خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرو
وقف کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہیے
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے؛وَالسّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَ (الواقعہ :11)ترجمہ: اور ایک گروہ (ایمان اور عمل میں)آگے نکل جانے والوں کا ہوگا، سو وہ تو بہر حال دوسروں سے آگے ہی رہیں گے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیرمیں تحریر فرماتے ہیں کہ’’بعض نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ رسول کریم ﷺ پر جو لوگ ابتدامیں ایمان لائے تھے ان میں سے سابقون لوگ بہت ہوںگے، مگر آپؐ کے بعد جو مسلمان ہوںگے اُن میں سے ایسے لوگ تھوڑے ہوںگے۔مگر بانی سلسلہ احمدیہؑ نے بتایا ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں بلکہ یہ ہیں کہ ہر زمانہ میں جب کوئی سچائی کا پیغام آتا ہے تو جو شروع میں مانتے ہیں ان میں سے اکثر بڑا درجہ پانے والے ہوتے ہیں۔اور جو ترقی کے وقت مانتے ہیں ۔ ان میں بڑا درجہ پانے والے تھوڑے ہوتے ہیں ۔ اور یہی معنے انصاف پر مبنی ہیں‘‘۔(تفسیر صغیر صفحہ897)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان فرمودہ مندرجہ بالاتشریح تمام جماعتی تحریکات پر بھی صادق آتی ہے۔ چاہے وہ مالی تحریکات ہوں یا پھر وقف زندگی کی تحریک ہو۔ ہر تحریک میں پہلے پہل حصہ لینے والے اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے نہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام سے حصہ پانے والے بنتے ہیں بلکہ اُن کی قربانی کے معیار ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں ۔ ایک ایسی ہی تحریک یعنی تحریک وقف نو کے بارے میں خاکسار نے یہ مضمون تحریر کیا ہے ۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے3؍اپریل 1987ءکو تحریک وقف نو کے نام سے ایک تحریک جاری فرمائی۔اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے کثرت سے احباب جماعت احمدیہ نے اپنے بچوں اور بچیوں کو اس تحریک میں شامل کیا۔شروع میں یہ تحریک صرف دو سال کے لیے تھی اور پانچ ہزار واقفین کو اس تحریک میں شامل کیا جانا تھا ۔ حضورؒ نےازراہ شفقت کچھ عرصے کےبعد اس تحریک کی مدت پانچ سال تک بڑھا دی اور پندرہ ہزار واقفین کو اس تحریک میں شامل کیے جانے کی منظوری مرحمت فرمائی۔یہ دونوں اہداف جماعت کے خلوص اور جذبے کے باعث بآسانی پورے ہوگئے، جس کے بعد حضور انور نے اس تحریک کو مستقل تحریک کا درجہ عطا فرمایا اور اس تحریک کے اجرا سے لے کر اب تک پچاس ہزار سے زائد واقفین نو اس تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔
تحریک وقف نو میں پہلے پہل اپنے بچے بچیوں کو شامل کروانے پر اور آغاز کے حوالہ نمبر وقف نو حاصل کرنے پر والدین فخر محسوس کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اس تحریک میں حصہ لینے میں سبقت حاصل کر لی ہے۔لیکن اگر یہ واقفین نو جن کو آغاز کا حوالہ نمبر حاصل ہوا ہے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کر کے اپنے والدین کے کیے گئے عہد کو نبھائیں گے تبھی یہ والدین کے لیے حقیقی فخر کا مقام ہوگا۔محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب وہ تمام واقفین نو جن کو اُن کے والدین نے اس تحریک میں پہلے پہل حصہ لیتے ہوئے شامل کیا تھا اس عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے پیش کرتے ہوئے میدان عمل میں قدم رکھیں۔ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے بھی ہوں گے جو کہ اپنی پیشہ ورانہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسر روزگار بھی ہو چکے ہوں۔
