آسٹریلیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خدام الاحمدیہ Sydney آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات

اللہ تعالیٰ کی تلوار کو ہاتھ میں رکھو، یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہے، یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے…یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 26؍جون 2022ء کو خدام الاحمدیہ Sydney، آسٹریلیا سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے اسٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ خدام الاحمدیہ نے مسجد بیت الہدیٰ Sydneyسے آن لائن شرکت کی۔

اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔

اس کے بعد گذشتہ ہفتے کی کلاس میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب کی مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایاکہ پچھلی دفعہ ایک سوال ہوا تھا کہ جو بینک سے loan لیتے ہیں یا بینکنگ سسٹم ہے یا brokerageوغیرہ ہے یہ جائز ہے کہ نہیں؟ اس کاجواب تو میں نے دیا تھا لیکن جو نیوز میں کچھ جواب آیا تھا ،آخری حصہ کا نہیں آیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے خود بھی اس پہ کچھ تسلی نہیں تھی۔ مَیں نے کہا مزید تحقیق ہو جائے اور بعض لوگوں نے لکھا بھی کہ اگر یہ بروکریج اس طرح منع ہے تو پھر ہم بزنس ختم کر دیتے ہیں۔ انہوں نے اچھا اخلاص دکھایا۔ تو بہرحال اس کے بارے میں بتا دوں کہ یہ کمیشن لینے والی جو بات ہے اس میں کیونکہ ڈائریکٹ آپ interestنہیں لے رہے تو اس لیے یہ جائز ہے۔کمیشن لے رہے ہیں۔ یہ لینا جائز ہے اور اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جائز فرمایا ہے۔ مثلاً جو money exchange والے ہیں وہ بھی جو زائد کمیشن لیتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جائز ہے۔ سود نہیں ہے۔ اسی طرح ایسا کوئی بھی کاروبار جس کے سود میں آپ directly involve نہیں ہیں وہ سود نہیں ہے۔باقی میں نے پچھلی دفعہ بھی بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ سارا نظام جو ہے وہ بالکل اَپ سیٹ(upset) ہو چکا ہے،زیرو زبر ہو چکا ہے، نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اس طرح باریکی میں جا کر دیکھنے لگیں تو پھر بنک کی نوکری بھی جائز نہیں ہو سکتی۔ پھر آج کل جو ساری انڈسٹری (industry)ہے،سارے کاروبار ہیں وہ سارے جس اکنامک سسٹم پر چل رہے ہیں وہ سارا ہی interest based ہے۔ تو پھر آپ کپڑے بھی نہیں پہن سکتے۔پھر آپ کو یہاں کے پرانے لوگوں کی طرح پتے باندھ کے پھرنا پڑے گا۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ آج کل کے سسٹم میں کیونکہ سارا نظام اَپ سیٹ (upset) ہو چکا ہے اور ویسے بھی directly involve نہیں ہے [اس لیے]جائز ہے۔اور میں نے پچھلی دفعہ بھی مثال دی تھی کہ اگر اپنی چیز کی کوئی زیادہ قیمت مقرر کرتا ہے کیونکہ بعد میں پیسے دینے ہیں تو وہ بھی جائز ہے۔بلکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شراب وغیرہ کی نوکری کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ کون [بیچنے کے لیے]لائسنسڈ (licenced)لوگ ہیں۔یہ جائز ہے کہ نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ تم نوکری کر رہے ہو تم براہ راست شراب نہیں بیچ رہے۔ گورنمنٹ کی نوکری ہے صرف چیک کر رہے ہو کہ لائسنس (licence)کے مطابق وہ بیچ رہا ہے کہ نہیں بیچ رہا۔ تو اس لیے اس میںکوئی حرج نہیں۔ تو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اگر اس سے بھی بہتر نوکری مل جائے جس میں کسی طرح بھی involvement نہ ہو تو ٹھیک ہے۔ بلکہ حضرت خلیفہ ثانیؓ سے کسی نے سوال کیا کہ مَیں ایک سردار صاحب کے ہاں ملازمت کرتا ہوں جو سود کا کاروبار کرتا ہے سود پہ پیسے دیتا ہے اور اس کا حساب کتاب میں رکھتا ہوں۔تو کیا یہ جائز ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم نوکری کر رہے ہو تمہارے لیے جائز ہے۔ تو اس لحاظ سے یہ brokerage والا جو کمیشن ایجنٹ کا سوال ہے ناں یہ جائز ہے۔ اگر سود آپ وصول کر رہے ہیں کسی سے وہ ناجائز ہے۔ ٹھیک ہے! تو یہ صرف آسٹریلیا میں ہی نہیں ہر جگہ دنیا میں ہو رہا ہے۔ یہ کمیشن ایجنٹ والا کام آپ کر سکتے ہیں کیونکہ آپ اپنی سروس کی ایک محنت لے رہے ہیں۔ ہاں بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ مجبور ہوتے ہیں ان کو loanچاہیے ہوتا ہے اور جو loan دینے والی lending ایجنسیاںہیں وہ[منظور] نہیں کرتیں تو جو بروکر ہے وہ بیچ میں ان کے لیے کام کروا دیتا ہے ۔وہ دیکھ لیتا ہے کہ بندہ مجبور ہے تو اگر اس کی فیس سو روپیہ ہے یا سو پاؤنڈ ہے یا سو ڈالر ہے تو پانچ سو یا ہزار ڈالر لیتا ہے،وہ فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہاں مدد کے لیے جو آپ نے فیس مقرر کی ہوئی ہے وہی رکھیں۔یہ نہیں کہ کوئی مجبور آدمی دیکھا تو اس سے ایکسٹرا چارج کرنا شروع کر دیا،otherwise یہ brokerage کا کام جائز ہے۔ ٹھیک ہے۔ جس نے سوال کیا تھا اس کو بھی بتا دیں۔(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل 5؍جولائی2022ء)

