آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے
میں اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک تمام جلسوں میں شامل ہوا ہوں لیکن دونوں ادوار میں اس جلسہ میں شمولیت کا رنگ جدا تھا۔ بچہ ایسے مواقع سے لطف اندوز ہونے کے اپنے طریقے وضع کر لیتا ہے جب کہ عمر بڑھنے کے ساتھ سوچ میں ایک تبدیلی آنے لگتی ہے اور ان مواقع کے روحانی فوائد سے متمتّع ہونے کی خواہش دل میں کروٹیں لینے لگتی ہے۔ کچھ ایسے ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ میرے بچپن میں جلسے سے پہلے ربوہ کے درو دیوار پر بہت بڑے بڑے اشتہارات لگنا شروع ہو جاتے۔ ان میں سے ایک اشتہار جس کی شکل و شباہت اور نفسِ مضمون مجھے آج تک نہیں بھولا جلسے کے پروگرام کا ہوتا تھا جو غالباً صدر انجمن احمدیہ شائع کرتی تھی۔ جہازی سائز کے اس اشتہار پر منارۃ المسیح کی تصویر ضرور ہوا کرتی تھی۔ (میںاور میرا ہم نام پھوپھی زاد یہ اشتہار اور ہر طرح کے دیگر اشتہارات بہت شوق سے جمع کرتے تھے۔ تازہ چسپاں کیے گئے اشتہاروں کو اتارنا تو بہت آسان تھا لیکن ہمیں دو چار دن پہلے سے لگے ہوئے اشتہاروں کو بھی اُتارنے میں زیادہ مشکل پیش نہ آتی چنانچہ جلسہ ختم ہونے کے بعد ہمارے پاس یہ اشتہار بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے۔ اگرچہ پیچھے لگی ہوئی لئی کی وجہ سے یہ اشتہار کسی استعمال کے قابل تو نہ ہوتے لیکن بس ہمیں اشتہارات جمع کرنے کا جنون سا تھا۔ جب ہم دیوار پر لگا ہوا اشتہار اُتارنے میں کامیاب ہو جاتے تو ہمیں ایک انجانی لیکن بے پایاں مسرت کا احساس ہوتا اور اسے ہاتھ میں پکڑ کر گھر کی طرف بھاگتے ہوئے محسوس ہوتا گویا ہمیں کوئی نعمتِ غیرمترقبہ حاصل ہو گئی ہو۔ رات کے وقت ہم اپنے طے کردہ معیار کے مطابق ان اشتہارات کی درجہ بندی کرتے اور ان کے الگ الگ رول بنا کر سنبھال لیتے تاہم جلسہ گزرنے کے بعد جب سکول کُھل جاتے تو ہمارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جاتا اور کچھ عرصے کے بعد ہماری عدمِ دلچسپی سے یہ اشتہارات ضائع ہو جاتے۔)
جلسہ سالانہ کے ایام میں جب دور و نزدیک سے لوگ جمع ہو تے تو ہماری عمر کے بچے اس موقع کوبھرپور تفریح کے لیے استعمال کرتے چنانچہ اس دوران ہم فضل عمر ہسپتال کے پیچھے والی پہاڑی کی چوٹی فتح کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے۔ اس وقت سانس بھی کم کم پھولتا تھا چنانچہ میں اور میرے کزن تقریباً بھاگتے ہوئے چوٹی پر پہنچ جاتے اور وہاں سے دیر تک جلسہ گاہ، گول بازار اور دریا کا نظارہ کرتے رہتے۔ موقع ملتا تو ہم بہشتی مقبرہ کے پیچھے والی پہاڑی پر بھی چڑھتے اور بعض دفعہ درّہ پار کرکے کوٹ امیر شاہ کی طرف جا نکلتے ۔ہم دیکھتے کہ کئی مہمان دو دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں، گنے چوسے جا رہے ہیں یا کسی بیلنے والے سے گنے کے رس یا تازہ گُڑ کی فرمائش کی جا رہی ہے۔ بعض مہمان امرود کے باغات کے گرد منڈلاتے اور اس نعمتِ خداوندی سے فیضیاب ہونے کے طریقے ڈھونڈتے بھی نظر آتے تھے ۔
اس موقع پر دریا کی سیر بھی ہمارے معمول میں شامل تھی۔ موقع ملتا تو کشتی رانی بھی کر لیتے اور اس کا وقت نہ ہوتا تو ویسے ہی گھوم پھر کر واپس آجاتے۔ وقت اجازت دیتا تو ہم دریا کے اُس پاروہ ہندو مندر دیکھنے چلے جاتے جو اُس وقت تک ٹھیک حالت میں تھا۔ اُن دنوں دریا پر خاصی رونق ہوتی۔ بعد میں تو حالات بہت بدل گئے لیکن اس زمانے میں لوگوں کے خیالات میں بالعموم اتنی شدت نہ تھی چنانچہ نہ تو نقصِ امن کا کوئی اندیشہ ہوتا نہ غیراز جماعت افراد کی طرف سے کسی شرارت کا امکان لہٰذا دریا پر سیر کرنے والوں کا بھی خاصا رش ہوتا۔
مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کی صحت کا زمانہ کچھ کچھ یاد ہے۔ اگرچہ میں کم عمری کی وجہ سے آپ کے بیان فرمودہ روحانی معارف سے تو پوری طرح بہرہ ورنہ ہو سکتا تھا لیکن میں نے آپ کی بعض تقاریر بہت انہماک کے ساتھ سنی ہیں چنانچہ نصرت گرلز ہائی سکول کے صحن میں ہونے والا وہ جلسہ مجھے آج بھی یاد ہے جس میں آپ کی سیر روحانی والی تقریر کم وبیش پانچ یا چھ گھنٹے جاری رہی تھی۔ یہ حضور کی قوتِ قدسی تھی یا فنِ خطابت پر آپ کی دسترس کا کمال کہ بارش کے باوجود سامعین میں کسی طرح کی بھگدڑ نہ مچی اور وہ انتہائی ضبط کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھ کر یہ تقریر سنتے رہے۔
حضورؓ کی ان تقاریر کو محفوظ کرنے کی ذمہ داری صیغہ زودنویسی کی تھی جس کے انچارج اباجی تھے۔ اُس دور میں مولوی سلطان احمد پیر کوٹی ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس اعتبار سے کچھ تقاریر یقیناً وہ بھی قلمبند کرتے ہوں گے لیکن حضورؓ کے خطابات کی اہمیت کے پیشِ نظر اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ آپ کو اباجی کی کارکردگی پر زیادہ اعتماد تھا حضور کی تقاریر بالعموم وہی لکھتے۔
