غیراحمدی علماء کےاجماع کی حقیقت
غیراحمدی علماء کے بے شمار تضادات میں سے صرف اسی ایک موضوع پر’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر یہ چند سطریں پیش کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کے مطابق باتوں کو ڈھالتے اور تبدیل کرتے ہیں
ہمارے مخالفین اجماع کو دین کا ایک ماخذقرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ ان کے عقائد پرامت مسلمہ کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور جماعت احمدیہ مسلمہ امت مسلمہ کے متفقہ اوراجماعی عقیدے کے مخالف عقائد رکھتی ہے لہٰذا وہ امت مسلمہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ کچھ لوگ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عربی عبارت پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا حضورؑاجماع کو دین کا ایک اہم ماخذ تسلیم کرتے ہیں اور اس کے منکر کو لعنتی قرار دیتے ہیں۔اس عبارت کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
فرمایا:
گواہ رہو کہ ہم کتاب اللہ القرآن سے تمسک اختیار کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں جو حق و معرفت کا سرچشمہ ہیں اور جواجماع اُس زمانے میں منعقد ہوا اسے قبول کرتے ہیں۔ نہ اس میں کچھ بڑھاتے ہیں نہ کم کرتے ہیں اور اسی پر ہم زندہ ہیں اور اسی پر مریں گے۔ اور جو اس شریعت پر ایک ذرّہ بھی اضافہ کرے یا کم کرے یا اس اجماعی عقیدہ کا انکار کرے پس اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔(انجامِ آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ144)
لیکن اس موضوع پر حضورؑ کی دیگر تحریرات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ؑاس عقیدےکو اجماعی فرمارہے ہیں جو قرآن وسنّت میں موجود ہے اور جس پر تمام صحابہ کرامؓ متفق تھے۔فرمایا:’’پھر بعد اس کے آپ دریافت فرماتے ہیں کہ اجماع کی حقیقت کیا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سوال سے آپ کا مطلب کیا ہے؟ ایک جماعت کا ایک بات کو بالاتفاق مان لینا یہی اجماع کی حقیقت ہے جو صحابہ میں بآسانی محقق ہوسکتی تھی اگرچہ دوسروں میں نہیں۔‘‘(مباحثہ لدھیانہ،روحانی خزائن جلد4 صفحہ 28)
’’پھر آپ مجھ سے اجماع کی تعریف پوچھتے ہیں میں آپ پر ظاہر کرچکا ہوں کہ میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔‘‘(ایضاًصفحہ43)
’’پھر بعد صحابہ کے یہ دعویٰ کرنا کہ کسی وقت اِس اُمّت کا اِس بات پر اجماع ہوا تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہیں اِس سے زیادہ کوئی جُھوٹ نہیں ہوگا۔ اور ایسے شخص پر امام احمد حنبل صاحب کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جو شخص بعد صحابہ کے کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ کذّاب ہے۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ43تا44)
علامہ ابن قیمؒ اجماع کے بارے میں امام احمدبن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’الغرض کسی عمل کو، کسی رائے کو، کسی قیاس کو، کسی صحابی کے قول کو، کسی اجماع کو آپ حدیث صحیح پر مقدم نہیں کرتے تھے۔جس مسئلے میں کسی مخالف کا علم نہ ہو اسے لوگ اجماع کہنے لگے ہیں اور اسے صحیح حدیث پر مقدم کردیا کرتے ہیں۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے سخت مخالف تھے۔ اس لئے آپ نے اجماع کے مدعی کو کاذب کہا ہے اور ثابت حدیث پر اس کا مقدم کرنا ناجائز فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے نئے رسالے میں اس بات کا انکار کیا ہے کہ جس مسئلے میں کوئی مخالف معلوم نہ ہو اسے اجماع کہہ دیا جائے۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ جس میں خلاف معلوم نہ ہو وہ اجماع نہیں ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ کسی مسئلے میں کسی کا اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل غلط ہے ایسا شخص جھوٹا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اختلاف ہوا ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو اس تک خبر نہ پہنچی ہو۔‘‘(اعلام الموقعین صفحہ 39از ابن القیّم الجوزی)
ایک دیوبندی عالم خلیل احمد سہارنپوری صاحب لکھتے ہیں:’’اگر کروڑوں علماء بھی فتویٰ دیویں بمقابلہ نص کے ہرگز قابل اعتبار کے نہیں…جو ایک دو عالم موافق نصوص شرعیہ کے فرمادے اور اس کی تمام دنیا مخالف ہوکر کوئی بات خلاف نصوص اختیار کرے تو وہ ایک دو ہی عالم مظفر منصور اور عنداللہ مقبول ہوویں گے۔‘‘(براہین قاطعہ از خلیل احمد سہارنپوری صفحہ 169)
ایک اور دیوبندی عالم مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ فقہ میں اجماع کا مقام ‘‘میں ابتداءً تو تمام امت مسلمہ کی اجتماعی آراء کو اجماع کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں اور اسے ہر خطا سے پاک قرار دے کر اس کی مخالفت کو ناجائز قرار دیتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ کے تمام فقہاءِ مجتہدین کا کسی حکمِ شرعی پر متفق ہوجانا ’’اجماع‘‘ ہے۔‘‘( صفحہ 9)
’’تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ یا عمل ہر خطا و لغزش سے پاک ہے‘‘(صفحہ 25)
’’معلوم ہوا کہ کسی زمانہ کے فقہاء و عابدین متفقہ طور پر جس چیز کا حکم دیں یا ممانعت کریں، اس کی مخالفت جائز نہیں، کیونکہ ان کا متفقہ فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا۔‘‘(صفحہ26)
لیکن آگے چل کر ’’متبع سنت فقہاء‘‘ یعنی دیوبندی علماء کے اجماع کو ہی حجت قرار دیتے ہیں:’’حاصل کلام یہ کہ جمہور فقہاء نے جو مسلک اختیار کیا ہے کہ اجماع میں عوام، اہلِ بدعت اور فاسق مسلمانوں کا اختلاف یا اتفاق معتبر نہیں، بلکہ صرف متّبع سنّت فقہاء کا اجماع ہی حجت ہے، قرآن و سنّت کی تصریحات سے اسی مسلک کی تائید ہوتی ہے، اور حنفیّہ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے۔‘‘(صفحہ63)
غیراحمدی علماء کے بے شمار تضادات میں سے صرف اسی ایک موضوع پر’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر یہ چند سطریں پیش کی گئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کے مطابق باتوں کو ڈھالتے اور تبدیل کرتے ہیں۔ آخر پہ ایک قابل غور بات عرض ہے کہ اگر غیراحمدی علماء اپنے خودساختہ اجماع کے اصول کی پیروی کرتے تو اُن میں فرقے نہ ہوتے۔
٭…٭…٭