کشف و الہام کے ذریعہ تصحیح ہونےوالی احادیث(قسط دوم۔آخری)
ایسی معروف احادیث و حوالہ جات جن کی تصحیح بذریعہ کشف بزرگان سلف نے تسلیم کی ہے
کشف ولی سے تصحیح حدیث
علامہ یوسف نبھانی اپنی کتاب ’’سعادة الدارین‘‘ میں مشہور صوفی عبداللہ بن اسعد یافعی(متوفی:768ھ) کی روایت جو انہوں نے روض الریاحین میں بیان کی ہے تحریر کرتے ہیں:’’قال اليافعي فی روض الریاحین:أخبرني بعضهم أنه يرى حول الكعبة الملائكة والأنبياء وأكثر ما يراهم ليلة الجمعة وليلة الاثنين وليلة الخميس وعد لي جماعة كثيرة من الأنبياء وذكر أنه يرى كل واحد منهم في موضع معين يجلس فيه حول الكعبة ويجلس معه أتباعه من أهله وقرابته وأصحابه وذكر أن نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم يجتمع عليه من أولياء اللّٰه تعالى خلق لا يحصى عددهم إلا اللّٰه تعالیٰ ولم تجتمع على سائر الأنبياء وذكر أن إبراهيم وأولاده يجلسون بقرب باب الكعبة بحذاء مقامه المعروف وموسى وجماعة من الأنبياء بين الركنين اليمانيين وعيسى وجماعة منه في جهة الحجر ورأي نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم جالسًا عند الركن اليماني مع أهل بيته وأصحابه وأولياء أمته وحكى عن بعض الأولياء أنه حضر مجلس فقيه فروى ذٰلك الفقيه حديثًا فقال له الولي: هذا باطل فقال: الفقيه من أين لك هذا؟ فقال: هذا النبي صلى اللّٰه تعالیٰ عليه وسلم واقف على رأسك يقول: إني لم اقل هذا الحديث۔‘‘(سعادة الدارين صفحہ432)کسی ولی نے مجھے بتایا کہ وہ کعبہ کے گرد فرشتے اور پیغمبرکو دیکھتاہے اور اکثر ایسا جمعہ،پیر کی رات اور جمعرات کو ہوتا ہے۔اس (ولی)نے مجھے انبیاء کی ایک کثیر جماعت گنوائی اوربتایاکہ وہ ان میں سے ہر ایک کو ایک مخصوص جگہ پر کعبہ کے گرد بیٹھاہوادیکھتاہےاوراس(نبی)کے متبعین میں سے اس کےاہل خانہ ، رشتہ دار اوراصحاب اس کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ہمارے نبی ﷺکے پاس اتنےاولیاء جمع ہوتے ہیں جن کی تعداد خدا کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ اور اس قدر تعداد باقی تمام انبیاء کے پاس بھی جمع نہ ہوپاتی۔ اورحضرت ابراہیمؑ اوران کی اولاد باب کعبہ کے پاس اپنے معروف مقام پر بیٹھتے ہیں اورحضرت موسیٰؑ اورانبیاء کی ایک جماعت رکن یمانی کے درمیان اورحضرت عیسیٰؑ اوران کی ایک جماعت حجر اسود کی طرف بیٹھتی ہے۔اس نےہمارے نبیﷺ کواہل بیت رسولﷺ،اور صحابہ کرامؓ اور اولیائے امتؒ کے ساتھ رکن یمانی کے پاس بیٹھے دیکھا۔اس نے بعض اولیاء کے متعلق بیان کیا کہ وہ ایک فقیہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ اس فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تواس ولی نے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے اس پر فقیہ نے کہا کہ آپ یہ کس بنا پر کہتے ہیں؟تو اس ولی نے کہا کہ یہ دیکھیں،نبی کریمﷺ آپ کے سر پر کھڑے یہ فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔اس وقت اس فقیہ کو یہی کشف ہوگیا اور اس نے آنحضرتﷺ کو کھڑے ہوئے دیکھا‘‘۔
رسول اللہﷺ سے حالت کشف میں تحصیل علم اَب بھی جاری ہے
علامہ ابن حجر ہیثمی (اللہ تعالیٰ آپ کےعلوم سےنفع دےاور آپ سے راضی ہو)سے سوال کیاگیا کہ’’کیا اب بھی نبی کریم ﷺ سے حالت بیداری میں شرف ملاقات پاکر علوم سیکھے جاسکتے ہیں؟‘‘توآپؒ نے جواباً فرمایا کہ ہاں بالکل یہ ممکن ہے اور پھر آپؒ نے کرامات اولیاء کا صراحتاً ذکر کیا جن میں شافعی مسلک کے امام غزالی،علامہ بارزی،علامہ تاج سبکی اورصوفی عفیف یافعی اور مالکی مسلک کے علامہ قرطبی اور ابن ابی جمرہ شامل ہیں اور انہوں نے بعض اولیاء کی حکایات بھی بیان کیں کہ ایک فقیہ کی مجلس میں وہ شریک تھے اور اس فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تو ایک ولی نے اسے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے تو اس فقیہ نے اس پر کہا کہ آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں تو ولی نے کہا کہ یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ یہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے جو تمہارے سر پر کھڑے ہیں۔اس پر اس فقیہ نے آپﷺ کی کشفاً زیارت کی۔