یہ موقع فنِ زود نویسی کی باریکیوں میں جانے کا نہیں لیکن اتنا ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹیپ ریکارڈنگ کی سہولت کے بغیر یہ کام انتہائی مشکل تھا۔ خدا کا شکر ہے اباجی اس فرض سے ہمیشہ بہت خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوئے اور حضورؓ کو ان کے کام سے کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔
میں نے ابا جی سے سن رکھا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے غالباً کلکتہ کی جماعت نے حضوؓر کی خدمت میں ایک ریکارڈنگ مشین تحفۃً پیش کی تھی جو امریکہ کی بنی ہوئی تھی۔ یہ مشین پاکستان بھی پہنچ گئی اور مدتوں بعد تک اباجی کے دفتر میں پڑی رہی۔ اس مشین کا نام ڈِکٹا فون تھا اور اس پر ٹیپ کی بجائے ایک کارڈ استعمال ہوتا تھا۔ یہ مشین جو دو حصوں میں تھی سائز کے لحاظ سے بہت بڑی تھی۔ افسوس یہ مشین اس کام کے لیے کبھی استعمال نہ ہو پائی جس کے لیے اسے حضوؓر کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ شاید اس مشین میں شروع ہی سے کوئی خرابی تھی یا اسے استعمال کرنے کے لیے مطلوبہ مہارت کا فقدان تھا۔
ایک نوٹ سے جو حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر احمد صاحبؓ کے قلم سے الفضل (14 جنوری 1952ء) میں شائع ہوا پتا چلتا ہے کہ 1951ء کے جلسہ سالانہ پر امریکہ سے ایک صاحب شامل ہوئے تھے جن کا نام سید عبدالرحمن تھا۔ وہ بتیس سال کے طویل عرصہ کے بعد وطن واپس لوٹے تھے اور انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کی تقاریر ریکارڈ کی تھیں۔ جیسا کہ حضرت میاں صاحبؓ کے درج ذیل الفاظ سے مترشح ہوتا ہے اس وقت ٹیپ ریکارڈِنگ کو ایک غیر معمولی واقعہ کے طور پر لیا گیا:
’’سید عبدالرحمن صاحب نے اس جلسہ میں حضرت (…) خلیفۃ المسیح الثّانی ایدہُ اﷲ تعالیٰ کی ساری تقریر اپنی امریکن مشین میں جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے منّ و عن ریکارڈ کی ہے تاکہ واپس جا کر حضور کی تقریر حضور ہی کے الفاظ اور حضور ہی کی آواز میں امریکن دوستوں کو سنا کر ہمیشہ کے لیے اپنے پاس محفوظ رکھ سکیں۔‘‘
ریکارڈنگ کی یہ سہولت جلد ہی عام ہو گئی چنانچہ 1952ء کے جلسہ سالانہ سے پہلے الفضل میں یہ اعلان شائع ہوا کہ ’’اس موقع پر بعض احباب ریکارڈنگ مشین لایا کرتے ہیں۔ اس بارہ میں اگر ضروری احتیاط نہ برتی جائے تو آلہ نشرُ الصّوت کی آوازمیں نقص پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے اس لیے امسال یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو احباب جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر ریکارڈ کرنا چاہیں وہ پندرہ دسمبر سے پہلے … درخواست بھجوا دیں… یہ ضروری ہو گا کہ ریکارڈنگ مشین کے مائیکروفون کی تار بیس یا پچیس فٹ لمبی ہو۔ اسی طرح مناسب سٹینڈ بھی ساتھ ہو۔‘‘
الفضل کے پرانے فائل دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ 1953ء کے جلسہ سالانہ پر حضوؓر کی سیر روحانی والی تقریر باقاعدہ طور پر ریکارڈ کی گئی اور بعد میں اسے (غالباً پہلی بار) جماعتوں میں سنانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔
ابا جی کی زندگی میں صیغہ زودنویسی کو دو ریکارڈنگ مشینیں فراہم کر دی گئی تھیں۔ یہ مشینیں سائز میں ایک چھوٹے صندوق کے برابر اور وزن میں بہت بھاری تھیں۔ قاضی محمد نذیر لائلپوری کے صاحبزادے قاضی عزیز احمد ان مشینوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنی زندگی کے آخری چند برس بہت علیل رہے جس کی وجہ سے آپ نے ان جلسہ ہائے سالانہ کے موقع پر یا تو اپنی ہی پہلے سے لکھوائی ہوئی تقاریر پڑھیں یا آپ کے پیغامات سامعین کو پڑھ کر سنائے گئے۔ میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ابا جی حضوؓر کے پاس بیٹھ کر آپ کی ہدایت کے مطابق تقاریر یا پیغامات کے مشمولات نوٹ کر لیتے اور پھر انہیںمضمون کی شکل دے کر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور ان کی وفات کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے توسط سے حضوؓر کو دکھادیتے۔ حضوؓر یہ تقاریر یا پیغامات پڑھنے سننے کے بعد ان پر اپنے دستخط ثبت فرماتے۔ بعد میں ان پیغامات کو جلی حروف میں خوش خط لکھوایا جاتا۔ یہ خدمت مولوی بشیر احمد قادیانی نامی ایک بزرگ سرانجام دیتے تھے۔ یہ تقاریر وپیغامات کتابی سائز میں لکھے جاتے تاکہ حضور کو انہیں پکڑنے میں آسانی رہے۔
تقریر کے دوران اللہ تعالیٰ ،آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم، مکّہ اور مدینہ، حضرت مسیح موعوؓد اور قادیان کے ذکر پر حضور کی آواز بھراجاتی اور رقّت طاری ہو جاتی۔ جن لوگوں نے آپ کی فصاحت و بلاغت سے بھرپور کئی کئی گھنٹوں پر محیط تقاریر سُن رکھی تھیں سسکیاں لینے لگتے اور دیکھتے ہی دیکھتے جلسہ گاہ حزن و ملال کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتا۔ ثاقب زیروی کے مدِنظر یہی صورت حال تھی جب انہوں نے کہا تھا:
چشمِ میگوں میں یہ دلدوز سی حسرت کیا ہے
رُوئے روشن پہ پریشان سی نکہت کیا ہے
تجھ کو دیکھا تو بجھے دل کو قرار آ ہی گیا
تیری بیمار نگاہوں میں بھی برکت کیا ہے
شمع افسردہ ہو پروانوں کی حالت معلوم
جانے اس کرب میں مالک کی مشیّت کیا ہے
’’ساری دنیا کے مریضوں کو شفا دے یا رب!
آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے‘‘
جلسہ سالانہ کے لیے کوئی ایک جگہ مستقل طور پر مخصوص نہ تھی بلکہ حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کی جاتی رہتی تھی۔ میرے علم کے مطابق کچھ سال مردانہ جلسہ نصرت گرلز ہائی سکول کے صحن میں ہوا۔ اسی طرح مجھے زنانہ جلسے کا دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی گرائونڈ میں ہونا بھی یاد ہے۔ بعد میں جلسہ مسجد اقصیٰ والے میدان میں اور آخری سالوں میں مسجد اقصٰی کی چار دیواری کے اندر منعقد ہونے لگا۔ جلسہ کی آمد سے کچھ عرصہ پہلے جلسہ گاہ کوسٹیڈیم کی شکل دے دی جاتی یعنی اس کے چاروں طرف لکڑی کے شہتیروں سے مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے عارضی سیڑھیاں بنا دی جاتیں۔
باوجود یکہ جماعت کی مخالفت کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اُس وقت تک سیکیورٹی گیٹوں یا مَیٹل ڈیٹیکٹرز کے استعمال کا رواج نہ ہوا تھا۔ ہاں! خدمتِ خلق کے کارکن آنے جانے والوں پر نظر رکھتے، کبھی کبھار کسی مہمان کے پاس موجود سامان کھلوا کر بھی دیکھ لیتے اور ضروری ہوتا تو اس کی جامہ تلاشی سے بھی گریز نہ کرتے لیکن یہ امر ہمیشہ ملحوظ رکھا جاتا کہ کسی مہمان کی دل آزاری نہ ہو اور اس کی عزت و تکریم پر کوئی حرف نہ آئے۔
جلسہ گاہ کی طرف آنے والے تمام راستوں پر خدمتِ خلق کے رضاکار دن رات ڈیوٹی پر موجود رہتے ۔زیادہ مصروف سڑکوں پر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ راستے بنا دیے جاتے اور یہ امر یقینی بنایا جاتا کہ اس بارے میں جماعتی ہدایات پر عمل میں کسی قسم کا تساہل نہ ہونے پائے۔
یوں تو جلسہ سالانہ کے موقع پر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ربوہ میںپولیس کی بھاری نفری بھی تعینات ہوتی تھی لیکن حقیقتاً امن عامہ کے قیام کی اصل ذمہ داری جماعتی رضا کاروں پر تھی جو اپنے فرض کی ادائیگی میں دن رات ایک کر دیتے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کے مجمع میں شرپسندعناصر کا گھس آنا ناقابلِ فہم بات نہیںلیکن خدا کا شکر ہے کہ ایسے عناصر کو اپنے مذموم مقاصد میں ہمیشہ ناکامی ہوئی۔
اس موقع پر مہمانوں کی سہولت کے لیے پاکستان ریلوے خاص خاص مقامات سے ربوہ کے لیے اسپیشل ٹرینیں چلاتی اور واپسی پر بھی ریلوے کی طرف سے ایسا ہی انتظام کیا جاتا۔ …مہمانوں کی آنکھیں مرکز سلسلہ میںآمد کی خوشی سے چمک اُٹھتیں اور ان کا استقبال کرنے والوں کے دل مسرت سے لبریز ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے ہم اپنے مہمانوں کو اُن کے دیے ہوئے پروگرام کے مطابق لینے کے لیے بروقت ریلوے سٹیشن یا لاری اڈے پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ مہمان پہنچتے تو فضا کا رنگ ہی بدل جاتا اور مصافحوں اور معانقوں کا سلسلہ تادیر جاری رہتا جس کے بعد ہم انہیں اپنے ہم راہ لے کر گھر کی طرف روانہ ہو جاتے۔ ہفت روزہ ’’لاہور‘‘کے مدیرِ محترم نے ان مہمانوں کے جذبات کی کیا خوب عکاسی کی ہے:
نظر نظر میں لیے جان و دل کے نذرانے
طوافِ شمع کو پھر آگئے ہیں پروانے
جبیں پہ گردِ رہِ عشق دل میں نور و سُرور
ہیں آسمانِ عقیدت پہ آج دیوانے
زمینِ ربوہ کو سجدوں سے ناپنے کے لیے
مچل رہے ہیں جبینوں میں پاک نذرانے
کس اہتمام سے اِک شمع انجمن کے لیے
وفا کے نور میں ڈوبے ہوئے ہیں پروانے
اُس زمانے میں ربوہ میں تانگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر گردو نواح سے درجنوں تانگے یہاں آجاتے چنانچہ لاری اڈے اور ریلوے اسٹیشن کے باہر بہت گہما گہمی ہوتی۔ افسرجلسہ سالانہ کی طرف سے مختلف محلوں کے لیے تانگے کے نرخ مقرر ہوتے تھے۔ قُلیوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہوتی جن کے اجرت نامے کی جلسہ سالانہ سے پہلے خوب تشہیر کر دی جاتی تھی لیکن ساتھ ہی ایسے خدام بھی ڈیوٹی پر مامور ہوتے جو ٹرین یا بسوں سے مسافروں کا سامان اتارنے اور انہیں حسب خواہش ان کے گھروں تک پہنچانے میں ان کی ہر ممکن مدد کرتے۔ یاد رہے کہ یہ سارا کام محض خدمت خلق کے جذبہ کے تحت رضا کارانہ طور پر سر انجام دیا جاتا تھا۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اتنے بڑے ہجوم میں چھوٹے بچوں کا اِدھر اُدھر ہو جانا یا سامان کا گم جانا بعیدازقیاس نہیں لہٰذا لاری اڈے اور ریلوے اسٹیشن پر اور جلسہ گاہ میں احباب جماعت کو اس بارے میں بار بار احتیاط کا مشورہ دیا جاتا۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بعض والدین کو وقتی طور پر اپنے بچوں کی گمشدگی کا سامنا کرنا پڑالیکن میرے علم کے مطابق ان مواقع پر ایک بھی بچہ گم نہیں ہوا۔ گمشدہ سامان بھی بالعموم مالکان تک بحفاظت پہنچ جاتا اور اس کا باعث خدمت خلق کا وہ جامع نظام تھا جس کی بنیاد پچھلے کئی سالوں کے تجربے پر رکھی گئی تھی۔
اگر کسی مہمان کی کوئی گمشدہ چیز فوری طور پر نہ مل پاتی تو جلسہ سالانہ کے بعد الفضل میں اس کا اعلان کرا دیا جاتا۔وہ زمانہ غربت اور تنگدستی کا تھا چنانچہ بسا اوقات اب بظاہر بہت معمولی نظر آنے والی اشیا ء مثلاً بستر کی چادر، ٹفن کیرئیر اور ایسی گٹھڑی جس میں صرف دو چار استعمال شدہ کپڑے تھے کی گمشدگی کے اعلانا ت بھی شائع ہوتے رہتے۔ اسی طرح بازیاب ہونے والی اشیاء کی بھی مناسب تشہیر کر دی جاتی جس سے بیشتر گُم شدہ چیزیں بالآخر اپنے اصل مالکان تک پہنچ جاتیں۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر مہمانوں کی ایک بڑی تعداد جماعتی قیام گاہوں میں ٹھہرتی۔ جماعتی قیام گاہوں سے مراد وہ عمارات ہوتیں جنہیں کسی خاص جماعت یا جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کی رہائش کے لیے مختص کر دیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ قیام گاہیں صرف مردوں کے لیے مخصوص ہوتیں تو دیگر صرف عورتوں کے لیے۔چونکہ مہمانوں کے لیے چارپائیوں کا انتظام نا ممکنات میں سے تھا لہٰذا مہمان جماعتی طور پر مہیا کردہ پرالی پر اپنے ہم راہ لائے ہوئے بستر بچھا کر سو جاتے ۔ہرقیام گاہ کے ساتھ پہلے سے موجود ٹوائلٹس کے علاوہ عارضی ٹوائلٹس بھی تعمیر کیے جاتے اور طہارت کے لیے مٹی کے لوٹے فراہم کیے جاتے۔اگرچہ فلش سسٹم کی عدم موجودگی میں ٹوائلٹس کی خاطر خواہ صفائی تو نہ ہو سکتی تھی لیکن ان قیام گاہوں کے مکین یہ سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کر لیتے۔
