مکرمہ امۃالحئی ڈار صاحبہ
خاکسار کی والدہ محترمہ(المعروف مٹھی امی)امۃالحئی ڈار صاحبہ خواجہ عبدالعزیز ڈار صاحب مرحوم(ربوہ کے مشہور زمانہ سفید پوش بزرگ نانا ڈار)ابن رئیسِ کشمیرحضرت حاجی عمر ڈار صاحبؓ صحابی حضرت مسیحِ موعود ؑکے چھوٹے بیٹے اور حضرت عبدالرحمن ڈار صاحبؓ صحابی مسیح ِدوراں ؑکے چھوٹے بھائی کی بیٹی تھیں۔ دونوںبزرگ صحابہ حضرت مسیحِ موعود ؑکی ایک پیشگوئی ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن ‘‘کے گواہ ہیں۔
والدہ محترمہ کی شادی حضرت حبیب اللہ میرصاحبؓ کے پوتے اورحضرت عبدالرحمٰن میرؓ صاحب رینج آفیسر کشمیرکے بڑے بیٹے عبدالمنان میر صاحب سے ہوئی۔
والد صاحب نور ہسپتال قادیان کی ملازمت سے رخصت پرکشمیر آئے ہوئے تھے کہ اِسی دوران شادی ہوئی جس کے بعد آپ جلدواپس چلے گئے۔قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے احاطے میں رہائش کاانتظام ہوا تو والدہ صاحبہ کو بھی قادیان بلا لیا۔والدہ صاحبہ کی خوش قسمتی کہ جید بزرگانِ سلسلہ کے سایہ تلے رئیسِ کشمیر کے باغ کی کلی نے ایک کمرے میں اپنے خاوند کے ساتھ بخوشی اپنی نئی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا۔لیکن ساتھ ہی امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
پنجاب میں رہائش جبکہ اردو پربھی عبور نہ تھا اور پنجابی سیکھنا تو بالکل محال تھا۔خدا تعالیٰ کی کرم نوازی کہ حضرت اماں جیؓ سے قرآن کریم،حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی زوجہ محترمہ استانی مریم صاحبہ سے قرآن مجید کا ترجمہ اوراسی دوران اردو درس و تدریس کے لیے حضرت مولوی شیرعلی صاحب ؓکے بچوںکی مدد ملی۔ فالحمدعلیٰ ذالک۔
قادیان میں پہلی بیٹی کی ماں بنیںتوخاوند نے وصیت نمبر10143کا تحفہ دیا۔تمام عمر اپنا چندہ وصیت ،جائیداد، نقدی ہویا زیور باقاعدگی سے بروقت ادا کرنا معمول تھا۔اسی طرح باقاعدگی سے تلاوتِ قرآن مجید،پابندئ صوم و صلوٰۃبھی محبوب مشغلہ تھا۔ ہجرتِ کشمیر کے بعداب ہجرتِ پاکستان کی شکل میں امتحانات و آزمائش کا نیا تکلیف دہ دور شروع ہواجس نے اپنے پیاروں ، عزیز و اقارب سے بہت دورکر دیا۔
اپنے پیاروں کی جدائی کوبڑی بہادری سے برداشت کیااور خاوند کے ساتھ ہر آزمائش میںاپنی خداداد صلاحیت اور صبر و استقلال سے مقابلہ کیا۔1947ءمیںدورانِ ہجرت لاہورکیمپ میںدوسرے بچے کی پیدائش کے وقت سب عزیزواقارب کشمیر میںاورخاوند قادیان میںاپنی ڈیوٹی پرتھے۔ بچے کی پیدائش میں خاندانِ نبوت کی خواتین نے مدد کی۔والدہ کی ناسازئ طبع اور بیٹی کی بیماری کی اطلاع حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ تک پہنچی توقادیان سے والد صاحب کو بھی بلا لیا۔
توکل علیٰ اللہ کا ایمان افروز واقعہ تب پیش آیا جب والد صاحب بیوی بچوں کو اس حال میںدیکھتے ہیں تو حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓکی دعائیہ ضمیمہ کو دیکھ کرکہتے ہیں تم اباجیؓ کے خدا کے حوالے میں ہسپتال جا رہا ہوں۔پیار کا یہ الگ لمبا باب ہے۔والدہ صاحبہ سب جانتی تھیں بخوشی اجازت دےدی۔والد صاحب جب ہسپتال کی مصروفیت کے بعد رات دیر سے فارغ ہوکر واپس آئے تو زچہ وبچہ اور بیٹی شفایاب ہو چکے تھے۔فا لحمدللہ علیٰ ذالک۔
خدائی تائیدونصرت سے والد صاحب اپنے پیارے اباجی ؓکے بڑے بھائی عبدالعلی صاحب سے تعزیت کرنے سرگودھا پہنچے توانہوں نے والد صاحب کواپنے گائوں ہجن ضلع سرگودھا تحصیل بھلوال جانے کا مشورہ دیا۔ ان کے رشتہ داروں کی مددسے کاروبار اوررہائش کا بہترین انتظام ہوا۔قادیان نور ہسپتال کی پریکٹس کام آئی اورپیارے اباجیؓ کی خدمت اوردعائوں کے طفیل دستِ شفا بھی۔ 1974ءتک کامیاب ڈسپنسری چلائی۔
