الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

فاتح سندھ محمد بن قاسمؒ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍ستمبر2013ء میں تاریخ کے ایک فاتح جرنیل محمد بن قاسم کی مختصر سوانح مکرم عطاءالنور صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

محمد بن قاسمؒ کی پیدائش طائف میں 695ء میں ہوئی۔ بچپن طائف میں گزرا اور پھر بصرہ میں تربیت حاصل کی۔ ان کے چچا حجاج بن یوسف نے اُسی دَور میں ان کی صلاحیتوں کا اندازہ کرلیا تھا اور صرف پندرہ سال کی عمر میں ایران میں کُردوں کی بغاوت ختم کرنے کی مہم انہیں سونپی۔ اس مہم میں کامیابی کے بعد حجاج نے اپنی بیٹی کی شادی محمد بن قاسم سے کردی اور پھر سندھ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ یہ بنی کہ اُس زمانے میں عرب تاجر بحیرۂ عرب کے راستے اپنا مال لے جاتے تھے۔ بہت سے تاجر دیگر ممالک میں ہی مقیم ہوگئے۔ جزیرہ سراندیپ (لنکا) میں مقیم بعض عرب تاجروں کا انتقال ہوا تو وہاں کے راجہ نے مسلمانوں سے دوستانہ مراسم پیدا کرنے کے لیے اُن تاجروں کے اہل و عیال کو ایک جہاز کے ذریعے واپس بھجوایا اور ساتھ ہی اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے لیے قیمتی تحائف بھی بھیجے۔ لیکن دیبل کے قریب راجہ داہر (حاکم سندھ)کے سپاہیوں نے جہاز کو لُوٹ لیا اور عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرلیا۔ جب ولید کے گورنر حجاج کو یہ اطلاع ملی تو اُس نے راجہ داہر کو خط لکھا کہ ڈاکوؤں کو سزا دے کر ہمارے قیدیوں کو رہا کردے اور مال و اسباب واپس کردے۔ داہر نے جواب دیا کہ یہ کام سمندری قذاقوں کا ہے، مَیں اس معاملے میں بےبس ہوں۔

راجہ داہر کے حکمران باپ راجہ چچ کی وفات پر پہلے اس کا بیٹا چندر حکمران بنا اور اُس کے مرنے پر سندھ کی حکومت دو حصوں میں بٹ گئی۔ شمالی سندھ پر داہر اور جنوبی سندھ پر پہلے چندر کے بیٹے اور پھر داہر کے دوسرے بھائی نے حکومت قائم کرلی۔ جب داہر کا بھائی مرگیا تو داہر پورے سندھ کا حکمران بن گیا۔ لیکن وہ عاقبت نااندیش آدمی تھا۔ پہلے اُس نے باغی مسلمان عربوں کو اپنے پاس پناہ دی اور پھر قذاقوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ محمد بن قاسم کو قذاقوں کی سرکوبی کے لیے بھجوایا تو 712ء میں یکم سے دس رمضان تک اسلامی لشکر کا راجہ داہر کی فوج کے ساتھ اروڑ کے مقام پر مقابلہ ہوا۔راجہ داہر کے پاس ساٹھ ہزار سپاہی اور ایک سو جنگی ہاتھی تھے جبکہ محمد بن قاسم کے پاس بارہ ہزار عرب سپاہی اور تین ہزار سندھی سپاہی تھے۔ اس جنگ میں راجہ داہر مارا گیا اور اس کی فوج شکست کھاگئی۔

اروڑؔ روہڑی سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سکندراعظم نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔ 641ء میں یہ رائے خاندان کا صدرمقام تھا۔ اسے فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں برصغیر کی پہلی مسجد تعمیر کرائی۔ یہ شہر 964ء میں دریائے سندھ کا رُخ بدلنے سے برباد ہوگیا تاہم پہلی مسجد کے آثار آج بھی باقی ہیں۔ ایک اَور مسجد کے آثار بھی موجود ہیں جو مسجد عالمگیری کہلاتی ہے۔

دیبل کی فتح کے بعد اسلامی لشکر علاقوں پر علاقے فتح کرتا ہوا ملتان تک پہنچ گیا جہاں راجہ داہر کے چچازاد بھائی کی فوج سے مقابلہ ہوا لیکن وہ بھی قلعہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ملتان اُن دنوں بدھ مت کا مرکز تھا۔ یہاں کے ایک مندر سے مسلمانوں کو سونے کا بھرا ہوا ایک کمرہ بھی ملا جو اٹھارہ گز لمبا اور دس گز چوڑا تھا۔اس وجہ سے عربوں نے ملتان کو سونے کی کان کہنا شروع کردیا۔ محمد بن قاسم کا ارادہ پنجاب اور کشمیر تک پہنچنے کا تھا لیکن 714ء میں پہلے حجاج کی وفات ہوگئی اور اگلے سال ولید بھی وفات پاگیا تو سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا ، اُس نے محمد بن قاسم کومعزول کرکے یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عامل مقرر کیا۔ پھر عراق کے والی صالح بن عبدالرحمٰن نے حجاج کے ہاتھوں اپنے بھائی آدم خارجی کے قتل کا انتقام لینے کے لیے محمدبن قاسم کو زنجیروں میں جکڑ کر واسط (عراق) منگوالیا اور قید میں ہی اس عظیم سپہ سالار کی وفات ہوگئی۔

