روحِ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے پیمانِ شاعر
محترم ثاقب زیروی صاحب مرحوم کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک جماعت احمدیہ عالمگیر کے سٹیج سے جلسہ سالانہ قادیان، ربوہ، لندن میں حضرت خلیفۃ المسیح کی موجودگی میں اپنی سحرٓ افرین آواز میں نظم پڑھنے کی سعادت ملتی رہی۔ خلافتِ ثانیہ میں یہ سلسلہ شروع ہو کر خلافتِ رابعہ میں ان کی وفات تک جاری رہا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جلسہ سالانہ کے دوسرے اور تیسرے روز اپنی دو نظمیں ثاقب صاحب سے پڑھوایا کرتے تھے اور بعض اوقات ایک دن یا دو دن ہی ثاقب صاحب کو اپنی نظمیں پڑھنے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے انہیں جو لحنِ داؤدی عطا فرمایا تھا وہ سماعت سے ٹکراتے ہی روح میں اتر جایا کرتا تھا بالخصوص جلسہ سالانہ کے آخری روز آپ جس درد اور سوز سے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے حاضرین جلسہ ہمہ تن گوش آپ کی نظمیں سننے کے منتظر رہتے تھے۔
خلافتِ ثالثہ کے سالانہ جلسہ میں دونوں دن (دوسرے تیسرے دن)دوسرے دن حالات حاضرہ اور تیسرے دن نعت رسول پڑھنے کا ایک مستقل فیچر بن چکا تھا۔ جب ٹیپ ریکارڈر منظرعام پر آیا تو ادھرجلسہ کا اختتام ہوا تو لوگ جلسہ گاہ سے گول بازار کی طرف جاتے تو وہاں حضرت خلیفۃ المسیح کی تقریر اور جگہ جگہ ثاقب زیروی صاحب کی دل موہ لینے والی نظمیں چل رہی ہوتیں۔ 1974ء کے بعدتو دوسرے دن کی نظم حالات حاضرہ پر بہترین تبصرہ ہوتی تھی۔ 1977ء میں جب ایک ظالم حکمران نے سازش کے تحت جماعت احمدیہ کو قومی اسمبلی سے غیر مسلم قرار دلوایا تو خدا تعالیٰ نے اسے پکڑا تو اس کے انجام پرپڑھی جانے والی ولولہ انگیز نظم کےہر شعر پر جلسہ گاہ میں نعرے گونجتے رہتے۔
یہاں مختصرا ًیہ عرض ہے کہ اس دن شام کو سیالکوٹ کی ملاقات تھی میں والد محترم کے ساتھ قصرِ خلافت ربوہ کے برآمدے میں تھا کہ ثاقب سیڑھیوں سے اترے اور والد صاحب سے ملاقات میں والد صاحب نے کہا کہ آج جلسہ ایسے تھا جیسے سمندر میں لہروں کا تلاطم ہو۔ اتنے نعرے گونجے۔ ثاقب صاحب نے کہا یہ سب خلافت کی برکت ہے۔ میں ابھی ایک گھنٹہ حضور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دے کر آیا ہوں۔
جلسے کے بعد خاکسار ان دنوں لاہور میں متعین تھا جب دفتر ملنے گیا تو محترم ثاقب صاحب سے پوچھا کہ وہ گھنٹہ بھر کیا باتیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ایک نظم ’انجام‘ کے حوالہ سے بتایا کہ جاتے ہی حضور نے فرمایا کہ ثاقب صاحب میں نے مولانا عبدالمالک خان صاحب سے کہا تھا کہ سپیکر کا والیم فل کر دو۔اتنے میں حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لے آئیں اور فرمایا ثاقب صاحب آپ نے مردانہ جلسہ گاہ میں تو بے شمار نعرے گونجتے دیکھے لیکن زنانہ جلسہ گاہ میں بھی ایسا ہی جوش و خروش تھا اور لجنہ نے بھی خوب نعرے لگائے۔ اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ منصورہ بیگم آپ ثاقب صاحب کی نظم کی تعریف ہی کرتی رہیں گی یا انہیں کوئی تحفہ بھی دیں گے۔ اس پر حضرت سیدہ منصورہ بیگم حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نےحضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور بتائیں کہ کیا تحفہ پیش کیا جائے۔ حضورؒ نے فرمایا جائیں اپنے ہاتھ سے ثاقب صاحب کے لیے چائے بنا کربھجوائیں۔الحمدللہ علیٰ ذالک
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ربوہ سے لندن ہجرت فرمانے کے ایک عرصہ بعد لندن سے جلسہ سالانہ قادیان کے لیے کارروائی نشر ہوتی تھی۔ اور حضور خطاب فرمایا کرتے تھے۔ غالبا 1995ًء کے جلسہ قادیان کے موقعے پر محترم ثاقب زیروی صاحب کو برین ہیمرج کا حملہ ہوا اور آپ سخت بیمار تھے۔ چنانچہ حضور انوررحمہ اللہ نے تلاوت کے بعد بچیوں کے ایک گروپ سے ثاقب زیروی صاحب کی قادیان کے زمانے کی ایک نظم تیار کروائی تھی۔ اس نظم کے پڑھوانے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا :
یہ ثاقب زیروی صاحب کا کلام ہے جو قادیان کے زمانے میں بہت ہردلعزیز ہوا تھا۔ ؎
اے قادیاں دارالاماں اونچا رہے تیرا نشان
ان دنوں میں گلی گلی بچے یہ نغمہ گاتے پھرتے تھے۔ ثاقب صاحب کی آواز بھی ان دنوں بڑے عروج پر تھی۔ماشاء اللہ
آج کل بیمار ہیں اور کافی طبیعت خراب ہے۔ اس غرض کے لیے میں نے یہ نغمہ رکھوایا ہے۔ ان کا ذکر کر رہا ہوں۔ ان کے لیے خصوصیت سے دعا کریں۔ اللہ تعالی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان کی ساری پریشانیاں دور کرے۔‘‘
دنیا بھر کے احمدیوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی دعا ئیہ تحریک پر دن رات دعائیں کیں۔ اللہ تعالی نے محترم ثاقب صاحب کو معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی۔ الحمدللہ
بستر مرگ سے پلٹ آئے دیکھا ثاقب دعاؤں کا جادو
محترم ثاقب زیروی صاحب مرحوم کی جلسہ ہائے سالانہ میں پڑھی ہوئی نظمیں اپنی گونج دار سریلی آواز اور وجد آفریں لہجے میں سنانے کے ان کے مخصوص انداز کا غنایت سے بھرپورو معمور تاثر جیتے جی کانوں میں رس گھولتا رہے گا۔
قارئین کرام اب محترم ثاقب زیروی صاحب کی جماعت احمدیہ عالمگیر کے اسٹیج سے پڑھی جانے والی پہلی نظم کی روئیداد پیش ہے جو یقیناً آپ سب کے لیے بہت دلچسپی کا باعث ہوگی۔ ان شاء اللہ
محترم ثاقبؔ صاحب پہلی مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بابرکت موجودگی میں نظم پیش کرنے کا احوال کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
