خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم جولائی 2022ء

اللہ نے تمہارے لیے شیاطین کے گروہوں کو جمع کر دیا ہے اور جنگ کو سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ وہ پہلے خشکی میں تمہیں اپنے نشانات دکھا چکا ہے تا کہ ان نشانات کے ذریعہ سمندر میں بھی تم سبق سیکھو۔ اپنے دشمن کی طرف چلو۔ سمندر کو چیرتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کرو کیونکہ اللہ نے انہیں تمہارے لیے اکٹھا کیا ہے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دور میں باغی مرتدین کے خلاف ہونے والی مہمات کا تذکرہ

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دَورخلافت میں باغیوں اور مرتدین کے خلاف ہونے والی نویں اور دسویں مہم کا تفصیلی تذکرہ

حضرت مصلح موعود ؓ کی تفسیر کی روشنی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سمندر پھٹنے کے معجزہ کے بارہ میں تفصیلی بیان

بحرین اور یمن کےعلاقوں میں مسلمانوں کے لشکروں کی باغیوں اور مرتدین کے خلاف حاصل ہونے والی شاندار فتوحات کا ذکر

مکرم Dickoزکریا صاحب شہیداورمکرم Dickoموسیٰ صاحب شہید آف برکینا فاسو،مکرم محمد یوسف بلوچ صاحب آف بستی صادق پور (عمر کوٹ)، عزیزہ مبارزہ فاروق (واقفۂ نَو) ربوہ اور مکرم آنزومانا واترا(Aanzumana Ouattara)صاحب(معلم سلسلہ آئیوری کوسٹ) کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم جولائی 2022ء بمطابق یکم وفا 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں مرتدین اور باغیوں کے خلاف مہمات کا ذکر

ہو رہا تھا، اس سلسلہ میں

نویں مہم

کا ذکر تھا جو بحرین کی تھی۔ اس ضمن میں مزید تفصیل یوں بیان کی جاتی ہے جو

حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کی حُطم پر فوج کشی

کے بارے میں ہے۔ لکھا ہے کہ حضرت عَلَاء ؓنے حضرت جَارُودؓ کو حکم بھیجا کہ تم قبیلہ عبدالقیس کو لے کر حُطَم کے مقابلے کے لیے ھَجَر سے ملحق علاقے میں جا کر پڑاؤ کرو اور حضرت عَلَاء ؓاپنی فوج کے ساتھ حُطَم کے مقابلے پر اس علاقے میں آئے۔ اہلِ دَارِیْن کے علاوہ تمام مشرکین حُطَم کے پاس جمع ہو گئے۔ اس طرح تمام مسلمان حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کے پاس جمع ہو گئے۔ دونوں نے اپنے اپنے آگے خندق کھود لی۔ وہ روزانہ اپنی خندق عبور کر کے دشمن پر حملہ کرتے اور لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے۔ ایک مہینے تک جنگ کی یہی کیفیت رہی۔ اسی اثنا میں ایک رات مسلمانوں کو دشمن کے پڑاؤ سے زبردست شور و غوغا سنائی دیا۔ حضرت عَلَاء ؓنے کہا کوئی ہے جو دشمن کی اصل حالت کی خبر لائے؟ حضرت عبداللہ بن حَذَفؓ نے کہا مَیں اس کام کے لیے جاتا ہوں اور انہوں نے واپس آ کر یہ اطلاع دی کہ ہمارا حریف نشہ میں مدہوش ہے اور نشہ میں دھت واہی تباہی بک رہا ہے۔ یہ سارا شور اس کا ہے۔

جب یہ سنا تو مسلمانوں نے فوراً دشمن پر حملہ کر دیا اور اس کے پڑاؤ میں گھس کر ان کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارنا شروع کیا۔ وہ اپنی خندق کی طرف بھاگ گئے۔ کئی اس میں گر کر ہلاک ہوگئے، کئی بچ گئے۔ کئی خوفزدہ ہو گئے۔ بعض قتل کر دیے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔ مسلمانوں نے ان کے پڑاؤ کی ہر چیز پر قبضہ کر لیا۔ جو شخص بچ کر بھاگ سکا وہ صرف اس چیز کو لے جا سکا جو اس کے جسم پر تھی۔ البتہ اَبْجَرْ جان بچا کر بھاگ گیا۔ حُطَم کی خوف و دہشت سے یہ کیفیت تھی کہ گویا اس کے جسم میں جان ہی نہیں۔ وہ اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جبکہ مسلمان مشرکین کے وسط میں آ چکے تھے۔ اپنی بدحواسی میں حُطَم خود مسلمانوں میں سے فرار ہو کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے جانے لگا۔ جیسے ہی اس نے رکاب میں پاؤں رکھا رکاب ٹوٹ گئی۔ حضرت قَیس بن عاصمؓ نے اس کو واصل جہنم کیا۔ مشرکین کی قیام گاہ کی ہر چیز پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمان ان کی خندق سے نکل کر ان کے تعاقب میں چلے۔ حضرت قَیس بن عاصمؓ اَبْجَرْ کے قریب پہنچ گئے مگر اَبْجَرْ کا گھوڑا حضرت قَیسؓ کے گھوڑے سے زیادہ طاقتور تھا۔ ان کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ کہیں میری گرفت سے نکل نہ جائے۔ انہوں نے اَبْجَرْ کے گھوڑے کی پیٹھ پر نیزہ مارا جس سے گھوڑا زخمی ہو گیا۔ بہرحال لکھا ہے کہ اَبْجَرْ بھاگ گیا، ان کے قابو نہیں آیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت قَیس بن عاصِمؓ نے اَبْجَرْ کے سر پر ضرب لگائی جو اس کے خَود کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد حضرت قَیسؓ نے دوبارہ ایسا وار کیا کہ وہ لہولہان ہو گیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ288-289مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 227 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

(کتاب الردۃ للواقدی صفحہ 163، دارالغرب الاسلامی 1990ء)

صبح کو حضرت عَلَاء ؓنے مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا اور ایسے لوگوں کو جنہوں نے خاص طور سے جنگ میں بہادری دکھائی تھی مرنے والے سرداروں کے قیمتی کپڑے بھی دیے۔ ان میں حضرت عَفِیف بن مُنْذِر ؓ،حضرت قَیس بن عاصمؓ اور حضرت ثُمَامَہ بن اُثَالؓ کو کپڑے دیے گئے ۔ حضرت ثُمَامَہؓ کو جو کپڑے دیے گئے ان میں حُطَم کا ایک سیاہ رنگ کا قیمتی منقش چوغہ تھا جس کو پہن کر وہ بڑے فخر و غرور سے چلا کرتا تھا۔

