جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ ربّ العزت پر گریہ و بُکا کرنے کا نتیجہ ہے
(تقریر فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ 26؍دسمبر1936ءبر موقع افتتاح جلسہ سالانہ)
تشہد، تعوّذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سب سے پہلے تو مَیں ان تمام بھائیوں کو جو جلسہ سالانہ کی شمولیت کے لئے بیرون جات سے تشریف لائے ہیں، اَلسَّلامُ عَلیْکُمْ کہتا ہوں۔
اس کے بعد دعا کے ساتھ اس جلسہ کا افتتاح کرنے سے پہلے مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آج سے قریباً چالیس سال پہلے اُس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں، ایک ٹُوٹی ہوئی فصیل ہوا کرتی تھی۔ ہمارے آباء و اجداد کے زمانہ میں قادیان کی حفاظت کے لئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی جو خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈّا اس پر چل سکتا تھا۔ پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تُڑوا کر نیلام کر دیا تو اُس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا تھا۔ وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی۔ میں نہیں کہہ سکتا اُس وقت 1893ء تھا یا 1894ء یا 1895ء ۔ قریباً قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا، یہی دن تھے، یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا۔ کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے یہ جماعت یاد نہیں کی جاتی تھی مگر یہی مقاصد اور یہی مدّعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے۔ میں نہیں کہہ سکتا آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی یا کارروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا اور بعض مسجد میں۔ کیونکہ میری عمر اُس وقت سات آٹھ سال کی ہوگی اس لئے مَیں زیادہ تفصیلی طور پر اس بات کو یاد نہیں رکھ سکا، میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے اردگرد دَوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا۔ میرے لئے اس زمانہ کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں ۔ اُس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھے ہوئے تھے اور اِرد گِرد وہ دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو ، دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ۔ ایک ہی دری تھی ۔ اس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے ۔ ڈیڑھ سَو ہوں گے یا دوسَو اور بچے ملا کر ان کی فہرست اَڑھائی سَو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی۔ وہ لوگ جمع ہوئے تھے اِس نیّت اور اس ارادہ سے کہ اسلام دنیا میں نہایت ہی کمزور حالت میں کر دیا گیا ہے۔ اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہوسکتی اُسے بجھا نے کے لئے لوگ اپنا پورا زور لگا ر ہے ہیں اور ظلمت اور تاریکی کے فرزند ا سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اس ایک ارب اور پچیس تیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں دو اَڑھائی سَو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے ، جن میں سے بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےبھی متوسّط درجہ کے کہلا سکیں ، جمع ہوئےتھے اِس ارادہ اور اِس نیت سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہو نے دیں گے بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگرا سے نیچا نہ ہونے دیں گے ۔ اِس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کے سمندر کے مقابلہ کے لئے دو اڑھائی سَو کمزور آدمی اپنی قربانی پیش کرنے کے لئے آئے تھے جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا ہوا تھا جو بدری صحا بہؓ کے چہروں پر لکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ بدر کے صحابہؓ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !بے شک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور مگر وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو رَوندتا ہوا نہ گزرے ۔ اُن کے چہرے بتا ر ہے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ زندہ موتیں ہیں جو اپنے وجود سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے دین کے قیام کے لئے ایک آخری جد و جہد کر نے کے لئے جمع ہوئے ہیں ۔دیکھنے والے اُن پر ہنستے تھے، دیکھنے والے اُن پر تمسخر کرتے تھے اور حیران تھے کہ یہ لوگ کیا کام کریں گے۔ میں خیال کرتا ہوں وہ ایک دری تھی یا دو دَریاں بہرحال اُن کے لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اِس سٹیج کی جگہ ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی۔ پہلے ایک جگہ بچھائی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اُٹھا کر اسےکچھ دُور بچھایا گیا، تھوڑی دیر کے بعد وہاں سےتبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھایا گیا اور پھر تیسری دفعہ اُس جگہ سے بھی اُٹھا کر کچھ اَور دُور وہ بچھائی گئی ۔ اپنی بچپن کی عمر کے لحاظ سے میں نہیں کہہ سکتا آ یا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اِس جگہ دری بچھاؤ یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہر حال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی۔
لوگ کہتے ہیں جب یوسفؑ مصر کے بازار میں بِکنے کے لئے آئے تو ایک بڑھیا بھی دو رُوئی کے گالے لے کر پہنچی کہ شاید میں ہی ان گالوں سے یوسف کو خرید سکوں۔ دنیا دار لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہنستے ہیں، روحانی لوگ اسے سنتے ہیں اور روتے ہیں کیونکہ ان کے قلوب میں فوراً یہ جذ بہ پیدا ہو جا تا ہے کہ جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے، وہاں انسان دنیا کی ہنسی کی پروانہیں کرتا۔مگر میں کہتا ہوں یوسفؑ ایک انسان تھا اور اُس وقت تک یوسف کی قابلیتیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں، آخر اُس کے بھائیوں نے نہایت ہی قلیل قیمت پر اُسے فروخت کر دیا تھا، ایسی حالت میں اگر اس بڑھیا کو یہ خیال آیا ہو کہ شاید روئی کے دوگالوں کے ذریعہ ہی میں یوسفؑ کو خرید سکوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں ۔خصوصاً جب ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ جس ملک سے یہ قافلہ آیا تھا ، وہاں رُوئی نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ مصر سے ہی رُوئی لے جایا کرتے تھے تو پھر تو یہ کوئی بھی بعید بات معلوم نہیں ہوتی کہ روئی کی قیمت اُس وقت بہت بڑھی ہوئی ہو۔ اور وہ بڑھیا واقعہ میں یہ سمجھتی ہو کہ رُوئی سے یوسفؑ کو خریدا جا سکتا ہے لیکن جس قیمت کو لے کر وہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقیناً ایسی ہی قلیل تھی اور یہ یوسفؑ کی خریداری کے واقعہ سے زیادہ نمایاں اور زیادہ واضح مثال اُس عشق کی ہے جو انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے اور انسان سے ایسی ایسی قربانیاں کرا تا ہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ۔ وہ دوسَو یا اڑھائی سَو آ دمی جو جمع ہوا اُن کے دل سے نکلے ہوئے خون نے خدا تعالیٰ کے عرش کے سامنے فریاد کی۔ بے شک ان میں سےبُہتوں کے ماں باپ زندہ ہوں گے، بے شک وہ خود اِس وقت ماں باپ یا دادے ہوں گے مگر جب دنیا نے ان پرہنسی کی، جب دنیا نے انہیں چھوڑ دیا ، جب اپنوں اور پرایوں نے انہیں الگ کر دیا اور کہا کہ جاؤ اے مجنونو ! ہم سے دُور ہو جاؤ۔ تو وہ باوجود بڑے ہونے کے یتیم ہو گئے کیونکہ یتیم ہم اُسے ہی کہتے ہیں جو لا وارث ہو اور جس کا کوئی سہارا نہ ہو۔ پس جب دنیا نے انہیں الگ کر دیا تو وہ یتیم ہو گئے اور خدا کے اِس وعدہ کے مطابق کہ یتیم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے، جب وہ قادیان میں جمع ہوئے اور سب یتیموں نے مل کر آہ وزاری کی تو اُس آہ کے نتیجہ میں وہ پیدا ہوا جو آج تم اِس میدان میں دیکھ رہے ہو۔ خدا نے عرش پر سے انہیں دیکھا اور کہا اے بوڑھو! جن کواُن کے بچوں نے چھوڑ دیا، میں تم کونئی اولادیں دوں گا اور دُور دُور سے دوں گا جو پہلی اولادوں سے بہتر ہوں گی اور اے بچو! جن کو اُن کے ماں باپ نے چھوڑ دیا، میں تم کو نئے ماں باپ دوں گا جو پہلے ماں باپ سے اچھے ہوں گے۔ اور اے جوانو! جن کو ان کے بھائیوں نے چھوڑ دیا ، میں تمہارے لئے اور بھائی لا رہا ہوں اُن سے بہتر جو تمہارے بھائی تھے اور ان سے اچھے جو تمہارے بھائی تھے۔