بات یہ ہے کہ میں نے ساتویں جماعت میں تخلص رکھا تھا۔ میں سکول سے واپس آیا تو مجھے پتہ چلا کہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ ہمارے ہاں آئے ہوئے ہیں۔ وہ ابا جان کے دوست تھے اور اکثر پندرہ پندرہ بیس بیس دن ٹھہرا کرتے تھے۔ ہم انہیں تایا جی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دھسہ سا اوپر لیا ہوا تھا اس میں مجھے بٹھا لیا۔ سناؤ بھئی کیا پڑھا ہے۔ میں نے کہا تایا جی میں نے تخلص رکھ لیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کیا تخلص رکھ لیا ہے؟ میں نے کہا جی میں نے تخلص رکھا ہے ’’ثاقبؔ‘‘۔کہنے لگے بڑا اچھا تخلص ہے۔ ثاقب کے معنی چمکدار کے بھی ہیں، ثاقب کے معنی تعاقب کرنے والے کے بھی ہیں۔ مثقب ورمے کو کہتے ہیں اور ثقبہ اس پردے کو کہتے ہیں جس میں سے پھاڑ کر روشنی نکلتی ہے۔ میں گھبرا گیا تو میں نے کہا تایا صاحب میں رکھ لوں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ضرور رکھ لو۔ تو یہ پہلی بات تھی کہ احمدیت کے بہت بڑے عالم سے میں نے تخلص کی بات کی۔
……جب میں ملازم ہوا تو سیشن کورٹ میں بھی میرا یہ عالم تھا کہ میں قادیان آتا تھا اور بس وہی کہ بہشتی مقبرے میں چلے جانا اور مسجد مبارک میں نماز پڑھنی مغرب کی اور مجلس عرفان سننی اور چلے جانا۔ 35ء میں جب میں آیا تو مولوی محمد سلیم صاحب کے پاس میں ٹھہرا ہوا تھا تو میں نے کہا میں اگلے دن کل صبح چلا جاؤں گا۔ اس نے کہا یار تم اب نوکری تو چھوڑ آئے ہو۔ ابھی چھٹی لے کے آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا تم کل نہیں پرسوں چلے جانا۔ میں نے کہا جی۔ کہنے لگے کل خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں حضرت صاحب نے تحریک جدید کی توسیع کی اعلان کرنا ہے ایک سال کے لئے۔ تو وہ جلسہ attend کر لو مسجد اقصیٰ میں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کر لیں گے۔ تو انہوں نے تحریک جدید کی جو بات کی تو میں وہاں سے نکل گیا باہر اسٹیشن کی طرف اور میں نے کچھ شعر کہے، سات آٹھ شعر کہے اور واپس آکر انہیں کہا کہ مولانا میں نے ایک نظم کہی ہے۔ انہوں نے کہا یار نظم تو بڑی اچھی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر نظم اچھی ہے تو مجھے پڑھوا دیں۔ بڑا شوق تھا کہ حضرت صاحب کے سامنے نظم پڑھی جائے اور قادیان میں پڑھی جائے۔ تو وہ کہنے لگے کہ بھئی یہ میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ خیر اگلے دن میں صبح ذرا جلسے سے کوئی ایک گھنٹہ پہلے پہنچ گیا تو حضرت مولوی صاحب، تایا جی بیٹھے ہوئے تھے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی ؓکنوئیں کے پاس، وہ مسجد اقصیٰ میں جو کنواں ہے اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، بہت دور سٹیج سے۔ تو میں ان کے پاس چلا گیا انہوں نے مجھے حسب معمول اپنے آغوش میں لے لیا تو میں نے کہا تایا جی بات یہ ہے کہ میں نے ایک نظم کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہاں سناؤ۔ میں نے سنائی۔ کہنے لگے بہت اچھی نظم ہے۔ میں نے کہا یہ پڑھوا دیں۔ کہنے لگے یار یہ کام ذرا مشکل ہے۔ پڑھوانے والی بات مشکل ہے۔ اچھا تم یوں کرو وہ شخص جو کونے میں کھڑا ہے ناں، وہ بس دور مسجد میں اس کے پاس جاؤ، اسے کہو میں نے پڑھنی ہے۔ تو ان دنوں مجھ پر مولانا ابوالکلام آزاد زیادہ سوار تھے۔ تو میں کھدر اور اچکن اور کھدرکے پاجامہ پہنتا تھا۔ اچکن تو خیر دوسری تھی۔ رومی ٹوپی …۔میں میاں صاحب کے پاس گیا تو …… میں نظم اچھی کہتا ہوں آپ دیکھ لیں پڑھتا بھی اچھی ہوں۔ آپ سن لیں بیشک۔ انہوں نے نظم دیکھی، کہنے لگے ہو سکتا ہے تمہاری دوسری بات بھی ٹھیک ہو۔ تو اچھا میں تمہیں نظم پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں اس شرط پر…… میں نے کہا جی شرط منظور ہے۔ کہتے ہیں شرط تو سن لو۔ کہنے لگے شرط یہ ہے کہ وہ جو مسجد اقصیٰ کی سیڑھیاں ہیں ان کی دو برجیاں ہیں۔ میں دائیں طرف کی برجی پر کھڑا ہوں گا جب تم نظم پڑھنے لگو گے اور میری طرف دیکھتے رہنا۔ اگر میں ہاتھ سے اشارہ کر دوں تو بند کر دینا۔ کیونکہ اگر ذرا سا تلفظ بھی بگڑ جائے اور حضور کی پھر طبیعت … ہو جاتی ہے۔ میں نے کہا جی منظور ہے۔ اب میں وہاں سے اٹھ کے یہ کہہ کر وہ وعدہ دے کر تایا جی کے پاس پھر آ گیا۔ وہ بہت دور بیٹھے ہوئے تھے۔
قادیان میں جلسوں کا معمول یہ تھا کہ نظم پڑھنے والا اور تلاوت کرنے والا حضور کے پاس ہی بیٹھتا تھا تا کہ ایک تو وقت ضائع نہ ہو دوسرے اس کو سانس نہ چڑھے۔ اب میں وہاں بیٹھا تھا۔ تو حضور تشریف لائے۔ حضور نے پروگرام دیکھا اور پروگرام میں فرمایا کہ مولوی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس تلاوت کلام پاک کریں گے اور ثاقب …زیروی، توقف کے ساتھ، نظم پڑھیں گے۔ اب لوگوں نے اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا کہ بھئی ثاقب زیروی کون ہے۔ تو میں تو وہاں تھا نہیں۔ خیر جب وہ حضور نے پھر دوبارہ تلاوت کے بعد اعلان فرمایا تو میں وہاں سے چلا۔ اب وہ لوگ دیکھتے رہے کہ یہ کون ہے۔اب میرے جو اشعار تھے ان میں کچھ اصطلاحیں ایسی تھیں جو قادیان میں کبھی چلی نہیں تھی۔ جب میں حضور کے پاس آ کر کھڑا ہوا تو مجھے حضور نے دو دفعہ یوں نیچے اوپر پورا دیکھا اور اس کا مجھے اس لئے بھی احساس ہے کہ جب حضور کا وصال ہوا اور خلیفہ ثالث کے پہلے جلسہ پر میں نے نظم پڑھی اس میں ایک شعر تھا جو اسی تاثر کا حامل تھا کہ
مجھ کو بھولے گی کہاں وہ تری بھرپور نگاہ
جگمگا اٹھا تھا جب فکر کا ایواں پیارے
تو حضور نے جب دو دفعہ دیکھ لیا تو مجھے فرمایا کہ یہ زیروی سے مراد زیرہ ضلع فیروزپور ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ وہاں میرے ایک حدیث کے کلاس فیلو رہتے ہیں مولوی اللہ بخش خاں۔ ان کو آپ جانتے ہیں؟ میں نے کہا جی میں ان کا بڑا لڑکا ہوں۔ کہنے لگے اچھا پڑھو۔ تو میںنے وہ نظم پڑھنی شروع کی۔ تو اس کا جب پہلا شعر پڑھا کہ
ساغر بادۂ عرفان پلا دے ساقی
میری سوئی ہوئی تقدیر جگا دے ساقی
مجھ سے غم دیدہ پہ ہو جائے وہ چشم الطاف
جگمگا اٹھے میرے سارے ارادے ساقی
تو میں نے دیکھا کہ میاں صاحب وہاں سے غائب ہوگئے۔
