حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط سوم)
خانہ کعبہ اور اس میں موجود بعض مقامات کا تعارف
حجر اسود اور اس کا اِستلام
عربی زبان میں حجر کے معنی پتھر اور اسود کے معنی سیاہ یا کالے رنگ کے ہیں۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ تاریخ مکہ مکرمہ میں لکھا ہے کہ’’یہ پتھر کعبہ کے جنوبی حصہ میں نصب کیا گیا ہے، صحن(مطاف) سے اس کی اونچائی 1.1میٹر ہے، لمبائی 25سینٹی میٹر اور عرض تقریباً 17سینٹی میٹر ہے۔کعبہ شریف کی دیوار میں اس پتھر کے ٹکڑے جڑے ہوئے ہیں، شروع میں یہ ایک ہی ٹکڑا تھا اب اس کے چھوٹے چھوٹے آٹھ ٹکڑے ہیں ان کا سائز مختلف ہے، بڑا ٹکڑا کھجور کے برابر ہے، ان ٹکڑوں کو ایک پتھر کے بڑے ٹکڑے میں جوڑا گیا ہے اور پھر اس پر چاندی کا فریم لگادیا گیا ہے، یہی وہ ٹکڑے ہیں جن کو بوسہ دینا مسنون ہے، نہ کہ وہ بڑا پتھر جس میں یہ جڑے گئے ہیں۔‘‘(تاریخ مکہ مکرمہ صفحہ 43تا45،ایڈیشن2002ء)
حجر اسود شعائر اللہ میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شعائراللہ کے متعلق فرمایاہے کہ وَمَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ۔(الحج:33)اور جو کوئی شعائراللہ کو عظمت دے گا تو یقیناً یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔ محبان صادق کا ہمیشہ سے یہ شیوہ ہے کہ جو شئے محبوب حقیقی کی طرف منسوب ہو وہ اُن کی نگاہ میں محبوب ہوجاتی ہے اگرچہ وہ چیز اپنی ذات میں کتنی ہی بے حقیقت کیوں نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ عاشقانِ صادق، محبوب حقیقی کی محبت حاصل کرنے اور اُس کا قرب پانے کے لیے مختلف طریق پر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔کبھی وہ محبوب سے وابستہ چیزوں کو چھوتے اور انہیں اپنے ساتھ لگاتے ہیں اور کبھی انہیں چوم کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ حجر اسود بھی اس محبت کی ظاہری علامت کے طور پر کعبہ کے ایک کونے میں نصب کیا گیا ہے تاکہ محبان الٰہی اس کو بوسہ دے کر یا اُس کی طرف اشارہ کرکے کعبہ کے طواف کا آغاز کریں۔
پس مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد اپنی جائے قیام پر سامان رکھنے کے بعد وضویا غسل کرکے مسجد حرام میں جاکر خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ سجدہ کی طرز پر ہاتھ رکھ کر حجر اسود کو بوسہ دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کرسکیں تو اپنے ہاتھ سے اُسے چھوئیں اور اگر یہ بھی ناممکن ہوتو ہاتھ کے اشارے سے اُسے چوماجائے۔ دوسروں کو تکلیف میں ڈال کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:عمر! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگر خالی جگہ مل جائے استلام کرلینا، ورنہ محض استقبال کرکے تہلیل وتکبیر پر ہی اکتفا کرلینا۔(مسندامام احمد بن حنبل حدیث نمبر190)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپؐ بیت اللہ میں سوا دو یمنی ستونوں کے کسی اور کو بھی چومتے ہوں۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَلِمۡ اِلَّا الرُّکۡنَیۡنِ الۡیَمَانِیَیۡنِ حدیث نمبر1609)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب آپ حجر اسود کے پاس آتے تو آپؐ اس کی طرف کسی چیز سے جو آپؐ کے پاس تھی، اشارہ کرکے اللہ اکبر کہتے۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب الَتَّکۡبِیۡرُ عِنۡدَ الرُّکۡنِحدیث نمبر1613)