سو آپ لوگ جو آج اِس موقع پر موجود ہیں، وہ اُن آ ہوں اور اُس گر یہ وزاری کا نتیجہ ہیں جو اِس جگہ پر اُن چند لوگوں نے کی تھی جو دنیا داروں کی نگاہ میں متروک اور مطرود تھے اور جن کو دنیا حقیر اور ذلیل سمجھتی تھی۔ خدا تعالیٰ نےاُن کو نوازا اور اُن کے آنسوؤں سے ایک درخت تیار کیا جس درخت کا پھل تم ہو۔ وہ گٹھلی جس سے یہ درخت پیدا ہوا کتنی شاندار اور عظیم الشان تھی۔ اگر اُن اڑھائی سَو گٹھلیوں سے آج اتنا وسیع باغ تیار ہو گیا ہے تو اے میرے بھائیو! اگر ہم بھی اُسی اخلاص اور اُسی درد سے اسلام کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں تو کتنی گٹھلیاں ہیں جو پھرا سلام کے پھیلا نے میں نئے سِرے سے مدد دے سکتی ہیں۔ پس آؤ کہ ہم میں سے ہرشخص اِس نیت اور اِس ارادہ سے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے کہ میں اس کی دُنیوی جنت کے لئے ایک گٹھلی اور ایک بیج بن جاؤں گا۔ تا میں اکیلا ہی دنیا میں فنا نہ ہو جاؤں بلکہ میری فنا سے ایسا درخت پیدا ہو جسے مجھ سے بہتر یا کم از کم میرے جیسے پھل لگنے لگیں۔ وہ اَڑھائی تین سَو گٹھلیاں آج لاکھوں بن گئی ہیں۔ اگر تم بھی اپنے آپ کو اسی طرح قر بانیوں کے لئے تیار کروتوان لاکھوں گٹھلیوں سے کروڑوں درخت پیدا ہو سکتے ہیں مگر یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا فضل انسان کے شامل حال نہ ہو تو نہ انسان کے دل میں قربانی کی تحریک پیدا ہوتی ہے نہ عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، نہ ان قربانیوں کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ا نسانی عمل کوئی اعلیٰ ثمرات پیدا کرتا ہے۔ پس آؤ کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے جُھک جائیں اور اُسی سے التجا کریں کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے ہمارے دلوں کو پاک کرے اور قربانیوں کا جذ بہ ہمارے قلوب میں پیدا کرے۔ پھر جب اُسی کے فضل سے ہم اپنی قربانیاں اُس کے حضور پیش کریں تو وہ شفقت اور محبت اور رحم سے ہماری نا چیز قربانیوں کو ردّ نہ کرے بلکہ قبول کرے۔ وہ ہمارے وجودوں ، ہمارے عزیزوں ، ہمارے رشتہ داروں اور ہمارے دوستوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کی حفاظت کے لئے قربانی کے طور پر قبول کرے اور اسلام کے باغ کو پھر سرسبز اور شاداب کر دے۔ وہ کوّے اور کوئلیں اور دوسرے جانور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے ثمرات کھا رہے اور انہیں خراب کر رہے ہیں، خدا اِس بَلاء اور وَبا سے اسلام کو بچائے۔ آج شرک اور کُفر نے دنیا پر غلبہ کیا ہوا ہے خدا اپنے فضل سے ہمیں توفیق دے کہ ہم پھر تو حید کا جھنڈا کھڑا کریں، شرک دنیا سے مٹ جائے، شرک کرنے والے خدا تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے کے نیچے آ جائیں، وہ قومیں جو خدا تعالیٰ کے بیٹے بنا رہی ہیں، وہ قو میں جو پتھروں کو گھڑ گھڑ کر انہیں خدا تعالیٰ کا شریک قرار دے رہی ہیں، وہ بُھولی ہوئی قومیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے منّا دوں کو اُس کا شریک ٹھہرا رہی ہیں، وہ قو میں جو سورج اور چاند اور سیّاروں اور ستاروں کی پرستش کرتی ہیں، خدا تعالیٰ اِن سب کے دلوں کو کھول دے اور اُس حقیقی خدا کی طرف انہیں لے آئے جس کی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا پر ظاہر کی، وہ اُن سینکڑوں دلوں میں جو مذہب سے بیزار ہور ہے ہیں مذہب کا جوش پیدا کرے، وہ فلسفی اور وہ عالم کہلانے والے جو آج دین اور ایمان سے بے بہرہ ہور ہے ہیں، خدا تعالیٰ ان پر بھی رحم کرے اور معرفت کا نور اُن کے دلوں میں پیدا کرے۔ تا آج جس طرح وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کے دین سے منحرف کر رہے ہیں،کَل لوگوں کو کھینچ کھینچ کر دین حقیقی کی طرف لائیں۔ وہ جھگڑے، فساد اور لڑائیاں جو کہیں مذہب کے نام پر، کہیں قوم کے نام پر، کہیں جتّھے کے نام پر اور کہیں سیاست کے نام پر ہورہی ہیں ،خدا تعالیٰ اُن کو دُور کر کے بنی نوع انسان کی بہتری کے سامان پیدا کرے اور خدا تعالیٰ اِس دنیا کواُسی طرح جنت کر دے جس طرح اُس نے مرنے کے بعد ہمارے لئے جنت تیار کی ہے۔