مجھ سے غم دیدہ پہ ہو جائے وہ چشم الطاف
جگمگا اٹھے میرے سارے ارادے ساقی
یہ شعر حضور نے دوبارہ پڑھوایا۔ پھر میں نے شعر پڑھا کہ
تجھ کو مولیٰ نے کیا عطر رضا سے ممسوح
یہ مہک گلشن عالم میں بسا دے ساقی
حضور نے اسے بھی دو دفعہ پڑھوایا۔
تجھ کو مولیٰ نے کیا عطر رضا سے ممسوح
یہ مہک گلشن عالم میں بسا دے ساقی
تجھ سے اقوام زمانہ کی ہے برکت منسوب
میری بگڑی ہوئی قسمت بھی بنا دے ساقی
تو نے جاری کیا خم خانہ تحریک جدید
اس سے بڑھ کر تجھے توفیق خدا دے ساقی
حضور نے یہ شعر تین چار دفعہ پڑھوایا
اپنے ثاقب کو جو احساس کی دولت بخشی
تجھ کو اس لطف کی اللہ جزا دے ساقی
محترم ثاقبؔ صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منظوم کلام جلسہ سالانہ پر پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ یہ سلسلہ شروع کیسے ہوا، اس کے بارے میں آپ اپنی یادداشت کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
حضور ؓ کا انداز جو تھا وہ بہت ہی systematic تھا۔ مَیں نے …عرض کیا تھا کہ 39ء میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں نظم پڑھی تھی۔ اس وقت حضور نے سمجھ لیا کہ یہ بچہ نظم پڑھ سکتا ہے تو ہم 25؍ دسمبر کو آئے۔ زیرے کی جماعت کی ملاقات تھی تو میرے والد صاحب آگے تھے، میں پیچھے تھا۔ تو جب میں نے مصافحہ کیا تو حضور نے فرمایا کہ آپ سے ایک کام بھی ہے۔
مَیں نے کہا جی حکم۔ کہنے لگے آپ وہ میری نظم پڑھ دیں گے۔ میں نے کہا جی زہے نصیب۔ پرسوں پڑھنی ہے تو کل پھر لے جائیں۔ لیکن اس کے بعد پھر یہ معمول رہا کہ اگر انہوں نے نومبر میں نظم کہہ لی ہے تو مجھے خط جاتا تھا کہ میں نے ایک نظم کہی ہے یا دو نظمیں کہی ہیں وہ فلاں فلاں تاریخ پر پڑھی جائیں گی کیا آپ میری نظم پڑھ سکتے ہیں، پڑھ دیں گے۔ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی کیا لکھتا ہو گا کہ زہے نصیب۔ اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے! تو یہ ہر سال ہوتا تھا۔ باقاعدہ رجسٹرڈ لفافہ آتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ ہوا یہ کہ میں اپنے دیوان خانہ میں سویا ہوا تھا۔ایک ہی ڈاکیا ہوتا تھا زیرے قصبہ میں۔ اس نے دروازے کی درز میں سے خط پھینک دیا۔ اندر وہ زمین پر پڑا رہا تو جب میں اٹھا تو میں نے دیکھا کہ خط پڑا ہوا ہے تو میں نے اس کو کھولا۔ وہ خط حضرت صاحب کا نظم کے متعلق تھا۔
میں نے جواب ظاہر ہے لکھا کہ حضور اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے میرے لئے کہ میں حضور کا کلام پڑھوں۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ میں نے ’کلام الامام‘ اور ’امام الکلام‘ کی اصطلاح وہیں سے شروع کی تھی۔ تو جب وہ خط کھولا تو وہ حضور کا خط تھا۔ تو میں نے جب جواب لکھا تو میں نے لکھا کہ حضور اس پہ کہ یہ یہ ہوا ہے خط کے ساتھ حشر،میرے ساتھ حشر ہوا ہے اصل میں خط کے ساتھ تو نہیں ہوا لیکن یہ اس پہ قطعہ ہوا ہے۔ تو وہ قطعہ یہ تھا کہ