اس کےبعد خدام کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ کبھی کبھار انسان کو جب کسی چیز میں کامیابی نہیں ملتی تو اس کی وجہ سے ایک مایوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اس کیفیت میں انسان کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا اور یہ کیفیت انسان کے اپنے کنٹرول (control)میں بھی نہیں ہوتی۔ اس موقع پر انسان یہ سوچ کر دل کو تسلی دینے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ ہر کام میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کیفیت سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پیارے حضور ! راہنمائی فرمائیںکہ انسان کو اس کیفیت میں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا ایک شعر ہے کہ

مایوس و غمزدہ کوئی اس کے سوا نہیں

قبضہ میں جس کے قبضۂ سیف خدا نہیں

اللہ تعالیٰ کی تلوار کو ہاتھ میں رکھو۔ یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حالت میں جو گزار رہا ہے یہ شاید کوئی چھوٹا سا عارضی trial ہو ،کوئی امتحان ہو جس میں سے ہم نے گزرنا ہے اور اس امتحان میں سے گزرنے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کامیابی دے گا اور انسان اللہ تعالیٰ سےدعا بھی کر رہا ہو۔یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے۔

یہ تو ایک نیچرل چیز ہے۔مایوسی کی کیفیت آتی ہے۔انسان کی طبیعت میں نفسیاتی اثر بھی ہو جاتا ہے ۔لیکن ایسی حالت میں بالکل ہی desperate ہو کے سب کچھ چھوڑ کے گھر بیٹھ جانا یا کمرہ بند کر کے ڈپریشن میں چلے جانا یہ چیز غلط ہے۔ اس وقت ہمت کرنی چاہیے، will power سے کام لینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنی چاہیے۔اور اگر ڈپریشن کی بہت ہی زیادہ critical حالت ہو گئی ہے تو پھر ڈاکٹر کے پاس جا کے علاج بھی کرا لینا چاہیے کیونکہ پھر یہ بیماری کی صورت بن جاتی ہے۔ تو اس کو بیماری کے طور پر ٹریٹ (treat)کرو اور دوائی لو تا کہ اس ڈپریشن کے فیز (phase)سے انسان باہر نکل آئے، otherwiseاللہ تعالیٰ کے آگے جھکو اور اس سے دعا مانگو۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور کوشش کروکہ مَیں نے اس فیز (phase)سے باہر نکلنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔(الرعد:29) کہ اللہ تعالیٰ کا بار بار ذکر کرو،تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہو گا۔ اور اس کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، will power سے کام لینا پڑتا ہے اور جو حقائق ہیں ان کو فیس (face)کرنا چاہیے ۔مرد بننا چاہیے۔ اس کا اور کوئی علاج نہیں ہے۔ یہی علاج ہے کہ will power اور دعا اور کوشش اور محنت ۔ہو سکتا ہے ایک کام میں انسان ناکام ہوتا ہے، کامیابی نہیں ملتی تو دوسرے کام میں کامیابی مل جائے۔ بعض دفعہ لمبا عرصہ نہیں ملتی اور ایک ٹرائل (trial)میں انسان جا رہا ہوتا ہے لیکن خدا کو چھوڑ کے کہیں اور رستہ بھی نہیں ہے۔ اس مجذوب کی طرح جو بیٹھا تھا اور نعرے لگایا کرتا تھا‘‘اللہ میاں تیری دنیا پسند نہیں آئی۔’’حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی وہاں سے گزرا کرتے تھے تو یہی نعرے لگاتا تھا۔ ایک دن وہ سر نیچے کیےبڑا خاموش بیٹھا تھا ۔انہوں نے پوچھا آج نعرے نہیں لگا رہے اللہ تعالیٰ تیری دنیا پسند نہیںآئی؟کہتا :آج اللہ میاں نے مجھے جواب دے دیا۔ انہوں نے کہا :کیا جواب دیا؟ اس نے کہا :اچھا پھر جو دنیا پسند ہے وہاں چلے جاؤ۔ تو دنیا تو یہی ہے۔اسی میں رہنا ہے اسی میں گزارا کرنا ہے۔ تو اسی میں ہمت اور مردانگی سے رہنا پڑے گا۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ کچھ لوگ کم محنت کے ساتھ بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں جبکہ کچھ لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ہمیں کس طرح پتا چل سکتا ہے کہ آیا یہ قسمت ہے یا محنت میں کمی کا باعث ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایاکہ تمہیں کس طرح پتا کہ انہوں نے صحیح معنوں میں محنت نہیں کی۔ تمہیں صرف اپنے بارے میں ہی پتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کہتے ہیں کہ میں نے فلاں مضمون کو سیکھنے کے لیے دو گھنٹے لگائے۔ اور میں نے یہ کام بھی آسانی سے کر لیا اور کم محنت سے کر لیا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خداداد صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں اور وہ مشکلات کا حل جلدی نکال لیتے ہیں ۔لیکن یہ نہیں کہ وہ ہر کام میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی ریاضی میں اچھا ہوتا ہے کچھ جغرافیہ میں کچھ حیاتیات میں، کچھ فزکس میں کچھ کیمسٹری میں اور کچھ دوسرے مضامین میں۔ کچھ بہت آسانی سے ہندسوں کو یاد کر لیتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں جن کو اعدادو شمار میں تو دقت ہوتی ہے لیکن وہ تاریخ کو بہت اچھی طرح یاد رکھتے ہیں۔ دنیا میں بہت سی مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کا معیار درمیانی سطح کا ہے اور ان کو کچھ سیکھنے یا اپنا کام مکمل کرنے میں وقت لگتا ہے اور جو بھی انہوں نے حاصل کرنا ہے وہ حاصل کرتے ہیں۔تو بنسبت اس کے اس کو دیکھا جائے کہ دوسرے نے کیا کوشش کی ہے یا محنت کی ہے، تمہیں ہر کام کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کرنا چاہیے۔ تو ہر کامیابی کے لیے تمہیں محنت کرنی ہو گی۔اگر تم محنت کرتے ہو تو اپنے مقصود کو پا لو گے اور اللہ تعالیٰ بھی تمہاری مدد کرےگا۔ اور اس کے ساتھ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اور احمدی ہونے کے ناطے خدا تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمہاری مدد کرے اور اس کو تمہارے لیے آسان کر دے۔تو اس طرح سے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرےگا اور تم کم وقت میں یا کم محنت کے ساتھ یا بہتر رنگ میںاپنے ٹارگٹ (Target)کو پا لو گے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ یہاں پر زیادہ تر خدام ایسے ہیں جو یہاں پیدا ہوئے ہیں یا پھر برصغیر سے یہاں آئے ہیں ان دونوں میں ایک کلچر کا فرق ہو جاتا ہے تو مجلس خدام الاحمدیہ کو اس فرق کو دور کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے تا کہ کام ہم آہنگی کے ساتھ ہو سکے؟

