خطاب بر موقع مجلس مشاورت جماعت احمدیہ یوکے بطرز سوال و جواب
خطاب سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 22؍مئی 2022ء
سوال نمبر1:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطاب کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طاہر ہال بیت الفتوح مورڈن، لندن، یوکے میں یہ خطاب ارشادفرمایا۔
سوال نمبر2:کتنے عرصے کے بعد جماعت یوکے کو مجلس مشاورت کےدوبارہ انعقاد کی توفیق ملی؟
جواب:فرمایا: آج اس لحاظ سے یہ خوشی کا دن ہے کہ تقریباً تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے یوکے جماعت کو مجلس شوریٰ کا انعقاد کرنے کی توفیق دی ہے جس میں نمائندگان بذاتِ خود شامل ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی کینیڈا، جرمنی اور دوسرے ممالک میں بھی ہے۔
سوال نمبر3:مجلس مشاورت کا باقاعدہ آغازکب ہوا؟
جواب:فرمایا:1922ء میں شوریٰ کا آغاز ہوا اور ہر سال مجلس شوریٰ کا نظام وسیع اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ممبران شوریٰ کے انتخاب اور شوریٰ کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: شوریٰ کے ممبران کا انتخاب شوریٰ کے قواعد کے مطابق ہوتا ہے۔ تجاویز پیش ہوتی ہیں اور جو منظور ہوں انہیں ایجنڈے میں شامل کیا جا تا ہے جہاں وہ زیرِ بحث آتی ہیں۔ پھر سب کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جہاں ان تجاویز پر غور و خوض کیا جاتا ہے اورحتمی شکل دی جاتی ہے جس کے بعد مجلس شوریٰ کے سامنے یہ تجاویز دوبارہ رکھی جاتی ہیں جہاں ان پر ایک مرتبہ پھر غور کیا جاتا ہےیہاں تک کہ سفارشات حتمی شکل اختیار کر جائیں۔
سوال نمبر5:مجلس شوریٰ اور دنیاوی پارلیمنٹ میں کیا فرق ہے؟
جواب:فرمایا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ مجلس شوریٰ ایک ایسا اداراہ ہے جو کسی بھی دنیاوی ادارے یا پارلیمنٹ سے یکسر مختلف ہے۔ دنیاوی پارلیمنٹس کو دیکھیں تو ان کی کارروائیوں میں ناختم ہونے والی بحث ہوتی ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور آپس میں تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات یہ کارروائی باہمی حالات کو کشیدہ بھی کردیتی ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر ممالک میں باہمی دوریاں بڑھادیتی ہے۔ ایک ایجنڈے کے دو مخالف گروپ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اپنی یا اپنی پارٹی کے نظریہ کو زبردستی تھوپا جاتا ہے۔عام دنیاوی پارلیمان کے ممبران کی تو خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کو ابھار کر پیش کرسکیں، اس کے لیے وہ بسا اوقات انصاف اور حقیقت سے ہٹ کر بھی رائے کا اظہار کردیتے ہیں۔
سوال نمبر6:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ممبران شوریٰ کومجلس مشاورت کی افضلیت برقراررکھنے کی کیا تاکیدفرمائی؟
جواب:فرمایا: ہماری مجلسِ مشاورت دوسری پارلیمان اور کانگریس وغیرہ سےافضل ہے اور اس کی یہ افضلیت اسی بنا پر قائم رہ سکتی ہے کہ جب آپ ممبران کے اخلاق اور رویّے مثالی ہوں۔ آپ کی رائے صداقت پر مبنی اور دھوکا دہی سے مبراہو۔
سوال نمبر7:مجلس مشاورت کا بنیادی مقصدکیا ہے؟
جواب:فرمایا: یاد رکھیں کہ شوریٰ کا بنیادی مقصد وہ سفارشات پیش کرنا ہے کہ جو امامِ وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مشن کو آگے بڑھانے والی ہوں۔ آپؑ کا مشن اسلام اور آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونوں تک پہنچاناہے۔ پس یہ آپ ممبران کی ڈیوٹی ہے کہ خلیفۂ وقت جو تمام جماعت کے لیے بمنزلہ باپ کے ہے اُسے صحیح اور صائب رائے دیں تاکہ خلیفۂ وقت اسلام کے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے وہ اقدامات کرسکے جس کے نتیجے میں بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچاننے والی بنے۔
سوال نمبر8:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت پرہونے والے الٰہی افضال کا تذکرہ کن الفاظ میں فرمایا؟
جواب:فرمایا:پہلی مجلسِ مشاورت جو 1922ء میں ہوئی تھی، اس وقت جماعت کا کُل بجٹ 55ہزار روپے تھا جو آج کل کے حساب سے کسی طرح بھی ڈیڑھ دو لاکھ پاؤنڈز سے زیادہ نہیں بنتا۔ لیکن آج صرف یوکے جماعت کا بجٹ ہی کئی ملین پاؤنڈز ہے۔ اسی طرح کینیڈا، جرمنی اور امریکہ وغیرہ جماعت کا بجٹ بھی ہے۔ پس یہ سب خدا کے فضل اور انعامات ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔
سوال نمبر9:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ابتدائی واقفین کے صبرواستقامت کا کس رنگ میں ذکرفرمایا؟