………٭………٭………٭………

محترم چودھری محمد اشرف صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍ستمبر2013ء میں مکرمہ ع۔چودھری صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم چودھری محمد اشرف صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 30؍اکتوبر2015ء کے شمارے کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی مرحوم کا تذکرہ شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

محترم چودھری محمد اشرف صاحب فروری 2010ء میں امریکہ میں وفات پاگئے۔ آپ کے والد حضرت محمد منیر صاحبؓ اور دادا حضرت چودھری غلام رسول صاحبؓ اصحابِ احمدؑ میں شامل تھے۔یہ خاندان گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور پیشہ زمینداری تھا۔ حضرت چودھری غلام رسول صاحبؓ نے ایک صبح جبکہ آسمان ستاروں سے بھرا پڑا تھا اور آپ اپنے کھیت کی منڈیر پر بیٹھے تھے، ستاروں کے ایک جھرمٹ اور ایک نہایت چمکدار ستارے کو دیکھا تو دل میں آواز اُٹھی کہ یہ ترتیب اور یہ ستارہ کسی موعود کے آنے کی نشانی ہے۔ آپ نے کھیت میں ہل چلانے والے اپنے نوکر کو بلاکر آسمان پر یہ نظارہ دکھایا تو اُس نے بھی کہا کہ یہ کوئی نیا ستارہ ہے۔ آپ نے اُسی روز نوکر کو سیالکوٹ بھیجا کہ پتا کرکے آؤ کہ کیا کوئی غیرمعمولی واقعہ ہوا ہے۔ نوکر جب سیالکوٹ کے مرکزی بازار میں پہنچا تو وہاں حضور علیہ السلام کا سبز اشتہار بانٹا جارہا تھا جس میں بشیراوّل کی وفات اور بشیرثانی کی پیدائش کی خبر تھی اور پنڈت لیکھرام اور دیگر معاندین کی غلط بیانیوں کا ازالہ بھی کیا گیا تھا۔ وہ یہ اشتہار گاؤں میں لایا تو حضرت چودھری صاحبؓ اپنے بیٹے محمد منیر صاحبؓ کے ہمراہ قادیان چلے گئے اور وہاں پہنچ کر زیارت کرتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی۔ آپؓ تحریک جدید دفتر اوّل کے مجاہدین میں شامل تھے۔ چندہ دینے میں نہ صرف خود پیش پیش تھے بلکہ گاؤں کے لوگوں سے بھی چندہ اکٹھا کیا کرتے تھے۔

محترم چودھری محمد اشرف صاحب ابھی تین چار برس کے تھے کہ والدہ کی وفات ہوگئی۔ والد نے دوسری شادی کی جس میں سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے مزید پیدا ہوئے۔
محترم چودھری صاحب بچپن سے ہی نہایت فرمانبردار اور منکسرالمزاج بچے تھے۔ میٹرک کا امتحان پاس کیا تو آپ کی شادی حضرت چودھری عبدالقادر صاحبؓ وکیل (فیروزوالہ ضلع گوجرانوالہ) کی بیٹی سے ہوگئی۔ آپ ایک ایماندار اور محنتی شخص تھے۔ دہلی اور بٹالہ میں ملازم رہے۔ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ جب جنگ عظیم دوم شروع ہوئی تو آپ فوج میں بھرتی ہوگئے۔ محاذ جنگ پر ڈاکخانہ افسر مقرر ہوئے۔ جنگ ختم ہوئی تو محکمہ جنگلات میں ملازم ہوگئے۔ لیکن داعی الی اللہ ہونے کی وجہ سے جلدی جلدی ٹرانسفر کردی جاتی اور اکثر پسماندہ علاقوں میں بھیج دیا جاتا۔ کئی بار خطرات بھی پیدا ہوئے اور کئی دلچسپ واقعات بھی رونما ہوئے۔ مثلاً ایک دفعہ ضلع گجرات کے کسی دُور کے علاقے میں ٹرانسفر ہوئی تو وہاں خبر پہنچنے پر کہ کوئی مرزائی افسر آرہا ہے، ماتحت عملے نے احتجاج شروع کردیا۔ چند روز بعد وہاں افواہ پھیل گئی کہ افسرانِ بالا نے مرزائی افسر کی ٹرانسفر کہیں اَور کردی ہے۔ چند روز بعد جب چودھری صاحب وہاں پہنچے تو ماتحت عملے نے پُرتپاک استقبال کیا۔ سارا عملہ آپ کے اچھے سلوک کی وجہ سے بڑا مداح بن گیا۔ چند روز بعد وہ لوگ خوشی سے آپ کو بتانے لگے کہ یہاں ایک مرزائی آنے لگا تھا لیکن ہم نے اُسے احتجاج کرکے بھگادیا ہے۔ آپ زیرلب مسکرائے اور اپنی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ بھاگ کر یہ آ
گیا ہے۔ اس پر ملازمین بہت شرمندہ ہوئے۔

