اسلام اور احمدیت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی
(افتتاحی خطاب فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ برموقع جلسہ سالانہ25؍دسمبر1935ء)
تشہد، تعوّذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
سورة فاتحہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ نے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتحہ :2)سے فرمائی ہے یعنی اُس آیت کے بعد جو بطور کنجی ہر سورة کے پہلے خدا تعالیٰ نے نازل کی اور جو بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم ہے، تفصیلی آیات جو اس کے بعد شروع ہوتی ہیں ان میں سے پہلے آیت یہی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی بات بیان فرمائی ہے جو ہماری جماعت کے لئے اپنے اندر بہت بڑا سبق بھی رکھتی ہے اور ہمارے ایمانوں کی تازگی کا بھی موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کے منہ سے کہلاتا ہے کہ مَیں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جو سارے جہانوں کا ربّ ہے۔ اس میں پیشگوئی کی گئی تھی اور کی گئی ہے اور یہ ہمیشہ جاری رہے گی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آواز قرآن کریم کے ذریعہ اُٹھائی گئی ہے، اس سے کوئی قوم، کوئی جماعت اور کوئی ملک محروم نہیں رہے گا۔ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ تمام عالَموں کا ربّ ہے اور جہاں عالَموں سے مراد تمام مخلوق ہے، وہاں تمام انسانی قومیں بھی اس میں شامل ہیں۔ دنیا میں سوائے اسلام کے اور کوئی ایسا مذہب نہیں جس کی طرف سے یہ پیشگوئی کی گئی ہو کہ تمام اقوامِ عالَم اسے قبول کر لیں گی۔ بےشک عیسائیوں نے ساری دنیا میں تبلیغ کی مگر ان کے مذہب میں یہ پیشگوئی نہیں کہ تمام قومیں عیسائیت میں جمع ہوجائیں گی۔ انہوں نے خود بخود اجتہاد کر کے اور اپنے نبی کی تعلیم کے خلاف چل کر بنی اسرائیل کے سوا دوسری قوموں میں تبلیغ کی لیکن اسلام نہ صرف یہ کہتا ہے کہ یہ تمام بنی آدم اور ساری دنیا کی طرف خدا کا پیغام ہے بلکہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ دنیاکے ہر گوشہ اور ہر ملک میں اس کو قبول کرنے والے پیدا ہوں گے۔
پس اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ میں نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ اِذن دیا گیا ہے کہ ساری دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاؤ بلکہ اس میں یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے گا اور اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائے گا۔
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظلّ اور خلیفہ ہیں اس لئے آپ کو بھی ابتدائی ایام میں اسی قسم کی وحی کی گئی کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘(تذکرہ صفحہ 312۔ ایڈیشن چہارم)یعنی دنیا کا کوئی گوشہ، کوئی ملک اور کوئی طرف ایسی نہ رہے گی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا نام نہ پہنچے گا اور جہاں کے لوگ آپ کو قبول نہ کریں گے۔
مَیں نے اسی پیشگوئی کے یاد آنے پر اِس وقت اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ چار دفعہ کہاتا کہ یہ دنیا کی چاروں اطراف کے لوگوں کے متعلق ہو۔ تمام اقوام سے کوئی بات منوانا یا کسی ایک قوم سے کوئی بات منوانا بہت بڑا فرق رکھتا ہے۔ بعض دفعہ دشمن اپنی توجہ کسی خاص مرکز پر مرکوز کر دیتا ہے اور جب کامیابی حاصل ہوجاتی ہے تو کہہ دیتا ہے میں نے تو اِدھر توجہ ہی نہ کی تھی، میری توجہ تو فلاں طرف تھی اور اسے میں نے محفوظ رکھا۔ اس طرح وہ اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم چاروں طرف کے لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھیر دیں گے۔ یعنی ہر طرف کے لوگوں کو کھینچ کر اس کے پاس لائیں گے۔ اب جو میں یہاں کھڑا ہوا اور ان احباب کو دیکھا جو اِس وقت یہاں جمع ہیں تو میں نے اپنی ذہنی نظر سے محسوس کیا کہ کوئی مشرق سے آیا ہے اور کوئی مغرب سے، کوئی شمال سے آیا ہے اور کوئی جنوب سے، پھر کوئی کسی قوم میں سے ہے کوئی کسی مذہب سے۔ اِس وقت جواحباب یہاں موجود ہیں بعض ان میں ایسے ہیں جو سکھوں میں سے آئے، بعض ایسے ہیں جو ہندوؤں میں سے آئے ہیں، بعض ایسے ہیں جو عیسائیوں میں سے آئے، بعض ایسے ہیں جو مسلمانوں میں سے آئے۔ پھر ان میں سے بعض سنّیوں میں سے آئے، بعض وہابیوں میں سے آئے، بعض چکڑالویوں میں سے آئے، بعض شیعوں میں سےآئے۔ غرض کوئی مذہب کوئی قوم اور کوئی فرقہ ایسا نہیں جو ہمارے مقابل پر آیاہو اور اس میں سے ہم نے کچھ نہ کچھ آدمی نہ لئے ہوں۔ آئندہ کے متعلق کہتے ہیں’’ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات‘‘ اسی سے قیاس کیا جاسکتا ہے۔ غرض جس قوم کا بھی ہمارے ساتھ مقابلہ ہوا، اسے کوئی نہ کوئی شکار احمدیت کے لئے قربان کرنا پڑا۔ آج حنفی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے احمدیت کے حملہ سے محفوظ ہیں۔ اسی طرح آج اہلحدیث نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی جماعت کو احمدیوں کے حملہ سے محفوظ کر لیا ہے۔ آج شیعہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اہل بیت کی محبت سے شیعوں کو ایسا مخمور کر دیا ہے کہ وہ احمدیت کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہندو، سکھ اور عیسائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ احمدیت ان میں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ ہر ملّت ، ہر فرقہ، ہر دین اور ہر مذہب کے لوگ احمدیت کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں اور خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر رہا ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔
یہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ایسا ہی نشان جیسا کہ مٹھائی والا اپنی مٹھائی کا نمونہ چکھاتا ہے جس سے اُس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ یہ اچھی چیز ہے اسے حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے رحم اور کرم سے ہر قوم، ہر مذہب اور ہر ملک کے کچھ کچھ لوگ ہمیں دیئے جس سے ظاہر ہے کہ احمدیت کے مقابلہ کی دنیا میں کسی کو تاب نہیں۔ احمدیت جس قوم پر بھی حملہ آور ہوتی ہے، وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ اپنے قلعوں کی کُنجیاں اِس کے حوالے کر دے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ہماری محنتیں اور ہماری کوششیں ہرگز ضائع نہ ہوں گی۔ اگر ہم صحیح طور پر کوشش کریں اور صحیح رنگ میں اسلام کی تبلیغ میں لگ جائیں تو پھر ہر قوم ہمارا شکار ہے اور ہر قلب کی کھڑکیاں ہمارے لئے کھلی ہوئی ہیں۔ پس ہماری ذمہ داری نہایت عظیم الشان ہے۔ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے نشانوں سے ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں اس کام پر لگایا ہے کہ روٹھی ہوئی مخلوق کو منا کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر لے آئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ ایسا جنگل ہو جس میں پیدل چل کر نکلنے کو کوئی راستہ نہ ہو، جہاں پانی نہ ہو، کھانے کا کوئی سامان نہ ہو وہاں ایک ایسا شخص ہو جس کا اونٹ گم ہوگیا ہو وہ اسے چاروں طرف تلاش کرتا پھرے لیکن آخر مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ اب سواری نہیں مل سکتی اور اب میں یہاں ہی ہلاک ہوجاؤں گا، اُس وقت وہ دیکھے کہ سامنے اُس کا اونٹ کھڑا ہے تو بتاؤ وہ کتنا خوش ہوگا۔ صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہ! وہ بے انتہا خوش ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا شخص اونٹ کو پاکر جس قدر خوش ہوتا ہے خدا تعالیٰ اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے جب اس کا کوئی بھولا بھٹکا بندہ اس کے پاس آتا ہے۔(بخاری کتاب الدعوات باب التوبة)
قیاس کرو تم کسی جگہ کسی کا گُمشدہ بچہ پاؤ اُسے اُٹھا کر لے آؤ۔ اس کے گھر کے پاس پہنچو تو دیکھو کہ اس کی بے تاب ماں بال بکھیرے ہوئے اور کپڑے پھاڑے ہوئے دیوانہ وار اپنا سر دیوار سے ٹکرا ٹکرا کر اس لئے ہلاک ہونا چاہتی ہے کہ اس کا اکلوتا بچہ گُم ہوگیا ہے۔ اُس وقت تم اس کا بچہ اس کی گود میں دے دو تو اس عورت کو جو خوشی ہوگی وہ تو ہوگی ہی خیال کرو، تمہارا قلب کس قدر اس لئے خوشی سے بھر جائے گا کہ تم نے اس گھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچو کہ دنیا کے کروڑوں گمراہ انسان ایسے ہی ہیں جیسے ماں سے کھوئے ہوئے بچے۔ ان کو اگر لا کر خدا تعالیٰ کے پاس حاضر کر دو تو اُس وقت خدا تعالیٰ کو جو خوشی ہوگی ، اس کا تو ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے لیکن اُس وقت ہمارے دل بھی اسی خوشی سے لبریز ہوجائیں گے کہ اس کا مقابلہ کوئی اور خوشی نہیں کر سکتی۔ ہمارا ربّ، رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے، ہمارا ایک ایک ذرہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے، مگر آج اسی کے فضل سے ہمیں ایسا مقام حاصل ہے جس پر ہم جتنا بھی شکر کریں تھوڑا ہے کیونکہ آج ہمیں وہ پوزیشن حاصل ہے کہ ہمارے مالک و خالق خدا کی مثال اُس عورت کی سی ہے جس کا بچہ کھویا گیا یا اُس شخص کی سی ہے جس کا اونٹ گم ہوگیا مگر ہماری مثال اُس شخص کی ہے جو گُم شدہ بچہ واپس لا کر دیتا ہے یا گُمشدہ اونٹ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو خود ہدایت دے سکتا ہے جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو تمام کو ہدایت دے دیں مگر وہ اپنے بندوں کو بھی اس خوشی میں شامل کر نا چاہتا ہے اور آج اس خوشی میں شامل ہونے کا موقع تیرہ سَو سال کے بعد اس نے ہم کو دیا ہے۔ یہ کتنا بڑا فضل اور رحم ہے کہ وہ کام جس سے صدیاں خالی چلی گئیں بغیر ہمارے کسی کمال یا بغیر ہماری کسی کوشش یا بغیر ہماری کسی قربانی کے اُس نے ہمارے سپرد کر دیا۔ مبارک ہیں وہ مائیں جنہوں نے صحابہ پیدا کئے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر نکل کھڑے ہوئے تاکہ خدا تعالیٰ کے بھُولے بھٹکے بندوں کو لائیں اور خدا تعالیٰ سے ملائیں۔ اسی طرح مبارک ہیں وہ مائیں جنہوں نے وہ بچے پیدا کئے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور جن کے سپرد وہی کام ہوا جو صحابہ کرام نے کیا تھا۔ اس کام کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ہماری کوششوں کی کمزوری دیکھتے ہوئے کوئی شخص ان نتائج کو ذہن میں نہیں لاسکتا جو ہمارے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور آج ہمارے کام کو اس لئے حقیر سمجھا جاتا ہے کہ دنیا کے نزدیک اس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ آج کون مان سکتا ہے کہ یورپ دہریت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جُھک جائے گا، کون مان سکتا ہے کہ مشرقِ بعید مادہ پرستی سے نکل کر ایک خدا کی پرستش کرنے لگ جائے گا۔ لیکن جب یہ ہوجائے گا تو دنیا اس کی عظمت کو قبول کر لے گی۔ مگر اُس وقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ کام کیا بلکہ یہ کہیں گے کہ احمدیوں کی کیا بات ہے ، وہ تو کوئی عجیب مخلوق تھی۔ جیسا کہ صحابہ کرام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی کیا بات ہے، ان کا کون مقابلہ کر سکتا تھا؟ غرض اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ عظیم الشان فضل کیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کی قدر کرے۔ آج چاروں طرف سے ابراہیمی پرندے یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ ابراہیم کے ہاتھ آکر دانہ چُگیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عقیدت کی نذر پیش کریں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس حقیر نذر کو قبول فرمائے، ہمارے اس اجتماع کو بابرکت بنائے، ہماری نیتوں اور ارادوں میں برکت ڈالے، ہماری کمزوریوں کو دور کر کے ہمیں طاقت بخشے، ہماری خامیوں کو دور کر کے ہمیں قدّوسیت عطا کرے، ہماری بے علمی اور جہالت کو دور کر کے اور ہماری غفلتوں کو معاف کر کے ہمیں اپنے عرفان کا جام پلائے، اپنے فضل اور رحم سے ہماری کوششوں میں اپنی برکت ڈالے، ہمارے اندر سے عُجب ، کِبر، رعونت اور اَنانیت نکال دے، ہماری سُستیاں دُور کر دے، ہمارے اندر ایسی آگ لگا دے جو تمام دوسرے تعلقات کو جلا دے اور سِوائے خدا تعالیٰ کے اور کچھ باقی نہ رہے۔ ہم اُس کے آئینے بن جائیں تا دنیا خدا تعالیٰ کا نور ہم میں سے دیکھے۔ ہم اُس کی قدرت کا ہاتھ بن جائیں تاہم دنیا کی قسمتوں کو بدل دیں۔ نیکی ، عرفان اور اسلام کے لئے دنیا میں تغیر پیدا کر دیں۔ دنیا ہمیں کمزور سمجھتی ہے لیکن ہم اس سے بھی زیادہ کمزور ہیں جتنے کہ دنیاکی نظر میں سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے کمزور وجود ایک نہایت ہی طاقتور ہستی کے قبضہ میں ہیں اور ہماری نگاہیں اسی کی طرف ہیں۔ ہم اپنی طرف نگاہ نہیں کرتے کیونکہ ہم اس سے شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ مور کے پاؤں بدصورت ہوتے ہیں لیکن اس کے اوپر کا دھڑ خوبصورت ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جب ناچتے ناچتے اس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑتی ہے تو وہ شرمندہ ہوکر ناچنا بند کر دیتاہے یہی حالت ہماری ہے ہمارا اوپر نہایت خوبصورت ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن نچلا دھڑ بدصورت ہے کیونکہ اس کا تعلق ہم سے ہے۔ اس لئےمیں دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اوپر کا حصہ خوبصورت ہے، اسی طرح نچلا حصہ بھی خوبصورت ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم دنیا کے چاروں اطراف میں اسلام پھیلائیں اور نہ صرف اسلام پھیلائیں بلکہ دنیا کے لئے نیک نمونہ ہوں۔ جس طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان پر اس کی تقدیس کرتے ہیں، اے خدا! میں درخواست کرتا ہوں کہ زمین پر بھی تیری تقدیس ہو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ دوست بھی اس میں شریک ہوجائیں کہ خدا تعالیٰ اس جلسہ کو زیادہ سے زیادہ بابرکت بنائے۔ یہ آخری جلسہ ہے جو رمضان میں ہورہا ہے۔ آج کل رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور رمضان کا آخری عشرہ ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی خاص برکات کا نزول ہوتا ہے ۔ اِن بابرکت ایام میں ایک کمزور اور دنیا کی نگاہ میں حقیر جماعت اس لئے جمع ہوئی ہے کہ یوسف کے خریدار کی طرح اپنے ربّ کو خریدنے کی کوشش کرے۔ بے شک یہ بہت بڑا دعویٰ ہے مگر جس کے آگے ہم ہاتھ پسار رہے ہیں وہ بھی بہت بڑا ہے پس اس مبارک موقع سے احباب خصوصیت سے فائدہ اُٹھائیں۔ اپنے اندر عزمِ مصمم پیدا کریں، نہ بدلنے والا ارادہ کریں، نہ بُجھنے والی آگ لگائیں اور یہ برکات جو ایک موقع پر جمع ہوگئی ہیں یعنی رمضان کا مہینہ ہے، رمضان کا آخری عشرہ ہے اور وہ مبارک ایام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی برکات حاصل کرنے کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔ اِن سے فائدہ اُٹھائیں۔ پھر اس جلسہ کے ساتھ ہی عید آگئی ہے ہم دعا کریں کہ جس طرح جسمانی عالَم میں اس جلسہ کے معاً بعد ہمارے لئے عید مہیا کر دی گئی ہے، اسی طرح روحانی عالَم میں بھی ہمارے لئے عید کا وقت پیدا کیا جائے۔ پس آؤ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اُس سے ان چیزوں کی امید رکھیں جن کی اور کسی سے امید نہیں رکھی جاسکتی اور اس سے وہ کچھ مانگیں جس کے مانگنے سے بھی دل کانپتا ہے کیونکہ ہم کمزور ہیں مگر ہمارا خدا بندوں پر فضل کرنے والا اور برکتوں والا ہے، وہ ہماری ضرور سُنے گا اور ہمیں کامیاب کرے گا۔(الفضل27؍دسمبر1935ء)(اسلام اور احمدیت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی، انوار العلوم جلد14 صفحہ89تا 96)
٭…٭…٭