مذہب اور سائنس(قسط نمبر 4)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 3؍مارچ 1927ءبمقام حبیبیہ ہال، لاہور)
مذہب سائنس کیوں نہیں بتاتا
سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر مذہب خدا کی طرف سے ہے تو پھر وہ سائنس کیوں نہیں بتاتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت ایسا ہی چاہئے تھا کہ مذہب سائنس بیان نہ کرے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَاتَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ(المائدہ: 102) یعنی اے ایمان والو، ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو جن کے بتا دینے سے تمہیں نقصان ہو۔ اس پرسوال ہو سکتا ہے کہ خدا کی بتائی ہوئی بات سے نقصان کیسے ہو سکتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہمیں تو بتا دینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا دماغی ارتقاء رُک جائے گا اور تمہاری سوچنے اور غور و فکر کرنے کی قابلیت مر جائے گی اور تمہارا علمی ارتقاء مٹ جائے گا۔ پس ہماری ذہنی ترقی کو قائم رکھنے کے لئے مذہب نے سائنس نہیں بتائی۔ ہاں ضروری باتیں بتا دی ہیں جو ایجاد سے معلوم نہ ہو سکتی تھیں یا دیر سے معلوم ہوتیں مگر ہر ایک بات بتا دینے سےہمارے ذہنی ارتقاء کو نقصان ہوتا۔ اور یہ مشاہدہ ہے کہ جس کا ذہنی ارتقاء بند ہوا وہ قوم مٹ گئی۔ مومن کے دو دن بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ وہ ہر روز ترقی کرتا ہے اگر مذہب ساری کی ساری باتیں بتادیتا توانسان ذہنی طور پر اسی دن مر جاتا کیونکہ اس کا ذہنی ارتقاء بند ہو جاتا۔ اس لئے مذہب میں اصول کو لے لیا گیا ہے اورجزئیات میں اجتہاد کی گنجائش رکھ دی ہے تا کہ انسان کا ذہنی ارتقاء بند نہ ہو۔
کیا مذہب ذہنی ارتقاء بند کرتا ہے
کہا جائے گا اگر ذہنی ارتقاء کے لئے ضروری تھا کہ مذہب سائنس بیان نہ کرے تو خود مذہب میں علمی ارتقاء کو کیوں بند کر دیا گیا ہے۔ مذہب نے کیوں الہام کے ذریعے تعلیم دی۔ کیوں نہ ہم پر ان باتوں کو چھوڑ دیا تا کہ ہم خود سوچتے اور غوروفکر کے بعد انہیں حاصل کرتے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب کے بہت سے مسائل کی بنیاد رضاء الٰہی پر ہے نہ کہ سائنس کی طرح شواہد پر۔ اور رضاء کا علم وہ خود جانتا ہے سائنس نہیں بتا سکتی۔ مثلاًاگر کوئی شخص اپنے کسی دوست سے ملنے جائے اورجا کر خاموش رہے تو اس کا دوست کس طرح معلوم کر سکتا ہے کہ میرا مہمان کیا کھائے گا۔ ہاں مہمان اگر خود منہ سے بولے کہ میں فلاں چیز پسند کرتا ہوں تو میزبان کو اس کی رضاء کا علم ہو سکتا ہے۔ پس رضاء الٰہی کے معلوم کرنے کا ذریعہ الہام ہے۔
پھر مذہب کا تعلق ابدالآباد زندگی سے ہے اور سائنس کا صرف موت تک۔ اس لئے سائنس کی ایجادوں مثلاً ریل اور لاسلکی کی عدم موجودگی میں انسان کو نقصان نہ تھا۔ مگر دین کے بغیر اس کے کامل ہونے سے پہلے ہی دنیا تباہ ہو جاتی اور اخلاق فاضلہ اور روحانیت کے متعلق تجربے کرتے کرتے لاکھوں آدمی دوزخ میں چلے جاتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اصولی باتوں کا علم جو عقل سے بالا تھیں الہام کے ذریعہ دیا اور جزئیات کو ہمارے عقلی اجتہاد کے لئے چھوڑ دیا۔
