرتا ہوں۔
وید میں جنگ کی تاکید، اسلام کو جہاد کی کیوں ضرورت پڑی۔ مغازی الرسول۔ خلفائے راشدین کےجنگوں کے اسباب۔ مسلمان بادشاہوں کے پاس معزز ہندوافسر، جواب رسالہ جہاد مصنفہ آریہ صاحبان۔ عرب، روم، فارس، مصر، مراکو، افغانستان، ہندوستان کس طرح مسلمان ہوئے، نیوگ کاتاریخی ثبوت۔ گورنمنٹ برطانیہ مسلمانوں کی محسن وغیرہ۔
اس جگہ ہم اس کتاب میں سے دو مقام نقل کرتے ہیں۔ اول یہ کہ آریوں نے اپنے مفتوحوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور دوم یہ کہ اسلام نے اپنے مفتوحوں کے ساتھ کیاسلوک کیا۔ غیرآریوں کے ساتھ سلوک۔
اشلوک نمبر 196-195مصنفہ سوامی دیال دشمن قلعہ میں رہے یا باہررہے اور جنگ بھی نہ کرتا ہو لیکن اس کو گھیرے رہے اور اس کے راج کو تکلیف دے۔اور گھاس اور لکڑی اور پانی اُن میں ناکارہ چیز ڈال کر خراب کرے۔ تالاب و قلعہ و بالا خانہ کھائیں ان سب کو کھود ڈالیں، بےخوف دشمنوں کو خوف کرے اور برچھی لےکر رات کو دھکا نام کا باجہ کی آواز سے زیادہ تکلیف دے۔
ویدوں میں غیر آریوں کو جوویدکے دھر م کو قبول نہیں کرتے۔ دسیو کہتےہیں: اندر نے جس سےبہت لوگ دعا کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ اس کےچالاک ساتھی ہیں دسیوں کو جو زمین پر رہتے تھے اپنے برق سے ہلاک کرڈالا اور تب اُس نے کھیتوں کو گورے رنگ کے اپنے آریہ دوستوں میں تقسیم کردیا۔
ہم چاروں طرف سےدسیوں قوموں کو گھیرے ہوئے ہیں وہ یگ نہیں کرتے کسی چیز کا اعتقاد نہیں رکھتے ان کے مراسم دوسرے ہیں۔ وہ گویا انسان نہیں ہیں۔ اے دشمن کےہلاک کرنے والو۔ قتل کرو ان کو اور قوم کو ہلاک کر۔
اندر نے دسیو قوم کو ہلاک کردیا وہ اسی انجام کے لئے پید ا کئےگئے ہیں۔
اب میں وہ حق تلفیاں دکھانا چاہتا ہوں جو فاتح آریوں نےشودروں یعنی مفتوحوں کے ساتھ کی ہیں اور صرف کی ہی نہیں بلکہ قانون میں داخل کرچھوڑا ہے۔…
اگر فاتح(برہمن) کسی برہمن کو قتل کرے تو اس کو راجہ صرف پیشانی داغ کر راج سے نکال دے اور اگر وہ کسی مفتوح شودر کو قتل کرے تو صرف دس گائیاں جرمانہ دے دے۔ اور اگر بےچارہ مفتوح ( شودر) کسی فاتح (برہمن ) کو مار ڈالے تو وہ قتل کیا جائے اور اُس کی کل جائیدادضبط کر لی جائے۔
اگر فاتحوں برہمنوں کشتری وغیرہ میں سے کوئی مفتوح (شودر ) کی عورت سے زنا کرے تو صرف جلاوطن کیاجائے اور اگر بے چاہ مفتوح (شودر) کسی فاتح آریہ کی عورت سے زنا کرے تو جان سے مارا جائے۔
یہی جابرانہ امتیاز چھوٹے چھوٹے جرموں کی سزا میں بھی ہے مثلاً اگر بے چارہ شودر(مفتوح) کسی (فاتح) برہمن کشتری وغیرہ سے سخت زبانی کرے تو اس کی زبان میں سوراخ کر دیاجائے اور اگر تو فلانے برہمن سے نیچ ایسا بآواز بلند برہمن وغیرہ (فاتحین) کے نام اور ذات کر کے کہے تو اُس کےمنہ میں بارہ انگل کی میغ آہنی جلتی ہوئی ڈالی جائے۔…