…اُن مہمانوںکے لیے جوکسی وجہ سے جماعتی قیام گاہوں میں ٹھہرنا نہ چاہتے دارالضیافت سے ملحق گراسی پلاٹ میں خیمے نصب کیے جاتے تھے۔ ہر خیمہ ایک خاندان کے لیے مختص ہوتا۔ اس خیمہ بستی کے گرد رسیوں سے ایک حفاظتی حصار کھینچ دیا جاتا اور خدمت خلق کے کارکن وہاں ہمہ وقت ڈیوٹی پر موجود رہتے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شدید سردی میں کُھلے آسمان کے نیچے ان خیموں میں قیام ان کے مکینوں کے لیے کس حد تک خوشگوار تجربہ ہو گا لیکن انہیں وہ پرائیویسی ضرور میسر آجاتی جس سے دوسرے مہمان محروم رہتے تھے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اپنے گھر کی محدود مکانیت کی وجہ سے اس کا کوئی حصہ جماعتی مہمانوں کے لیے تو وقف نہ کر سکتے البتہ ربوہ کے باقی مکینوں کی طرح ہمارے اپنے رشتہ دار اس موقع پر ہمارے گھر پر قیام کرتے جس کی وجہ سے جلسہ کے ایام میں گھر میں خوب چہل پہل رہتی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کچے کوارٹروں میں بے سرو سامانی کا عالم کچھ زیادہ ہی تھا اور مہمانوں کے لیے جگہ نہ ہونے کے برابر تھی چنانچہ ایک بار لاہور سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب اپنے اہل و عیال سمیت جلسہ پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنی رہائش کے لیے ہمارے صحن میں ایک چھولداری نصب کی تھی۔ ایک بارلاہور ہی سے میرے پھوپھا، ملک نواب خان اپنی فیملی سمیت ہمارے پاس ٹھہرے تو انہوں نے بھی صحن میں اپنا خیمہ نصب کیا۔ بعد میں جب ہم پختہ کوارٹرز میں منتقل ہو گئے تو صورتِ حال قدرے بہتر ہو گئی۔ہم مہمانوں کے لیے ’’بیڈروم‘‘ خالی کر دیتے اورسٹور اور باورچی خانے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیتے۔اگرچہ ہمیں کچھ تنگی تو ہوتی لیکن اکرامِ ضیف کے جذبہ کے تحت یہ سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کر لیا جاتا اور ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہ آتا کہ مہمان ہما رے لیے کسی طرح کا بوجھ ہیں۔
ہمارے گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی تعداد بالعموم چالیس سے پچاس تک ہوتی۔ جماعتی انتظام کے تحت بِلا قیمت مہیا کی جانے والی پرالی فرش پر بچھا دی جاتی جس پر یہ مہمان بستر لگا کر اس آرام وسکون سے سوتے گویا وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میںمقیم ہوں۔ ایک غسل خانہ ان سب کی ضروریات کا بآسانی کفیل نہیں ہو سکتا تھا نہ لنگر خانے کا کھانا ہر ذوق کی تسکین فراہم کر سکتا تھا لیکن مہمان یہ سارا وقت حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر گزارتے۔
جلسے کے ایّام میں مہمانوں کے لیے کھانا گھروں میں نہیں پکتا تھا بلکہ لنگر خانہ سے لایا جاتا۔ ہمارے گھر سے میرے دو چچازاد یعنی منور جاوید اور منصور وقار وہاں جایا کرتے تھے۔ مہمانوں میں سے کوئی نہ کوئی اور ہم راہ ہولیتا اور بشرطِ فرصت میں بھی ان کے ساتھ چلا جاتا۔ اگرچہ مہمانوں کو ہمارے ہاں اپنے گھر والا آرام مل سکتا تھا نہ ملتا مگر اس کے باوجود وہ ہر بار اس عزم کے ساتھ ربوہ سے واپس جاتے کہ اگلے سال پھر اسی جوش و جذبہ کے ساتھ یہاں حاضر ہونگے۔
ابتدا میں جلسے کے مہمانوں کا کھانا صرف ایک لنگرخانے میں تیار ہوتا تھا جو محلہ دارالصدر میں ریلوے سٹیشن کے تقریباً بالمقابل واقع تھا۔ بعد میں محلہ دارالرحمت میں ایک اور لنگر خانہ قائم ہو گیا اور یوں اوّل الذکر لنگرخانے کو لنگر خانہ نمبر ایک اور مؤخر الذکر لنگرخانے کو لنگرخانہ نمبر دو کہا جانے لگا۔ مہمانوں کی تعداد میں اضافے اور ربوہ کی آبادی میں پھیلائو کے ساتھ آہستہ آہستہ مزید لنگرخانوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی چنانچہ پہلے محلہ دارالعلوم میں اور بعد میں محلہ دارا لنصر میں ایک ایک اور لنگرخانہ قائم کیا گیا۔ یوں کام کا بوجھ بھی چارحصوں میں بٹ گیا اور ربوہ کے دور دراز محلوں میں قیام کرنے والے مہمانوں کو کھانے کے حصول میں مزید سہولت حاصل ہو گئی۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اپنی جائے رہائش کی مناسبت سے محلہ دارالصدر والے لنگر خا نے سے کھانا حاصل کیا کرتے تھے۔ کھانا لینے والوں کی پہلے سے موجود ایک طویل قطار کے آخر میں کھڑا ہونا کوئی خوشگوار تجربہ ثابت نہیں ہوسکتا لیکن اُس وقت موسم کی شدت کی پروا تھی نہ کوئی اور اہم مصروفیت ہماری منتظر ہوتی لہٰذا ہم یہ وقت ہنسی خوشی گزار دیتے۔کبھی کبھار بعد میں آنے والا کوئی شخص قطار کے اندرگُھسنےکی کوشش کرتا تو تُو تُو مَیں مَیں شروع ہو جاتی اور قطار میں کھڑے افراد اسے سمجھا بجھا کر پیچھے کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتے۔بعض اوقات کسی اور وجہ سے دھکم پیل شروع ہو جاتی تو قطار کی شکل پہلے جیسی نہ رہتی لیکن اتنے برسوں میں کم از کم اس بات پر میری کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔