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ طواف کرتے وقت حجر اسود اور رکن یمانی کوبوسہ دیتے، چھوتے یا اس کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے۔اسی طرح حجر اسود کو چومتے ہوئے یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت اللہ اکبر کہنا سنت نبوی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
حج اور مقاماتِ حج کا تعارف(قسط اوّل)
حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط دوم)
حج اور مقامات حج کا تعارف(قسط چہارم۔آخری)
طوافِ کعبہ
اِستلام کے بعد حجر اسود کی دائیں جانب سے جدھر دروازہ ہے طواف شروع کرنا ہوگا اور بیت اللہ کے گرد سات چکر مکمل کرنا ہوںگے۔ یاد رہے کہ حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے اس لیے چکر لگاتے ہوئے اس کے باہر سے گزرنا ہوگا۔ طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکروں میں رَمَلۡ یعنی کسی قدر فخریہ انداز اختیار کرتے ہوئے کندھوں کو ہلاتے ہوئے تیز تیز قدم چلنا چاہیے۔ ایسا کرنا مسنون ہے۔ ہر چکر مکمل ہونے پر حجرِ اسود کا اِستلام کرنا چاہیے۔رکنِ یمانی کا اِستلام بھی مستحسن ہے۔ ساتواں چکر حجر اسود کے سامنے آکر ختم ہوگا۔ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد یہ پہلا طواف، طواف القدوم کہلاتا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ حج اور عمرے میں آتے ہی پہلے طواف کرتے تو آپؐ تین چکر بیت اللہ کے گرد دوڑتے اور چار چکر عام رفتار سے چلتے پھر دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ پھر آپؐ صفا اور مروہ کے درمیان طواف فرماتے۔(یعنی سعی کرتے)(صحیح مسلم کتاب الحج باب اسۡتِحۡبَابُ الرَّمَلِ فِی الطَّوَافِ وَالۡعُمۡرَۃِ…)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَلۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَلۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ۔(الحج:30)پھر چاہئے کہ وہ اپنی (بدیوں کی ) میل کو دور کریں اور اپنی منتوں کو پورا کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔
پس اس جان کاہی، شوق ومحنت اور والہانہ محبت سے لگائے گئے پھیروں کے بعد بھی اگر دلوں کی صفائی نہ ہو،نیک اعمال کی بجاآوری اورنیتوں کی درستگی کا پختہ عہد نہ ہو تو نئی زندگی اور ایک نئی پیدائش کی امید فضول ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (مکہ میں) آئے۔آپؐ نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا۔ پھر آپؐ نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور صفا ومروہ کے درمیان طواف کیا۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں عمدہ نمونہ ہے۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب صَلَّی النَّبِیّﷺ لِسُبُوۡعِہِ رَکۡعَتَیۡنِ حدیث نمبر1623)
طواف کے بعد دورکعت نماز کے لیے کوئی خاص جگہ معین نہیں گو افضل یہی سمجھا گیا ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھی جائے جہاں آنحضرتﷺ نے پڑھی ہے مگر اژدہام کے وقت ہر شخص کے لیے یہ ممکن نہیں اس لیے جہاں جگہ ملے وہیں دو رکعت سنت نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
حطیم
حطیم یا حجر اسماعیل، مسجد حرام کے مطاف میں خانہ کعبہ کے شمال میں واقع نصف دائرے کی شکل کی ایک دیوار ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کے لیے ایک جھونپڑی نما سائبان بنا دیا تھا، یہ حصہ بیت اللہ سے باہر تھا لیکن جب قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو انہوں نے کعبہ کا تقریباً تین میٹر حصہ چھوڑ دیا وہ یقیناً کعبہ کا جز ہے گویا نہ تو ساری حطیم کعبہ کا جز ہے اور نہ ہی ساری حطیم کعبہ سے باہر ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبیﷺ سے (حطیم کی ) دیوار کے متعلق پوچھا کہ کیا وہ بیت اللہ کا (حصہ) ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا : پھر ان کو کیا ہوا کہ انہوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا ؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری قوم کے پاس اخراجات کم ہوگئے تھے۔