اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ایک احمدیہ مسجد کی مرمت کے دوران مسائل
سلانوالی، ضلع سرگودھا، مئی 2021ء: یہاں احمدیہ مسجد میں مرمت کا کام شروع کیا گیا۔ 24؍اپریل کو جب فرش بنانے کا کام جاری تھا تو سامان تھوڑا پڑ گیا۔ اس وقت کام کی نگرانی کرنے والی ٹیم کے ایک رکن کو ایک سیکیورٹی اہلکار اور پھر ایک میونسپل اہلکار کی طرف سے کام کے حوالے سے فون کال موصول ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد اسسٹنٹ کمشنر آئے اور کارکنوں سے کہا کہ کام بند کر دیں ورنہ ان کی مشین ضبط کر لی جائے گی۔ اس پر کارکن اپنا سامان لے کر چلے گئے۔
اسی دوران ملاؤں کا ایک گروپ موقع پر پہنچا اور اس جگہ پر ہجوم جمع کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے انہیں بتایا کہ پولیس آ گئی ہے اور وہ چلے گئے۔
ڈی ایس پی نے ایک پولیس اہلکار کو بھیجا جس نے موقع پر کام کا معائنہ کیا اور کہا کہ کام جاری رکھا جا سکتا ہے لیکن کوئی نئی تعمیر نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد ایک سیکیورٹی اہلکار آیا، اس نے چند تصویریں لیں، اور احمدیوں کو ہدایت کی کہ وہ کوئی نئی تعمیر نہ کریں۔
اس کے بعد احمدیوں نے ٹھیکیدار کو کام جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ اسے مکمل کرنے کے بعد جب کچھ اَور کام کرنے کو کہا گیا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ کچھ ملاں اس کے گھر آئے اور احمدیوں کے لیے کام کرنے پر انہیں اور ان کے خاندان کو دھمکیاں دیں۔ اس نے ملاؤں سے کہا کہ وہ اسے وعدہ کیا ہوا کام مکمل کرنے دیں جس کے لیے انہوں نے اسے دو دن کا وقت دیا۔
احمدیہ مسجد میں ابھی بہت زیادہ مرمت کا کام ہونا باقی ہے لیکن ان حالات میں یہ کام نہیں ہو سکتا۔
ایک سال جیل میں — ضمانت کی درخواست
لاہور، مئی 2021ء: روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد اور دیگر کے خلاف 26؍مئی 2020ء کو ایف آئی آر نمبر 29/2020, PPCs 295B, 298C, 120B,109, 34 R/W 2016-PECA-11پولیس اسٹیشن ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں درج کی گئی۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں عمر قید ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سائبر کرائمز ڈیپارٹمنٹ لاہور نے جو کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے تحت کام کرتا ہے واپڈا ٹاؤن لاہور میں روحان احمد کے گھر پر چھاپہ مارا اور مبینہ طور پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
دو دیگر افراد حافظ طارق اور ملک عثمان احمد کی عارضی ضمانتوں کی تصدیق نہیں ہوئی تھی اس لیے انہیں بھی 30؍ستمبر 2020ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔
روحان احمد، ملک عثمان احمد اور حافظ طارق شہزاد اس وقت کیمپ جیل لاہور میں قید ہیں۔ تینوں قیدیوں کے مقدمے کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج لاہور رفاقت علی کی عدالت میں جاری ہے۔
8؍مئی 2021ء سماعت کی تاریخ تھی۔ مخالفین نے مقدمے میں دفعہ 295-C کا اضافہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ توہین رسالت کا قانون لاگو ہونا چاہیے کیونکہ ان سے روحانی خزائن برآمد ہوئی تھیں۔ مخالف فریق کی جانب سے چالان کے ساتھ پیش کیے گئے شواہد نامکمل تھے۔ جج نے وکیل دفاع کی طرف سےمطلوبہ ثبوت پیش کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
تینوں قیدیوں کی درخواست ضمانت اب ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ سماعت کی اگلی دی گئی تاریخ 17؍جون 2021ءہے۔
احمدی خاتون کی تدفین سے انکار
سیجکلر، ضلع گوجرانوالہ،12؍اپریل 2021ء: ضلع گوجرانوالہ سیجکلر میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کا مشترکہ قبرستان ہے۔ چھ مہینے پہلے کچھ مقامی غیر احمدی لوگوں نے ایک احمدی طاہر محمود سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی قبر کے ساتھ تھوڑی اور زمین کا اضافہ کر کے اپنے قبرستان کو الگ کر دیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دیوار بنائی اور احمدیہ حصے کو الگ کر دیا۔ اگلے دن شرپسندوں نے دیوار کو تباہ کر دیا اور ایک مولوی نے جمعہ کے خطبہ میں احمدیہ جماعت کی توہین کی۔
