جتنا کسی کو غیبی مدد کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی کامیابی کوخدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ 28؍ نومبر 2014ءمیں فرماتے ہیں کہ
آجکل تو انسانی حقوق کی تنظیمیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قائم ہیں اور کام کر رہی ہیں اور حقوق کے لئے دنیاوی حکومتوں سے جنگیں بھی لڑتی ہیں، قانونی جنگیں لڑتی ہیں، بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بعض بہت اچھا کام بھی کر رہی ہیں اور مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب نہ اپنی کوششیں اور تدبیریں کام آتی ہیں نہ رشتہ دار کام آتے ہیں، نہ دوست احباب کام آتے ہیں، نہ قوم یا نظام کام آتا ہے، نہ حکومت اور انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کامیابی کا ذریعہ بنتی ہیں یا ان میں اسے کامیابی حاصل کرنا ممکن نظر آتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی انسان ان سب چیزوں کے باوجود اپنے مقصد کو حاصل کر لے، اسے کامیابی حاصل ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ میری کامیابی یقینا کسی غیبی مدد سے ہوئی ہے اور جتنا کسی کو غیبی مدد کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی کامیابی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔
… حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خدا کو نہیں مانتے لیکن مشکل وقت میں ان کے منہ سے خدا کا ہی نام نکلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زلزلہ کی پیشگوئی فرمائی اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت لاہور میڈیکل کالج کا ایک طالبعلم جو ہر روز اپنے ساتھی طالبعلموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا بلکہ استہزاء کی حد تک چلا جاتا تھا۔ زلزلہ کے دوران وہ جس کمرے میں تھا اسے محسوس ہوا کہ کمرے کی چھت گرنے والی ہے اور یہ یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اسے گرنے سے یعنی چھت کو گرنے سے بچا نہیں سکتی تو کیونکہ وہ ہندو خاندان سے تھا، اس کے منہ سے بے اختیاررام رام نکل گیا۔ اگلے دن اس کے دوستوں نے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیا ہو گیا تھا؟ تم تو خدا کو مانتے ہی نہیں۔ تو اس حالت میں رام رام کا شور تم نے مچا دیا۔ ہندوؤں کے نزدیک رام خدا تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے۔ تو کہنے لگا کہ پتا نہیں مجھے کیا ہوا تھا، میری عقل ماری گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ہی اس کی عقل نے کام کیا اور جب تمام دنیاوی سہارے اس کی نظروں سے چھپ گئے، اوجھل ہوگئے تو اسے ایک ہی سہارا نظر آیا جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ اسے خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور مددگار دکھائی نہیں دیا۔
پس جب تک انسان کو دوسرے ذرائع نظر آتے ہیں ان سے کام بنتا رہتا ہے وہ ان کی طرف توجہ دیتا رہتا ہے۔ جب تک وہ دوسرے اسباب نظر آتے رہیں وہ ان اسباب کی، ان ذرائع کی خوشامدیں کرنے میں لگا رہتا ہے۔ کام کروانے کے لئے بلا وجہ خوشامد کو انتہا تک پہنچانے کے لئے دوسروں کی برائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی نظر نہ آئے تو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ جب سب طرف سے مایوس ہو جائے، کوئی ظاہری وسیلہ کام نہ کر سکے تو پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے، اس کے سامنے اضطرار ظاہر کرتا ہے۔