سالن عام طور پر بالٹی یا کسی اور دھاتی برتن میں ڈلوا لیا جاتا اور روٹیاں کسی کپڑے میں باندھ لی جاتیں۔ لنگر خانہ سے کھانا اس پرچی پر ملتا جو صدر محلہ (جسے مصدّق کہا جاتا تھا) کی تصدیق پر دفتر اجرائے پرچی خوراک جاری کرتا تھا۔اس پرچی پر مہمانوں کی معین تعداد لکھی ہوتی تھی۔ بسا اوقات غیر متوقع طور پر کچھ نئے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے کھانا کم پڑ جاتا تو نئی پرچی بنوانے کے لیے پھر سے وہی طریقِ کار اختیار کرنا پڑتا۔
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ کھانا لینے والے لنگر خانے کے باہر قطار میں کھڑے ہیں لیکن سالن اچانک ختم ہو گیا۔ میرامشاہدہ ہے کہ اس صورت حال میں مسور کی دال چولہوں پر چڑھا دی جاتی جو بہت جلد تیار ہو جاتی۔ مہمانوں کو پتا تو چل جاتا کہ ان کے سامنے پڑی ہوئی دال میں پانی ابھی کچا ہے لیکن وہ صبرو شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے اور اسی کو منّ سلوٰی سمجھ کر اپنی خوشی بختی پر رشک کرتے کہ انہیں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو پہچاننے کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور وہ ان ہی کے لنگر سے خوشہ چینی کر رہے ہیں۔
ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر صدر لجنہ اماء اﷲ مرکزیہ کی طرف سے ایسی دیہاتی خواتین کی خدمات بھی طلب کی گئی تھیں جو بڑے تندروں پر روٹی پکا سکیں۔ ان خواتین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ربوہ پہنچتے ہی لجنہ اماءاللہ کے دفتر میں اپنا نام اور پتا لکھوا دیں لیکن عملاً ان خواتین کی خدمات کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
مہمانوں کو صبح کے ناشتے میں تندوری روٹی کے ساتھ چھلکے والی ماش اور چنے کی دال پیش کی جاتی تھی۔ ہمارے بعض مہمان اس روٹی کو پانی کا چھینٹا دینے کے بعد گھی میں تل لیتے تو خاصاکُر کُرا پراٹھا تیار ہو جاتا جو لنگر سے ملنے والی دال اور گھر میں تیار کی گئی چائے کے ساتھ خاص لطف دیتا۔ بعض جدّت طراز رات کے بچے ہوئے سالن میں سے آلو الگ کر لیتے اور انہیں ملیدہ کرکے کٹلس بنا لیتے جنہیں ان پراٹھوں کے ساتھ استعمال کرلیا جاتا۔ کفایت کے خیال سے بسا اوقات یہ پراٹھے بچے کھچے سالن کے اوپر جمے ہوئے بنا سپتی گھی سے بھی تیار کر لیے جاتے۔
جلسہ کے ایام میں رات کے وقت آلو گوشت پکتا۔ یہ گوشت گائے کا ہوتا تھا۔ کثرتِ کار کی وجہ سے آلوئوں کو چھیلا نہیں جاتا تھا۔ بڑے آلو کے تو دو یا چار ٹکڑے کر لیے جاتے لیکن چھوٹا آلو سالم ہی دیگ میں ڈال دیا جاتا۔ بعض مہمان کھانا کھاتے وقت یہ چھلکا اتار لیتے اور کچھ اسے بھی محض تکلف سمجھتے۔
بچی کھچی روٹیاں ضائع کرنے کا رواج نہ تھا۔ مہمان روٹیاں بلکہ ان کے ٹکڑے بھی بطور تبرک ہم راہ لے جاتے اور خشک کرکے سارا سال کھاتے رہتے۔
باہر سے آنے والے مہمان بعض اوقات بد ہضمی یا پیٹ کی کسی اور ایسی تکلیف کا شکار ہو جاتے جس کی وجہ سے ان کے لیے معمول کی غذا کھانا ممکن نہ رہتا۔ ایسے مریضوں کے لیے لنگرخانے سے پر ہیزی کھانا حاصل کیا جاسکتا تھا جو بالعموم اُبلے ہوئے چاول اوربکرے کے گوشت کے شوربے پر مشتمل ہوتا۔ کبھی کبھی کچھ مَن چلے پرہیزی کھانے کے لالچ میں بیمار بھی بن جاتے لیکن بالعموم یہ کھانا حقیقی بیماروں تک ہی پہنچتا۔
غالباً ۱۹۶۲ء کے جلسہ کی بات ہے۔ الفضل میں ایک اعلان شائع ہوا تھا جس کے مطابق ان مہمانوں کو جو روٹی کی بجائے ڈبل روٹی کھانا پسند کرتے ہوں فوری طور پر افسر جلسہ سالانہ کو مطلع کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس اعلان کے ذریعہ ایسے مہمانوں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی وہ لنگر خانہ سے حسبِ ضرورت ڈبل روٹی حاصل کر سکیں گے تاہم مجھے ذاتی طور پر اس سلسلے میں کوئی تجربہ نہیں ہوا۔
جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات کا ذمہ دار افسرِ جلسہ سالانہ ہوتے جو اپنے بہت سے نائبین کی مدد سے یہ کام پایۂ کمیل کو پہنچاتے۔ جلسہ سالانہ سے متعلقہ مختلف امور الگ الگ نظامتوں کے سپرد تھے۔ ان نظامتوں میں نظامت سپلائی و سٹور پختہ سامان، نظامت سٹور و اجناس، نظامت آب رسانی، نظامت طبی امداد، نظامت محنت، نظامت مکانات، نظامت معلومات و فوری امداد، نظامت حاضری و نگرانی معاونین، نظامت پرچی خوراک، نظامت تصدیق پرچی خوراک، نظامت مہمان نوازی اور نظامت مہمان نوازی مستورات شامل تھیں۔اس موقع پر جامعہ احمدیہ اور ربوہ کے ہائی سکولوں اورکالجوں کے جملہ احمدی طلباء و طالبات کے علاوہ تمام جماعتی دفاتر کے کارکنان کی ڈیوٹیاں لگ جاتیں۔ مجھے سکول کے زمانہ کامعمول تو یاد نہیں لیکن کالج میں جلسہ سالانہ سے دو تین ماہ پہلے احمدی طلباء سے ایک فارم پُر کرایا جاتا تھا جس میں طالب علم کے جملہ کوائف درج ہوتے اور اس سوال کا جواب بھی کہ وہ ترجیحاً کہاں ڈیوٹی دینا چاہے گا۔
جہاں تک میرا تعلق ہے میں ڈیوٹی کے لیے اپنی ترجیح بیان کرنے سے بالعموم احتراز کرتا اور اس کا فیصلہ افسرِ مجاز پر چھوڑ دیتا۔ میرا خیال ہے میرا یہ انداز عام روش سے ذرا ہٹ کر تھا کیوںکہ فرسٹ ایئر میں جب میں نے اپنے ڈیوٹی فارم میں یہ لکھا کہ مجھے افسرِ مجاز اپنی مرضی کی کوئی خدمت سونپ سکتا ہے تو چچا ابراہیم نے جو بحیثیت نائب افسر جلسہ سالانہ جملہ رضاکاروں کی ڈیوٹیوں کا تعین کرتے تھے ابا جی کے سامنے اس بات کو بالخصوص سراہا۔