(صحیح بخاری کتاب الحج باب فَضۡلُ مَکَّۃَ وَ بُنۡیَانُھَا حدیث نمبر1584)بخاری کی ایک اور روایت سے معلوم ہوتاہے کہ کعبہ کی دیوار سے چھ ہاتھ تک حطیم کعبہ کا حصہ ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الحج حدیث نمبر1584)جو تقریباً تین میٹر بنتے ہیں۔اس طرح کعبہ کی دیوارسے متصل تقریباً تین میٹر کعبہ ہی کا حصہ ہے جبکہ کعبہ کی دیوار سے حطیم کی دیوار تک لمبائی تقریباً ساڑھے آٹھ میٹر ہے۔
پس اگر کوئی انسان کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا خواہشمند ہو تو وہ حطیم کے اس حصے میں نماز پڑھ لے جو کعبہ کے ساتھ ملا ہوا ہے تو گویا وہ کعبہ میں ہی کھڑا ہوگا۔حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ میں چاہتی تھی کہ کعبہ میں داخل ہوکر نماز پڑھوں پس رسول اللہﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں لے گئے پھر فرمایا: حطیم میں نماز پڑھو۔ اگر تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتی ہو تو یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے لیکن تمہاری قوم نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اس کی تعظیم چھوڑدی اور اسے کعبہ سے نکال دیا۔امام ترمذی ؒفرماتے ہیں کہ حدیث حسن صحیح ہے۔(جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡحَجّ بَابُ مَا جَآءَ فِی الصَّلٰوۃِ فِی الۡحِجۡرِ)
ملتزم
حجر اسود والے کونے اور خانہ کعبہ کے دروازے کی درمیانی جگہ کو ملتزم کہتے ہیں، یہ حصہ تقریباً تین میٹر ہے۔یہ قبولیت دعا کی جگہ ہے اس مقام پر سنت یہ ہے کہ بیت اللہ کی دیوار سے اس طرح چمٹ کر دعائیں کی جائیں کہ رخسار، سینہ اور ہاتھ چمٹے ہوئے ہوں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے طواف کیا، نماز پڑھی پھر حجر اسود کا بوسہ لینے کے بعد حجر اسودا ور دروازے کے درمیان اس طرح کھڑے ہوئے کہ اپنے سینے، ہاتھ اور رخسار کو دیوار سے چمٹایا، پھر فرمایا:’’میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، المناسک حدیث نمبر 2962۔بحوالہ تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 46)
کعبۃ اللہ کا اندرونی حصہ
کعبہ کے اندر لکڑی کے تین ستون ہیں جن پر چھت ہے، ان کا قطر 44سینٹی میٹر ہے، ہر دوستون کا درمیانی فاصلہ 2.35میٹر ہے، دروازے کے سامنے ہی ایک محراب ہے۔ دروازے کے دا ہنی طرف ایک زینہ ہے جو چھت کی طرف چڑھتا ہے، اس کا ایک دروازہ ہے جو ’’باب التوبۃ ‘‘ (توبہ کا دروازہ ) کے نام سے معروف ہے۔اس پر ایک کپڑا لٹکا رہتا ہے۔کعبہ کی دیواروں کی اندرونی جانب مضبوط اور خوبصورت رنگین سنگ مر مر لگایا گیا ہے۔ جس پر نہایت دلکش نقش ونگار بنے ہوئے ہیں۔اندرونی دیواروں اور چھت پر سبز رنگ کے پردے لٹکے ہوئے ہیں۔جس پر یہ عبارتیں لکھی ہوئی ہیں: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ۔اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ھُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔(آل عمران:97)قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡھِکَ فِیۡ السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰھَا فَوَلِّ وَجۡھَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ۔(البقرۃ:145)یَا حَنَّانُ یَا مَنَّانُ یَا ذَاالۡجَلَالِ وَالۡاِکۡرَام۔(کتاب تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 55تا56)