والدہ صاحبہ نے کمال حکمتِ عملی سے کام لیا۔گائوں میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اورعورتوں اوربچوںکو قرآنِ پاک پڑھانا شروع کیا۔بلا خوف وخطر دینی علوم اور احمدیت کے پیغام کا درس جاری رہا۔1953ء کی مخالفت میں دشمنانِ احمدیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔فدائیِ خلافت، عزت و اکرام سے اسلامی روایات پر قائم رہیں۔ہردلعزیزمضبوط ارادوں کی مالک۔بروقت صحیح فیصلہ کرنے والی۔صاحب الرائے۔نڈر۔ہر لمحہ تربیتی پہلو پر نظررکھنے والی۔غریب پرور۔ محبت و خلوص سے رشتوں کو نبھایا۔اپنے پرائے سبھی ان کے دیوانے تھے۔خوش اخلاق، مہمان نواز،خدمتِ خلق میں پیش پیش الغرض خدمتِ انسانیت کا شاہکار تھیں۔قرآنی آیات اور دعائیں ہرلمحہ ورد زباں رہنا ان کا خاصہ تھا۔ بچوں کو قرآنی دعائیں اور قصیدہ حضرت مسیح موعودؑ یاد کروانے کی ماہر تھیں۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
کے تحت اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر 1955ء میں دارالہجرت ربوہ میں ڈیرے ڈالے۔ کمال حکمتِ عملی سے تربیت اولاد کا حق اداکیا۔فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
ہجرت کے عادی انتھک فولادی وجود نے ایک بار پھر1989ء میںجرمنی کا رخ کیا۔
اللہ کے فضل سے آپ کو یہاں سے عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی نیز انڈیا، امریکہ اور،کینیڈا جانے کا بھی موقع ملا۔70سال کے بعد کشمیر بھی گئیں۔اپنی زندگی کا آخری سفرپاکستان کا کیا۔والدہ صاحبہ کی لاڈلی پوتی شہلا میر پہلے سے ہی والدین سمیت جرمنی پہنچ چکی تھی۔شہلابچپن سے ہی اپنی دادی جان کو’’مٹھی امی‘‘کہہ کر پکارتی تھی جونہی والدہ صاحبہ نے بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیاتو سارے جگ میں مٹھی امی مشہور ہو گئیں۔یہاں بھی نسل درنسل ہزاروں کی تعداد میں2018ء تک حسبِ معمول دینی و اخلاقی درس جاری رہے۔ ایک اجتماع کے موقع پر صدرصاحب انصاراللہ جرمنی نے اپنے ان الفاظ کےساتھ اعزازی شیلڈ بھی دی کہ’’قرآن مجید کی بے لو ث خدمت پر ان کو اوفن باخ میں بطورِخاص یاد رکھا جائے گا‘‘۔والد صاحب کی وفات کے بعد خدمتِ خلق کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔اپنے بچوں کے تعلق دارہوں یا اپنے کسی گھر میںبیماری ہو فوراًجا کر ان کے بچوں اور گھروں کو سنبھالا۔کئی کئی دن گھر سے غائب۔ اپنے بچوں کی ناراضگی پر کہتیں ’’اس وقت ان کو میری ضرورت تھی خدا تعالیٰ نے مجھے موقع دیا ہے توچلی جاتی ہوں۔‘‘الغرض کوئی بھی خدمت کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔عمر کے ساتھ ساتھ جب قویٰ کمزور ہونا شروع ہوئے تو بڑے افسوس کا اظہار کرتیں اور کہتیں اب قرآن پڑھانے کی ہمت نہیں رہی۔مگر جب بھی کسی کے گھر جاتیں یا کوئی بچہ گھرآتا باتوںباتوں میں قرآن سننا شروع کر دیتیں۔اگر بچہ غصہ کرتا تو کہتیں:’’بیٹے کیا کروں عادت سے مجبور ہوں۔‘‘آخری آرام گاہ ربوہ کی تڑپ لیے کچھ عرصہ بیٹوں کے گھروں میں رہیں۔قریباً دو سال سے لاہورپاکستان میں اپنی بیٹی امۃالواسع کے پاس تھیںمعمولی علالت کے بعداپنی 96 سالہ خوبصورت لمبی زندگی کے یادگار لمحات لیے بیٹی کے گھرسے ہی بقضائے الٰہی اس جہانِ فانی سے4؍نومبر2021ء بروز جمعرات ہم بچوں کواپنی یادوں اور دعائوں کے سہارے چھوڑکراپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔اناللہ واناالیہ راجعون
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
تدفین بروز جمعہ بہشتی مقبرہ ربوہ میںہوئی۔خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ و الدہ محترمہ کو اپنے پیارروں کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور والدہ کو اپنی اولاد کی طرف سے کروٹ کروٹ سکون نصیب ہو۔آمین اللّٰھم آمین یا رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ رَبُ السمٰوٰتِ وَالاَرض وَمَا بَیْنَھَمُاوَرَبُ المَشَارِقَ تَقَبَّلْ مِنَّایاَاَرْحَمُ الرَّحِمِیْنَ۔رَبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔
آپ کے بچگان میں امۃ الکریم صاحبہ، عبد الکریم میر صاحب، عبد الحق، عبد الرحمٰن میر، امۃ الباسط صاحبہ، امۃ الواسع صاحبہ، امۃ السمیع صاحبہ، عبد المجید میر صاحب شامل ہیں۔