12؍اپریل 2021ء کوموصوف کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ مخالفین نے انہیں قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کردیا۔ ان حالات میں ان کی میت کو جنازے کے لیے بھڑی شاہ رحمان لے جایا گیا۔
شہزاد احمد اور ان کے خاندان کی کہانی
عام طور پر ہماری رپورٹوں میں مختصراً ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں ایک احمدی کو اس کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ہم مقتول کا نام، حملے کی تاریخ اور وقت، اس واقعہ کے رونما ہونے کا مقام اور بعض اوقات ان حالات پر چند جملے تحریر کردیتے ہیں جن میں قتل کیا گیا تھا۔ یہ رپورٹس کیس کی تاریخ کی گہرائی میں نہیں جاتیں اور نہ ہی حملے سے پہلے اور بعد میں خاندان کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں۔ لیکن آرکائیوز میں مستقبل کے مؤرخین، اسکالرز اور تحقیق کاروں کو پورے منظر نامے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرنے کے لیے کچھ بیانیہ ہونا چاہیے اور فراہم کرنا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے ہم یہاں ایسے ہی ایک خاندان کی کہانی بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ شاید کوئی، کسی دن، ایسے متاثرہ خاندان پر ایک پوری کتاب لکھے، لیکن یہاں، ہمیں جگہ اور وقت کی رعایت کے باعث ایک بار پھر مختصر ہونا پڑے گا۔ قارئین اپنے طور پر متعلقہ تفصیلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
شہزاد احمد ولد عبدالقادر آف پشاور KPK، پاکستان
35سالہ شہزاد احمد نے سرحد یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی، پشاور سے امتیاز کے ساتھ ایم فل کیا ۔ شروع سے ہی ایک ہونہار طالب علم تھے، انہوں نے اپنے انڈرگریجویٹ، ماسٹرز کے ساتھ ساتھ پوسٹ گریجویٹ ڈگری میں طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔ 2021ء کے آغاز میں وہ سرحد یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ شام کو وہ اپنے فارغ اوقات میں ٹیوشن کے لیےچند گھنٹے وقف کرتے تھے۔ ان کا مستقبل میں ریسرچ ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ تھا۔بظاہر تو ایسا ہی دکھتا تھا کہ شہزاد ایک پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں لیکن دراصل وہ ایسے علاقے میں رہ رہے تھے جہاں اپنے عقیدے کی وجہ سے سب ان سے نفرت کرتے تھے اور اس بات سے وہ کافی خائف رہا کرتے تھے۔
ان کا خاندان 40 سال سے زیادہ عرصے سے پشاور میں مقیم تھا۔ شہزاد سمیت، 4 بھائی اور 5بہنیں اس شہر میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے اور اس شہر سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ تاہم اس شہر کے باسیوںنے ان سے کبھی وفا نہیں کی۔وہ اپنے اسکول کے سالوں میں بھی امتیازی سلوک اور نفرت کا سامنا کرنے کو یاد کرتے ہیں۔ ان پر یا ان کے بہن بھائیوں پر کافر یا غیر مسلم کا لیبل لگنامعمول بن چکا تھا۔1997ء میں ان کے والدعبدالقادر صاحب نے اپنے خاندان کی رہائش کے لیے ایک گھر بنایا۔ عبدالقادر ایک کلینک میں کام کرتےتھے۔2009ء میں وہ کام کے دوران ایک ٹارگٹڈ حملے میں شدید زخمی ہوئے، لیکن معجزانہ طور پر بچ گئے۔اس خاندان نے اپنے گھر کو کرائے پر چڑھایا اور دوسرے قصبے میں چلے گئے۔ شہزاد احمد یاد کرتے ہیں کہ گو وہ وہاں محفوظ محسوس کرتے تھے لیکن پھر بھی خوف تھا کہ کوئی پشاور سے آکر ان پر حملہ نہ کر دے۔9ماہ تک وہ وہاں رہے۔ تاہم، جیسے ہی انہیں لگا کہ معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں، وہ واپس اپنے پیارے شہر پشاور چلے گئے۔
ابتدائی طور پر، انہوں نے پشاور یونیورسٹی کے اندر ایک مکان کرائے پر لیا جہاں انہیں لگا کہ بظاہر یہ زیادہ محفوظ مقام ہے۔ تاہم انہیں نفرت انگیز نظروں سے بچانے کے لیے اپنی احمدی ہونے کی شناخت چھپانی پڑی، لیکن ہر بار کسی نہ کسی کو پتا چل جاتا، جس سے ان کے لیے ایک ہی گھر میں رہنا ناممکن ہو جاتا۔
اس لیےاگلے گیارہ سالوں کے دوران خاندان کو 10 بار مکان تبدیل کرنا پڑا۔ شہزاد احمد یاد کرتے ہیں کہ کس طرح اس کے بہن بھائی مختلف اسکولوں میں پڑھ رہے تھے اور ساتھی طلبہ اور اساتذہ کی طرف سے اسی طرح کی نفرت اور تعصب کا سامنا کر رہے تھے۔گو یہ اپنی شناخت چھپانے کی پوری کوشش کرتے تھے لیکن اس کے باوجود کچھ چھوٹے بہن بھائیوں کو یہ بات سمجھ نہ آتی کہ انہیں کس چیز کی اتنی سخت سزا دی جا رہی تھی۔