(وَسُئِلَ) نفع اللّٰه بِعُلُومِهِ ورضى عَنهُ: هَل يُمكن الْآن الِاجْتِمَاع بِالنَّبِيِّ صلى اللّٰه عليه وسلم فِي الْيَقَظَة والتلقي مِنْهُ؟ فَأجَاب بقوله: نعم يُمكن ذٰلِك، فقد صرح بِأَن ذٰلِك من كرامات الْأَوْلِيَاء الْغَزالِيّ والبارزي والتاج السُّبْكِيّ والعفيف اليافعي من الشَّافِعِيَّة، والقرطبي وَابْن أبي جَمْرَة من الْمَالِكِيَّة، وَقد حكى عَن بعض الْأَوْلِيَاء أَنه حضر مجْلِس فَقِيه فروى ذٰلِك الْفَقِيه حَدِيثًا، فَقَالَ لَهُ الْوَلِيّ: هَذَا الحَدِيث بَاطِل، قَالَ: وَمن أَيْن لَك هَذَا؟ قَالَ هَذَا النَّبِي صلى اللّٰه عليه وسلم وَاقِف على رأسك يَقُول: إِنِّي لم أقل هَذَا الحَدِيث وكشف للفقيه فَرَآهُ(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي صفحہ297)
یہ بھی پڑھیے:
کشف و الہام کے ذریعہ تصحیح ہونےوالی ا حادیث(قسط اوّل)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کابذریعہ کشف و رؤیا رسول اللہﷺ سےچالیس احادیث اخذ کرنا
رئیس محدثین ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی متعدد تصانیف میں کشف و الہام پر اعتماد اور اس سے استشہاد کیے ہیں۔آپ نے ایک رسالہ ’’الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینۢ‘‘لکھا۔جس کے مقدمہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:’’کمترین خلائق احمد جو ولی اللہ بن عبد الرحیم العمر الدہلویؒ کے نام سے مشہور ہے،عرض کرتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں سے یہ چالیس حدیثیں ہیں جو عالم خواب میں یا آپ کی روح مبارک کے مشاہدے کی حالت میں آپ سے روایت کی گئی ہیں،میں نے انہیں اس رسالے میں جمع کردیا ہے ان میں سے کچھ حدیثیں ایسی ہیں جنہیں کسی واسطے کے بغیر براہ راست ذات اقدس سے میں نے اخذ کیا ہے اور بعض احادیث ایسی ہیں کہ آپ کی روایت میں میرے اور آنحضورﷺکے درمیان دو یا تین واسطے ہیں۔میں نے اس کا نام الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ تجویز کیا ہے۔‘‘(مقدمہ کتاب الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ بحوالہ مجموعۂ رسائل امام شاہ ولی اللہؒ جلد ششم،مرتبہ مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی صفحہ 103)
بخاری و مسلم کی احادیث کی تصحیح بذریعہ کشف
اسی کتاب میں آپ نےبسند مستقل شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الخطاب شارح مختصر خلیل سے روایت کیا ہے کہ’’ہم اپنے شیخ عارف باللہ عبد المعطی التونسی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ آنحضورﷺ کی زیارت کےلیے روانہ ہوئے۔جب ہم روضہ مقدسہ کے قریب پہنچے تو پاپیادہ ہوگئے۔ہمارے شیخ عبد المعطی رحمة اللہ علیہ چند قدم اٹھاتے،پھر رک جاتے،الغرض وہ اسی کیفیت میں روضہ مقدسہ پر پہنچے۔وہاں پہنچ کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تھیں۔واپس پلٹے تو ہم نے شیخ سے رک رک کر چلنے کی وجہ پوچھی،انہوں نے فرمایا،میں آنحضرتﷺ سے حاضری کی اجازت طلب کرتا تھا،اجازت ملتی تو قدم اٹھاتا،ورنہ رک جاتا،اسی طرح میںبار گاہ نبویؐ میں حاضر ہوا،میں نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ بخاری نے آپ سے جوحدیثیں روایت کی ہیں وہ صحیح ہیں؟ فرمایا: صحیح ہیں۔میں نے عرض کیا، میں آپ سے وہ حدیثیں روایت کروں، فرمایا:شوق سے،چنانچہ شیخ عبد المعطی رحمة اللہ علیہ نے شیخ محمد خطابؒ کو یہ اجازت عطا فرمائی،پھر ان میں ہر ایک دوسرے کو اجازت دیتا رہا۔چنانچہ شیخ احمد بن عبدالقادر رحمة اللہ علیہ نے شیخ نخلیؒ کو اس سند کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دی۔شیخ نخلیؒ نے ابو طاہرؒ کو اجازت بخشی اور شیخ ابوطاہر نے مجھے اجازت عطا فرمائی۔