(طبری جلد 2صفحہ289 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

اس مہم کی کامیابی کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ کو دی گئی ۔ حضرت عَلَاء ؓنے اپنے ایک خط میں حضرت ابوبکرؓ کو خندق والوں کی شکست اور حُطَم کے قتل کی اطلاع دی جس کو زید اور معمر نے قتل کیا تھا اور اس میں لکھا کہ اَمَّابَعْد! اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے دشمن کی عقلوں کو سلب کر لیا۔ ان کی قوتوں کو اس شراب کے ذریعہ جس کو انہوں نے دن کے وقت پیا تھا ختم کر دیا۔ ہم خندق عبور کر کے ان میں گھس گئے۔ ہم نے انہیں مدہوش پایا۔ سوائے چند ایک کے باقی سب کو ہم نے قتل کر دیا۔ اللہ نے حُطَم کا کام بھی تمام کر دیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ290-291مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

ھَجَر اور اس کے مضافات پر حضرت عَلَاء ؓکا قبضہ ہو گیا لیکن بہت سے مقامی فارسی نئی حکومت کے مخالف رہے۔

وہ اکثر یہ خبر پھیلا کر لوگوں میں ہراس پیدا کرتے کہ بس کوئی دم جاتا ہے کہ ھَجَر میں حکومتِ مدینہ کی بساط الٹ جائے گی۔مَفْرُوْق شَیْبَانِی اپنی قوم تَغْلِبْ اور نَمِرْ کی فوجیں لیے چلا آ رہا ہے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ باتیں معلوم ہوئیں تو انہوں نے حضرت عَلَاء ؓکو لکھا کہ اگر تحقیق سے یہ معلوم ہو جائے کہ بنو شَیبان بن ثَعلَبہ جس کا لیڈر مفروق تھا تم پر حملہ کرنے والے ہیں اور شر پسند عناصر یہ خبر مشہور کر رہے ہیں تو ان کی سرکوبی کے لیے فوج روانہ کرنا اور ان لوگوں کو روند ڈالنا اور ان کے عقب والے قبائل کو ایسا خوفزدہ کرنا کہ انہیں کبھی سر اٹھانے کا حوصلہ نہ ہو۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ 49 ادارہ اسلامیات لاہور)

(تاریخ الطبری جلد 2صفحہ 291 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

مرتدین دَارِیْن میں جمع ہو گئے۔

اس کے بارے میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ دَارِیْن کی جنگ کو حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں بیان کیا جاتا ہے لیکن بعض مؤرخین دَارِیْن کی جنگ کو حضرت عمرؓ کے دور میں لکھتے ہیں۔ بہرحال مرتدین کا اجتماع یہاں ہوا۔

(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 285 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(فتوح البلدان صفحہ117 مؤسسۃ المعاف بیروت1987ء)

دَارِیْن

خلیج فارس کا ایک جزیرہ تھا جو بحرین کے بالمقابل چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں پہلے سے عیسائی خاندان آباد تھے۔ حضرت عَلَاء ؓسے شکست کھانے کے بعد بچ جانے والے شکست خوردہ باغیوں کا ایک بڑا حصہ کشتیوں میں بیٹھ کر دَارِیْن چلا گیا اور دوسرے لوگ اپنے اپنے قبائل کے علاقوں میں پلٹ گئے۔ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ نے قبیلہ بَکر بن وَائِل کے اُن لوگوں کو جو اسلام پر قائم تھے لکھا کہ ان کا مقابلہ کریں۔ نیز حضرت عُتَیْبَہ بن نَھَّاسؓ اور حضرت عَامِر بن عبدُالْاَسْوَدؓ کو حکم بھیجا کہ تم وہیں پر رہو جہاں پر تم ہو اور ہر راستے پر مرتدین کے مقابلے کے لیے پہرے بٹھا دو۔ نیز انہوں نے حضرت مِسْمَعؓ کو حکم دیا کہ وہ خود بڑھ کر مرتدین کا مقابلہ کریں اور انہوں نے حضرت خَصْفَہ تَیْمِیؓ اور حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہ شَیْبَانِیؓکو حکم دیا کہ وہ بھی ان مرتدین کا مقابلہ کریں۔ بحرین میں فتنۂ ارتداد کی آگ بجھانے میں مثنّٰی بن حارثہ نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی فوج کے ساتھ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کا ساتھ دیا اور بحرین سے شمال کی طرف روانہ ہوئے۔ انہوں نے قَطِیف اور ھَجَر پر قبضہ کیا۔ اپنے اس مشن میں لگے رہے یہاں تک کہ فارسی فوج اور ان کے عُمّال پر غالب آئے جنہوں نے بحرین کے مرتدین کی مدد کی تھی۔ مرتدین سے قتال کے لیے ان علاقوں میں جو اسلام پر ثابت قدم رہے تھے انہیں لے کر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ساحل کے ساتھ شمال کی طرف بڑھتے رہے اور جس وقت حضرت ابوبکرؓ نے حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہ شَیْبَانِیؓ کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت قَیس بن عاصمؓ نے کہا کہ یہ کوئی غیر معروف، مجہول النسب اور غیر شریف انسان نہیں۔ وہ تو مُثَنّٰی بن حَارِثَہ شَیْبَانِی ہیں۔ چنانچہ حضرت مُثَنّٰی بن حَارِثَہ شَیْبَانِیؓ مرتدین کے روکنے کے لیے راستوں کے ناکوں پر کھڑے ہوئے اور مرتدین میں سے بعض نے توبہ کی اور اسلام لے آئے جسے تسلیم کیا گیا۔ اور بعض نے توبہ کرنے سے انکار کر دیا اور ارتداد پر اصرار کیا۔ ان کو ان کے علاقے میں جانے سے روک دیا گیا۔ اس لیے وہ پھر اسی رستے پر پلٹے جہاں سے وہ آئے تھے یہاں تک کہ وہ بھی کشتیوں کے ذریعہ دَارِیْن پہنچ گئے۔ اس طرح اللہ نے ان سب کو ایک جگہ جمع کر دیا۔ حضرت عَلَاء ؓابھی تک مشرکین کے لشکر میں ہی مقیم تھے کہ ان کے پاس بَکر بن وَائِل،جن کو انہوں نے خط لکھے تھے، کے خطوط کے جواب موصول ہو گئے اور ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ لوگ اللہ کے حکم پر عمل کریں گے اور اس کے دین کی حمایت کریں گے۔ جب حضرت عَلَاء ؓکو ان لوگوں کے بارے میں حسبِ مراد خبر مل گئی یعنی کہ وہ مسلمان ہیں اور بغاوت نہیں کر رہے اور لڑائی نہیں کریں گے اور ان کو یقین ہو گیا کہ ان کے جانے کے بعد پیچھے اہلِ بحرین میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا تو انہوں نے کہا کہ اب تمام مسلمانوں کو دَارِیْن کی طرف چلنا چاہیے اور ان کو دَارِیْن پر پیش قدمی کی دعوت دی۔