حضور انورنے فرمایا: جو یہاں پیدا ہوئے ہیں ان کی ذہنیت مختلف ہے۔جس ماحول میں وہ پلے، بڑے ہوئے ہیں وہ مختلف ہے لیکن ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے پاکستان اور دوسرے ممالک سے ہجرت کی ہے۔ کچھ فجی سے آئے ہیں ان کا تو ماحول ایک ہی ہے۔لیکن فرق صرف ان میں ہے جو پاکستان سے آئے ہیں۔اس لیے مَیں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کریں۔ ان کو بتائیں کہ وہ کون ہیں۔مذہب کی اہمیت کیا ہے؟ وہ احمدی مسلمان کیوں ہیں؟ اور ان کو کیوں دن میں پانچ نمازیں ادا کرنی چاہئیں؟ ان کو قرآن کریم کی تلاوت کیوں کرنی چاہیے اور اوامر اور نواہی سیکھنے چاہئیں؟ اور ان پر ہمیں کیوں عمل کرنا چاہیے؟ اس طریق سے بچوں کو علم ہو گا کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور ہم کون ہیں۔پھر اگر وہ مغربی ماحول میں بھی بڑے ہوئے ہیں تو ان میں اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ انہیں پتا ہو گا کہ یہ وہ بداخلاقیاں ہیں جن کا مغربی معاشرہ تو اجازت دیتا ہے لیکن اسلام منع کرتا ہے۔ مثلاً اسلام مردوں کو کہتا ہے کہ ہمیشہ غض بصر سے کام لیا کرو اور کھلے طور پر عورتوں کو نہیں دیکھا کرو۔ اور ایسی چیز کا مزہ نہ لو جو کہ اخلاقی طور پر بری ہے۔اسی طرح سے اسلام عورتوں کو بھی کہتا ہے کہ ان کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنی چاہئیں اور پردہ کرنا چاہیے تا کہ ان کی خوبصورتی مردوں کو آزادانہ طور پر دکھائی نہ دے۔آج کل مختلف قسم کی ترجیحات ہیں تو یہ سب کچھ اسلام میں بداخلاقی مانی جاتی ہے۔ پس ہمیں ان کی بچپن ہی سے تربیت کرنا ہو گی۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ انہیں بتائیں کہ یہ اچھی باتیں ہیں اور یہ بری باتیں ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جو خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں۔ان باتوں کے متعلق ہماری یہ تعلیم ہے کہ ہم ان سے بچ کر رہیں۔ پس اس کام میںمحنت کرنا ہو گی۔ صرف خدام الاحمدیہ ہی نہیں بلکہ والدین کو بھی اس میں حصہ ڈالنا ہو گا اور ان کو انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے تحت تعلیم دینا ہو گی کہ وہ اپنے بچوں کی گھروں میں کیسے تربیت کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے مگر آپ کو اس چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا۔آپ کو سخت محنت کرنا ہو گی۔ اور اگر والدین بھی مدد کر رہے ہوں گے اور اپنے بچوں کی گھروں میں تربیت کر رہے ہوں گے اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیم بھی اس بات میں محنت کر رہی ہو گی کہ وہ بچوں کو اس بات سے آگاہ کریں کہ جو کچھ وہ اسکولوں میں سیکھتے ہیں ان میں سے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے کیونکہ انہیں اسکولوں میں آج کل مختلف تربیت ملتی ہے۔آزادیٔ اظہار اور پسند ناپسند کی آزادی کے نام پر کچھ غیر اخلاقی باتیں بچوں کے ذہنوں میں آرہی ہیں اور وہ سوچتے نہیں ہیں بلکہ بالکل خیال نہیں رکھتے۔ وہ اچھے اور بُرے کے درمیان فرق نہیں کر سکتے۔پس ہمیں ان کو بتانا ہو گا کہ کیا بُرا ہے اور کیا اچھا ہے؟ اور ان چیزوں کے ان کی مستقبل کی زندگی پر کیا اثرات ہوں گے؟ اور اگر آپ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ سے کس طرح کا سلوک کرے گا اگر آپ اس پر عمل نہیں کریں گے۔تو بچپن ہی سے ہمیں بچوں کے ذہنوں میں اس بات کو ڈالنا ہو گا کہ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور ہمیں ان اخلاق کو اپنانے کی ضرورت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور اسلامی تعلیمات نے سکھائے ہیں۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ خلفاء کا انتخاب اللہ تعالیٰ کرتا ہے ہم اس بات کا ثبوت غیراحمدیوں کو کس طرح دے سکتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خلیفہ لوگوں کے ذریعہ چنا جاتا ہے؟

