بے پردگی کی رَو اور اس کی وجوہ
پردہ قرآن کریم کا حکم ہے، جس پر عمل کرنا ہر مسلمان عورت کا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں خواتین کی اکثریت اس حکم پر عمل کرتی ہے لیکن آج کل کے معاشرے میں جو بے پردگی کی ایک رو چل رہی ہےاس کا گہرا اثر یورپ اور ایشیا میں بھی بسنے والی بعض خواتین پر ہوتا نظر آرہا ہے۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ معروف بہ حضرت چھوٹی آپا حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کی لخت جگر، ام المومنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہ کی بھتیجی اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زوجیت کا شرف پانے والی تھیں۔اس مقدس ہستی نے احمدی مستورات کی تربیت کی خاطر مختلف مواقع پر جلسوں اور اجتماعات وغیرہ پر تقاریر فرمائیں۔ان ہی تقاریرمیں سے کچھ حصےقارئین کے لیے پیش ہیں۔حضرت چھوٹی آپا جانؒ فرماتی ہیں:’’بےپردگی کی رو جو اس وقت عورتوں میں پھیل رہی ہے وہ بھی آگ کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ سلگ رہی ہے اگر آج ہمارےہمسایہ کا گھر اس آگ سے جل رہا ہے اور اس آگ کو ہم نے روکنے اور بجھانے کی کوشش نہ کی تو کل یقیناً ہمارا گھر بھی یہ آگ بھسم کر دے گی۔
پس میری بہنو! اس آگ کو بجھانے میں ہمارے ہاتھ بھی جلیں گے اور کپڑے بھی، تعلقات بھی خراب ہوں گے۔ دوستیاں بھی چھوڑنی پڑیں گی۔ ملنے والیوں کے منہ بھی بنیں گے۔ طعنے بھی سننے پڑیں گے۔ لیکن کس کی خاطر ؟ اپنے پیدا کرنے والے رب کی خاطر جس نے ہمیں پیدا کیا۔ دنیا کی نعمتوں سے نوازا اور بطور احسان پردہ کا حکم قرآن مجید میں نازل فرمایا اور اپنے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جو دنیا کے لئے اور خاص طور پر طبقہ نسواں کے لئے رحمت کا بادل بن کر آئے ہزاروں درود اورسلام اس محسن پر جس نے عورت کی ہستی کو جو دنیا بھر میں ایک ذلیل ہستی سمجھی جاتی تھی خاک سے پاک کیا۔ اس کو سوسائٹی کا ایک قابل قدر اور قابل احترام وجود بنا دیا۔ اس کو اتنا بلند مقام عطا فرمایا کہ ماں کی خدمت کو جنت قرار دےدیا گیا۔ لیکن وہی عورت اعلیٰ اور ارفع مقام حاصل کر کے اپنے اسی محسن کے حکموں کی صریحاً خلاف ورزی کر رہی ہے جس کی بدولت اس نے یہ مقام حاصل کیا۔
بے پردگی کی وجوہ
اسلام کے ایک صریح حکم کی خلاف ورزی کرنے اور پھر اس پر اصرار کرنے کی کیا وجہ ہے۔ اور اس کی اصلاح کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ بے پردگی جس کا رجحان دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دراصل اس کی وجہ اسلام کی تعلیم سے ناواقفیت اور مغربیت کا تتبع ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک مسلمان ہندوؤں کے ہمسایہ رہے ان کی صحبت میں پردہ کے معاملہ میں مردوں نے عورتوں پر اتنی سختی کی کہ وہ بالکل بے دست و پا ہو کر رہ گئیں۔ جہالت ان میں عام ہو گئی۔ علم و عمل سے وہ بالکل بےبہرہ ہو گئیں۔ انگریزوں کی حکومت میں آہستہ آہستہ تعلیم کا پھر رواج ہوا۔ اورمسلمان عورتوں نے بھی ہر بات میں انگریزوں کی تقلید شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہوا کہ انگریز اس ملک سے چلے گئے۔ غلامی کی زنجیریں کٹ گئیں۔ مسلمانوں کو آزادی ملی مگر ظاہری آزادی۔ ان کی روح ابھی غلام ہے…مسلمان قوم بظاہر آزاد ہو گئی لیکن فیشن اور مغربیت کی تقلید کی لعنت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ آہستہ آہستہ ان کی تقلید میں مذہبی احکام کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ پردہ ایک اسلامی حکم ہے۔ مسلمان عورتوں نے مغربی عورتوں کی بے پردگی کو اپنا کر اسلام کے ایک حکم سے لا پرواہی اختیار کر لی…مسلمان مردوں کی داڑھیاں غائب ہوئیں اور عورتیں گھر کی زینت بننے کی بجائے سڑکوں کی زینت بننے کے لئے بےپردہ ہو کر باہر نکل آئیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