اس ڈیوٹی کی بیسیوں شکلیں تھیں۔ کچھ رضا کار مہمانوں کے استقبال و الوداع پر مامور ہوتے تو کچھ جماعتی قیام گاہوں میں مقیم مہمانوں کی میزبانی پر۔ بعض رضا کار لنگر خانوں میں خدمت کو ترجیح دیتے تو کچھ اپنے ہی محلے میں اجرائے پرچی خوراک کے حوالے سے کام کرنا پسند کرتے۔ خدمتِ خلق ایک وسیع شعبہ تھا جس میں سکیورٹی، ٹریفک کنٹرول، بازار کا انتظام، سڑکوں پرہُلّٹربازی کی روک تھام اور امن و امان کا قیام اور جلسہ گاہ کی حفاظت شامل تھی۔ گمشدہ سامان کی تلاش اور گرے پڑے سامان کے مالکان سے رابطہ رضا کارانہ خدمت کا ایک الگ شعبہ تھا تو جلسہ گاہ میں موجود سامعین کی گنتی بھی اتنا ہی اہم کام سمجھا جاتا تھا۔ غرض کوئی بھی رضا کار کسی بھی جگہ ڈیوٹی دینے کی خواہش کا اظہار کر سکتا تھا لیکن افسرِ جلسہ سالانہ کو اختیار حاصل تھا کہ وہ ضرورت کے تحت کسی بھی رضا کار کو کسی بھی جگہ کوئی ذمہ داری سونپ دے۔
ڈیوٹی لسٹ تیار ہو جاتی تو افادۂ احباب کے لیے اسے ایک بڑے چارٹ کی صورت میں شائع کر دیا جاتا۔ یہ چارٹ جماعتی قیام گاہوں، لنگر خانوں اور پبلک مقامات پر چسپاں کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح رضا کاروں کو اپنی ڈیوٹی کے بارے میں کوئی اشتباہ نہ رہتا اور وہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر مقامِ ڈیوٹی پر پہنچ جاتے۔
ڈیوٹی جلسہ سے تین روز پہلے 23؍ دسمبر کی صبح شروع ہو جاتی اور جلسہ کے تین دن بعد 31؍ دسمبر کی شام ختم ہو جاتی۔
مجھے ربوہ میں اپنے قیام کے دوران وقتاً فوقتاً کئی شعبوں میں خدمت بجا لانے کا موقع ملا اور خدا کا شکر ہے مجھے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا نہ میرے افسران کو مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی۔ ہاں! ایک بار جب میں مسجد مبارک سے ملحق پرانے دارالضیافت میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی خدمت پر مامور تھا ایک صاحب میری کسی نادانستہ حرکت سے بہت سیخ پا ہوئے۔ وہ خود اُن دنوں کراچی کے سیکرٹری ضیافت تھے اوراکرامِ ضیف کے تقاضوں سے بخوبی آشنا تھے۔ میں ان کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے غصے میں مجھے سخت سست کہا اور یہ دھمکی بھی دی کہ وہ افسرانِ بالا کے پاس میری شکایت کریں گے لیکن میں نے ان سے بحث و تمحیص سے اجتناب کیا بلکہ بار بار ان سے معذرت طلب کرتا رہا۔ خدا کا شکر ہے جلد ہی ان کی غلط فہمی دور ہو گئی اور وہ عمر میں واضح تفاوت کے باوجود بعد میں میرے اچھے دوست بن گئے اور ان کی وفات تک میری ان سے خط و کتابت رہی۔ یہ ان کا احسان تھا کہ انہوں نے میری بے روزگاری کے دنوں میں تلاشِ معاش میں میری مدد کی کوشش کی اور میرے دل پر ان کی نیکی کا یہ نقش آج تک قائم ہے۔ موصوف اب بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں اور مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں ان کی قبر پر رُک کر ان کی بلندی درجات کے لیے ضرور دعا کرتا ہوں۔
ایک موقع پر جب میری ڈیوٹی لنگر خانہ میں تھی کسی انتظامی دقّت کو فوری طور پر افسر ِجلسہ سالانہ کے نوٹس میں لانا مقصود تھا۔ اُس زمانے میںفون کی آج والی سہولتیں میسر نہ تھیں چنانچہ میرے انچارج نے مجھے ان کے پاس حاضر ہو کر رہ نمائی حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ اُن دنوں افسرجلسہ سالانہ کا دفتر انصار اﷲ مرکزیہ کے دفاترکی عمارت میں تھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدبطور افسر جلسہ سالانہ اپنے نائبین کے ساتھ کسی میٹنگ میں مصروف تھے۔ آپ مجھ پر ہمیشہ شفقت فرماتے تھے چنانچہ میں بے دھڑک اندر چلا گیا اور آپ کو اپنے انچارج کا پیغام پہنچا دیا۔ مجھے اب اس مسئلے کی جزئیات تو یاد نہیں ہیں لیکن آپ کی رائے میں یہ معاملہ افسرجلسہ سالانہ کے پاس لانے کی ضرورت نہ تھی اور اسے مقامی سطح پر ہی حل کر لیا جانا چاہیے تھا۔ جب میں یہ فیصلہ سن کر واپس جانے کے لیے مُڑا تو میرا پائوں ٹیلیفون کی فرش پر پڑی ہوئی تار میں اُلجھ گیا۔ اس جھٹکے کی وجہ سے فون جو میز پر آپ کے دائیں ہاتھ آپ کے بہت قریب پڑا تھا اچانک آپ کی جھولی میں آن گرا۔ میں اپنی اس نادانستہ حرکت پر قدرے نادم سا تھا اور آپ بھی چونکے لیکن کسی ناراضگی کا اظہار کیے بغیرمتبسّم چہرے کے ساتھ فرمایا: ’’دیکھا غلط راستہ اختیار کرنے کا نتیجہ۔‘‘
جلسہ سالانہ کا افتتاح خلیفہ وقت کی تقریر یا استثنائی حالات میں آپ کے پیغام کے ساتھ ہوتا۔ دوسرے اور تیسرے دن دوپہر کے بعد کا جملہ وقت بھی آپ ہی کی تقاریر کے لیے مختص ہوتا جب کہ باقی ماندہ وقت میں بزرگانِ سلسلہ دینی اور علمی موضوعات پر اپنی تقاریر کے ذریعے حاضرین کے علم و فضل میں اضافے کا باعث بنتے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا میں اپنے بچپن میں تو صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ کی تقاریر سنا کرتا تھا لیکن میں نے جوں جوں ہوش سنبھالا میں باقی تقاریر بھی سننے لگ گیا۔ مجھے اپنے شعور کے زمانے میں جو تقاریر سننے کا موقع ملا ان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؓ کی مقامِ خلافت پر فائز ہونے سے پہلے اور بعد کی تقاریر سرِ فہرست ہیں۔ دیگر مقررین کی فہرست یوں تو خاصی طویل ہے لیکن فی الوقت مجھے جو نام یاد آرہے ہیں ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ، حضرت چودھری محمد ظفر اﷲ خان صاحبؓ، پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب،شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ صاحبؓ، چوہدری اسد اﷲ خان،صاحب مولوی محمد صاحب امیرِجماعت ہائے احمدیہ مشرقی پاکستان، حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ، مولانا ابوالعطا صاحب جالندھری، قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب،ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ، شیخ مبارک احمد سابق مربی انچارج مشرقی افریقہ، مولانا عبدالمالک خان صاحب، مولانا محمد صادق سماٹری صاحب، مولانا محمد جی فاضل صاحب، مولانا غلام باری سیف صاحب، شیخ عبدالقادر صاحب مصنف حیاتِ طیبہ، مولوی سمیع اﷲ انچارج بمبئی مشن، مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ، شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد، صاحبزاد مرزا وسیم احمد صاحب، ڈپٹی محمد شریف اور مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