اوپر تحریر کی گئی آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے :یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔
یقیناًہم دیکھ چکے تھے تیرے چہرے کا آسمان کی طرف متوجہ ہونا۔ پس ضرور تھا کہ ہم تجھے اس قبلہ کی طرف پھیر دیں جس پر تُو راضی تھا۔ پس اپنا منہ مسجدِ حرام کی طرف پھیر لے۔
خانہ کعبہ کی چھت
زمانہ دراز تک کعبہ کی عمارت بغیر چھت کے تھی، قریش نے اپنی تعمیر میں سب سے پہلے چھت بنائی۔اس وقت کعبہ کی دوچھتیں ہیں ایک اوپر اور دوسری اس کے نیچے جبکہ کعبۃ اللہ کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا ہے۔ کعبہ کی چھت میں ایک سوراخ رکھا گیا ہے جس کا طول وعرض 1.4*1.27میٹر ہے۔اس پر شیشہ کا ایک مضبوط ڈھکنا لگایا گیا ہے،جہاں سے کعبہ کے اندر طبعی روشنی آتی ہے۔ جب کعبہ کو غسل دیا جاتا ہے یا غلافِ کعبہ بدلا جاتا ہے تو یہ ڈھکنا اٹھا دیا جاتا ہے اور خانہ کعبہ کی اندرونی سیڑھیوں سے چڑھ کر اور اس سوراخ سے گزر کر چھت پر آمدورفت ہوتی ہے۔( تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 57تا58)
کعبہ میں داخل ہونے پر دا ہنی سمت سیڑھیاں ہیں جو چھت کی طرف جاتی ہیں، یہ سیڑھیاں مضبوط قسم کے شیشے سے بنی ہیں، ان کی تعداد 50ہے۔ کعبہ کے اندر ایک بہت بڑا صندوق بھی ہے جس میں کعبہ شریف سے متعلق بعض اہم چیزیں رکھی جاتی ہیں۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میں،تالیف محمود محمد حمو۔صفحہ 61سن اشاعت 2010ء سعودی عرب)
کعبہ کا دروازہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے وقت عمارت کے دو دروازے بنائے تھے جو زمین کے برابر تھے۔مشرقی دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور مغربی دروازے سے باہر آجاتے۔سب سے پہلے یمن کے ایک بادشاہ اسعد تُبَّع ثالث نے کعبہ کے ان دونوں داخلی وخارجی راستوں پر ایک پٹ کا دروازہ لگوایا۔ جب قریش نے کعبہ کی تعمیر کی تو انہوں نے اس کی مغربی سمت کا دروازہ بند کردیا اور مشرقی دروازہ کو زمین سے بلند کرکے دو پٹ کا دروازہ لگادیا۔
کعبہ کے موجودہ دروازے کی لمبائی 3.10میٹر، دروازے کی چوڑائی 1.90میٹر، اس کا عمق (اندرونی گہرائی)50سینٹی میٹر اور مَطَافۡ(طواف کی جگہ )سے دروازہ کی بلندی 2.25میٹر ہے۔(تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 58تا59۔ناشر مطابع الرشید مدینہ منورہ۔اشاعت 2002ء)
میزاب الکعبۃ/الرحمۃ(پرنالہ)
یہ پرنالہ کعبہ شریف کی چھت پر شمالی سمت یعنی حطیم کی جانب لگا ہوا ہے، کعبہ کی چھت کی دھلائی یا بارش کے وقت چھت کا پانی نکلنے کے لیے یہ نصب کیا گیا ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت سے پانچ سال قبل جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس وقت یہ پرنالہ لگایا تھا اور اسی وقت کعبہ پر چھت ڈالی گئی تھی جبکہ اس سے قبل کعبہ پر چھت نہ تھی۔ موجودہ پرنالہ شاہ فہد بن عبدالعزیز کا لگوایا ہوا ہے جو خالص سونے کا ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 2 میٹر ہے۔
کِسۡوَۃُ الۡکَعۡبَۃِ (کعبہ کا غلاف)
یہ وہ پردہ ہے جوکعبہ کی عمارت پر لٹکایا گیا ہے، کعبہ کے دو غلاف یا دو پردے ہیں، ایک داخلی اور ایک خارجی وبیرونی، اس غلاف کی تاریخ یہ ہے کہ کعبہ شریف پر خارجی پردہ سب سے پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے لٹکایا تھا، ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے یمن کے بادشاہ تبع حمیری نے ڈالا تھا۔ رسول کریمﷺ نے بھی یمنی کپڑے سے تیار شدہ غلاف کعبہ سے کعبہ کو مزین فرمایا تھا۔ آپ کے بعد بھی خلفاء، امراء اور بادشاہوں نے اس کا اہتمام جاری رکھا اور ہمیشہ کعبہ شریف کو غلاف سے آراستہ کیا جاتا رہا۔