محترم چودھری صاحب نے تنگی ترشی برداشت کرلی لیکن کبھی رشوت نہیں لی۔ سالانہ پراپرٹی پر اپنے بچوں کی تعداد لکھتے کہ یہی میری پراپرٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آٹھ بچے دیے۔ کافی کوشش کرکے آپ نے لاہور کے ہیڈآفس میں اپنی تبدیلی کروالی تاکہ بچوں کی تعلیم بہتر ہوسکے۔ بچوں کی عزت کرتے اور بچے کی قابلیت کے مطابق نصیحت کرتے۔ دینی کمزوری پر سرزنش کرتے۔ جاہلانہ رسوم سے نفرت تھی۔

آپ اپنی سالانہ چھٹی اکثر کسی قریبی گاؤں میں وقف عارضی میں گزارتے۔ اپنی جوانی میں ہی اپنی اہلیہ کے ساتھ نظام وصیت میں شامل ہوگئے تھے۔ لاہور میں قیام کے دوران مقامی جماعت میں مسلسل خدمت کی توفیق پاتے رہے اور بڑی جانفشانی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے۔ جب آپ کے بچے امریکہ میں آباد ہوگئے تو آپ بھی وہاں آگئے اور مسجد بیت الرحمٰن میں ایم ٹی اے کے دفتر میں ایک نگران کے طور پر کام کرنے کی توفیق پائی۔ آخر بڑھاپے کی وجہ سے گردوں کی بیماری ہوگئی اور ڈائیلاسس کرواتے رہے۔ تاہم آخری دنوں تک مسجد جاکر نماز جمعہ ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ گھر میں بھی بار بار نماز ادا کرنے لگتے کہ شاید ابھی ادا نہیں کی۔اکثر یہ اشعار گنگناتے رہتے کہ ؎

مَیں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں

چینِ دل آرامِ جاں پاؤں کہاں

یاں نہ گر روؤں کہاں روؤں بتا

یاں نہ چلّاؤں تو چلّاؤں کہاں

………٭………٭………٭………

کریملن (ماسکو)

قرون وسطیٰ میں اکثر روسی شہروں میں ایک کریملن ہوتی تھی لیکن ماسکو کی کریملن کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ کسی اَور شہر کی کریملن کو حاصل نہ ہوسکی۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 21؍اگست 2013ء میں کریملن ماسکو کا تعارف شامل ہے۔

ماسکو شہر کے وسط میں دریا کے کنارے واقع ایک قلعہ کریملن تھا جو ماسکو شہر کے اقتدار کی گدی تھی۔ بعدازاں یہ پورے روس کے اقتدار کی گدی بن گئی۔ اس میں حکومتی دفاتر، کیتھیڈرل، اسلحہ خانے اور شاہی محلّات واقع تھے۔ اسے سب سے پہلے بارھویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ روس کے اوّلین حکمرانوں کی جھلکیاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ کئی زار اس میں دفن ہیں۔ شاہی محل کی دو سو ٹن وزنی گھنٹی اور عجائب گھر بھی کریملن کے اندر واقع ہیں۔ کریملن کی دیواروں میں اٹھارہ ستون اور پندرہ دروازے بنائے گئے ہیں۔

1711ء میں زار پیٹراعظم نے دارالحکومت ماسکو سے سینٹ پیٹرزبرگ منتقل کردیا جس کے بعد ماسکو اور کریملن کی اہمیت کم ہوگئی۔ بعدازاں 1917ء میں بالشویک انقلاب کے بعد ماسکو دوبارہ دارالحکومت بنا تو اس کی پرانی اہمیت بحال ہوگئی۔ سوویت حکومت کے دَور میں کریملن کو دوبارہ عروج ملا اور وہ اقتدار کا مرکز بن گیا۔ جس طرح روس کا مرکز ماسکو ہے، اسی طرح ماسکو کا مرکز کریملن اور کریملن کا مرکز کیتھیڈرل سکوائر کہلاتا ہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 9؍اکتوبر 2013ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

ڈالروں کی دوڑ اتنی تیز ہے

خالی خالی ناشتے کی میز ہے

لہلہائیں اشک کی فصلیں بہت

درد کا رقبہ بہت زرخیز ہے

وصل کی اپنی جگہ خوشبو ، مگر

ہجر کا موسم قیامت خیز ہے

جب کھِلے گی تو قیامت ڈھائے گی

یہ کلی غم کی ابھی نوخیز ہے

سانحۂ نَو کا متحمّل نہیں

غم کا پیالہ صبر سے لبریز ہے

اس کا چپ رہنا بھی قدسیؔ ہے غضب

گفتگو بھی اس کی دلآویز ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button