حضور انورنے فرمایا: دیکھیں اللہ تعالیٰ بندوں کو استعمال کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔بےشمار ایسے لوگ ہیں جو مجلس انتخاب خلافت کے ممبر ہیں، جو خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے۔ میرے انتخاب میں بھی مَیں لوگوں میں جانا نہیں جاتا تھا۔میرے خیال میں پانچ فیصد سے زیادہ لوگ میرے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ کچھ عرب تھے غیر ملکی تھے افریقن تھے وہ کہتے ہیں کہ اچانک کچھ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ڈالا کہ تم اپنا ہاتھ اس شخص کے حق میں کھڑا کرو۔ چنانچہ گو لوگ اس شخص کا انتخاب کرتے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جو ان کے دلوں میں ڈالتا ہے اور اچھی خاصی تعداد میں مختلف لوگوں کی روایات اور تاثرات ہیں جن میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ انتخاب کے دوران ان کی کیا کیفیات تھیں اور کیا ہوا۔ اگر آپ اسے پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں تو آپ اپنے غیر احمدی دوستوں کو بلکہ اپنے ساتھ خدام کو بھی مطمئن کر سکتے ہیں۔ خدام الاحمدیہ کے بھی کئی ممبران ہیں جو اس بارے میں واضح نہیں ہیں۔ ان کے دماغوں میں کچھ شبہات ہیں۔چنانچہ آپ کو ان کے شبہات دور کرنے ہوں گے۔ پہلے آپ پڑھیں اور پھر ان کے شبہات دور کریں۔ قرآن میں بھی لکھا ہے کہ مختلف طریق ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ خود کسی کو مقرر کرتا ہے جیسا کہ انبیاء ہیں ،کبھی کچھ افراد کے ذریعہ اور یہ ہم تاریخ اسلام میں بھی دیکھتے ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓکو کس نے منتخب کیا؟ انصار اور مہاجر میں اختلاف تھا، وہ اپنے اپنے قبائل سے اپنی قوم سےچننا چاہتے تھے۔ انصار کہہ رہے تھے ہمارا خلیفہ انصار میں سے ہو،مہاجرین کہہ رہے تھے کہ نہیں ہم اپنا خلیفہ مہاجرین میں سے چنیں۔ پھر حضرت عمرؓنے،حضرت ابوبکرؓ نے اس معاملے پر تقریر کی اور بعد ازاں بآسانی اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم ابوبکرؓ کی بیعت کریں۔یہی بات حضرت عمرؓ کے انتخاب کے موقع پر ہوئی اور یہ اسلامی تاریخ میں ہے اور اسی کی ہمارے نظام میں پیروی ہوتی ہے۔ ہم نے کوئی نیا نظام شروع نہیں کیا۔ ہم تو اسی پرانے نظام کی پیروی کر رہے ہیں۔اگر یہ غیر احمدی مسلمانوں کے لیے ہے تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ آپ بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ یہ سب منتخب خلفاء تھے۔ ان سب کا انتخاب انسانوں نے کیا تھا۔اسی طرح خلفائے احمدیت کا انتخاب ہوتا ہے۔اگر وہ عیسائی یا اَور افراد ہیں تو آپ کو ان کو کھول کر بیان کرنا ہوگا کیونکہ بہت سے شواہد ہیں بہت سےلوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اچانک ہمارے دل میں آیا کہ ہم اس شخص کے حق میں ووٹ دیں۔چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور وہی لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس کوئی جماعتی خدمت ہے اور اگر جماعت کی طرف سے مزید کوئی خدمت مل رہی ہو لیکن اس وجہ سے خدمت لینے سے معذرت کر لی جائے کہ شاید اس کا صحیح طور پر حق ادا نہیں کیا جا سکتا تو کیا اس کا انکار جماعتی نافرمانی ہو گی؟

حضور انورنے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آپ بتا دیں کہ میرے پاس یہ جماعتی خدمت ہے اور اگر مزید مجھے یہ دی جائے تو ہو سکتا ہے کہ میں خدمت سےانصاف نہ کر سکوں ۔ اگر آپ کے پاس خدام الاحمدیہ کا کوئی کام ہے لیکن آپ جماعتی الیکشن میں کسی خدمت کے لیے electہو جاتے ہیں تو جماعتی خدمت پہلی preferenceہے۔پھر آپ اگر سمجھتے ہیں کہ آپ خدام الاحمدیہ کے کام اس کے ساتھ ساتھ نہیں جاری رکھ سکتے تو پھر آپ خدام الاحمدیہ کو کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ جماعتی طور پر فلاں خدمت کے لیے مجھے منتخب کر لیا گیا ہے اور جماعتی خدمت پہلی preference ہے اس لیے خدام الاحمدیہ کا میرا یہ کام کسی اور کو دے دو اور اگر آپ سمجھتے ہیںکہ آپ دونوں سے انصاف کر سکتے ہیں تو پھر جاری رکھیں۔ پہلی خدمت جماعتی دوسری ذیلی تنظیموں کی۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ سوشل میڈیا پر اس طرف بڑھتا ہوا رجحان نظر آ رہا ہے کہ ایسے احمدی جن کے چھوٹے بچے ہیں وہ اپنے گھروں کو رمضان کے لیے سجاتے ہیں جیسے نماز پڑھنے کی جگہ کو سجانا اور اس کے نیچے تحائف رکھنا اور عید کی انتظار میں بچوں کےلیے کیلنڈر کی اس طرز پر تیاری کرنا جیسے عیسائیت میں کیلنڈر تیار کیا جاتا ہے۔ پیارے حضور ہم اپنے بچوں کو ایسے کاموں سے کیسے روک سکتے ہیں؟