میں نے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کے ہاتھ سے اسی سند کے ساتھ،انہی الفاظ میں یہ حدیث لکھی ہوئی دیکھی ہے۔البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ شیخ عبد المصطفیٰ رحمة اللہ علیہ نے زیارت سے فارغ ہوکر آنحضورﷺ سے بخاری اور مسلم دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت سے متعلق پوچھا،آپؐ نے دونوں کی تصدیق کی اور دونوں کی روایت کی اجازت عطا فرمائی۔‘‘(الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ،مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ جلد ششم صفحہ 116-117)
صاحب کشف و رؤیا علمائے امت
علامہ یوسف نبھانی نے ایسے محدثین عظام و علمائے سلف و اولیاء اللہ کے نام درج کیے ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ سے حالت رؤیا وکشف میں زیارت رسولﷺ کا شرف پایا۔چنانچہ لکھتے ہیں:’’ممن بلغنا انہ کان یجتمع بالنبیﷺ یقظة و مشافھة من السلف الشیخ أبومدين المغربي شيخ الجماعة ، والشيخ عبد الرحيم القناوي، والشيخ موسى الزولي والشيخ أبو الحسن الشاذلي والشيخ أبو العباس المرسي والشيخ أبو السعود بن أبي العشائر وسيدي إبراهيم المتبولي والشيخ جلال الدين السيوطي كان يقول: رأيت النبي صلى اللّٰه عليه وسلم واجتمعت به يقظة نيفًا وسبعين مرة وأما سيدي إبراهيم المتبولي فلا يحصى اجتماعه بہ لأنه کان يجتمع به في أحواله كلها ، ويقول: ليس لي شيخ إلا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم. وكان أبو العباس المرسي يقول: لو احتجب عني رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ساعة ، ما عددت نفسي من جملة المؤمنين‘‘(سعادة الدارین للنبھانی صفحہ439-440)علمائے سلف میں سے جو نبی کریمﷺ سے حالت بیداری میں اور بالمشافہ شرف ملاقات پاتے تھے ان کے نام یہ ہیں:ابو مدین مغربی شیخ الجماعة،شیخ عبدالرحیم القناوی،شیخ موسی الزولی،شیخ ابوالحسن الشاذلی،شیخ ابولعباس المرسی،شیخ ابو السعود بن ابی العشائر،سید ابراہیم المتبولی،شیخ جلال الدین سیوطی جو فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو متعددبار دیکھا اور ستر سے زائد مرتبہ حالت بیداری میں شرف ملاقات پایا۔جہاں تک میرےاستاذسید ابراہیم متبولی کا تعلق ہے تو وہ اپنی ہر مجلس میں زیارت رسولؐ کا شرف پاتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے علاوہ میرا کوئی استاد نہیں۔ابو العباس مرسی کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سےرسول اللہﷺ کی زیارت پل بھر بھی پس پردہ ہوجائے تو میں خود کو تمام مومنین میں شمار نہیں کرتا۔
امام شافعیؒ اور امام شعرانیؒ کی رائے
برکات روحانی اردو ترجمہ طبقات امام شعرانی کے صفحہ 34پرامام شعرانیؒ کا قول درج ہے کہ’’میں نے انہیں(اپنے شیخ امام شافعیؒ) یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ائمہ مذاہب نے اپنے مذاہب کی تائید شریعت کے ساتھ ساتھ حقیقت کے قواعد پر چل کرکی ہے اور ان حضرات نے اپنے پیروکاروں کو جتلایا ہےکہ وہ شریعت اور حقیقت دونوں کے عالم تھے۔