یہ سب کام خدا تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ انہیں دنیا میں قائم کرے مگر ہمارے اندر طاقت نہیں کہ ہم باوجود اللہ تعالیٰ کا سپاہی کہلانے کے ان کو قائم کر سکیں۔ ایسی مصیبت کے وقت صرف ایک ہی کام ہمارا ہو سکتا ہےاور وہ یہ کہ ہم اپنے رب کو بلائیں اور اُس سے کہیں کہ ہم تیرے غلام اور خادم ہیں تو نے ایک کام ہمارے سپرد کیا، ہم اس کام کو کر نے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ تو ہمیں توفیق دے لیکن اے ہمارے خدا! یہ کام ہماری ہمت اور ہماری طاقت سے بہت بالا ہے۔ پس تو آپ ہماری مد دکر۔ ہم اِس بوجھ سے کچلے جار ہے ہیں۔ اگر تو نہ آ یا اور تو نے مدد نہ کی تو یہ چھوٹی سی جماعت اور فِئَةٌ قَلِیْلَةٌ مٹ جائے گی اور دنیا کے پردہ پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا۔ پس تو آپ ہم پر رحم کر ، ہماری کمزوریوں سے درگذر فرما تاتیری یہ عطا کردہ تو فیق سے بغیر کسی قسم کے معاوضہ کی خواہش اور بغیر کسی دشمن کے خوف کے تیرے دین کی خدمت میں لگ جائیں۔ مَاسِوَی اللہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوجائے، تیرے جلال کا دنیا پر قائم کرنا اور تیری صفات کا کامل ظہور ہمارا مقصد ہوجائے، ہم تُجھ میں نہاں ہوجائیں اور تو ہمارے دلوں میں آجائے۔ اے خدا!تُو ایسا ہی کر(اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی اور دعا کے بعد ارشاد فرمایا)
(اس کے بعد حضور نےحاضرین سمیت لمبی دعافرمائی اور دعا کے بعد ارشادفرمایا )
اس دعا کے بعد مَیں جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں اور اَب مَیں تو چلا جاؤں گا لیکن جیسا کہ میں نے کَل نصیحت کی تھی دوستوں کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اوقات جلسہ سالانہ کی تقاریر سننے میں صرف کر میں اور خود بھی اور اپنے دوستوں کو بھی اِدھر اُدھر پھرنے سے روکیں۔ ایک وقت تھا جب آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے دُور تک آواز نہیں پہنچ سکتی تھی اور دوستوں کا اِدھر اُدھر پھر نا کسی حد تک معذوری میں داخل تھا مگر اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے لاؤڈ سپیکر لگ گیا ہے جس کی وجہ سے آواز بخوبی پہنچ جاتی ہے۔ایسے موقعوں پر پہلے یہ گھبراہٹ ہوا کرتی تھی کہ دوستوں تک آ واز کس طرح پہنچے گی مگر اب تو اگر میلوں بھی لوگ پھیلے ہوئے ہوں تو لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اُن تک آواز پہنچ سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تھی کہ مسیحِ موعودؑ اشاعت کے ذریعہ دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا۔ (لَوْ کَانَ الْعِلْمُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَتَنَاوَلَہٗ قَوْمٌ مِّنْ اَبْنَاءِ فَارِس۔کنز العمال جلد 11صفحہ 401 مطبوعہ حلب 1974ء)
اور قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔[وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر:11)] اللہ تعالیٰ نے اِس نشان کی صداقت کے لئے پہلے قلم سے نکلی ہوئی تحریرات لوگوں تک پہنچانے کے لئے پریس جاری کر دیئے اور پھر آواز پہنچانے کے لئے لاؤڈ سپیکر اور وائرلیس وغیرہ ایجادکرا دیئے۔اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ ہر مسجد میں وائرلیس کا سیٹ لگا ہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جار ہا ہو، وہی تمام دنیا کے لوگ سُن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔
غرض لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اگر لاکھوں کا اجتماع ہو، تب بھی آسانی سے آواز پہنچائی جاسکتی ہے اس لئے دوستوں کو اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام تقریروں کو توجہ سے سننا چاہئے۔اس کے بعد میں دوستوں کو اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْکہتا اور رخصت ہوتا ہوں۔(الفضل29دسمبر1936ء)
(جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ ربّ العزت پر گریہ و بُکا کرنے کا نتیجہ ہے، انوار العلوم جلد14 صفحہ319تا 326)
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
یہ خطاب پورے کا پورا ہی عظیم پیشگوئیاں ہیں۔
اور اس میں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دعا سکھائی ہے بہت کمال کی دعا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں نیک نیتی سے دعائیں کرنے کی توفیق دیوے اور مقبول خدمت دین کی توفیق دیوے آمین۔