پنڈ ت رمیش دت صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آریوں کی ذات ناقابل بھروسہ ہے انہوں نے شودورں کو ظلم و زیادتی کے ساتھ الگ رکھا اور مذہبی معلومات اورمذہبی مراسم کو ادا کرنے سےبزور بازو الگ رکھا۔ اور ان کے لئے بے انصافانہ اور ظالمانہ دیوانی اور فوج داری قوانین بنائے۔ سب سے پہلے شودروں پر اپنےفاتحوں کی غلامی کرنا فرض ہوئی اور اُن کے لئے آزادانہ اندگی بسرکرنا اور حسب خواہش دنیا کے تماشوں میں مشغول ہونا ناممکن ٹھہرایا گیا۔ اور فاتحوں کی غلامی اور سیوا کے سوا اُن کو کچھ چارہ نہ رہا۔ اور اُن سے جبراً غلامی کرایا جاتا رہا۔
یہ تحقیر و تذلیل یہاں تک ترقی کر گئی کہ برت میں بےچارے مفتوح شدروںسےہم کلام ہونا منع فرمایا گیا اور اُس کو برت کا ایک لازمی رکن قرار دیا گیا۔ مفتوح بے چاروں کا جھوٹھاغلہ کھانا اور پانی پینا بھی گناہ عظیم ٹھہرایا گیا اور اسکے لئے پرایشچت( یعنی کفارہ) کی ضرورت بتائی گئی۔
مسلمانوں کاسلوک مفتوحوں کے ساتھ
آنحضرتﷺ نے ذمیوں کو جو حقوق عطافرمائے۔
(1) کوئی دشمن اُن پرحملہ کرے گا تو اُن کی طرف سے مدافعت کی جائے گی۔ رسول اللہﷺ کے خاص الفاظ یہ ہیں یُمنَعُوا۔
(2) ان کو ان کے مذہب سے برگزشتہ نہیں کیا جائے گا۔ خاص الفاظ یہ ہیں لَایَفْتَنُوْا عَنْ دِیْنِھِمْ
(3) اُن کی جا ن محفوظ رہے گی۔
(4) اُن کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
( 5) اُنکی زمین محفوظ رہے گے۔
(6) اُن کامال محفوظ رہے گا۔
(7) جو لوگ اُس وقت حاضر نہیں ہیں یہ احکام اُن کو بھی شامل ہوں گے۔
(8)اُن کے قافلے اور کارواں (یعنی تجارت) محفوظ رہیں گے۔
(9)اُن کا لشکر محفوظ رہے گا اور اُس کی کل چیزیں محفوظ رہیں گی۔
(10) جن رسو م عقائد کے وہ پابند تھے وہ بدلوایانہیں جائے گا۔
(11) اس قسم کی اور چیزیں بھی زائل نہیں ہوں گی۔
(12)سُقف راہبان گرجوں کے پجاری وغیرہ اپنی عمل داری اور عہدوں سے برطرف نہیں کئے جائیں گے۔
(13) ہر چیز قلیل و کثیر جس حیثیت سے وہ ان کے پاس باقی رہے گی اور وہ اُسے اسی طرح کام میں لائیں گے۔ جس طرح اب لاتے ہیں۔
(14) اُن پر ظلم نہیں کیا جائےگا۔
(15) اُن سے زمانہ جاہلیت کے خون کا بدلہ نہیں لیا جائےگا۔
(16) جزیہ جو اُن سے لیا جائے گا اُن کے لئے محصل کے پاس خود سے جانا نہیں پڑے گا۔
(17) اُن سے عشر نہیں لیا جائےگا۔
(18) اُن کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔
یہ کتاب 312صفحات پر چھپی تھی اورقیمت آٹھ آنے رکھی گئی تھی اور مصنف سے یا قادیان میں شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم سے مل سکتی ہے۔ قیمت اگرچہ مصنف کی محنت اورا خراجات کے لحاظ سے بہت نہ ہو تاہم اگر کم رکھی جاتی توغالباً زیادہ تعداد اُس سے فائدہ اٹھا سکتی۔‘‘ (البدر قادیان یکم جون 1905صفحہ 6تا7)
٭…٭…٭