نیز شیخ نے فرمایا کہ تمام اہل کشف کے نزدیک ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا کوئی قول شریعت سے خارج نہیں اور ان کا شریعت سے خارج ہونا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے جب کہ ان حضرات کو اپنے اقوال کے کتاب و سنت اور اقوال صحابہ کرام سے تستفاد ہونے پر اطلاع ہے کشف صحیح سے مشرف ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی روح حضور سید عالمﷺ کی روح پاک کے حضور حاضر ہوتی ہے اور انہیں دلائل میں سے جس چیز کے متعلق کچھ تردد ہوتا ہے اس کے بارے میں بارگاہ سیدعالمﷺ سے سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! کیا یہ آ پ کا ارشاد ہے یا نہیں؟اور انہیں استفادہ کا یہ شرف بیداری میں اور سرکار علیہ السلام کے روبرو ہوکر حاصل ہوتا ہے اور اہل کشف کے درمیان شروط معتبرہ کے ساتھ یہ حاضری ہوتی ہے۔اسی طرح یہ حضرات اپنی کتابوں میں ہر مسئلہ کی تدوین اور اس کے ساتھ طاعت الہٰیہ کا شرف پانے سے پہلے حضورﷺ سے پوچھ لیا کرتے تھے کہ یارسول اللہ! ہمیں فلاں آیت سے یہ مسئلہ سمجھ آیا ہے اور فلاں حدیث پاک میں آپ کے اس ارشاد مبارک سے ہمیں یہ مسئلہ معلوم ہوا ۔آپ اسے پسند فرماتے ہیں یا نہیں؟ پھر حضورﷺ کے ارشاد یا اشارہ کے مطابق عمل کرتے۔‘‘
امام شعرانی رحمة اللہ علیہ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ہم ائمہ مجتہدین کے کشف اور بارگاہ سید عالم ﷺ میں روحانی طور پر ان کے حاضر ہونے کا جو تذکرہ کیا ہےاگر اس کے بارے میں کسی کو الجھن ہوتو ہم اسے کہتے ہیں کہ یقیناً یہ اولیاء اللہ کی کرامات میں سے ہے اور اگرائمہ مجتہدین اولیاء نہیں ہیں تو پھر روئے زمین پر کبھی کوئی ولی ہے ہی نہیں۔جبکہ بے شمار اولیاء اللہ کے متعلق مشہور ہے حالانکہ وہ مرتبہ میں یقیناً ائمہ مجتہدین سے فروتر ہیں کہ انہیں رسول پاکﷺ کی بارگاہ میں حضوری کا اکثر شرف حاصل ہوتا تھا اور اس بات کی ان کے معاصرین تصدیق کرتے ہیں۔ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں:
شیخ عبدالرحیم القضاوی،سیدی شیخ ابومدین المغربی۔سیدی ابوالسعود بن ابی العشائر۔سیدی شیخ ابراہیم الدسوتی۔سیدی الشیخ ابوالحسن الشاذلی۔سیدی الشیخ ابو العباس المرسی۔سیدی الشیخ ابراہیم المتبولی، سیدی الشیخ جلال الدین السیوطی۔سیدی الشیخ احمد الزواوی البجیری اور وہ مقدس جماعت جن کا ذکر ہم نے اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں(یعنی یہی کتاب طبقات کبریٰ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے) کیا ہے۔‘‘(برکات روحانی اردو ترجمہ طبقات الکبریٰ صفحہ35)
حکم عدل کا فیصلہ
پس صاحب کشوف اولیاء اللہ اور ملہم من اللہ کی باتیں اپنی ذات میں ہی سند ہوتی ہیں کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اور احادیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں تو بذریعہ وحی و الہام بھی اللہ تعالیٰ سے راہنمائی پاتے ہیں۔چنانچہ ایسی احادیث جو علمائے فن حدیث یا محدثین عظام کے نزدیک ان کے مقرر کردہ اصول و قواعداور معیاروں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے صحیح قرار نہیں دی جاسکتیں،وہ بذریعہ کشف و الہام درست قرار دی جاسکتی ہیں کیونکہ صاحب کشف و ملہم من اللہ کو فوقیت حاصل ہے۔
رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانے کے حکم عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب کشف اور ملہم ومامور من اللہ ہیں۔آپؑ نے اپنے سچے الہام کی بنا پرجن احادیث کوصحیح قرار فرمایا ہے توبطور حکم عدل یہ آپؑ کا ہی منصب اورکام ہے۔
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں:’’حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کےلیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کردیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتااگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہوتو خدا کو اس خلاف قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا۔احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں ۔خصوصاً مولوی محمدحسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اُسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں۔‘‘(الحکم 10؍اگست 1903ء نمبر29جلد7صفحہ 3)