یہ واقعہ جس کی تفصیل آگے آئے گی، اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کہ کس طرح انہوں نے سمندر کو عبور کیا۔ اس کے بیان میں ہو سکتا ہے کچھ حد تک صداقت بھی ہو اور کچھ مبالغہ سے بھی کام لیا گیا ہو۔ بہرحال اگر اس میں کچھ صداقت ہے تو اس کی وضاحت کیا ہے؟ اس کی وضاحت آخر میں بیان کر دوں گا۔ بہرحال بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس کشتیاں وغیرہ نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ جزیرے تک پہنچتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو جمع کر کے ان کے سامنے تقریر کی جس میں کہا کہ

اللہ نے تمہارے لیے شیاطین کے گروہوں کو جمع کر دیا ہے اور جنگ کو سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ وہ پہلے خشکی میں تمہیں اپنے نشانات دکھا چکا ہے تا کہ ان نشانات کے ذریعہ سمندر میں بھی تم سبق سیکھو۔ اپنے دشمن کی طرف چلو۔ سمندر کو چیرتے ہوئے اس کی طرف پیش قدمی کرو کیونکہ اللہ نے انہیں تمہارے لیے اکٹھا کیا ہے۔

ان سب نے جواب دیا کہ بخدا! ہم ایسا ہی کریں گے اور وادیٔ دَھْنَا کا معجزہ دیکھنے کے بعد ہم جب تک زندہ ہیں ان لوگوں سے نہیں ڈریں گے۔ طبری میں یہ روایت لکھی ہوئی ہے۔ وہ معجزہ پہلے بیان ہوچکا ہے جس میں مسلمانوں کے بھاگے ہوئے اونٹ بھی واپس آ گئے تھے اور پانی کا چشمہ بھی جاری ہوا تھا۔ اس کے بارے میں انہوں نے حوالہ دیا کہ وہ معجزہ ہم دیکھ چکے ہیں تو سمندر کے پانی پہ بھی ہم چلنے کا معجزہ دیکھ لیں گے۔ حضرت عَلَاءؓاور تمام مسلمان اس مقام سے چل کر سمندر کے کنارے آئے۔ حضرت عَلَاء ؓاور آپؓ کے ساتھی خدا کے حضور یہ دعا کر رہے تھے کہ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَا کَرِیْمُ یَا حَلِیْمُ یَا اَحَدُ یَا صَمَدُ یَاحَیُّ یَا مُحْیِیَ الْمَوْتِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ یَارَبَّنَا۔ اے رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے کریم! اے بہت ہی بُردبار! اے وہ جو اکیلا ہے! اے بے نیاز! اے وہ جو زندہ ہے جو دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے اور اے مُردوں کو زندہ کرنے والے! اے وہ جو زندہ ہے اور دوسروں کو زندگی بخشنے والا ہے! اے وہ جو قائم ہے اور دوسروں کو قائم کرنے والا ہے! اے ہمارے رب! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

بہرحال بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عَلَاء ؓنے لشکر کے تمام افراد کو کہا کہ یہ دعا کرتے ہوئے سمندر میں اپنی سواریاں ڈال دیں۔ چنانچہ تمام مسلمان اپنے سپہ سالار حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ کی پیروی کرتے ہوئے ان کے پیچھے اپنے گھوڑوں ،گدھوں، اونٹوں اور اپنے خچروں پر سوار ہوئے اور انہیں سمندر میں ڈال دیا اور پھر اللہ کی قدرت! اس خلیج کو بغیر کسی نقصان کے عبور کر لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھاکہ نرم ریت جس پر پانی چھڑکا گیا ہے اس پر چل رہے ہیں کہ اونٹوں کے پاؤں تک نہ ڈوبے اور سمندر میں مسلمانوں کی کوئی چیز غائب نہ ہوئی۔ ایک چھوٹی سی گٹھڑی کے غائب ہونے کا ذکر ہے۔ اس کو بھی حضرت عَلَاءؓ اٹھا لائے تھے ۔بہرحال ساحل سے دَارِیْن تک کا سفر بیان کیا جاتا ہے کہ کشتیوں کے ذریعہ ایک دن اور ایک رات میں طے ہوتا تھا لیکن اس قافلے نے ایک ہی دن کے بہت ہی تھوڑے وقت میں یہ فاصلہ طے کر لیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ289 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ شخصیت اور کارنامے از علی محمد صلابی صفحہ 344-345، مکتبہ الفرقان ضلع مظفر گڑھ پاکستان)

(حضرت ابوبکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 241-242 اسلامی کتب خانہ لاہور)

تاریخ طبری میں اس طرح اس کی یہ تفسیربیان کی گئی لیکن موجودہ زمانے کے بعض مصنف سمندر عبور کرنے کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس وقت خلیج فارس میں جزر آیا ہو یا روایات میں مبالغہ ہو اور درحقیقت مسلمانوں کو مقامی باشندوں کے ذریعہ سے کشتیاں دستیاب ہو گئی ہوں جن پر سوار ہو کر انہوں نے سمندر عبور کیا ہو۔ لیکن بہرحال روایت میں اس تفصیل کاکہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ مختلف لوگوں نے یہ روایت لکھی ہے۔ انہوں نے عبور کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان دَارِیْن پہنچ گئے تھے۔(حضرت ابوبکرصدیقؓ ازمحمدحسین ہیکل ،اردوترجمہ صفحہ 242 اسلامی کتب خانہ لاہور)کس طرح پہنچے اللہ بہتر جانتا ہے۔ باقی رہا