حضور انورنے فرمایا کہ دیکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ إِنَّمَا اْلأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ۔اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ عمل کے پیچھے کیا نیت ہے۔ اگر تو وہ رمضان میں اپنے گھروں کو اس لیے سجاتے ہیں تا کہ اپنے بچوں کو رمضان کی اہمیت سمجھا سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر تو انہوں نے اپنے کیلنڈر رمضان کے روزوں کو گننے کےلیے یعنی پہلا دوسرا تیسرا چوتھا اور پانچواں روزہ وغیرہ بنائے ہیں، بچوں کو بتانے کی خاطر کہ پہلا دوسرا تیسرا چوتھا روزہ ہے اور 29یا 30 دنوں بعدہم عید منائیں گے جو بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ تب بچے عید کی اہمیت کے بارے میں پوچھیں گے تو پھر آپ ان کو بتا سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمیں نماز عید میں شامل ہونا چاہیے یہاں تک کہ ایسی عورتیں جن کو مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جانے کی اجازت نہیں بھی ہے تو ان کو بھی مسجد میں عید کا خطبہ سننے کےلیے جانا چاہیے بلکہ نماز گاہ کے باہر بھی بیٹھا جا سکتا ہے تا ہم یہ ہر ایک پر فرض اور لازم ہے۔اور جب وہ دنوں کو گن رہے ہوں گے تو آپ ان کو بتا سکتے ہیں کہ روزہ کیا ہے اور اسلام میں 30روزے کیوں رکھے جاتے ہیں اور یہ سابقہ انبیاء کی تمام امتوں پر ان کے اپنے دَور میں فرض تھے جیسا کہ قرآن میں بھی اس کا ذکر ہے مگر ان کا روزہ رکھنے کا طریق مختلف تھا۔ اگر تو یہ نیت ہے کہ رمضان اور عید سے متعارف کروایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں البتہ اگر صرف نقل کرنا مقصود ہے کہ چونکہ عیسائی ایسا کرتے ہیں اس لیے ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے اور آپ (بچوں) کو روزےکا پس منظر نہیں بتاتے، روزوں اور عید کی اہمیت نہیںبتاتے تو پھر یہ غلط ہے۔تو اس میں ایک لطیف فرق ہے۔ ہم ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ایک شخص نے اس نیت سے ایسا کیا ہے۔ اگر تو وہ شخص کہتا ہے کہ میری نیت نیک تھی تو ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں کہ نہیں تم غلط ہو، مَیں جانتا ہوں کہ تمہاری نیت نیک نہیں ہے۔ آپ اور ہم تو خدا نہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ کٹر نہ بنیں۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ جیسا کہ کورونا وائرس کی وبا اس غرض سے بھی تھی کہ لوگ اپنے خالق حقیقی کے قریب ہوں تو پیارے حضور آپ کو لگتا ہے کہ ہماری اصلاح ہوئی ہے؟ اگر نہیں تو کیا مستقبل میں اس سے بھی بڑی آزمائش کا سامناکرنا پڑے گا؟