ایک دفعہ مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّالثؓ، حضرت چودھری محمد ظفر اﷲ خان صاحبؓ اور قاضی محمد اسلم صاحب کی تقاریر ٹیپ ریکارڈر پر محفوظ کروں چنانچہ میں نے دو یا تین سال یہ التزام رکھا لیکن کسی وجہ سے یہ ٹیپس خراب ہو گئیں۔ بعد میں اس طرف میری توجہ قائم نہ رہ سکی۔
ان جلسوں کی ایک خاص بات ثاقب زیروی صاحب اور چودھری شبیر احمد صاحب کی نظمیں تھیں۔ ثاقب زیروی صاحب موقع کی مناسبت سے اپنا تازہ کلام پیش کرتے جب کہ چودھری شبیر احمد با لعموم حضرت مسیح موعوؑد کا منظوم کلام پڑھتے۔ دونوں صاحبان بلا کے خوش گلو تھے اور جب وہ ہزاروں، لاکھوں کے اس مجمع کے سامنے اپنی آواز کا جادو جگاتے تو سامعین پر ایک وجد طاری ہو جاتا۔ ایسی محافل میں ’’مکرّر‘‘ کا مطالبہ تو ممکن نہ تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ بہت سے سامعین دل و جان سے چاہتے ہوں گے کہ نظم خوانی کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے۔
اس موقع پر جلسہ گاہ میں ایک بہت بڑا سٹیج تیار کیا جاتا جہاں صدر انجمن احمدیہ کے ناظران، تحریک جدید کے وکلا، جلسہ سالانہ کے عہدیداران، صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام، امرائے اضلاع، غیر ممالک سے آ ئے ہوئے مہمانان اور نظامِ جماعت کے ساتھ تعاون میں نمایاں حیثیت کے حامل افراد تشریف فرما ہوتے۔ خاص خاص غیر از جماعت مہمانان کے لیے بھی سٹیج پر ہی نشستیں مختص ہوتیں۔ سٹیج ٹکٹ کے لیے جلسہ سالانہ سے کچھ پہلے بذریعہ الفضل درخواستیں طلب کی جاتیں جن میں درخواست دہندہ کو اپنے کوائف وجہِ استحقاق اور تصدیق و سفارش امیر یا صدرِ جماعت کے ہم راہ بھجوانا ہوتے تھے۔
یقیناً ان درخواستوں پر بھی سٹیج ٹکٹ جاری ہوتے ہوں گے لیکن بعض ٹکٹ افسر جلسہ گاہ کی صوابدید پر بھی جاری ہوتے تھے کیوں کہ 1972ء سے 1974ء کے دوران جب میں فیصل آباد میں تعینات تھا مجھے کسی مطالبے کے بغیر ہر سال سٹیج کا ٹکٹ موصول ہوتا رہا لیکن اپنے آپ کو اس اعزاز کا اہل نہ پا کر میں کبھی سٹیج پر نہیں بیٹھا۔
خواتین کی جلسہ گاہ مردوںسے الگ ہوتی۔ ہاں! انہیں کچھ تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنائی جاتیںلیکن خلیفۂ وقت کم از کم ایک بار ضرور مستورات سے براہ راست خطاب فرماتے۔ مردوں کی طرح خواتین کے جلسہ کا پروگرام الگ سے طبع ہوتا اور اس کی ضروری تشہیر کی جاتی۔ اس دور کی نمایاں مقررات میں سے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، سیدہ مہر آپا اور سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفہ المسیح الثّانیؓ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جو تقریباً ہر جلسہ پر تقریر فرماتیں۔ خاندانِ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے تعلق رکھنے والی دیگر مقررات میں سے صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ کا نام مجھے ابھی تک یاد ہے۔
میرے اپنے حلقہ احباب میں سے تعلیم الاسلام کالج کے لیکچرر، عبدالشکور اسلم صاحب کی اہلیہ، حمامۃ البشریٰ صاحبہ؛ ہمارے پڑوسی مسعودعاطف صاحب کی اہلیہ رضیہ درد صاحبہ؛ ایڈ یٹرمصباح ،امتہ الرشید شوکت صاحبہ،حبیب صاحب کلاتھ ہائوس والے حبیب اﷲکی صاحبزادی، سعیدہ حبیب صاحبہ؛ایم اے سیاسیات میں میری سینئر، صادقہ قمر صاحبہ؛ اِن دنوں جماعت احمدیہ ناروے کے امیر، زرتشت منیر احمد صاحب کی ہمشیرہ،سیاّرہ حکمت صاحبہ اور آپی کی ایک ہم جماعت امتہ الباری صاحبہ بھی وقتاً فوقتاً اس جلسہ میں تقاریر کرتی رہی ہیں جب کہ تلاوت اور نظم کا اعزاز بالعموم استانی میمونہ صاحبہ کو حاصل ہوتا رہا۔
مردانہ جلسہ گاہ کی طرح خواتین کے جلسہ گاہ میں بھی سٹیج تیار کیا جاتا جس پر خاندانِ حضرت مسیح موعوؑد کی مستورات؛ حضور کی صحابیاتؓ؛ ناظران صدر انجمن احمدیہ ، وکلا تحریک جدیدانجمن احمدیہ اور امرائے اضلاع کی بیگمات؛ ضلعی اورمستعدلجنات کی صدور اور لجنہ کی پرانی کارکنات بیٹھنے کی مجاز ہوتیں۔
ان جلسہ گاہوں میں سٹیج کے بالکل سامنے ایک خاصا بڑا حلقہ سامعینِ خاص کا ہوا کرتا تھا جہاں کرسیاں لگی ہوتیں۔ اس حلقے کے لیے بھی ٹکٹ جاری ہوتا تھا اور یہاں بعض دیگر لوگوں کے علاوہ بیمار اور معذور افراد بیٹھتے۔
سٹیج اور حلقہ خاص میں تشریف فرما مہمانوں کے علاوہ باقی سبھی مرد و زن زمین پر بیٹھتے۔ ان میں سے کچھ اپنے ہم راہ دریاں، کھیس، چادریں یا جائے نماز لے آتے اور پرالی پر بچھا کر بیٹھ جاتے جب کہ زیادہ تر لوگ اوس میں بھیگی ہوئی پرالی پر ہی بیٹھے رہتے۔ اگرچہ مہمانوں پر جلسہ کی تقریریں سننے کی کوئی پابندی نہ تھی لیکن اکثر لوگ یہ تقاریر پوری دلجمعی کے ساتھ سنتے۔مہمان اپنے ساتھ مونگ پھلی، چلغوزے اور ریوڑیاں لے جانا نہ بھولتے جب کہ بعض لوگ سنگترہ، مالٹا یا آسانی سے چھل جانے والا کوئی اور پھل ہم راہ رکھ لیتے۔ چونکہ اکثر اجلاس تین سے چار گھنٹے تک جاری رہتے تھے لہٰذا لوگ وقت گزاری کے لیے ان فواکہات کا سہارا لیتے۔ تقریریں بھی سنتے رہتے اور بھوک لگتی تو میوہ جات یا تازہ پھلوں پرطبع آزمائی کرتے چلے جاتے۔ تھک جاتے یا کوئی اور ضرورت محسوس کرتے تو اٹھ کر باہر نکل جاتے جہاں کچھ لوگ پہلے ہی مدتِ دراز کے بعد ملنے والے دوستوں اور رشتہ داروں سے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تھے۔