معجزات کے بارے میں

تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ایک تفسیر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے جو اصولی راہنمائی کی ہے وہ بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سمندر کے پھٹنے والے واقعہ کی تفسیر اور وضاحت کرتے ہوئے بیان فرمایا جو قرآن شریف میں آیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کے مطابق واقعہ کی کیفیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل ارضِ مقدس کے ارادے سے چلے جا رہے تھے کہ پیچھے سے فرعون کا لشکر آپہنچا۔ اسے دیکھ کر بنی اسرائیل گھبرائے اور سمجھے کہ اب پکڑے جائیں گے لیکن خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکی معرفت ان کو تسلی دلائی اور حضرت موسیٰؑ سے کہا کہ اپنا عصا سمندر پر ماریں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر میں ایک راستہ ہو گیا اور وہ اس میں سے آگے روانہ ہوئے۔ ان کے دونوں طرف پانی تھا جو ریت کے ٹیلوں کی مانند یعنی اونچا نظر آتا تھا۔ لشکر فرعون نے ان کا پیچھا کیا مگر بنی اسرائیل کے صحیح سلامت پار ہونے پر پانی پھر لَوٹا اور مصری غرق ہو گئے۔ اب لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے سمجھنے کے لیے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور کسی انسان کا اس میں دخل اور تصرف نہیں ہوتا۔ پس

حضرت موسیٰ ؑکا عصا اٹھانا اور سمندر پر مارنا صرف ایک نشانی کے لیے تھا نہ اس لیے کہ حضرت موسیٰ ؑکا یا عصا کا سمندر کے سمٹ جانے میں کوئی دخل تھا۔

اس عصا کا سمندر کے سمٹ جانے میں کوئی دخل تھا۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کے الفاظ سے ہرگز ثابت نہیں کہ سمندر کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے اور اس میں سے حضرت موسیٰؑ نکل گئے تھے بلکہ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کے متعلق دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں، ایک فَرَقَاور ایک اِنْفَلَقَ کا، جن کے معنی جدا ہو جانے کے ہیں۔ پس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق اس واقعہ کی یہی تفصیل ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گذرنے کے وقت سمندر جدا ہو گیا تھا یعنی کنارے سے ہٹ گیا تھااور جوخشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گذرگئے تھے اور سمندر کے کناروں پر ایسا ہو جایا کرتا ہے۔

چنانچہ نپولین کی (زندگی) لائف میں بھی لکھا ہے کہ جب وہ مصر پر حملہ آور ہوا تو وہ بھی اپنی فوج کے ایک حصہ سمیت بحیرۂ احمر کے کنارے کے پاس جزر کے وقت گزرا تھا اور اس کے گزرتے گزرتے مَدّ کا وقت آ گیا اور مشکل سے بچا۔ اس واقعہ میں معجزہ یہ تھا یعنی حضرت موسیٰؑ والے واقعہ میں جومعجزہ تھا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا اور حضرت موسیٰؑ کے ہاتھ اٹھاتے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہو ا لیکن فرعون کا لشکر جب سمندر میں داخل ہوا تو ایسی غیر معمولی روکیں اس کے راستے میں پیدا ہو گئیں کہ اس کی فوج بہت سست رفتاری سے بنی اسرائیل کے پیچھے چلی اور ابھی سمندر ہی میں تھی کہ مدّ آ گئی اور دشمن غرق ہو گیا …سمندر میں مدّو جزر پیدا ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت میں پانی کنارے پر سے بہت دور پیچھے ہٹ جاتا ہے اور دوسرے وقت میں وہ خشکی پر اَور آگے آ جاتا ہے۔

سمندر پھاڑنے کے واقعہ کا اسی مدّو جزر کی کیفیت سے تعلق ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے وقت میں سمندر سے گزرے جبکہ جزر کا وقت تھا اور سمندر پیچھے ہٹا ہوا تھا اوراس کے بعد فرعون پہنچا۔ وہ بوجہ اس کے کہ کم سے کم ایک دن بعد حضرت موسیٰؑ کے چلا تھا وہ مارا مار کرتا ہوا جس وقت سمندر پر پہنچا ہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا جس سے وہ گزر رہے تھے اکثر حصہ طے کر چکے تھے۔ فرعون نے ان کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اس میں اپنی رتھیں ڈال دیں مگر سمندر کی ریت جو گیلی تھی اس کی رتھوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی اور اس کی رتھیں اس میں پھنسنے لگیں اور اس قدر دیر ہو گئی کہ مدّ کا وقت آ گیا اور پانی بڑھنے لگا۔ اب اس کے لیے دونوں باتیں مشکل تھیں۔ نہ وہ آگے بڑھ سکتا تھا نہ پیچھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر نے اسے درمیان میں آ لیا اور وہ اور اس کے بہت سے ساتھی سمندر میں غرق ہو گئے اور چونکہ مدّ کا وقت تھا، سمندر کا پانی جو کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا اس نے ان کی لاشوں کو خشکی کی طرف لا پھینکا۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد1صفحہ419تا 422)

بہرحال مسلمان دَارِیْن کسی طرح پہنچ گئے تھے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے اور وہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی طرح کا مدو جزر والا کوئی واقعہ ہوا ہو۔

دَارِیْن پہنچ کر وہاں مسلمانوں کا اور مرتد باغیوں کا مقابلہ ہوا اور نہایت ہی خونریز جنگ ہوئی جس میں وہ سب مارے گئے

یعنی باغی مارے گئے۔ کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا۔ مسلمانوں نے ان کے اہل و عیال کو لونڈی یا غلام بنا لیا اور ان کی املاک پر قبضہ کر لیا۔ ہر ایک شہ سوار کو چھ ہزار اور ہر پیادے کو دو ہزار درہم غنیمت میں ملے۔ مسلمانوں کو ساحلِ سمندر سے ان تک پہنچنے اور ان کے مقابلے میں پورا دن صرف ہو گیا۔ ان سے فارغ ہو کر وہ پھر واپس آ گئے۔