حضور انورنے سوال کرنے والے خادم سے دریافت فرمایا کہ کیاآپ کو کوئی خواب آئی ہے ،کوئی الہام ہوا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا اس لیے تھی کہ خالق حقیقی کے قریب ہوں؟اس خادم کانفی میںجواب سن کر حضور انور نے فرمایا: مجھے تو نہیں پتا۔ ہاں کوئی بھی بیماری آتی ہے ،کوئی بھی وبا پھیلتی ہے،کوئی بھی مشکل آتی ہے ،کوئی بھی تکلیف آتی ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے لوگ ہیں ان کو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہاں یہ چیزیں آئی ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہوں۔ اپنے خالق کے قریب ہوں۔ اس کے آگے جھکیں اور ان تکلیفوں اور ان پریشانیوں اور ان دکھوں سے بچنے کے لیے دعا کریں۔تو یہ تو عمومی چیز ہے ۔اسی طرح کورونا بھی آیا اور یہ pandemic تھا، یہ ساری دنیا میں پھیل گیا اور اس سے جو نیک لوگ تھے ،جن کی فطرت نیک تھی جو مذہبی رجحان اور خیالات رکھنے والے تھے ان کا جھکاؤ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوا۔ جو نہیں تھے ان کا نہیں ہوا۔ بعض اللہ کی طرف توجہ نہ رکھنے والے بھی اللہ کی طرف جھکے۔مغربی ملکوں میں بھی غیرمسلموں میں بھی ۔لیکن بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے کہا یہ تو بیماری ہے آئی اور گزر گئی۔ یا ابھی بھی آ رہی ہے تو گزر جائے گی ۔اب تو ہم اس کو فلو (flue)کی طرح لیتے ہیں۔ جس طرح فلو ہو گیا یہ بھی ہو گئی اس سے بھی لوگ مرتے تھے ہم بھی مر جائیں گے، آخر ایک دن مرنا ہے۔تو جن کو پروا ہی نہیں ہے ان کی کیا اصلاح ہونی ہے ۔اصلاح تو اسی کی ہوتی ہے جو خدا پہ یقین رکھتا ہے یا کچھ نہ کچھ خوف خدا دل میں پیدا ہو جاتا ہے یا جس کی فطرت نیک ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میںڈال دیتا ہے۔ٹھیک ہے۔تو باقی آزمائشیں تو آتی رہیں گی۔زلزلے بھی آئیں گے، بیماریاں بھی آئیں گی، طوفان بھی آئیں گے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس طرح ہی احساس دلاتا رہتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں آسٹریلیا میں اتنے بڑے floodsآتے رہے۔کہتے ہیں کئی decadesمیں ایسے floodsنہیں آئے۔اس سے بھی نقصان ہوا۔کبھی droughtآتا ہے تو جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ وہ بھی تو تباہی ہے۔ امریکہ میں آج کل ایسی گرمی پھیلی ہوئی ہے کہ آگیں لگ رہی ہیں۔ وہاں بھی آگیں لگ رہی ہیں۔آسٹریلیا میں بھی آگیں لگ جاتی ہیں۔پہلے آگوں سے سب کچھ جل گیا۔ اس کے بعد بارش ہوئی تو flood میں سب کچھ بہ گیا ۔تو یہ بھی تو آفات ہی تھیں ناں۔ ہر ملک میں اللہ تعالیٰ دکھانے کے لیے آفات بھیجتا رہتا ہے۔اس کے باوجود خیال نہ آئے تو پھر کورونا سے کیا اثر ہونا ہے۔ کورونا کا تو پتا بھی نہیں لگتا کہ کون مرا ہے اور کون نہیں مراہے۔ آسٹریلیا میں کورونا کےکتنے کیسز ہوئے ہیں۔ دو ملین چار ملین؟ کتنے مرے ان میںسے۔ دو ہزار، چار ہزار، دس ہزار۔ یہاں کورونا سے ایک آدمی بھی فوت ہوتا ہے تو اتنا اس کا شور مچاتے ہیں کہ لگتا ہے دس ہزار فوت ہو گئے۔ خوف زیادہ پھیلا دیا ہے۔ تو دوسری باتوں سے جن کو خوف نہیں پیدا ہونا ان کو کورونا سے کیا خوف پیدا ہونا ہے؟ ہاں اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے آزماتا ضرور رہتا ہے۔ہر آفت جو آتی ہے اس پہ استغفار کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا چاہیے۔ اگر بارش آ رہی ہے تو بارش کو بھی ایسے ہی نہیں لینا چاہیے کہ ہاں آ رہی ہے بڑا فائدہ ہو گا ۔بارشیں بھی طوفان بن جاتی ہیں۔