اس دوران عبدالقادرکلینک میں کام کرتےرہے جہاں ان پر حملہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ گیٹ پر مسلح گارڈز کھڑے تھے لیکن عبدالقادر کی بیوی اور بچے ان کے تحفظ کے لیے خوفزدہ رہتےتھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مزید پریشان اور خوف زدہ ہوتے گئے۔
سال 2020ء میں پشاور میں احمدیہ مخالف پروپیگنڈے کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے ٹارگٹ حملوں میں بہت سے احمدیوں کو قتل کیا گیا۔ عبدالقادر اور ان کے اہل خانہ نے گھبراہٹ محسوس کی۔ اس کے نتیجے میں خاندان کے کچھ افراد کو پشاور سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ عبدالقادر کلینک میں رہنے لگے۔ شہزاد احمد نے سرحد یونیورسٹی کے قریب ہاسٹل کا ایک کمرہ کرائے پر لیا جہاں وہ پڑھاتے تھے جب کہ ان کا چھوٹا بھائی فرحان احمد شہر کے ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ شدید ظلم و ستم اور مسلسل خوف نے انہیں اپنے خاندان کو الگ کرنے کے اس مشکل فیصلے تک پہنچایا تھا۔ تاہم جو لوگ باہر چلے گئے وہ پیچھے رہنے والوں کے لیے فکر مند رہے۔
پھر وہ خوفناک دن آگیا۔11؍فروری 2021ء کو ایک نوجوان نے عبدالقادرکو ان کے کلینک میں گولی مار دی۔ حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ اہل خانہ صدمے سےدوچار ہوئے۔ شہزاد احمد اپنے مرحوم والد کی میت کو تدفین کے لیے ربوہ لے گئے۔ وہ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اپنے پیارے شہر کو ایک بار پھر الوداع کہہ گئے۔
شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت ان مظالم چشم پوشی کر رہی ہے جس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والوں کو ایک طرح کی حمایت ملتی ہے۔ وہ اور ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خودکو وہ محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ان کی تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور بیرون ملک مقیم ہیں لیکن حالات کی وجہ سے اپنے والد کی آخری رسومات کے لیے پاکستان نہیں آ سکیں۔ ان کی والدہ، ساجدہ بیگم خوف اور صدمے میں زندگی گزار رہی ہیں اور اپنے بچوں کے بارے میں مسلسل فکر مند ہیں اورانہیں اپنی ملازمتوں کو جاری رکھنے کے لیے واپس پشاور جانے کی اجازت نہیں دے ر ہیں۔ شہزاد احمد کہتے ہیں کہ ان کی والدہ خاندان کے ایک اور فرد کو کھونے سے خوفزدہ ہیں۔
خوف نے اس خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عبدالقادر کی وفات سے پہلے ہی ان کے بیٹے احتشام احمد، جو کہ ایک گریجویٹ طالب علم تھے، پشاور میں خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی وجہ سے شدید ڈپریشن میں مبتلا تھے۔ محفوظ رہنے کے لیے رہائش گاہیں تبدیل کرنے اور اپنی شناخت چھپانے سے ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی اور انہیں لاہور کے ایک نفسیاتی علاج کے مرکز میں داخل کرانا پڑا۔ ان کی حفاظت کے لیے، خاندان نے انہیں اپنے والد صاحب کی وفات کے بارے میں نہیں بتایا۔
عبدالقادر کے ایک اَور بیٹے فرحان احمد نے پشاور سے بی بی اے مکمل کیا اور اپنے والد کی المناک شہادت سے قبل ایم بی اے شروع کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ ان کے منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دو چھوٹے بہن بھائی طلحہ احمد اور نور الایمان پشاور میں اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ 15سال کی عمر میں نور الایمان کو اپنے والد کا المناک نقصان برداشت کرنا پڑا اور اگرچہ وہ اپنی والدہ کی خاطر ایک بہادر چہرہ رکھتی ہیں، لیکن وہ خود کو غیر محفوظ اور افسردہ محسوس کرتی ہیں۔ شہزاد خود ایک دور شہر کے ایک اسکول میں پڑھا رہے ہیں اور پاکستان میں کیریئر کی ترقی کے بارے میں محسوس کرتے ہیں کہ راہیں اب ان کے لیے محدود ہیں۔
کلینک جہاں ان کے والد کئی دہائیوں سے کام کر رہے تھے اب بند کر دیا گیا ہے۔ایک اَور احمدی جو وہاں کام کر رہے تھے ان کے گھر پر ایک بڑے ہجوم نے حملہ کیا اور وہ ان کا ’’سر تن سے جدا‘‘ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنا سب کچھ ترک کر کے پاکستان چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
٭…٭…٭