حضرت ثُمَامہ بن اُثَال ؓکی شہادت کا واقعہ

لکھا ہے کہ حضرت عَلَاء بن حَضْرَمیؓ تمام لوگوں کو واپس لے آئے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے وہیں پر قیام کرنے کو پسند کیا۔ حضرت ثُمَامَہ بن اُثَالؓ بھی واپس آنے والوں میں تھے۔ عبداللہ بن حَذَفؓ کہتے ہیں کہ ہم بنو قَیس بن ثعلبہ کے ایک چشمہ پر مقیم تھے۔ لوگوں کی نظر حضرت ثُمَامَہؓ پر پڑی اور انہوں نے حُطَم کا چوغہ آپؓ کے جسم پر دیکھا۔ حُطَم کا یہ وہی چوغہ تھا جو اس کے قتل ہونے کے بعد مالِ غنیمت میں حضرت ثُمَامَہؓ کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو دریافت کے لیے بھیجا، یعنی اس قبیلے والوں نے اور اُسے کہا کہ جا کر حضرت ثُمَامَہؓ سے دریافت کرو کہ یہ چوغہ تمہیں کہاں سے ملا ہے اور حُطَم کے متعلق دریافت کرو کہ کیا تم نے ہی اسے قتل کیا تھا (حُطَم ان کا لیڈر تھا) یا کسی اَور نے؟ اس شخص نے آ کر حضرت ثُمَامَہؓ سے چوغہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مجھے مالِ غنیمت میں ملا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ تم نے حُطَم کو قتل کیا ہے؟ حضرت ثُمَامَہؓ نے کہا کہ نہیں۔ اگرچہ میری تمنا تھی کہ مَیں اس کو قتل کرتا۔ اس شخص نے کہا کہ یہ چوغہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ حضرت ثُمَامَہؓ نے کہا اس کا جواب مَیں تمہیں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ مالِ غنیمت میں ملا ہے۔ تو اس قبیلے کے اس شخص نے آ کے اپنے دوستوں کو اپنی ساری گفتگو کی اطلاع دی۔ وہ سب پھر حضرت ثُمَامَہؓ کے پاس اکٹھے ہو کے آئے اور ان کو آ کر گھیر لیا۔ ان سب نے کہا کہ تم حُطَم کے قاتل ہو۔ حضرت ثُمَامَہؓ نے کہا کہ تم جھوٹے ہو۔ مَیں اس کا قاتل نہیں ہوں۔ البتہ یہ چوغہ مجھے مال غنیمت میں بطور حصہ کے ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حصہ تو صرف قاتل ہی کو ملتا ہے حضرت ثُمَامَہؓ نے کہا کہ یہ چوغہ اس کے جسم پر نہیں تھا بلکہ اس کی سواری یا اس کے سامان سے ملا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ پھر ان کو شہید کر دیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ289 تا290 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

دسویں مہم

کے بارے میں لکھا ہےکہ یہ حضرت سُوَید بن مُقَرِّنؓ کی مرتد باغیوں کے خلاف مہم تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جھنڈا حضرت سُوَید بن مُقَرِّنؓ کو دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ

یمن کے علاقے تِہَامہ

کو جائیں۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

لغت میں تِہَامہکے معنی شدت گرمی اور ہوا کے رک جانے کے بھی ہیں۔ اسی طرح لغت میں اس کے ایک معنی نشیب کے بھی ہیں۔

(لسان العرب زیر مادہ :تہم)

یمن کے مغرب اور جنوب میں بحرِ قلزم کے ساحل پر نشیبی اراضی کی ایک پٹی ہے جسے تِہَامہ کہتے ہیں۔ اس اراضی میں بہت سی نیچی لیکن تہ بہ تہ پہاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ تِہَامہ کی شمالی سرحد مکہ کے قریب پہنچتی تھی اور جنوبی یمن کے پایہ تخت صَنْعَاءسے کوئی ساڑھے تین سو میل کے فاصلے پر ختم ہوتی تھی۔

تِہَامَہ یمن کا ایک ضلع تھا جس میں بہت سے گاؤں اور قصبے تھے۔

(حضرت ابوبکرؓ کے سرکاری خطوط صفحہ 40-41 ادارہ اسلامیات لاہور)

یہ تو تِہَامہ یمن کا مختصرتعارف ہے۔

حضرت سُوَید بن مُقَرِّنؓ کا تعارف

یہ ہے کہ حضرت سُوَیدؓ کے والد کا نام مُقَرِّن بن عَائِذ تھا۔ ان کا تعلق مُزَینہ قبیلہ سے تھا۔ ان کی کنیت ابوعدی تھی۔ ابو عمرو بھی کنیت بیان کی گئی ہے۔ پانچ ہجری میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ انہوں نے جنگِ خندق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شمولیت کی۔ پھر اس کے بعد تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ آپ حضرت نعمان بن مُقَرِّنؓ کے بھائی تھے جنہوں نے ایرانی فتوحات میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے تھے۔

(اسدالغابہ جلد 2صفحہ 600 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)

(ماخوذ از طبقات الکبریٰ جلد 6 صفحہ 97 ، جلد اول صفحہ 222 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

تاریخی کتب میں حضرت سُوَیدؓ کے تِہَامہ جانے اور وہاں ان کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کی تفصیل نہیں ملتی تاہم کتبِ تاریخ میں اہل تِہَامہ کے ارتداد اور بغاوت کے حالات و واقعات یوں بیان ہوئے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہجری میں حجة الوداع کے بعد یمن میں محصلین زکوٰة مقرر فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو سات حصوں میں تقسیم فرمایا تھا۔ تِہَامہ پر طاہر بن ابو ہالہ کو عامل مقرر فرمایا تھا۔

تِہَامَہ میں ادنیٰ درجہ کے عربوں کے علاوہ دو بڑے اور اہم قبیلے تھے۔ایک عَکْ اور دوسرا اَشْعَر۔

(حضرت ابوبکرؓ کےسرکاری خطوط صفحہ 41 ادارہ اسلامیات لاہور)

تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عَتَّابْ بن اُسَیدؓ اور حضرت عثمان بن ابوالعاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو لکھا کہ ہمارے علاقے میں مرتدین نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا ہے۔

مرتدین صرف مرتدین نہیں تھے بلکہ جیساکہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہ لوگ مسلمانوں پر حملے بھی کرتے تھے۔

یہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ تو حضرت عَتَّابْؓنے اپنے بھائی حضرت خالد بن اُسَیدؓ کو اہلِ تِہَامہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا جہاں بنو مُدْلِج کی ایک بڑی جماعت اور خُزَاعہ اور کِنَانَہ کی مختلف جماعتیں بنومُدْلِج کےخاندان بنو شَنُوق کے جُنْدُبْ بن سُلْمٰی کی سرکردگی میں مرتد ہو کر مقابلہ کے لیے جمع تھیں۔ دونوں حریفوں کا مقابلہ ہوا اور حضرت خالد بن اُسَیدؓ نے ان کو شکست دے کر پراگندہ کر دیا اور بہت سارے افراد کو قتل کر دیا۔ اس میں بنو شَنُوق کے افراد سب سے زیادہ مارے گئے۔ اس واقعہ کے بعد ان کی تعداد بہت کم رہ گئی۔ اس واقعہ نے حضرت عَتَّابْؓ کے علاقے کو فتنۂ ارتداد سے پاک صاف کر دیا اور جندب بھاگ گیا۔ پھرکچھ عرصہ بعد اس نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا ۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ294 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(الکامل فی التاریخ جلد2صفحہ230 دار الکتب العلمیۃ لبنان)

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تِہَامَہ میں سب سے زیادہ قبیلہ عَکْ اور اَشْعَر نے بغاوت کی

اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی اطلاع ملی تو ان میں سے متفرق لوگ جمع ہوئے اور پھر خَضَمْ قبیلہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ جا ملے۔ انہوں نے ساحلِ سمندر کی جانب اَعْلَابْ مقام میں اپنا پڑاؤ ڈالا اور ان کے ساتھ وہ سپاہی بھی آ ملے جن کا کوئی سردار نہ تھا۔ اَعْلَابْ جو ہے یہ بھی مکہ کے ساحل کے درمیان قبیلہ عَک کا علاقہ ہے۔ حضرت طاہر بن ابو ہالہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع دی اور خود ان کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی روانگی کی اطلاع بھی انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو لکھ دی۔ حضرت طاہرؓ کے ساتھ مَسروق عَکِّی اور قبیلہ عَک میں سے ان کی قوم کے وہ افراد تھے جو مرتد نہیں ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ مقام اَعْلَابْ میں ان لوگوں سے جا ملے اور وہاں ان سے شدید جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو، دشمنوں کو شکست دی۔ مسلمانوں نے ان کو بے دریغ قتل کیا۔ تمام راستوں میں ان کے مقتولین کی بدبو پھیل گئی اور مسلمانوں کو ایک شاندار فتح حاصل ہوئی۔

تِہَامَہ میں ارتداد کے واقعات کا ذکر

کرتے ہوئے ایک مصنف نے لکھا ہے کہ تِہَامَہ کے ارتداد کو کچلنے میں سرفہرست طاہر بن ابی ہالہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تِہَامَہ کے لیے تِہَامَہ کے حصہ پر والی تھے جو قبیلہ عَک اور اشعریوں کا وطن تھا۔ پھر ابوبکرؓنے عُکَّاشہ بن ثَور کو حکم دیا کہ وہ تِہَامَہ میں اقامت پذیر ہوں اور اپنے پاس اس کے باشندوں کو اکٹھا کر کے حکم کا، حضرت ابوبکرؓ کے حکم کا انتظار کریں۔ حضرت عکاشہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حَضْرمَوت کے دو علاقوں سَکَاسِکْ اور سَکُوْن پر عامل مقرر تھے اور بَجِیْلَہ قبیلہ کے پاس حضرت ابوبکرؓ نے جَرِیر بنِ عبداللہ بَجَلِیؓ کو واپس بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے ثابت قدم رہنے والے مسلمانوں کو لے کر اسلام سے مرتد ہونے والوں سے قتال کریں اور پھر قبیلہ خَثْعَم کے پاس پہنچیں اور ان کے مرتدین سے قتال کریں۔ جَریر اپنی مہم پر روانہ ہوئے اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو حکم دیا تھا اس کو بجا لائے اور تھوڑے سے افراد کے علاوہ ان کے مقابلے میں کوئی نہ آیا۔ آپؓ نے ان کو قتل کیا اور انہیں منتشر کر دیا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ294-295مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(الکامل فی التاریخ جلد2صفحہ230 دار الکتب العلمیۃ لبنان)

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ303مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ 263)

یہ مہمات کا ذکر ہو رہا ہے آئندہ ان شاء اللہ گیارھویں مہم کا ذکر ہو گا۔

اس وقت میں

چند مرحومین کا ذکر

کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں سے دو تو برکینا فاسو کے ہمارے نوجوان ہیں۔ 11؍جون کی شام کو یہ اپنے علاقے، ڈوری ریجن کے علاقے میں ایک گاؤں میں تھے جہاں دہشت گردوں نے حملہ کیا اور یہاں بہت سے افراد مارے گئے۔ اس میں ہمارے یہ دو احمدی خادم بھی شہید ہوئے جو اپنی دکان پہ کام کر رہے تھے۔ فائرنگ ہوئی اور یہ موقع پر شہید ہو گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ایک ان میں سے جو ہیں

ان کا نام ہے ڈیکو زکریا (Dicku Zakariya)

ان کی عمر 32سال تھی۔ ڈوری ریجن میں ان کو بطور ریجنل قائد خدام الاحمدیہ خدمت کی توفیق ملی۔ مدرسة الحفظ گھانا میں قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے بھی گئے تھے۔ کچھ عرصہ حفظ کیا پھر واپس آگئے۔ ہمیشہ جماعتی کاموں کے لیے حاضر رہتے تھے۔ ہر کام کے لیے لبیک کہہ کر اپنے آپ کو پیش کرتے تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے پابند تھے۔ تہجد اور نوافل بھی باقاعدہ ادا کرنے والے تھے۔ اپنے چندہ جات بھی باقاعدہ ادا کرتے تھے۔ ماہانہ آمد کے علاوہ بھی کوئی آمدہوتی تو اس پر بھی فوری چندہ ادا کرتے۔ جماعت اور خلافت سے سچی محبت تھی۔ باقاعدہ خطبہ جمعہ سنا کرتے تھے۔ ایم ٹی اے کے دوسرے پروگرام بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ ان کے لوکل مشنری کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ آخری ملاقات میں انہوں نے کہا کہ خلیفۂ وقت سے کب ملاقات نصیب ہوتی ہے۔ ان کی بڑی خواہش تھی خلیفۂ وقت سے ملنے کی۔ یہ معلم صاحب نے لکھا ہے کہ ایک مثالی خادم تھے۔ پسماندگان میں ان کی ایک اہلیہ اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔

دوسرے شہید جو تھے وہ ڈیکو موسیٰ (Dicku Mussa) صاحب

تھے۔ ان کی عمر 34سال تھی۔ یہ اس وقت اپنی مجلس سائی تنگا (Seytenga) کے قائد خدام الاحمدیہ تھے۔ اپنی جماعت کے تمام پروگراموں میں سب سے بڑھ کر حصہ لیتے۔ دوسروں کو شامل کرتے۔ نمازوں اور چندہ جات میں باقاعدہ تھے۔ ان کی جماعت میں مسجد نہیں تھی تو یہ مقامی طور پر کوشش کر رہے تھے ایک شیڈ بنا کر وہاں باقاعدہ نماز ادا کریں۔ یہ مجھے خط بھی باقاعدہ لکھتے رہتے تھے۔ کیپیٹل سے کوئی بھی دورے کے لیے جاتا تو اس کی خاطر تواضع کرتے۔ خود ساتھ ساتھ رہتے، کام کرواتے، دورہ میں شامل ہوتے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی دو بیویاں ہیں اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

ان دونوں شہداء کے بارے میں وہاں کے امیر جماعت لکھتے ہیں:یہ دونوں خدام ہمارے لوکل مشنری ڈیکو احمدو بوریما (Dicku Amadou Bourema) صاحب کے بھائی تھے جو کہ اس وقت ریڈیو احمدیہ ڈوری کے انچارج ہیں۔ ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد ابراہیم بُنتی (Bonti) صاحب کے ذریعہ سے آئی تھی۔ وہ بہت ہی مخلص اور پرجوش داعی الی اللہ تھے۔ وہ ڈوری ریجن کے زعیم انصار اللہ بھی رہے۔ 2011ء میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ پھر آگے امیر صاحب دعا کے لیے بھی لکھتے ہیں کہ برکینا فاسو میں 2015ء سے دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں اور ملک کے نارتھ کے علاقے میں بہت زیادہ تباہی ہے۔ دو ملین سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی امن کے حالات پیدا کرے اور دنیا کے جو معاشی اور سیاسی حالات اب ہو رہے ہیں ان سے دہشت گردی کے امکانات مزید بڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی انسانیت پر رحم فرمائے اور ان کو عقل دے۔

دوسرا ذکر

محمد یوسف بلوچ صاحب ابن نورنگ خان صاحب، بستی صادق پور ضلع عمرکوٹ سندھ

کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ بلوچ ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے ہیں۔ وہاں پیدا ہوئے تھے۔ 1934ء میں حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے ذریعہ سے ان کے ہاں، ان کے خاندان میں احمدیت آئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہ تحریک جدید کی زمینوں پر صادق پور ضلع عمر کوٹ میں آگئے۔ پھر یہ کچھ عرصہ چھ سال کے قریب ربوہ میں بھی مقیم رہے اور اس محلے میں خادم مسجد کے طور پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ سات بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے شبیر احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ آجکل آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔ مرحوم کے دو پوتے بھی مربی سلسلہ ہیں۔

ان کے بیٹے شبیر صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ ہم نے بچپن سے ان کو تہجد کا پابند دیکھا۔ روزانہ فجر کے بعد بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ خلافت سے بےانتہا محبت کرنے والے تھے۔ کہتے ہیں جب بھی میں گھر گیا ہوں تو مجھے بلا کر کہتے کہ میری دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنا کہ خلافت سے ہمیشہ وفا کرنا اور اپنے وقف کا حق ادا کرنا۔ کہتے ہیں مہمان نواز بھی بہت تھے۔ راہ چلتے لوگوں کو گھر لے آتے۔ آپ کی تعزیت پر بھی بہت سے غیر از جماعت لوگ اور ہندو وغیرہ سب آئے اور بڑے اچھے الفاظ میں ان کو یاد کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ ہمارا باپ فوت ہو گیا ہے کیونکہ غرباء کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔

تیسرا ذکر

عزیزہ مبارزہ فاروق (واقفۂ نو)

کا ہےجو فاروق احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ یہ ربوہ کی ہیں ۔ ان کا بھی گذشتہ دنوں انتقال ہوا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔یہ بچی جب گیارہ سال کی تھی تو ہائی ٹینشن بجلی کی تار کو ہاتھ لگانے کی وجہ سے ان کے دونوں بازو مفلوج ہو گئے، خراب ہو گئے اور پھر دونوں بازو کاٹنے پڑے لیکن اس حالت میں بھی عزیزہ نے ہمت نہیں ہاری۔ اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ پہلے اس نے منہ سے قلم پکڑ کر لکھنے کی پریکٹس کی۔ پھر دونوں کہنیوں کے ساتھ قلم پکڑ کر لکھنے کی مشق کی اور اس طرح چند ماہ میں نہایت خوش خط لکھنے لگی۔ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔کچھ عرصہ بعد یہ فیملی ربوہ شفٹ ہو گئی۔ یہاں بھی اپنی تعلیم جاری رکھی۔ 2013ء میں اچھے نمبروں میں بی اے پاس کر لیا۔ پھر تعلیم الاسلام کالج سے ایم اے عربی بھی کیا۔ واقفۂ نو کی حیثیت سے کچھ عرصہ انہوں نے طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھی خدمت کی۔ قرآنِ کریم صحت تلفظ کے ساتھ اور لفظی ترجمہ کے ساتھ سیکھا اور ہمیشہ سو فیصد نمبر لیا کرتی تھیں۔ محلہ میں ترجمة القرآن کلاس بھی لیتی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔

اگلا ذکر ہے

مکرم آنزومانا واترا(Aanzumana Wattara)صاحب

جو آئیوری کوسٹ میں ماساداگو علاقے کے معلم سلسلہ تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