جواب:فرمایا:بلا شبہ خدا تعالیٰ کے ہماری جماعت پر بے انتہا فضل اور احسانات ہیں ۔ایک وقت تھا کہ جماعت کے پاس اس قدر بھی وسائل نہ تھے کہ صرف واقفین کے الاؤنس ہی ادا کیے جاتے لیکن اُس وقت کے واقفین نے بھی توکل علیٰ اللہ اورصبر و استقامت سے خدمت کی اور کبھی کوئی شکایت زبان پر نہ لائےاور نہ ہی ان واقفین کے اہل خانہ نے کبھی شکایت کی اور بہترین خدمت بجا لاتے رہے اور اس وجہ سے یہ آج کے واقفین،کارکنان اور ممبران شوریٰ کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
سوال نمبر10:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہرعہدیداراوراحمدی کو کیا تاکیدفرمائی؟
جواب:فرمایا:ہرعہدیدار اور احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ خالی مالی قربانی کرنا ہمیں اپنے اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف توجہ کرنے کے فرائض سے سبکدوش نہیں کرتا۔ نہ ہی مجلس شوریٰ کے ممبران اس خوش فہمی میں رہیں کہ اس ہال سے نکل کر وہ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔ یا یہ خیال کریں کہ بجٹ یا دیگر تجاویز پر بحث کر کے، یا تبلیغ،تعلیم اور تربیت کے لیے فنڈز مختص کرکےآپ کے فرائض ادا ہو گئے ہیں بلکہ ہر ایک کواپنی روحانی اور اخلاقی حالت میں بہتری لانے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے…آپ سب اس کے علاوہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کرے۔
سوال نمبر11:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تبلیغ اور تربیت کے حوالے سے ممبران شوریٰ کو کس طرف توجہ دلائی؟
جواب:فرمایا:جہاں تک تبلیغ اور تربیت کا تعلق ہے تو میں ممبران شوریٰ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی بہتر انداز میں اشاعت و ترویج نیز دیگر لٹریچر کی تشہیر کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اس قدر وسائل نہ تھے کہ ضرورت کے مطابق لٹریچر کی اشاعت کی جا سکے لیکن اب جماعت الحمدللہ لاکھوں کی تعداد میں کتب، رسائل اور پمفلٹس شائع کر رہی ہے۔
سوال نمبر12:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لٹریچرکے حوالے سے جماعتوں کو کیا تحریک کی؟
جواب:فرمایا: یوکے اور دوسری جماعتیں جو یہ خطاب سن رہی ہیں مصمم ارادہ کریں کہ ہم نے لٹریچر کی پہلے سے بڑھ کر ترسیل کرنی ہے اوراسے کثرت سے عوام میں پھیلانا ہے تا کہ احمدیت اور اس کی تعلیمات کا تعارف معاشرے میں وسیع طور پر ہو جائے۔ احمدیوں کو انفرادی طور پر بھی اس کی تحریک کرنی چاہیے کہ وہ کتب خریدیں اور ان کا مطالعہ کریں اور اپنے زیررابطہ احباب کو بھی دیں۔
سوال نمبر13:موجودہ زمانے میں احمدیت کے پیغام کو کس طریق پر پھیلانے کی ضرورت ہے؟
جواب:فرمایا:اس زمانے میں ہمیں مختلف آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعہ بھی احمدیت کے پیغام کو وسیع طور پر پھلانےکی ضرورت ہے۔ ہر احمدی کو ترغیب دلانی چاہیے کہ وہ ایم ٹی اے اور دیگر جماعتی آن لائن مواد سے استفادہ کریں اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کریں۔
سوال نمبر14:ایم ٹی اے کس طرح تبلیغ کے میدان میں کرداراداکررہاہے؟
جواب:فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال ہزاروں لوگ ایم ٹی اے اور الاسلام کےذریعہ جماعت سے متعارف ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے کئی سعید فطرت روحیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو جاتی ہیں۔ ایم ٹی اے کو صرف ایک ایسا چینل نہ سمجھا جائے جو صرف ممبرانِ جماعت کے لیے مفید ہے بلکہ یہ تبلیغ کے میدان میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے اگرچہ ابھی بھی اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پس ہر شوریٰ ممبر اور عہدیدار کو غیر مسلموں کے سامنے ایک منصوبہ بندی اور پلان کے تحت ایم ٹی اےاور ہماری دیگر ویب سائٹس جیسے ’’الاسلام‘‘کا تعارف کروانا چاہیے۔
سوال نمبر15:انسانیت کو تباہی سے بچانے کا واحدرستہ کیا ہے؟
جواب:فرمایا: آج ہم دنیا میں امن کا فقدان دیکھتے ہیں۔ اس وقت انسانیت کو تباہی سے بچانے کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانیں اور اس کی طرف جھکنے والے ہوں۔ ہمیں اپنی اپنی اقوام کی راہنمائی کرنی چاہیے اورانہیں اللہ اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔ اور ہم یہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک اسلام کی تعلیم اور ان اقدار کو اپنانے والے نہ ہوں گے جو قرآن کریم، رسول اللہ ﷺ اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے اندر قائم کیے ہیں۔ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچے اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے مقصد کو سمجھیں۔
٭…٭…٭