میں اپنے پیاروں کی نسبت
میں اپنے پیاروں کی نسبت
ہرگز نہ کروں گا پسند کبھی
وہ چھوٹے درجہ پہ راضی ہوں
اور اُن کی نگاہ رہے نیچی
وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر
شیروں کی طرح غراتے ہوں
ادنیٰ سا قصور اگر دیکھیں
تو منہ میں کف بھر لاتے ہوں
وہ ادنیٰ ادنیٰ خواہش کو
مقصود بنائے بیٹھے ہوں
شمشیرِ زباں سے گھر بیٹھے
دشمن کو مارے جاتے ہوں
میدانِ عمل کا نام بھی لو
تو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں
گیدڑ کی طرح وہ تاک میں ہوں
شیروں کے شکار پہ جانے کی
اور بیٹھے خوابیں دیکھتے ہوں
وہ ان کا جوٹھا کھانے کی
اے میری الفت کے طالب!
یہ میرے دل کا نقشہ ہے
اب اپنے نفس کو دیکھ لے تُو
وہ ان باتوں میں کیسا ہے
گر تیری ہمت چھوٹی ہے
گر تیرے ارادے مردہ ہیں
گر تیری امنگیں کوتہ ہیں
گر تیرے خیال افسردہ ہیں
کیا تیرے ساتھ لگا کر دل
میں خود بھی کمینہ بن جاؤں
ہوں جنت کا مینار،
مگردوزخ کا زینہ بن جاؤں
ہے خواہش میری الفت کی
تو اپنی نگاہیں اونچی کر
تدبیر کے جالوں میں مت پھنس
کر قبضہ جا کے مقدر پر
میں واحد کا ہوں دل دادہ
اور واحد میرا پیارا ہے
گر تُو بھی واحد بن جائے
تو میری آنکھ کا تارا ہے
تُو ایک ہو ساری دنیا میں
کوئی ساجھی اور شریک نہ ہو
تُو سب دنیا کو دے لیکن
خود تیرے ہاتھ میں بھیک نہ ہو
(اخبار الفضل جلد 17۔ 10؍جنوری 1930ء)