حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خدام الاحمدیہ Victoria، آسٹریلیا کی (آن لائن) ملاقات
یقیناً ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی …ایک بڑے پیمانے پہ ایک بریک تھرو ہو گا …کب ہو گا، کس زمانے میں ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئی ہے اس کے مطابق تین سو سال ابھی نہیں گزریں گے اس سے پہلے ہو جائے گا
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12؍جون 2022ء کو خدام الاحمدیہ صوبہ Victoria، آسٹریلیا سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ خدام الاحمدیہ نے Bunjil Place Conference Centre میلبورن، آسٹریلیا سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد خدام کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔
ایک نو مبائع خادم نے عرض کیا کہ کئی نو مبائع ایسے ہیں جو مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ان ثقافتوں کا وجود ہزاروں سالوں سے ہے۔ اسی طرح میں سموان ثقافت سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمیں اپنے آباءو اجداد کی روایات، طور طریقے اور تہواروں کے متعلق کیا رائے رکھنی چاہیے؟ کیا ہمیں اپنے ماضی اور پچھلی تاریخ کا اعتراف کر کے اسے ماننا چاہیے یا کیا ہمیں اپنے سے پہلوں کی طرزِ زندگی سے دوری اختیار کرنی چاہیے؟
حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ دیکھیں ہم بنیادی طور پر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ملک میں انبیاء بھیجے اور سب ایک ہی تعلیم لے کر آئے یعنی یہ کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کے آگے جھکیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔ ان انبیاء نے ہمیں اچھے اخلاق بھی سکھائے۔ یہ بات ہر مذہب میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اہل کتاب کو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایاکہ تو انہیں کہہ دے کہ ان باتوں کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں، اور ان باتوں میں جو سب سے اہم بات ہے وہ واحد اور قادر مطلق خدا کی عبادت کرنا ہے۔ تو ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگرچہ دنیا میں مختلف قبائل اور قومیں ہیں لیکن ان سب کی تعلیم و تربیت ان کے انبیاء نے کی۔ ہر مذہب کی اصل اور بنیادی تعلیم یہی تھی کہ وہ اپنے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں اور انہیں اللہ کا پیغام پہنچائیں جو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ یعنی اپنے حقیقی خالق کے آگے جھکیں نیز اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں اور ایک دوسرے کی عزت و تکریم کریں۔ یہ باتیں مشترک ہیں۔ پھر اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی اچھی باتیں اس میں جمع کر دی گئی ہیں۔ تو قرآن کریم میں نئی تعلیمات کے علاوہ پرانی تعلیمات بھی موجود ہیں جو سابقہ انبیاء لائے اور جو انہوں نے مختلف قوموں کو سکھائیں۔ اب آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی روایات کی پیروی کریں؟ ایک بنیادی اصول آپ ضرور یاد رکھیںکہ کوئی بھی روایت جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور غیر مطلق ہونے کا انکار کرے اسے لازماً چھوڑ دیا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ کلچر کی روایات ہوتی ہیں جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ آپ کو روزانہ پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی سے نہیں روکتیں، نماز سے نہیں روکتیں، روزہ رکھنے سے، قرآن کریم پڑھنے سے عمدہ اخلاق دکھانے سے نہیں روکتیں، اور اگر وہ آپ کو ان باتوں کے کرنے سے نہیں روکتیں پھر آپ ان روایات پر عمل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی ایسی روایت ہو جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو تو آپ کو اس سے رکنا ہو گا۔ اسلام عالمی مذہب ہے اور دنیا بھر سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے اور اب بھی لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر ملک، ہر لوگ اور ہر قبیلہ کی مختلف روایات ہیں۔ وہ اپنی روایات پر عمل کر سکتے ہیں جب تک وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ شادی بیاہ کے موقع پر مختلف قبائل کے مختلف رسم و رواج ہیں، آپ انہیں ادا کر سکتے ہیں اگر وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہوں، اگر وہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرنے والی نہ ہوں، پھر آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی آپ کوئی عمل کر رہے ہوں اللہ تعالیٰ کا تقدس ہمیشہ قائم رہنا چاہیے یہ بنیادی امر ہے۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ افغانستان سے یہاں آئے ہیں۔ حضور انور کی نظر میں افغانستان میں احمدیت کا کیا مستقبل ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ آگئے باقی بھی چھوڑ کے آرہے ہیں، مستقبل کیا ہونا ہے؟ جو احمدی تھے وہ تو چھوڑ کے آگئے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی شہادت پہ کہا تھا۔ سرزمین کابل تُو خدا کی نظر سے گر گئی۔ تو وہ تو اس وقت تک گری رہے گی جب تک وہاں احمدی نہیں پیدا ہوتے۔ جب سارے احمدی وہاں سے چھوڑ کے آ جائیں گے تو پھر اور زیادہ گر جائے گی۔ ہر قوم کے لیے جہاں ترقی ہوتی ہے وہاں زوال بھی ہوتا ہے۔ جب قومیںزوال کی ایک حد تک پہنچ جاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ ان کی حالتوں کو بدلتا ہے۔ تو ہو سکتا ہے جب یہ لوگ زوال کی انتہا پہ پہنچ جائیںگے، جب سارے احمدی وہاں سے نکل آئیں گے، تباہی کی انتہا جب آجائے گی تو پھر ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی ایسا شخص کھڑا ہو جو دوبارہ اس کو سنبھالنے لگے اور پھر مذہبی آزادیاں پیدا ہوں اور پھر احمدیت کا نفوذ وہاں ہو۔ پھر آگے، مستقبل دوبارہ نئے سرے سے بہتر ہو سکتا ہے۔ اس وقت تو کوئی مستقبل نہیں نظر آ رہا۔ اب آپ بھی یہاں بیٹھے ہیں، آپ دعا کرتے رہا کریں۔ آپ کو ہمدردی ہے ناں، آپ کا ملک ہے۔ …تو بس پھر اس کے لیےآپ سے زیادہ کون دعا کر سکتا ہے۔
حضور انور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ وہ افغانستان سے کب یہاں آئے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ 9-10ماہ قبل یہاں آئے تھے۔ اس پر حضور انورنے فرمایا کہ وہی جو چودہ آدمیوں کی فیملی آئی تھی اس میں آپ شامل تھے؟ اس پر خادم نے عرض کیا جی حضور۔
ایک اور خادم نے عرض کیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کے بعد اسلام کافی تیزی سے دنیا میں پھیلا جیسا کہ ہجرت نبویﷺ اور فتح مکہ۔ کیا حضور انور سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی ترقی کے لیے کچھ ایسے واقعات ظہور پذیر ہوں گے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ہر مذہب میں کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا ہے جس کے بعد وہ مذہب پھیلتا ہے۔ عیسائیت بھی جو پھیلی وہ اسی وقت پھیلی جب رومن بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی۔ گو اس نے تعلیم بدل دی، بگڑ گئی۔ لیکن اسی طرح کے واقعات ہوتے ہیں،معجزات ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے، وہ پورے ہوں گے، اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں جو مثیل مسیح ہوں اور مسیح کی جو جماعت تھی اور ان کا دین تھا اس کو پھیلنے میں تین سو سال سے اوپر کا عرصہ لگا تھا تو تمہیں ابھی تین سو سال نہیں گزریں گے جب تم دنیا میں احمدیت کی اکثریت دیکھو گے۔ تو یقیناً ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی اور جہاں جہاں ایسے واقعات ہوتے جاتے ہیں وہاں بعض دفعہ ایک عارضی breakthrough تھوڑے سے علاقے میں ہوتا ہے، پھر رک جاتا ہے لیکن ایک بڑے پیمانے پہ ایک بریک تھرو ہو گا ،وہ کسی نہ کسی طرح اس قسم کے واقعات ہوں گے تبھی ہو گا۔ کب ہو گا، کس زمانے میں ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو پیشگوئی ہے اس کے مطابق تین سو سال ابھی نہیں گزریں گے اس سے پہلے ہو جائے گا اور 133سال تو ہوچکے ہیں۔ وہی میں نے کہا نہ اگلے بیس پچیس سال بھی بڑے crucial ہیں جماعت احمدیہ کے لیے۔ پھر اس میں کتنی حدتک پھیلتا ہے لیکن اس کے بعد جو عرصہ ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنے کا ہی عرصہ ہوگا۔ انشاء اللہ۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ میں اپنے غیر احمدی مسلمان دوستوں کو کس طرح بتا سکتا ہوں کہ میں احمدی مسلمان ہوں اور ایسے لوگوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے جو جماعت کے لیے منفی جذبات رکھتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ احمدی کیوں ہیں۔ دیکھیں آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ ہم احمدی یہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں ایک مجدد، اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آئے گا۔ اب سب مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک مجدد آئے گا اور وہ مہدی اور مسیح کہلائے گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں آچکا ہے اس پر ہم یقین رکھتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہم احمدی ہیں کیونکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ جب آپ کے دوست اور طلباء دیکھیں گے کہ آپ میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور آپ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں اور آپ پنجوقتہ نماز ادا کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھتے ہیں، آپ اچھے اخلاق کے مالک ہیں اور آپ کسی برائی میں ملوث نہیں ہیں تب وہ جان جائیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے مختلف ہیں اور تب وہ آپ کی بات سننے کی کوشش کریں گے۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ تبدیلی آپ کے اندر صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی وجہ سے آئی ہے۔ ہم یہ بات بھی دیکھتے ہیں اور میں اپنی تقاریر میں بھی یہ بتاتا ہوں کہ نومبائعین کی ایک بڑی تعداد نے اپنا رویہ، اپنا برتاؤ اور طرز زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کیا ہے اور جب ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ یہ تبدیلی تم میں کس طرح آئی؟ تب وہ بتاتے تھے کہ وجہ یہ ہے کہ میں نے اسلام کی حقیقی تعلیم پہچان لی ہے اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میری طرز زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے اور میں اب عملی طور پر مسلمان ہوں۔ پس اگر آپ اپنے غیر احمدی دوستوں کے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں گے اور وہ جان جائیں گے کہ یہ ایک احمدی مسلمان ہے جس کا اس چھوٹی عمر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک قریبی تعلق ہے اور یہ روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اپنے قول پر عمل کرتا ہے تب وہ آپ کی بات کو سنیں گے اور اس طرح آپ ان کے ذہن سے آپ کے بارہ میں منفی رائے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ پس آپ کو اپنے اندر تبدیلی لانی ہو گی۔ پہلے آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔
ایک اور خادم نے عرض کیا کہ آجکل رشتوں کے موقع پر اسلامی تعلیمات کے برعکس فریقین کی طرف سے بہت زیادہ ڈیمانڈز (demands)رکھی جاتی ہیں جو رشتوں کے تقدس کو پامال کرتی ہیں۔ پیارے حضور ہم اس چیز سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ آجکل کی بات نہیں ہے، یہ تو بہت پرانی باتیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اسی طرح تھا۔ ہر زمانے میں وہاں کے لحاظ سے اپنی اپنی ڈیمانڈ ہوتی تھی۔ ایک زمانہ ہوتا تھا کہ لڑکی سے کہا جاتا تھا کہ اتنا جہیز لے کے آؤ، اتنا زیور لے کے آؤ،یااتنی چیزیں لے کے آؤ، یا پیسے لے کے آؤ، کیش لے کے آؤ، یالڑکے سے ڈیمانڈ کی جاتی تھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے، اس کا گھر ہے کہ نہیں، اس کی اچھی جاب ہے کہ نہیں۔ اس طرح کی ڈیمانڈز تو آجکل بھی ہیں، پہلے بھی ہوتی تھیں تو کس طرح کی ڈیمانڈز رکھی جاتی ہیں؟