ڈاکیا فرش زمین پر پھینک کر خط چل دیا
سٹپٹایا قلب تحقیر خطِ محمود پر
غیرت و توقیر کی شکنیں جبیں پر آ گئیں
کپکپائی روح کانپا تن بدن بکھری نظر
اک صدا آئی میرے پہلو سے اے شیریں سخن
جوہری بِن کون جانے قیمت وقدرِ گہر
جب میں پھر نظم لینے گیا تو حضور نے اس کی بڑی تعریف کی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے وصال کے بعد جلسہ سالانہ 1965ء میں محترم ثاقب صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی موجودگی میں حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں ایک نظم ’’پیمانِ شاعر‘‘ مترنم پڑھی جس کے دوران تمام حاضرین جلسہ حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں اشک بہاتے رہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے محترم ثاقب صاحب کہتے ہیں:
……اس نظم کا عنوان تھا ’پیمان شاعر‘ اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ 27؍دسمبر کو میں نے یہ نظم پڑھی اور 28دسمبر کو جب میں صبح آیا تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓکا پیغام پہنچا کہ آپ آئیں اور خواتین کے جلسہ میں بھی وہ نظم پڑھیں تو میں نے چودھری ظہور احمد باجوہ غالباً تھے ان دنوں تو میں نے انہیں کہا کہ دیکھیے مجھے کبھی اتفاق نہیں ہوا عورتوں کے جلسہ میں نظم پڑھنے کا۔ آپ ٹیپ ریکارڈر لے جائیںا ور وہاں سنوا دیں۔ وہ گئے تو پھوپھی جان کا پیغام آیا کہ جب ثاقب زندہ ہے تو ہم ٹیپ ریکارڈر پہ کیوں انحصار کریں۔ تو پھر مجھے جانا پڑا تو وہ نظم میں نے وہاں بھی پڑھی۔ وہ میں عرض کئے دیتا ہوں۔ عنوان ہے ’’پیمان شاعر‘‘
تو نے کی مشعل احساس فروزاں پیارے
دل بھلا کیسے بھلا دے ترا احساں پیارے
روح پژمردہ کو ایماں کی جِلائیں بخشیں
اور انوار سے دھو ڈالے دل و جاں پیارے
ولولوں نے ترے ڈالی مہ و انجم پہ کمند
تو نے کی سطوتِ اسلام درخشاں پیارے
اب وہی دین محمدؐ کی قسم کھاتے ہیں
تھے جو مشہور کبھی دشمن ایماں پیارے
پہلے بخشا میرے بہکے ہوئے نغموں کو گداز
پھر میری روح پہ کی درد کی افشاں پیارے
مجھ کو بھولے گی کہاں وہ تری بھر پور نگاہ
جگمگا اٹھا تھا جب فکر کا ایواں پیارے
اب نگاہیں تجھے ڈھونڈیں بھی تو کس جا پائیں
جانے کب پائے سکوں یہ دلِ ویراں پیارے
کون افلاک پہ لے جائے یہ رودادِ الم
تیرا متوالہ ابھی تک ہے پریشاں پیارے
روح پھرتی ہے بھٹکتی ہوئی ویرانوں میں
دل ہے نیرنگیٔ افلاک پہ حیراں پیارے
شکر ایزد تیرے آغوش کا پالا آیا
اپنے دامن میں لیے دولت عرفاں پیارے
فکر میں جس کے سرایت تری تخیل کی ذوق
گفتگو میں بھی وہی حسن نمایاں پیارے
جس کی ہر ایک ادا ’’نافلۃ لک‘‘ کی دلیل
جس کی ہر ایک نوا درد کا عنواں پیارے
دیکھ کر اس کو لگی دل کی بجھا لیتا ہوں
آنے والے پہ نہ کیوں جان ہو قرباں پیارے
تیری اس شمع کا پروانہ صفت ہو گا طواف
تیرے ثاقبؔ کا ہے اب تجھ سے یہ پیماں پیارے