احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے دو الہامات کا تذکرہ
وفات کی خبر مختلف رسائل میں صاحب طرز و ہمہ گیر انشاء پرداز
(گذشتہ سے پیوستہ )حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے اس ذکرخیراورتعارف کے آخرپرآپ کے دوالہامات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔جس سے بخوبی اس امرکااندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ خداکے پیارکی نظراس سعادت مند وجودپرتھی۔
اَخُوکَ ڈائیڈ
مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اپنے والدِ بزرگوار حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کو کشف میں ایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا جس پر یہ الفاظ مندرج تھے۔ اخوک ڈائیڈ (اخوک died) یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے بھائی کی وفات کے بارہ میں خبر دے دی۔
ماتم پرسی
’’مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی قادیان بیان کرتے ہیں کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے بیان فرمایا کہ جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو لاہور سے بذریعہ تار کپورتھلہ کی جماعت کو اطلاع پہنچی۔ ہم سب احباب جماعت صدمہ رسیدہ دلوں کے ساتھ قادیان کی طرف روانہ ہوئے۔ جب ہم امرتسر پہنچے تو ریلوے پلیٹ فارم پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ عنہ ابن سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام کو پُرآشوب اور بیقراری کی حالت میں ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ حضرت مرزا صاحب ان دنوں جالندھر میں افسر مال تھے۔اور اس وقت جالندھر سے روانہ ہو کر قادیان تشریف لے جا رہے تھے۔
ہم نے آگے بڑھ کر اظہار تعزیت و افسوس کیا جس کا آپ نے مناسب جواب دیا اور فرمایا کہ میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا ہے۔ ہمارے دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ’’ میں دورہ پر تھا اور جالندھر کے بعض نواحی دیہات میں گھوڑے پر جا رہا تھا۔ [حضرت مرزا صاحب اپنی ملازمت کےد وران میں عام طور پر صرف ایک دو اہلکاروں کو ساتھ لے کر دورہ پر نکلتے تھے۔ زیادہ عملہ کو ساتھ لے کرجانا رعایا پر بوجھ سمجھتے ہوئے ناپسند فرماتے تھے۔] کہ اچانک مجھے زور سے یہ الہامی آواز سنائی دی: ’’ماتم پُرسی‘‘۔اس آواز کے سنائی دینے کے ساتھ ہی مجھ پر شدید ہم وغم کی کیفیت طاری ہو گئی اور میری کمر بوجھ سے دب گئی۔ چونکہ میرا زیادہ تعلق تائی صاحبہ سے تھا۔ اس سے میرا ذہن سب سے پہلے انہی کی طرف منتقل ہوا کہ شاید ان کی وفات ہو گئی ہو لیکن معاً بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ تائی صاحبہ کا مقام اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا بلند نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ان کے لئے ماتم پرسی کرے، چنانچہ مجھے یقین ہو گیا کہ تائی صاحبہ نہیں بلکہ حضرت والد ماجد (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) وفات پا گئے ہیں اور وہی علو مرتبت کے اعتبار سے یہ مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے اظہار تعزیت فرمائے۔
اس یقین کے پختہ ہونے پر میں گھوڑا تیز کر کے جالندھر شہر پہنچا اور سیدھا کچہری میں ڈپٹی کمشنر کے پاس جو انگریز تھا گیا اور اسے درخواست دی کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔مجھے پانچ دن کی رخصت دی جائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب میری درخواست پڑھ کر کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب مشہور خلائق شخصیت تھے۔ ان کی علالت کی کوئی خبر یا اطلاع شائع نہیں ہوئی۔کیا آپ کو کوئی تار ملا ہے کہ ان کی وفات اچانک ہو گئی ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ مجھے تار وغیرہ تو کچھ نہیں ملا لیکن مجھے الہام ’’ماتم پرسی‘‘ ہوا ہے جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں۔
میری یہ بات سن کر ڈپٹی کمشنر صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ الہام ولہام کوئی چیز نہیں۔ یہ محض آپ کا وہم ہے۔ آپ کے والد خیریت سے ہیں کوئی فکر نہ کریں۔ پھر کہا میں رخصت دینے میں روک نہیں ڈالتا۔ اگر آپ چاہیں تو پانچ دن سے زیادہ رخصت لے لیں۔
چونکہ اس وقت مجھے غم اور تشویش تھی اور مَیں جلد قادیان پہنچنا چاہتا تھا۔اس لئے میں نے مسئلہ الہام وغیرہ پر بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا اور رخصت لے کر رخت سفر باندھنے کے لئے اپنی رہائش گاہ پر آیا۔ ابھی میں بستر وغیرہ تیار کر رہا تھا کہ لاہور سے مرسلہ تار آ گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لاہور میں وفات پا گئے ہیں۔ جنازہ قادیان لے جایا جا رہا ہے۔ قادیان پہنچیں۔