سنہ 1346ھ میں اس پردہ کی تیاری کے لیے مکہ مکرمہ میں مستقل طورپر کارخانہ تعمیر کیا گیا جس کے بعد سے آج تک خانہ کعبہ پر اسی کارخانے سے تیار شدہ غلاف ڈالا جاتا ہے۔ موجودہ غلاف کعبہ خالص ریشم سے تیار ہوتا ہے جس پر کالارنگ چڑھایا جاتا ہے، اس غلاف پر عمدہ کڑھائی اور اعلیٰ طریق کی کشیدہ کاری کے ذریعہ مختلف عبارتیں مرقوم کی جاتی ہیںجن میں لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ۔ اللّٰہ جل جلالہ۔سبحان اللّٰہ وبحمدہ، سبحان اللّٰہ العظیم،یا حنان، یا منان آخر الذکر دونوں کلمے عربی میں سات کے ہندسہ کی شکل میں لکھے جاتے ہیں جن سے سار ا پردہ مزین ہوتا ہے۔
مطاف (طواف کی جگہ)
خانہ کعبہ کے چاروں طرف کھلا ہوا حصہ جس پر طواف کرتے ہیں، مطاف کہلاتا ہے۔پہلے پہل مطاف کے اس حصہ میں کوئی پختہ فرش وغیرہ نہ تھا۔سنہ91ھ میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے پہلی مرتبہ مطاف کا پختہ فرش بنوایا جس میں سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطاف میں بعض تعمیری اضافے بھی ہوئے مثلاً زمزم کے کنویں کی مستقل تعمیر بنائی گئی، منبر بنایا گیا،مقام ابراہیم کی تعمیر عمل میں آئی، چار محرابیں بنائی گئیں جن میں ائمہ اربعہ کے مصلے تھے۔
چودھویں صدی ہجری کے اواخر میں حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مطاف میں قائم تمام عمارتوں کو منہدم کردیا گیا تاکہ طواف کرنے والوں کو آسانی ہو، پھر سنہ1399ھ میں مطاف سے متصل کچھ جگہ کو مطاف کا حصہ بنایا گیا۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میں صفحہ 56تا 61اشاعت 2010ء سعودی عرب)
صفوں کی ابتدا
ایک زمانے تک لوگ امام کی اقتدا میں نمازباجماعت مقام ابراہیم کے پیچھے اد ا کرتے رہے اور صرف اسی ایک جانب باجماعت نماز ادا کی جاتی تھی۔لیکن جب نمازیوں کی کثرت ہوگئی تو یہ سمت تنگ پڑگئی، مکہ کے گورنر خالد بن عبداللہ القسری (متوفی 120ھ)نے بیت اللہ کے چاروں طرف گولائی میں صفیں بنوادیں، جس کی تائید اس وقت کے علماء، فقہا اور تابعین نے کی،چنانچہ اس وقت سے آج تک چاروں طرف صفیں قائم ہوتی چلی آرہی ہیں۔(تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 98۔ناشر مطابع الرشید مدینہ منورہ۔اشاعت 2002ء)
صحن کعبہ اور دیگر جگہوں پر صفوں کی درستی کے لیے خاص قسم کے ماربل کی بڑی بڑی ٹائلیں کعبہ کے رُخ پر لگادی گئی ہیں تاکہ نماز پڑھتے وقت ہر نمازی کا رُخ کعبہ کی طرف رہے۔
زمزم کا پانی
زمزم وہ مبارک چشمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پیروں کے نیچے سے جاری ہوا۔زمزم کے چشمے کا محل وقوع یہ ہے کہ یہ مبارک چشمہ حجر اسود کے مشرق میں حجر اسود سے 20.6میٹر کی دوری پر ہے۔اس کا عمق اور اس کی گہرائی تقریباً 30.5میٹر ہے۔(مکہ مکرمہ ماضی وحال کے آئینہ میںصفحہ 68)
ایک جدید تحقیق کے مطابق کنویں کے گرد مختلف چشموں سے پانی کا ابال 11سے لےکر 18.5لیٹر فی سیکنڈ ہے۔اس طرح ایک منٹ میں اس کی کم از کم مقدار 660لیٹر اور ایک گھنٹے میں 39600لیٹر ہے۔ ان چشموں میں سے ایک کا دھانہ حجراسود کی طرف سے کھلتا ہے جس کا طول 75سینٹی میٹر اور بلندی 30سینٹی میٹر ہے۔ سب سے زیادہ پانی اسی سے نکلتا ہے، ایک اور چشمے کا دھانہ مکبّریہ (اذان کی جگہ) کے سامنے ہے اس کا طول 70 سینٹی میٹر اور بلندی 30سینٹی میٹر ہے۔ان کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں جو صفاومروہ کی طرف سے آتے ہیں۔