نیز فرمایا:’’جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف اُن کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکم بنایا گیا ہے کیااس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا ؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارارطب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کرےگا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر د ے گا اور جو صحیح ہوںگی اُن کے صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکم کے معنے ہی کیا ہوئے ؟ جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ 20تا21ایڈیشن1988ء)
مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعة السنة نمبر11جلد7صفحہ نمبر 335تا346پر اس موقف کے بارے علماء و فقراء و اولیاء اللہ کی شہادتیں دے کر مفصل بحث کی جس کا خلاصہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ؑنے ازالہ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد3صفحہ175تا178پربطور تائیدی شہادت بیان فرمایا ہے۔
اس مفصل بحث کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی نےآخر پر لکھا ہے کہ’’اس خیال و اعتقاد کے لوگ متقدمین و متاخرین اہل اسلام میں اوربہت ہیں،ان سب کے اقوال نقل کرنے کی اس مقام میں گنجائش نہیں۔ان چند اقوال منقولہ بالا سے امر سوم کا بیان شافی ہوگیا اور بخوبی ثات ہواکہ الہام یا کشف کو حجت و دلیل جاننے والے بھی اکابر اسلام(صوفیہ کرام و محدثین عظام) ہیں جیسے کہ اس کی حجیت کے منکر اکابر ہیں۔یہ مسئلہ ایسا نیا اور انوکھا نہیں جس کا کوئی قائل نہ ہو۔‘‘(اشاعة السنة نمبر11جلد7صفحہ نمبر346)
حضرت مسیح موعودؑ مذکورہ بالا خلاصے کے بعد تحریرفرماتے ہیں: ’’الہام اور کشف کی عزت اور پایۂ عالیہ قرآن شریف سے ثابت ہے۔ وہ شخص جس نے کشتی کو توڑا اور ایک معصوم بچہ کو قتل کیا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے وہ صرف ایک ملہم ہی تھا نبی نہیں تھا۔ الہام اور کشف کا مسئلہ اسلام میں ایسا ضعیف نہیں سمجھا گیا کہ جس کا نورانی شعلہ صرف عوام الناس کے مُنہ کی پھونکوں سے مُنطفی ہوسکے۔ یہی ایک صداقت تو اسلام کے لیے وہ اعلیٰ درجہ کا نشان ہے جو قیامت تک بے نظیر شان و شوکت اسلام کی ظاہر کررہاہے۔ یہی تو وہ خاص برکتیں ہیں جو غیر مذہب والوں میں پائی نہیں جاتیں۔ ہمارے علماء اس الہام کے مخالف بن کر احادیث نبویہ کے مکذب ٹھہرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہرایک صدی پر ایک مُجدّد کا آنا ضروری ہے۔ اب ہمارے علماء کہ جو بظاہر اتباع حدیث کا دم بھرتے ہیں انصاف سےبتلاویں کہ کس نے اس صدی کے سر پر خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر مُجدّد ہونے کادعویٰ کیا ہے یوں تو ہمیشہ دین کی تجدید ہورہی ہے مگر حدیث کا تو یہ منشاء ہے کہ وہ مجدد خدائے تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لَدُنّیہ و آیات سماویہ کے ساتھ۔ اب بتلاویں کہ اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھروہ کون آیا جس نے اس چودہویں صدی کے سر پر مجدّد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیساکہ اس عاجز نے کیا۔ کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا۔ تفکروا و تندّموا واتّقوااللّٰہ ولا تغلوا‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد3صفحہ 178تا179)
٭…٭…٭