اب ان تمام واقفین نو کا فرض ہے کہ جیسے ان کے والدین نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کو اس تحریک میں شامل کرنے میں سبقت حاصل کی تھی ویسے ہی اب یہ تمام واقفین نو اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے پیش کرنے میں سبقت اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 28؍اکتوبر 2016ء میں واقفین نو اور اُن کے والدین کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:’’ وقف نَو میں بچہ ماں اور باپ دونوں کی رضا مندی سے پیش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قرآن کریم میں محفوظ اس لئے نہیں فرمائی کہ پرانے زمانے کا ایک قصہ سنانا مقصود تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو یہ دعا اس قدر پسند آئی اور اسے اس لئے محفوظ فرمایا کہ آئندہ آنے والی مائیں بھی یہ دعا کر کے اپنے بچوں کو دین کی خاطر غیر معمولی قربانیاں کرنے والا بنائیں۔ گو کہ ہر مومن دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کرتا ہے لیکن وقف کرنے والے ان معیاروں کی انتہاؤں کو چھونے والے ہونے چاہئیں۔ پس جب ابتداسے مائیں اور باپ اپنے بچوں کے ذہنوں میں ڈالیں گے کہ تم وقف ہو اور ہم نے تمہیں خالصۃً دین کی خدمت کے لئے وقف کیا تھا اور یہی تمہاری زندگی کا مقصد ہونا چاہئے اور ساتھ ہی دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر بچے اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھیں گے کہ انہوں نے دین کی خدمت کرنی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ پروان نہیں چڑھیں گے کہ ہم نے بزنس مین بننا ہے، ہم نے کھلاڑی بننا ہے، ہم نے فلاں شعبہ میں جانا ہے، ہم نے فلاں شعبہ میں جانا ہے، بلکہ ان کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ میں وقف نَو ہوں مجھے جماعت بتائے، مجھے خلیفۂ وقت بتائے کہ میں کس شعبہ میں جاؤں۔ مجھے اب دنیا سے کوئی غرض نہیں۔ جو عہد میری ماں نے پیدائش سے پہلے کیا تھا اور جو دعائیں اس نے میری پیدائش سے پہلے مانگی تھیں اور پھر میری تربیت ایسے رنگ میں کی کہ میں دنیا کی بجائے دین کو تلاش کروں میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میری ماں کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور میری ماں کی کوششوں کو جو اس نے میری تربیت کے لئے کیں اللہ تعالیٰ نے پھل لگایا۔ اب میں بغیر کسی دنیاوی لالچ اور خواہش کے صرف اور صرف دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہوں۔‘‘
حضور انور مزید فرماتے ہیں:’’کسی وقف نَو بچے کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ ہم نے اگر وقف کیا تو ہم دنیاوی طور پر کس طرح گزارہ کریں گے یا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم ماں باپ کی مالی خدمت کس طرح کریں گے یا جسمانی طور پر خدمت کس طرح کریں گے۔ گزشتہ دنوں میری یہاں واقفین نَو کے ساتھ کلاس تھی تو ایک لڑکے نے یہ سوا ل کیا کہ اگر ہم وقف کر کے جماعت کو ہمہ وقت اپنی خدمات پیش کر دیں تو ہم اپنے والدین کی مالی یا جسمانی یا عمومی خدمت کس طرح کر سکیں گے۔ یہ سوال پیدا ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے اپنے واقفین نَو بچوں کے دل میں یہ بات بٹھائی ہی نہیں کہ تمہیں ہم نے وقف کر دیا ہے اور اب تم ہمارے پاس صرف اور صرف جماعت کی امانت ہو۔ دوسرے بہن بھائی ہماری خدمت کر لیں گے۔ تم نے صرف اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کو پیش کر دینا ہے اور اس کے حکموں کے مطابق چلانا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍اکتوبر2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍نومبر2016ءصفحہ6)
گذشتہ ادوار کی طرح موجودہ دور میں بھی خدمت دین کے لیے وقف کرنا ایک قربانی دیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چاہے وہ اپنی جان کی اپنی زندگی کی قربانی ہو، مالی قربانی ہو، وقت کی قربانی ہو، اپنی خواہشات اور جذبات کی قربانی ہو ، اپنی آزادی کی قربانی ہو یا پھر اپنے آرام و سکون کی قربانی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں اسی چیز کی قربانی قبول ہوتی ہے جو کہ سب سے پسندیدہ چیز ہو اور جس کو محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربان کیا جائے نہ کہ کسی ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے۔
بطور وقف نو، واقف زندگی ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف خدمت دین اور خدمت خلق میں وقف کا مثالی نمونہ پیش کریں بلکہ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے میں ، پیارے آقا حضور اکرم ﷺ پر درود شریف بھیجنے میں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بغور مطالعہ کرنے میں اور پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تمام ارشادات کی مکمل اطاعت کرنے میں مثالی نمونہ پیش کریں گے۔