وہاں کے مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ مرحوم سادہ لوح، صوم و صلوٰة کے پابند ،منکسر المزاج، دعا گو، نیک اور پارسا بزرگ تھے۔ کثرت سے نوافل ادا کرتے اور سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ باقاعدگی سے رکھتے تھے۔ کثرت سے ان کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں۔ خلافت سے ان کو ایک والہانہ عشق تھا۔ ایک بہترین مبلغ تھے۔1997ء میں ایک خواب کے ذریعہ انہوں نے احمدیت قبول کی اور خواب میں دیکھا کہ ایک جنگل میں ہیں اور وہاں سے ایک جگہ ناسیاں گاؤں ہے، وہاں جا رہے ہیں اور ایک تلوار کے ساتھ وہاں جانے کے لیے راستہ بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی کلمہ طیبہ اونچی آواز سے پڑھتے ہوئے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں اس خواب کے بعد ایک دن مجھے پتہ چلا کہ ایک احمدی مشنری عمر معاذ صاحب ناسیاں تبلیغ کے لیے آئے ہیں تو یہ خود بھی ناسیاں تشریف لے گئے اور جماعت کا پیغام سنتے ہی بیعت کر لی اور کہا کہ یہی وہ پیغام تھا جس کو قبول کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایا تھا۔ کوشش کر کے میں نے اس گاؤں میں جانا ہے جہاں مجھے دین ملے گا۔ بہرحال قبولیتِ احمدیت کے کچھ عرصہ کے بعد آپ نے وقف کیا اور باقاعدہ معلم سلسلہ کےطور پر جماعت کی خدمت شروع کی۔ 2002ء میں جب ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو مرکز کا ان کی جگہ سے رابطہ بحال نہ رہ سکا۔ معلم صاحب نے گاؤں اور ارد گرد کی جماعتوں میں اپنا رابطہ بحال رکھا اور جماعت کے افراد کے لیے تعلیم و تربیت کا کام ہر حال میں جاری رکھا اور مرکز سے رابطہ میں رہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے گاؤں میں، اپنے گھر کے احاطے میں ایک مسجد بھی تعمیر کی اور وہیں سے احباب جماعت کی تعلیم و تربیت کا کام بھی کرتے تھے۔ اس طرح نیشنل سطح کے ہر جماعتی پروگرام میں باقاعدگی سے لمبا سفر طےکر کے شامل ہو تے تھے۔ 1998ء میں آپ کو جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کا موقع ملا۔ ان کو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور حضور رحمہ اللہ کے ساتھ ایم ٹی اے کے پروگرام The French Mulaqat جو تھی اس میں بھی شرکت کا موقع ملا اور اس ملاقات سے بہت خوش تھے اور لوگوں کو سنایا کرتے تھے کہ یہ ملاقات میری زندگی کا بہت خوبصورت حصہ ہے اس کو میں بیان نہیں کر سکتا۔

2004ء میں جب مَیں نے برکینا فاسو کا دورہ کیا تو وہاں یہ مجھ سے ملے اور کہنے لگے کہ یہ جو مَیں آپ سے مل رہا ہوں یہ میں اپنی ایک نئی زندگی کی وجہ سے مل رہا ہوں ۔ اور یہ آپ کے دورہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمایا ہے اور یہ برکت مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ کہنے لگے کہ دو ماہ پہلے میں شدید بیمار ہو گیا یہاں تک کہ گھر والوں نے سمجھا کہ شاید میرا آخری وقت ہے۔ کہتے ہیں اس وقت میں نے خواب میں د یکھا۔ یعنی انہوں نے مجھے خوا ب میں دیکھا کہ میں ان کے سر پہ ہاتھ پھیر رہا ہوں اور کہتے ہیں خواب ہی میں میں نے محسوس کیا کہ تمام بیماری جسم کو چھوڑ چکی ہے۔ کہتے ہیں جب میں بیدار ہوا تو واقعۃً بیماری مجھے چھوڑ چکی تھی اور میں صحت یاب ہو گیا تھا۔ بہرحال جب مَیں نے وہاں دورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اب اس خواب کو جو میں نے دیکھی تھی عملی شکل میں پورا بھی کر دیں اور اپنا سر آگے کر دیا کہ اس پر ہاتھ پھیریں اور بڑے خوش تھے۔ خلافت سے کامل وفا کا تعلق تھا اور لوگوں کو بتاتے تھے کہ یہ زندگی جو مجھے ملی ہے وہ اس لیے ملی ہے کہ میں خدمت دین کروں اور اب میں اسی کام میں اپنی زندگی صرف کروں گا اور اس عہد کو انہوں نے نبھایا۔ 94سال کی عمر پائی اور آخر عمر تک فعال اور صحت مند تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود قریبی جماعتوں کا دورہ بھی خود کیا کرتے تھے۔ ان کی دوسری ملاقات بھی 2008ء میں مجھ سے ہوئی جب میں گھانا گیا ہوں تو وہاں پہ یہ آئے اور گھانا میں جوبلی کے جلسہ میں شامل ہوئے۔ بڑے خوش تھے۔

’’بندوکو‘‘ کے ریجنل مشنری شاہد صاحب کہتے ہیں کہ پاکستانی مبلغین سے بہت محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ بڑی عاجزی اور انکساری سے ملتے تھے۔ بہت عزت و احترام سے پیش آتے تھے اور مالی قربانی میں بھی ہمیشہ پیش پیش تھے۔ باقاعدگی سے چندہ دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں اس سال جنوری کے آخر میں جب میں ان کے گاؤں دورے پہ گیا تو معلم صاحب نے مجھے کہا کہ اس سال میں چلا جاؤں گا۔ میں نے کہا کیا آپ نے سفر پر کہیں جانا ہے؟ کہتے ہیں نہیں۔ میں اس دنیا سے چلا جاؤں گا کیونکہ اس سال میں بہت خوش ہوں۔ مبلغ کہتے ہیں پھر انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کی خاطر زندگی بھر کام کیا۔ ’اللہ تعالیٰ کی ذات پہ بڑا یقین تھا‘اور اب میں اپنی تنخواہ لینے اللہ کے پاس جا رہا ہوں اور وفات سے ایک ہفتہ قبل انہوں نے اپنی فیملی کو کہا کہ میرا اب اللہ تعالیٰ سے ایک ہفتے کا کنٹریکٹ ہے۔ ایک ہفتہ رہ گیا ہے باقی۔ کہتے ہیں اگلے جمعہ ایک ہفتہ کے بعد صبح یہ حسب معمول تہجد کے لیے اٹھے، وضو کیا اور وضو مکمل کیا ہی تھا کہ وضو کرتے کرتے وہیں اسی جگہ پہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ چکر آیا ان کو اور وہیں گرے۔ تو اس قسم کے بے لوث اور اخلاص و وفا سے بھرے ہوئے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو عطا فرمائے ہیں جو اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے بے نفس جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا رہے اور خدمت کرنے والے بھی ہوں۔

ان کے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ کے فضل سے سب احمدیت پر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔

نماز جمعہ کے بعد مَیں ان کی سب کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button