’’ نہ آئے ان کے گھر تک رعب دجال ‘‘
آپ سب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اولاد ہیں کم از کم ہماری جماعت کی عورتوں کو تو ایسے افعال سے پرہیز کرنا چاہئے اور اپنے تئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کا …مستحق ثابت کرنا چاہئے۔
…بے پردگی کی دوسری وجہ یہ بھی ہے جو عورتیں پردہ ترک کرتی ہیں یا پردہ صحیح نہیں کرتیں وہ اس حکم کی صحیح تعریف نہیں سمجھ رہی ہوتیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو کہتا ہے قرآن مجید میں پردہ کا حکم ہے ہی نہیں دوسرا طبقہ کہتا ہے حکم تو ہے لیکن وہ ایک عارضی حکم تھا۔ جو صرف اس زمانہ کے لئے تھا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لئے تھا۔ تیسرا طبقہ کہتا ہے کہ پردہ سے مراد یہ نہیں منہ ڈھانپو بلکہ یہ کہ صرف جسم ڈھانپ لو یا مردوں سے خلا ملا نہ کرو۔ وہ ایک واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی یہ سمجھ رہی ہوتی ہیں کہ ہم نے خلاف ورزی نہیں کی اور کوئی گناہ نہیں کیا۔
قرآن مجید میں پردہ کا حکم
پردہ کا حکم قرآن مجید میں ان آیات میں نازل ہوا تھا۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَنۡ یُّعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَ ؕ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ۔(الاحزاب:60)ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی بیویوں سے کہہ دے کہ (جب وہ باہر نکلیں ) اپنی بڑی چادروں کو سروں سے گھسیٹ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں۔ یہ امر اس بات کو ممکن بنا دیتا ہے کہ پہچانی جائیں اور ان کو تکلیف نہ دی جائے اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پردہ کا حکم ان آیات میں اس بنا پر نازل ہوا کہ مردوں نے عورتوں کو اذیت پہنچائی اور شرارتیں کیں۔ یہ حالت اب بھی اسی طرح قائم ہے اور جب تک دنیا میں ان دونوں جنسوں کا وجود ہے قائم رہے گی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں کہ عورتوں کو کوئی ایذا دے لیکن ایذا کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں مکر و فریب اور عورتوں کو دھوکا دے کر ایذا پہنچائی جاتی ہے اور اس ایذا سے بڑھ کر کون سی ایذا ہو گی کہ ایک عورت کی عزت پر حرف آجائے اور اس کی تمام زندگی خراب ہو جائے…اخبارات کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ شاید ہی کوئی دن ناغہ ہوتا ہو گا۔ جس دن اس قسم کی کوئی خبر نہ ہو جس میں موجودہ بےراہ روی اختیار کرنے والی عورت کاکسی کی ہوا و ہوس کا شکار بن جانے کا ذکر نہ ہو۔ ظاہری ایذا کو قانون اور حکومت روک سکتی ہے۔ لیکن کسی عورت کی عزت پر حرف آنے کو صرف اخلاق کا قانون ہی روک سکتا ہے۔ جب ان قوانین میں کوئی ایسی دفعہ نہ ہو جس سے کلی طور پر عورت کی عزت محفوظ رہ سکے تو پردہ کے سوا اور کون سا ذریعہ ہے اور پردہ بھی ویسا ہو جیسا کہ امہات المومنین ؓ یا صحابیات ؓ کیا کرتی تھیں اور امہات المومنینؓ اور صحابیات ؓ کے نقش قدم پر چلنا ہی آج بھی ہر مسلمان عورت اور لڑکی کا فرض ہے…میری بہنو! اللہ تعالیٰ کا آپ پر کتنا فضل ہے کہ اس نے آپ کو مسلمان گھروں میں پیدا کیا۔ مسلمانوں کی بیویاں اور بیٹیاں بنایا۔ لیکن آپ ایک قرآنی حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو مومنوں کی بیویاں نہیں کہلا سکتیں کیونکہ مومنین کی بیویوں کے لئے تو خدا اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کے طور پر لازم ہے کہ وہ پردہ کریں۔ ‘‘
(خطابات مریم جلد اول صفحہ 25تا 29)
٭…٭…٭