اگر ہمارا ہر فعل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہو گا، اگر ہم استقامت کا نمونہ دکھاتے ہوئے تقویٰ کے معیار کو بلندکرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ،خدمت دین میں آگے سے آگے قدم بڑھائیں گے تو لازماً ہماری تمام مشکلات اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے دور فرمائے گا۔اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو احکامات بیان فرمائے ہیں ان کو سمجھ کر احسن طریق سے انجام دینے کی کوشش کریں۔ یہ تمام احکامات خداوندی ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب کے ذریعہ کھول کھول کر بیان فرمائے ہیں۔ تاکہ ہم قرآن کریم کے مضامین کو سمجھ سکیں ۔
خدمت دین میں اگر مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا حل بھی ہمیں دین میں تلاش کرنے سے مل سکتا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے:عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی اللّٰه عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه عليه وآلهٖ وسلم يَقُوْلُ: مَنْ يُرِدِاللّٰہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ۔ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ يُعْطِي۔ (البخاري، کتاب العلم، باب من يرداللّٰہ به خيرا يفقّهه في الدين) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہمیں ہر نماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ اور الحمدللہ اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر پڑھنے کا حکم ملتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں بیان ہے کہ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صلى اللّٰه عليه وسلم قَالَ:مُعَقِّبَاتٌ لَا يَخِيْبُ قَائِلُهُنَّ – أَوْ فَاعِلُهُنَّ – دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ ثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ تَسْبِيحَةً وَثَلاَثٌ وَثَلاَثُونَ تَحْمِيدَةً وَأَرْبَعٌ وَثَلاَثُونَ تَكْبِيرَةً۔( صحيح مسلم کتاب المساجدوصنع الصلاۃ)حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ہر فرض نماز کے بعد پڑھے جانے والے کچھ کلمات ایسے ہیں کہ ان کا پڑھنےوالا کبھی نامراد نہیں ہوتا ، 33 بار سبحان اللہ ،33 بار الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبر ۔
ایک اور جگہ بھی یہ حدیث بیان ہوئی ہے۔ جب ایک صحابیٔ رسول ﷺ نے آنحضور ﷺ سے سوال کیا کہ ہم کیسے مالی قربانی کرنے والے صحابہ کی طرح نیکیوں میں سبقت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے اُن کو ہر فرض نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ ،33 بار الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبرپڑھنے کا ارشاد فرمایا۔
اب اگر ہم غور کریں تو ان تسبیحات کا ورد کرنے میں بطور نصیحت ایک اصول بیان فرمایا گیا ہےاور وہ یہ ہے کہ سبحان اللہ ، الحمد للہ اور اللہ اکبر ایک مومن پر آنے ولی تین حالتیں ہیں۔ جب بھی ایک مومن کسی دوسرے کو اپنے سے بڑھ کر قربانی کرتے ہوئے دیکھتا ہے یا پھر کسی دوسرے پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور انعام ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تواس کے دل میں کسی قسم کا حسد پیدا ہو نے کی بجائے بے اختیار سبحان اللہ نکلتا ہے اور پھر جب اُس مومن پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہوتا ہے اور اُس کو وہ قربانی کرنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے یا پھر وہ نعمت عطا ہوتی ہے تو اِس پر اُس کے دل سے بے اختیار الحمد للہ نکلتا ہے ۔ اس کے بعد اس مومن کوشدت کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ قربانی کی توفیق یا یہ نعمت اُس کو اپنے کسی کمال کے نتیجے میں نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں ملی ہے یا پھر جب اُس کو احساس ہوتا ہے کہ اسےجو نعمت ملی ہےاُس کے اور اس کے خدا سے تعلق کے درمیان حائل ہو رہی ہے تو وہ مومن بے اختیا ر اللہ اکبر کہتا ہے یعنی اللہ سب سے بڑا ہے ، میری ذات تو کچھ بھی نہیں بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے اور تب وہ شکر گزاری کے جذبات میں ، خدمات ، عبادات اور دعائوں میں مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔غرض ایک مومن ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بیان کرتا ہے۔