اس پر خادم نے عرض کیا کہ بعض اوقات جب ملک سے باہر رشتہ کیا جاتا ہے تو یہاں پر رہنے والا فریق باہر سے آنے والے فریق کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ یہاں آکر یہاں کا کلچر اپنائے گا اور اس کے مطابق رہے گا۔ بعض اوقات باہر سے آنے والا فریق اس چیز کو ناپسند کرتا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کلچر تو ٹھیک ہے ،ہم کلچر کے مطابق رہ لیں گے لیکن جس طرح پہلے میں نے کہا تھا اسلامی تعلیم سے clash نہ کرتا ہو۔ اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھو ،تم کہتے ہو کوئی نہیں نماز نہ بھی پڑھی تو کچھ نہیں ہوتا یہ کلچر نہیں ہے۔ اسلام کہتا ہے روزے رکھو، تم کہو روزے نہ بھی رکھو کچھ نہیں ہوتا یہ کوئی کلچر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے عورتوں کو پردے کا حکم دیا ہے، حجاب اوڑھو تو وہ اگر حجاب نہیں لیتی اور بغیر دوپٹے کے کھلے گلے کے ساتھ بازاروں میں پھرتی ہے تو یہ کلچر نہیں ہے، یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لیے پہلے ہی بتانا ہوگا ،لڑکیاں اگر باہر سے آتی ہیں تو وہ لڑکیاں کہہ کے آئیں کہ ہم جو اسلامی تعلیم ہے اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں گی۔ لڑکوں کو اس پہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو تم لوگ رشتے کرتے ہو، رشتہ کرنے کے لیے ایک دوسرے میں دنیا کو دیکھتے ہو، خوبصورتی کو دیکھتے ہو، دولت کو دیکھتے ہو، لیکن تم دین کو دیکھو۔ اگر لڑکے میں دین ہو گا تو وہ دیندار لڑکی کو تلاش کرے گا، اگر لڑکی دیندار ہو گی تو وہ دیندار لڑکے کو تلاش کرے۔ اگر یہ ماحول پیدا ہو جائے تو پھر ہی صحیح اسلامی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہنا کہ جی ان ممالک میں جو so called ترقی یافتہ ملک ہیں ان میں پردہ نہیں ہوتا یا half sleeveپہن کے لڑکیاں بازاروں میں پھرتی رہیں، دوپٹہ بھی گلے میں نہ ہو، سکارف تو علیحدہ بات رہی تو یہ چیزیں اسلام کی تعلیم کے خلاف ہیں اور جو پھر ایسی لڑکیاں ہیں وہ جب مسجد میں آتی ہیں۔ تو دوپٹہ اوڑھ کے آ جاتی ہیں چلو ٹھیک ہے مسجد کا کوئی نہ کوئی احترام تو ہے لیکن پھر ان میں منافقت ہوتی ہے تو یہ تو لجنہ کی ضرورت ہے کہ ان کی صحیح طرح تربیت کریں۔ والدین کی ضرورت ہے کہ ان کی تربیت کریں۔ صحیح طرح اسلام کی تعلیم کو اگر مانا ہے، اگر لڑکی یا لڑکا مسلمان کہلاتے ہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ اسلامی تعلیم پہ عمل بھی کریں۔ اگر اسلامی تعلیم پہ عمل نہیں کر رہے تو پھر وہ مسلمان کہلانے کےبھی حقدار نہیں ہیں۔ یہ جماعت احمدیہ کی تعلیم نہیں ہے یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ جماعت احمدیہ کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو قرآن کے خلاف ہو یا قرآن سے زائد ہو۔ جو بھی ہم کہتے ہیں وہ وہی کہتے ہیں جو قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بڑے سخت ہیں۔ مسلمان تو یہ کرتے ہیں۔ مسلمان اگر نہ بگڑے ہوئے ہوتے تو مسیح موعود کے آنے کی ضرورت کیا تھی۔ اسی لیے تو آئے اسی لیے تو ہم نے مسیح موعود کو مانا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو ٹھیک کرنا ہے۔ تو یہ تو گھروں میں اپنی لڑکیوں کی تربیت کرتے ہوئے ماں باپ کو بھی خیال رکھنا چاہیے۔ لڑکیوں کو خود دینی تعلیم حاصل کرنی چاہیے تا کہ پتا لگے کہ ان کی ذمہداریاں کیا ہیں لڑکوں کو خود احساس ہونا چاہیے۔ تو جب تک یہ احساس خود نہیں ہو گا کوئی باہر سے آ کے تو نہیں ڈالے گا۔ عہد کرتے ہیں ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے، صرف عہد کر کے چلے جاتے ہیں تو اس کا فائدہ کیا، یہ تو منافقت ہے۔ جب عہد دہرایا ہے تو پھر اس پر عمل کرو، اور جب عمل کرو گے تو پھر نہ رشتوں میں ڈیمانڈز ہوں گی، نہ تقدس کو پامال کیا جائے گا،نہ کوئی اور بات ہو گی۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ نماز کی شرائط میں سے ایک شرط قبلہ رخ کا ہونا ہے مگر جب ہم سفر میں ہوتے ہیں تو قبلہ رخ ہونے کا خیال نہیں رکھتے۔ کیا یہ طریق درست ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں اگر آپ گاڑی میںبیٹھے ہوئے ہیں یا جہاز میں بیٹھے ہوئے ہیں تو آپ کہاں سے قبلہ تلاش کرتے پھریں گے۔ آپ جہاز پہ اوپراڑ رہے ہیں قبلہ نیچے ہے تو یوں الٹے لٹک کے نماز پڑھیں گے۔ اگر آپ کو پتا بھی لگ جائے کہ یہاں قبلہ ہے۔ تو بسوں میں بیٹھے ہوئے آپ ڈرائیور کو کہیں گے کہ جی دو تین سیٹیں خالی کرواگر اگلے موڑ پہ آ کر کار کا رخ ادھر مڑ گیا یا بس کا تو آپ کدھر جائیں گے؟ اس لیے اسلام جو ہے دینِ یُسر ہے،آسانی کا دین ہے۔ اسلام نے ہر situation کے لیے حل رکھا ہوا ہے کہ اگر تم سفر کر رہے ہو اور خطرہ ہے اور سواری میں سفر کر رہے ہو اور سواری سےاتر نہیں سکتے، تمہارے اختیار میں نہیں ہے یا کوئی خطرے کی صورتحال ہے تو سواری میں بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لو۔ جدھر بھی سواری جا رہی ہے اس میں تم یہ تصور کر لو، کعبہ کی طرف تمہاری توجہ ہے۔ اصل چیز تو دل کا تصور ہی ہے تو وہ کعبہ کی طرف توجہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی سفر ہوتے تھے، اونٹوں پہ سفر ہوتے تھے یا گھوڑوں پہ سفر ہوتے تھے اور سفر کے دوران اگر ٹھہرنا ممکن نہیں ہوتا تھا تو چلتے چلتے نمازیں پڑھا کرتے تھے، قبلہ جہاں مرضی ہو۔ صرف تصور یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہمارا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے سفر کے لیےایک آسانی پیدا کر دی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ غیر احمدی مولویوں کی طرح کہ جی جہاز میں بیٹھے ہوں تو دایاں موڈھامشرق کی طرف کر لو تو یوں ہوجائے گا۔ جب جہاز turn لے گا تو اس وقت کہاں جائے گا مشرق مغرب۔ یہ جو ہے ناں اوٹ پٹانگ باتیں ہیں۔ اسلام نےآسانی پیدا کی ہے عبادت basic چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت کو نہ بھولو۔ وہ تمہیں وقت پہ ادا کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے۔ اس کے لیے یہ سہولت دے دی کہ اگر تم سفر میں ہو تو دو نمازیں جمع کر لو۔ ظہر عصر اور مغرب عشاء جمع کر سکتے ہو اگر سفر میں ہو تو۔ فجر علیحدہ پڑھنی ہے۔ یہ سہولت دے دی۔ قبلہ کی سہولت دے دی کہ ٹھیک ہے تمہیں قبلہ نظر نہیںآرہا تو تم جس طرف تمہارا منہ ہے اسی طرف کر لو۔ تمہارے کنٹرول میں تو یہ باتیںنہیں ہیں ۔ جو باتیں تمہارے اختیار میں نہیں ہیں اس کے لیے اللہ نے آسانی پیدا کر دی ہے۔ تو ہمیں تو خوش ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے آسانی دی ہے بجائے اس کے کہ اتنے rigid ہو جائیں کہ کیوں یوںنہیں ہوا، قبلہ رخ نماز نہیں پڑھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دل کا قبلہ ہونا چاہیے۔ دل کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہونا چاہیے اور وہ یہی ہے کہ خانہ کعبہ ہی ہمارا قبلہ ہے۔ اور جب حالات normalآئیں پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ پھر کھڑے ہو کے قبلہ جہاں ہے اس طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرو۔ مجھے بتائیں کہ آپ جہاز میں سفر کر رہے ہوں تو کس طرح قبلہ کا خیال رکھیں گے؟
خادم نے عرض کیا کہ جہاز میں نہیں مگر گاڑی میں اگر ہم سفر کر رہے ہوں تو رُک کے اگر نماز پڑھ لی جائے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر رُک سکتے ہیں تو نماز پڑھ لیں، اچھی بات ہے۔ اگر وقت ایسا ہے اور خطرے والی بھی کوئی بات نہیں ہے تو پھر کسی سروس اسٹیشن پہ رک جائیں یا کہیں جاکے، رُک کے نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اگر وقت تھوڑا ہے اور کہیں پہنچنے کی جلدی بھی ہے اور خطرہ ہے رستہ میں بعض دفعہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو پھر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز پڑھ سکتے ہیں پھر یہی ہے اگر چار آدمی کار میں بیٹھے ہیں تو ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ والا جو بندہ بیٹھا ہے اس کو امام بنا لیں، اس کو کہیں نماز پڑھا دو وہ بھی جماعت ہو جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں پہ چلتے ہوئے بھی باجماعت نمازیں پڑھائی ہوئی ہیں۔ تو وہ اسی طرح روایتوں میںآتا ہے کہ اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ کے ساتھ دائیں بائیں پیچھے جو لائنوںمیں لگے ہوئے تھے اونٹوں کی سواریاں یا گھوڑوں کی چل رہی تھی اسی پہ آپ نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن اگر حالات ایسے ہیں کہ جہاں آپ رک کے نماز پڑھ سکتے ہیں وہاں ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ تو آپ کی نیت کیا ہے اگر صرف نیت یہ ہے کہ نمازوں کو ٹالنا ہے تو وہ اور بات ہے اگر نیت یہ ہے کہ ہم نے نماز بھی ادا کرنی ہے، اللہ کی عبادت بھی کرنی ہے اور اب جو حالات ہیں اس کے مطابق چلتے چلتے نماز پڑھنی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ قبول کرنے والا ہے کر بھی لیتا ہے۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا اللہ حافظ۔ السلام علیکم۔
٭…٭…٭