واقفین نو کی تربیت کس رنگ میں کی جائے؟
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ جون 2003ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: …آج اس مسیح موعود کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفۂ وقت کی تحریک پر انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعود کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ’جیسے حضرت مریم کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ کہ اے میرے رب جوکچھ بھی میرے پیٹ میں ہے مَیں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے۔ لڑکی ہے کہ لڑکاہے۔ اچھا ہے یا براہے۔ مگر جو کچھ ہے مَیں تمہیں دے رہی ہوں۔ فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ مجھ سے قبول فرما۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ تُوبہت ہی سننے والا اور جاننے والاہے …یہ دعا خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق، یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ ہیں …۔
اور اس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کاعمل، خوبصورت عمل، جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں۔ جہاد میں حصہ لے رہے ہیں لیکن علمی اور قلمی جہاد میں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہو کر۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں۔ جس طرح دکھاوے کی نمازوں میں ہلاکت ہے اسی طرح اس دکھاوے کے جہاد میں بھی سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن جن ماؤں اور جن باپوں نے قربانی سے سرشار ہو کر، اس جذبہ سے سرشار ہوکر، اپنے بچوں کو خدمت اسلام کے لئے پیش کیا ہے ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ بھی اگر توجہ نہ دلائی جائے تو بعض دفعہ والدین اپنی ذمہ داریوں کوبھول جاتے ہیں اس لئے گو کہ شعبہ وَقفِ نَو توجہ دلاتا رہتاہے لیکن پھر بھی مَیں نے محسوس کیا کہ کچھ اس بارہ میں عرض کیا جائے۔ اس ضمن میں ایک اہم بات جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں مَیں پیش کرتاہوں۔ فرمایا: ’’اگر ہم ان واقفین نو کی پرورش اور تربیت سے غافل رہے تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے۔ اور پھر ہرگز یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اتفاقاً یہ واقعات ہو گئے ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور اگر خدا نخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وقف کا اہل نہیں ہے تو ان کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ مَیں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بدقسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کے لینے کے لئے تیار ہے تو مَیں حاضر ہوں ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ 10؍فروری 1989ء)
والدین نے تو اپنے بچوں کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ جماعت نے ان کی صحیح تربیت اور اٹھان کے لئے پروگرام بھی بنائے ہیں لیکن بچہ نظام جماعت کی تربیت میں تو ہفتہ میں چند گھنٹے ہی رہتاہے۔ ان چند گھنٹوں میں اس کی تربیت کا حق ادا تو نہیں ہو سکتا اس لئے یہ بہرحال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تربیت پر توجہ دیں۔ اور اس کے ساتھ پیدائش سے پہلے جس خلوص اور دعا کے ساتھ بچے کو پیش کیا تھا اس دعا کا سلسلہ مستقلاً جاری رکھیں یہاں تک کہ بچہ ایک مفید وجود بن کر نظام جماعت میں سمویا جائے۔ بلکہ اس کے بعد بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ بگڑتے پتہ نہیں لگتا اس لئے ہمیشہ انجام بخیر کی اور اس وقف کو آخر تک نبھانے کی طرف والدین کو بھی دعا کرتے رہنا چاہئے۔
چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب مَیں آگے واقفین نوبچوں کی تربیت کے لئے جووالدین کو کرنا چاہئے اور یہ ضروری ہے پیش کرتاہوں۔
اس میں سب سے اہم بات وفا کا معا ملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی، قربانی نہیں کہلا سکتی۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے الفاظ میں چند باتیں کہوں گا۔ آپ نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:
’’واقفین بچوں کو وفا سکھائیں۔ وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا، وہ الگ ہوتاہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پرغداری کا داغ لگا لیتاہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے۔ اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا، یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیا ء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا احتما ل ہے۔ جتنی بلندی ہو، اتنی ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی بڑھ جایا کرتاہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کا سبق دیں اور باربار دیں۔ اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں۔ بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کوہلاک کر دیتی ہے۔ اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔ واقفین بچوں کہ یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیاہے لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ(Gate) اور بھی آئے گا۔ جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے، اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے؟۔ وقف وہی ہے جس پرآدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتاہے۔ ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتاہے، واپس نہیں مڑا کرتا‘‘۔ (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 10؍فروری 1989ء )
اس کے علاوہ ایک اور اہم بات اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں۔ کیونکہ جس دین میں عباد ت نہیں وہ دین نہیں۔ اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہئے اور اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے۔ اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے۔ نہیں توصرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پرکوئی اثر نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ: ’’بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے، اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی۔ ا س کا طریقہ آنحضرتﷺ نے یہ سمجھایاہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اور پیار سے ایسا کریں۔ کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں، کوئی مارنے کی ضرورت نہیں، محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ، اس کو عادت پڑ جاتی ہے۔ دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں …‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ: ہر وقف زندگی بچہ جو وقف نومیں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے۔ اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ سے ملنی چا ہئے۔ جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے، اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ واقفین نوبچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضرور ی ہے۔ اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو ا پنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔ اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنا نا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طورپر، مذاق کے طورپر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہرحال آپ نے پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول، سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں۔