اکثر واقفین نو نے اپنے آپ کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں ہی خود کو وقف کے لیے پیش کر دیا ہے اور جماعتی مدارج میں درجہ بدرجہ ترقی حاصل کریں گے اور اکثر واقفین نو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اپنے پیشہ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی خدمات جماعت کو پیش کرسکیں، جیساکہ ماہرین، ڈاکٹرز ، یا پھر ایسے احمدی احباب بھی وقف کر کے اپنے آپ کو جماعتی خدمت کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ وقف کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں جو کہ واقفین نو میں سے نہیں ہیں لیکن اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مہارت حاصل کر چکے ہیں ۔
اس بارے میں حضرت المصلح الموعود ؓکی ایک تقریر بعنوان ’’الٰہی سلسلہ کے ابتدائی ایام کے کارکنوں کا مقام ‘‘کا کچھ حصہ پیش ہے جو کہ آپ نے 14؍مئی 1932ءبرموقع الوداعی ٹی پارٹی مرزا محمد اشرف صاحب بیان فرمائی تھی:’’جب سے میں نے سلسلہ کے کام اور نظام کو وسیع کرنے اور ایک نیا ڈھانچہ دینےکی کوشش کی ہے۔ اُسی وقت سے یہ بات مد نظر رکھی ہے کہ جو لوگ ماتحتی میںکام کر رہے ہیں ان کی ترقی کے رستے کھلے رہیں ۔ ہمارے سلسلہ کے کام دو صنفوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ انسانوں کے تعاون پر ان کی بنیاد ہونی چاہئے ۔ یعنی ایسے لوگ ہوں جو خیالات اور جذبات میں کام لینے والے سے متفق ہوں ۔ ایسے کاموں کے لئے باہر سے آدمی چُنے جاتے ہیں جوانہیں سر انجام دے سکیں۔ تمام حکومتوں کا یہی دستور ہے کہ وہ وزرا باہر سےمقرر کرتی ہیں۔ اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیرونی لوگوں کے خیالات ایسے تغیر پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں جن سے قوم کی رگوں میں نیا خون پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے دفتری کام کے نتیجہ میں دماغ کی ساخت ایک خاص قسم کی ہو جاتی ہے اور جدّت کا مادہ قائم نہیں رہتا۔ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ باہر سے لوگ لائے جائیں جو بیرونی خیالات قوم میں داخل کر کے نیا رنگ اور نیا جوش پیدا کریں۔ لیکن ایک حصہ ایسا بھی ضرور ہونا چاہئے جو اس نظام کے قوانین اور آئین و ضوابط کی باریکیوں کو اچھی طرح جانتا ہواور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کارکنوں کے لئے ترقی کے راستے کھلے ہوں پس یہ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ یہ بھی کہ ایسے لوگ باہر سے لائے جائیں جو ماتحت عملہ سے تعلق نہ رکھتے ہوں تا وہ دماغ کا کام دیں اور ایسے لوگوں کو بھی ترقی دی جائے جو تفصیلات سے آگاہ ہوں اور شروع سے ترقی کر کے ایک مقام پر پہنچیں تا وہ دوسرے اعضا کا کام دے سکیں۔ اس کے لئے میں نے مدت سے یہ سکیم مقرر کی ہوئی ہے کہ بعض عہدے جو ذمہ داری کے بھی ہوں اور جن کے ساتھ ایک لمبے دفتری تجربہ کا بھی تعلق ہو خصوصاً محاسب اور آڈیٹر کا عہدہ ان لوگوں کے لئے محفوظ کر دیئے جائیں جو زینہ بہ زینہ ترقی کرتے ہیں۔‘‘(انوار العلوم جلد 12صفحہ510)
ایسے واقفین نو جو اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں خصوصاً واقفین نو ڈاکٹرز جنہوںنے ابھی تک وقف کر کے اپنے آپ کو جماعتی خدمت کے لیے پیش نہیں کیا اُن کو چاہیے کہ اپنے آپ کو لازمی طور پر عارضی یا مستقل وقف کے لیے پیش کریں۔ لیکن یہ بات بھی ہمیشہ یاد رہے کہ وقف کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہونا چاہیے نہ کہ کوئی ذاتی مقاصدحاصل کرنے کے لیے۔ اگر ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے ہےتبھی ہم دینی طور پر بھی اور دنیاوی طور پر بھی ترقی کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