میں نے جب تار پڑھا تو یہ خیال کر کے کہ یہ انگریز الہام کا منکر ہے اس پر حجت کر آؤں۔ دوبارہ کچہری گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب کو تار دکھا کر کہا کہ آپ الہام کے منکر تھے۔ لیجئے اب یہ تار کے ذریعہ سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب تار دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور منہ میں انگلی ڈال کر کہنے لگے کہ ’’یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔‘‘
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی زبان سے سنا ہوا مندرجہ بالا واقعہ جب میں نے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی خدمت میں ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اپنے والد صاحب مرحوم سے یہ واقعہ سنا ہے۔‘‘(اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 230تا 233 جدید ایڈیشن)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے 1913ء یا 1914ء میں سفر ولایت بھی کیا اور حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ نبی کریم ﷺسے بھی مشرف ہوئے تھے۔( ماخوذ ازنیرنگ خیال لاہور جوبلی نمبر۔ مئی جون 1934ء صفحہ 292)
نوٹ: حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے متعلق بہت سارامواد عزیزم مکرم میرانجم پرویزصاحب کے ان مضامین سے لیاگیاہے جوروزنامہ الفضل میں مورخہ 14؍جون تا 27؍جون 2008ء نو اقساط میں شائع ہوئے۔ اوربعدمیں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے البتہ الفضل میں موجودحوالہ جات کواصل ماخذسے چیک کرنے کی وجہ سے بعض جگہ تبدیلی کرنی پڑی۔
صاحبزادہ مرزا فضل احمدصاحب
حضرت اقدسؑ کے دوسرے صاحبزادے مرزافضل احمد صاحب تھے، جو کہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے دو سال چھوٹے تھے اور اندازاً 1855ء میں پیدا ہوئے۔
حضرت اقدسؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ نے پندرہ یا سولہ برس کی عمر کے درمیان ہی اولاد دے دی تھی۔یہ سلطان احمداور فضل احمد قریباً اسی عمر میں پیداہوگئے تھے۔‘‘ (ملفوظات جلددوم صفحہ 372ایڈیشن1984ء)
حضرت مرزا سلطان احمدصاحب ؒ کی ایک روایت ہے کہ ’’میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ولادت کے وقت کم وبیش اٹھارہ سال کی تھی۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر185)
ایک اور روایت اس طرح ہے کہ ’’بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعودؑفرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا۔ اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی ‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر283)
ایک دوسری روایت یوں ہے : ’’حافظ نور محمد صاحبؓ متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان احمد(یعنی مرزا سلطان احمد صاحب) ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اور اس کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر385)
ابتدائی تعلیم اورملازمت
حضرت اقدسؑ نے اس وقت کے مروجہ دستورکے مطابق اپنے بچوں کوعلم کے زیورسے آراستہ فرمایا۔ آجکل کے حساب سے کوئی سکول کالجزتوابھی ایسے عام نہیں ہوا کرتے تھے کہ اس میں داخل کروایاجاتا۔معزز اور شرفاء، بچوں کی تعلیم کے لیے گھروں میں اتالیق کاانتظام کیاکرتے تھے۔ سوآپؑ نے بھی بچوں کے لیے اتالیق مقررفرمائے۔ایک کاذکرحضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے تعارف میں ہوچکاکہ محترم اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل بطورآپ کے بچوں کے اتالیق کے مقررکیے گئے تھے۔
آپؑ خودبھی بچوں کوپڑھاتے جیساکہ محترم مرزافضل احمدصاحب کے بھائی ،جوآپ سے صرف دوچاربرس ہی بڑے تھے بیان کرتے ہیں:
’’میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود ؑ سے تاریخ فرشتہ، نحو میر اور شائد گلستان،بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے۔مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 186)
حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ اپنے والد بزرگوار کے علاوہ اپنے دادا حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے بھی پڑھتے رہے۔ (ماخوذاز سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر186)
ان دونوں مذکورہ بالاروایات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرزافضل احمدصاحب کی تعلیم وتدریس بھی اسی نہج پرہوئی اور علم وفضل کے دلدادہ ان دونوں بزرگوں سے مرزافضل احمدصاحب بھی فیضیاب ہوئے ہوں گے۔
اوریہی وجہ ہے کہ تعلیم وتدریس سے فارغ ہونے کے بعد صاحبزادہ مرزافضل احمدصاحب گورنمنٹ کی ملازمت کے لیے کوشاں ہوئے اورپنجاب او رکشمیرمیں وہ مختلف مقامات اور عہدوں پرملازمت کرتے رہے۔
٭…٭…٭