زمزم پر ایک عمارت بنی ہوئی تھی جسے گرا دیا گیا ہے تاکہ اس جگہ مطاف (طواف کی جگہ ) میں توسیع ہوجائے۔ اسی غرض سے زمزم کو اوپر سے بند کرکے اس کا انتظام تہ خانہ میں کردیا گیا ہے جو مطاف کے نیچے ہے اور ایئر کنڈیشنڈ ہے۔اس کنویں کو شیشے کی دیوار سے محفوظ کردیا گیا ہے جس سے کنویں کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
مسجد حرام سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر محلہ کُدَیۡ میں 1415ھ میں ایک ٹینکی بنائی گئی جس میں زمزم کی وافر مقدار کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اور ایسا مشینی سسٹم نصب کیا گیا ہے جو آبِ زمزم کو کنویں سے اس ٹینکی تک منتقل کرتا ہے۔ اس ٹینکی کی وسعت 1500مکعب میٹر ہے۔ یہاں سے پانی کے گیلن اور ٹینک بھرے جاتے ہیں تاکہ آبِ زمزم کو ملک کے مختلف مقامات بالخصوص مسجد نبوی شریف مدینہ منورہ میں منتقل کیا جاسکے۔(تاریخ مکہ مکرمہ از ڈاکٹر محمد الیاس عبدالغنی صفحہ 85تا86،ناشر مطابع الرشید مدینہ منورہ۔اشاعت 2002ء)
مقام ابراہیم
بیت اللہ کے دروازہ اور ملتزم کے سامنے ایک قبہ (گنبد نما چھوٹی سی عمارت ) ہے۔ اس میں وہ پتھر رکھا ہوا ہے جس پر کھڑے ہوکر مامورِخدااورمعبدِ توحید کے معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی دیواریں چنی تھیں۔اس پتھر پر آپ کے پائوں کے نشان ثبت ہیں۔یہ پتھر اسی قبہ نما چھوٹی عمارت میں رکھا ہوا ہے۔اسی جگہ کو جہاں پتھر رکھا ہے ’’مقام ابراہیم ‘‘کہتے ہیں۔ طواف کے سات چکر لگانے کے بعد دو رکعتیں ادا کرنا واجب ہیں۔ ان دو رکعت کا ’’مقام ابراہیم‘‘میں ادا کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہے یعنی ایسے نوافل جو سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کرکے خفی سے خفی شرک کے بتوں کو پاش پاش کردیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَاتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰھٖمَ مُصَلًّی (البقرۃ:126) اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کی جگہ پکڑو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ مبارک وجود ہیں جنہوں نے واضح طور پر دنیا کے سامنے عاشقان الٰہی کی اُن قربانیوں کا نمونہ پیش کیا جو وہ محبت الٰہی میں اُس کے حضور پیش کرتے ہیں۔اس لیے اُس نمونے کی یادگار کے طور پر یہ حکم دیا کہ میرے بندے کی پیروی میں تم بھی اپنا سب کچھ میری راہ میں فدا کرنے کے لیے تیار ہوجائو اور اُس مقام پر قیام اور رکوع و سجود کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص و وفا اور اُس کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد باندھوکہ راہ صدق و صفا میں ہمیشہ ثابت قدم رہو گے اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ فدا کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مقام ابراہیم کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیاہے: فِیۡہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰھِیۡمَ (آل عمران:98)اس میںکھلے کھلے نشانات ہیں (یعنی) ابراہیم کا مقام۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب مَنۡ لَّمۡ یَدۡخُلِ الۡکَعۡبَۃَ حدیث نمبر1600)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے طواف کی نماز کی پہلی رکعت میں قُلۡ یٰاَیُّھَا الۡکَافِرُوۡنَ اور دوسری رکعت میں قُلۡ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌپڑھی۔(جامع ترمذیاَبۡوَابُ الۡحَجِّ بَابُ مَا جَآءَ مَا یُقۡرَأُ فِیۡ رَکۡعَتِی الطَّوافِ)
(جاری ہے)
٭…٭…٭