علاوہ ازیں بعض مسائل نیچرل قوانین سے بالا ہیں۔ مثلاً صفات الٰہی، ملائکہ کا وجود، بعث بعدا لموت وغیرہ۔ ان کو عقل اور سائنس سے معلوم کرنا مشکل تھا۔ یہاں پر عقل بالکل اندھی تھی۔اور اگر کچھ ثابت کرتی تو زیادہ سے زیادہ یہ بتاتی کہ خدا اور ملائکہ کاوجود ہونا چاہئے نہ یہ کہ واقعی موجود ہے کیونکہ’’ہونا چاہئے‘‘ تو عقل سے ہو سکتا ہے مگر ’’ہے‘‘کے لئے مشاہدہ کی ضرورت ہے جو الہام کے بغیر ممکن نہیں۔ ان وجوہات سے الہام کی ضرورت تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
سائنس اور مذہب کا دائرہ الگ الگ ہے
سائنس کا اثر مادیات پر ہے اور مذہب کا تعلق مافوق المادیات پر۔ مذہب میں یہ چھ باتیں داخل ہیں۔ اخلاق، تمدن، سیاست، الوہیت، روحانیت، حیات بعد الموت۔
اب یہ ساری کی ساری باتیں مادیات سے بالا ہیں۔ اس لئے سائنس کے شواہد سے ان پراستدلال نہیں ہو سکتا۔ پس امور مذہبی کی قطعی تحقیق سائنس سے نہیں ہو سکتی۔ مثلاً خدا کا وجود ہے۔ اب یہ وجود چونکہ مادیات سے بالا ہے اس لئے اس کی ہستی کا ثبوت اور اس کی صفات کا علم سائنس کےتجارب سے نہیں مل سکتا۔ ہاں الہام کے ذریعے اس کی صفات کا علم ہو سکتا ہے۔ پس یہ کہنا کہ خدا کا وجود سائنٹفک تجربات کے خلاف ہے غلط ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ سائنس کے تجارب سے معرفت الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی۔
سائنس خدا کی نفی نہیں کرتی
پس سائنس دان یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سائنس کے تجربات سے معرفت الٰہی کا کچھ پتہ نہیں چلا مگریہ نہیں کہہ سکتے کہ سائنس کی تحقیق خدا کے وجود کی نفی کرتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں گے تو خود گرفت میں آئیں گے۔ اس لئے کہ پروفیسر ہکسلے (Huxley) ( ہکسلے Thomas Henry Huxley۔1825۔1895ء) انگریز حیاتیات دان اور ڈارون کا حامی۔ ڈارون کے نظریات کا محافظ ہونے کی وجہ سے زیادہ شہرت پائی۔)
(The New EncyclopediaBritannica Vol: v P:229 15th edition)
جس نے Agnosticism (دہریت)کی بنیاد ڈالی ہے اس نے یہ نہیں کہا کہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ خدا کوئی نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ سائنس کی تحقیقات سے خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اور یہ ہے بھی درست۔ کیونکہ سائنس تو وہاں تک پہنچتی نہیں۔ وہ وجود تو فوق المحسوسات ہے اور سائنس کادائرہ مادیات اور محسوسات تک محدود ہے۔ پس وہ اس کے متعلق تحقیق کر ہی نہیں سکتی۔ اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی شخص ریل کے ذریعے کابل جانا چاہے اور راولپنڈی سے ٹرین میں بیٹھ جائے مگر آخر ناکام ہو کر یہ نتیجہ نکال لے کہ کابل کوئی شہر ہی نہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ کابل جانے کا یہ طریق ہی غلط تھا کیونکہ ریل تو وہاں تک جاتی ہی نہیں۔ اسی طرح سائنس دانوں نے سائنس کے تجربات سے خدا کا پتہ لگانا چاہا اور وہ ناکام ہوئے۔ محض اس لئے کہ سائنس وہاں جاتی نہیں اس کا دائرہ اس سے بہت نیچے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
صادقوں کی شہادت
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر بات صرف سائنس کے تجربات اور مشاہدات سے ہی تسلیم نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اور ذرائع بھی ہیں۔ مثلاً راستبازوں کی شہادت وغیرہ۔