کبھی ہو کر وہ پانی ان پہ اک طوفان لاتی ہے

تو آگ بھی ،پانی بھی، ہوا بھی، آندھیاں بھی، طوفان بھی یہ ساری چیزیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نظم میں بھی بیان کر دیں۔اللہ تعالیٰ نے جو بیان کی ہیں ۔ ہمیں ان چیزوں سے بچنا چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ یہ آفات جو آتی ہیں تم لوگوں کی اصلاح کے لیے آتی ہیں ،اصلاح کرو ۔ اس سے ہمیں تبلیغ کے میدان کھولنے کے لیے موقع اٹھانا چاہیے۔لوگوں کو احساس ہو نہ ہو ۔ یہ نہیں کہ ان لوگوں کو احساس ہوا کہ نہیں۔ اللہ میاں چپیڑیں ماری جاتا ہے اگر ان کو احساس ہی نہ ہو جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ

احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے

کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

باقی ایسے بے شرم ہوتے ہیں کہ جو ماریں کھانے کے بعد بھی کہتے ہیں اچھامجھےمار پڑی تھی۔منہ سوجھا ہوتا ہے اس کے بعد پوچھتے دوسروں سے ہیں کہ مجھے مار پڑی تھی میرا منہ سوجھ گیا ہے۔ تو جب ایسے ڈھیٹ انسان ہوں اس کی ہم نے کیااصلاح کرنی ہے یا اس کو کیا احساس ہونا ہے۔ ہاں جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو ہمارا کام ہے کہ ان کو بتائیں یہ سب کچھ جو ہوا ہے یہ اس لیے ہوا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دور جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں تا کہ ہم ان آفتوں سے اور وباؤں سے بچ کے رہیں۔اور اس طرح ہم اللہ تعالیٰ کےقریب آئیں گے اگر ایک نیک آدمی طاعون کی وجہ سے فوت ہوتا ہے تو وہ شہید بن جاتا ہے۔ اگر ایک بد آدمی فوت ہوتا ہے وہ جہنمی بن جاتا ہے۔ تو یہ چیزیں ہمیں موقع دے رہی ہیں کہ ہم تبلیغ کے میدان مزید کھولیں۔

ایک خادم نے انڈیا میں مسلمانوں کے حالات کے متعلق سوال کیا کہ مسلمان اور خصوصاً احمدی مسلمان ان کے حالات میں بہتری لانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا کہ جو آج کل انڈیا میں ہورہا ہے وہ غلط ہے۔

حضور انور نےگذشتہ دنوں انڈیا میں اسلام مخالف بیانات جنہیں میڈیا میں پذیرائی حاصل ہوئی کے حوالے سے فرمایا کہ ہم احمدی بھی اخبارات کو لکھتے ہیں، خطوط اورسوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اسلامی تعلیمات کی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔اور ان کو بتاتے ہیں کہ تم حضرت عائشہؓ یا آنحضرتﷺ کے متعلق جوبد زبانی کرتے ہووہ غلط ہے اور اس کے متعلق اپنے عقائد بیان کرتے ہیں۔سوشل میڈیا اور اخبارات میں لکھ کر ہم لوگوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور غیر مسلموں کے تحفظات کو دور کرتے ہیں۔چنانچہ غیرمسلموں میں ایک بڑی تعداد ہمارے نظریہ سے اتفاق کرتی ہے اور مان لیتی ہے۔پس قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم کوشش کررہے ہیں اور ایک عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔اس کے برعکس براہ راست ٹکر لینے سے حالات مزید بگڑیں گےاور اس ملک میں مسلمانوں کے حالات مزید خراب ہوں گے کیونکہ وہ وہاں اقلیت میں ہیں۔اگر انڈیا کی (مرکزی)حکومت یا صوبائی حکومت مسلمانوں کے خلاف ہو جائے تو ممکن ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائیں جن سے مسلمانوں کے حالات مزید خراب ہوں۔

سوالات کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ آسٹریلیا نے حضور انور سے عرض کی کہ مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کی طرف سے خاکسار حضور انور کا تہ دل سے مشکور ہے کہ ہمیں چار ریجنل ملاقاتوں کا شرف بخشا جن میں آسٹریلیا کے خدام کونہ صرف حضرت خلیفۃ المسیح کی صحبت میں قیمتی لمحات گزارنے کا موقع ملا بلکہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اپنے پیارے امام سے براہ راست راہنمائی حاصل ہوئی۔ خاکسار ان ملاقات کے سب شاملین کےلیے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسٹریلیا کے تمام خدام اور اطفال کو خلافت کے ساتھ پختہ تعلق قائم کرنے اور پھر اسے برقرار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ آمین

اس پر حضور انورنے فرمایا: آمین۔اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل کرے۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے خدام کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: اللہ حافظ۔ السلام علیکم

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button