ہم سائنس دانوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کو ماں باپ کا پتہ کس نے دیا۔ کیا انہوں نے سائنس کے شواہد اورتجارب سے معلوم کیا ہے کہ فلاں شخص فلاں کا باپ ہے یا کسی اور ذریعہ سے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کا ثبوت ماں باپ کا دعویٰ اس کی اپنی یاد کہ جب سےہوش سنبھالا ہے انہی کے گھر میں رہتا ہے اور لوگوں کی شہادت بھی ہے۔ اسی طرح خدا کے وجود کے ثبوت کے لئے (جو کہ فوق المحسوسات ہے) راستبازوں کی شہادت کی ضرورت ہے جو اس بارے میں صاحب تجربہ ہوں۔
جو لوگ صحیفہ فطرت سے خدا کا وجود ثابت کرنا چاہتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مشین کھول کر موجد کا پتہ لگانا چاہے۔ مثلاً کوئی شخص اگر سنگر کی سلائی کی مشین کو کھول کر مسٹر سنگر (Mr. Singer) کو دیکھنا چاہے تو وہ اس کو نہیں پائے گا۔ اسی طرح فورڈ کار (Ford Car) کو کھول کر مسٹر فورڈ(Mr. Ford) کو معلوم کرنا چاہے تو اسے نہیں ملے گا۔ وہ تو اسے بنا کر الگ ہو گیا۔ اب مشین کو دیکھ کر آپ عقلاً صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اس مشین کا بنانے والا کوئی ’’ہو گا‘‘یا ’’ہونا چاہئے‘‘ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کا بنانے والا مسٹر فورڈ یا سنگر ضرور ’’ہے‘‘۔
اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ خدا تو ہر وقت اس صحیفہ قدرت کی مشینری کو چلا رہا ہے۔ اس لئے اس کو تو نظر آنا چاہیئے۔ مسٹر فورڈ تو اس لئے فورڈ کار کے اندر نظر نہیں آتا کہ وہ اس کو اب نہیں بنا رہا۔ وہ تو بنا کر الگ ہو گیا ہے اگر ہم اس کو بناتے دیکھتے تو بتا دیتے کہ اس کا بنانے والا ہے۔
خدا کس طرح کا م کرتا ہے
مگر درحقیقت یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ دیکھا اس صانع کو جا سکتا ہے جو ہاتھ سے کام کر رہا ہو۔ مگر جب کام ارادہ سے ہو رہا ہو تو وہ وجود نہیں ملا کرتا۔ مثلاً کسی کے کان میں چپکے سےکہہ دیا جائے کہ فلاں کام کرو تو دیکھنے والا کس طرح پتہ لگا سکتا ہے کہ کون کام کرا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی چونکہ ہاتھ سے کام نہیں کرتا بلکہ ارادہ سے کرتا ہے اس لئے صحیفہ قدرت کے اندر اس کو کام کرتے ہوئے دیکھنا بھی مشکل ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ(يٰس:83) وہ کام کُن کے ذریعہ کرتا ہے نہ کہ ہاتھ سے۔ اور ارادہ سے کام کرنے کی نہایت ادنیٰ مثال مسمریزم کرنے والوں میں مل سکتی ہے جو اپنی توجہ سے اثر ڈالتے ہیں۔ گو بعض ہاتھ سے بھی Passesکرتے ہیں مگر مخفی توجہ کا اثر بھی ہوتا ہے۔ جس میں بغیر ہاتھ کی حرکت یا زبان سے کلمہ نکالنے کے اثر ہوتا ہے۔
ایک دلچسپ تجربہ
توجہ کا اثر معلوم کرنے کے لئے یہ تجربہ کیاجاسکتا ہے کہ کسی لڑکے کی آنکھیں بند کر کے اسے کمرے کے وسط میں چکر دے کر چھوڑ دو۔ اس طرح جہات جو نسبتی چیز ہیں اس کے ذہن سے نکل جائیں گی۔ اب سب مل کر اس پر اثر ڈالو اور ذہن میں تصور کرو کہ یہ مثلاً مغرب کی طرف چلے تو وہ لڑکا مغرب کی طرف چلنے لگ پڑے گا۔ اب دوسروں کو یہ نظر نہ آئے گا۔ کیونکہ کام توجہ اور ارادہ سے ہو رہا ہے نہ کہ ہاتھ سے۔ خدا تعالیٰ مخلوق کا سرچشمہ نہیں بلکہ خالق ہے۔ سرچشمہ تلاش سے مل جایا کرتا ہے مگر خالق نہیں ملا کرتا۔ مثلاً دریائے راوی کے منبع کا پتہ لگانا ہو تو پانی کے کنارے چل پڑو آخر اس کامنبع مل جائے گا۔ مگر خالق کو اس پر قیاس نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)