اُن دنوں ربوہ کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ ملک کے کونے کونے بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف رنگ و نسل کے ان مہمانوں کی وجہ سے ربوہ کے چہرے پر ایک خاص رونق آجاتی اور دیکھنے والی آنکھ حیرت میں ڈوب جاتی کہ مسیح محمدیؑ اور حضرت فضلِ عمرؓ کے یہ پروانے کس طرح اپنی ساری مصروفیات تیاگ کر صرف اور صرف خدا اور اس کے رسول کے نام کی سر بلندی کے لئے ربوہ میں جمع ہو گئے ہیں ۔سچ کہا تھا پرویز پروازی نے :
کہاں کہاں سے چلی لے کے نذرِ جاں پہنچی
درِ حبیب پہ دنیا کشاں کشاں پہنچی
بنامِ ابنِ مسیح محمدی آئی
بفیضِ امرِ مسیحائے دو جہاں پہنچی
حضرت مسیح موعودؑ نے جلسہ سالانہ کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی۔‘‘ جلسہ سالانہ کے موقع پر اس عرصہ میں وفات پا جانے والے احمدیوں علی الخصوص موصیان کی فہرست پڑھ کر سنائی جاتی اور ان کے لیے اجتماعی دعا کرائی جاتی۔ اسی طرح گذشتہ ایک سال میں فوت ہونے والے معروف بزرگانِ سلسلہ کی تصاویر الفضل کے جلسہ سالانہ نمبرمیں
’’فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ‘‘
کے عنوان سے شائع کی جاتیں۔ ان تصاویر کے نیچے بالعموم مرحومین کا نام اور تاریخِ وفات درج ہوتی تھی۔ الفضل کے 1964ء کے جلسہ سالانہ نمبر میں شائع ہونے والی ان تصاویر میں اباجی کی تصویر بھی شامل تھی۔
بانی سلسلہ عالیہ احمدیہؑ نے اس جلسے کی ایک اور غرض یہاں آنے والوں کے درمیان رشتہ تودّد و تعارف میں ترقی پذیری بیان فرمائی ہے ۔اس کی ایک شکل جلسہ سالانہ کے موقع پر قائم ہونے والے نئے تعلقات کی صورت میں نظر آتی ہے ۔بعض رشتے تو ان ہی دنوں میں طے ہوتے۔ ایسے لوگ اور وہ خاندان جو پہلے سے اپنے درمیان کسی نئے رشتے کے قیام پر متفق ہو چکے ہوتے جلسہ سالانہ کے موقع پر امامِ وقت کے ذریعہ اعلانِ نکاح اپنے لیے سعادت و خوش بختی کی علامت سمجھتے۔یوں بھی فریقین کے بہت سے عزیز و اقارب اس موقع پر ربوہ میں موجود ہوتے اور وہ بھی دعا میں شامل ہو جاتے۔
آپا اور صادقہ کے نکاحوں کا اعلان ایسے ہی ایک موقع پر دیگر بہت سے نکاحوں کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ نے 29؍دسمبر1958ء کو فرمایا تھا۔
غالباً 1958ء کے جلسہ سالانہ سے اس موقع پر غیر ملکی زبانوں میں تقاریر کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس شبینہ اجلاس میں جو نمازِ مغرب و عشاء کے بعد مسجد مبارک میں شیخ محمد احمد مظہرصاحب ایڈووکیٹ کی زیرِ صدارت منعقد ہوا تھا تقریباً چالیس زبانوں میں ’’تقریریں‘‘ کی گئیں۔ یہ تقاریر حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تحریر کے اُن زبانوں کے ترجمہ یا قریب ترین مفہوم پر مشتمل تھیں جو دنیا کے طول و عرض میں بولی جاتی ہیں۔ اجلاس کا افتتاح چودھری ظفراﷲخان صاحبؓ کے مختصر خطاب سے ہوا جس کے بعد مختلف مقرر سٹیج پر آتے رہے۔ میں چونکہ ربوہ کے ماحول میں پلا بڑھا تھا لہٰذا میں بہت سے مقررین کو ذاتی طور پر جانتا یا پہچانتا تھا۔ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے جن مقررین کے چہرے آرہے ہیں ان میں مولوی ظہور حسین، سابق مربی بخاراحسن محمد عارف صاحب جو اُن دنوں تحریک جدید میں کام کر رہے تھے اور بعد میں کینیڈا منتقل ہوگئے سید عبدالحئی شاہد؛ صاحب مہاشہ محمد عمر صاحب؛ محمد اسماعیل منیر صاحب شیخ مبارک احمد صاحب سابق مربی انچارج مشرقی افریقہ اور ان کے بھائی شیخ نور احمد منیرصاحب عثمان چینی صاحب؛ قریشی محمد حنیف قمرصاحب ؛المعروف سائیکل سیاح؛ مولوی دین محمد شاہد صاحب اور مولوی محمدعمر سندھی صاحب شامل تھے۔ باقی مقررین میں ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے جامعہ کے طلباء اور وہ مربیان شامل تھے جنہیں غیر ممالک میں جماعتی خدمت کی توفیق مل چکی تھی اور اس عرصے میں انہوں نے وہاں کی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا تھا۔
اگرچہ مجھے ذاتی طور پر اس کے بعد اس طرح کے صرف دو یا تین اجلاسات میں ہی شمولیت کا موقع مل سکا تاہم میرے مشاہدے کے مطابق ان اجلاسات کی اپنی اہمیت تھی۔ آج سے سو سال پہلے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعوؑد کو الہاماً یہ خوشخبری سنائی تھی کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا ئوں گا‘‘ اور اس جلسہ میں زمین کے کونے کونے میں بولی جانے والی زبانوں میں تقاریر اس الہام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہوتیں۔
1958ء ہی میں جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک جدید انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام پہلی باردینی معلومات اور اکنافِ عالم میں جماعتی سرگرمیوں کی ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں احبابِ جماعت کے لیے دلچسپی کا خاصا سامان موجود تھا لہٰذا یہ نمائش کافی مقبول ہوئی۔ اسے دیکھنے والوں کا ذوق و شوق دیدنی تھا اور وہ اپنی باری کے لیے طویل انتظار کی زحمت بخوشی برداشت کرنے پر آمادہ تھے۔
اردو نہ سمجھنے والے غیر ملکی مہمانوں کی سال بہ سال بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر ان جلسوں میں ہونے والی تقاریر کے غیر ملکی زبانوں میں رواں ترجمے کا موضوع عرصہ سے زیرِ غور تھا۔ 1983ء کے جلسہ سالانہ میں تقاریر کے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں رواں ترجمے کا انتظام ہو گیا۔ ترجمان مقرر کی تقریر کا ترجمہ ساتھ ساتھ کرتا جاتا۔ ترجمے کی آواز ہیڈفونز کے ذریعہ متعلقہ مہمانوں تک پہنچتی جس سے وہ بھی بھرپور طریقے سے جلسے کی کارروائی میں شامل ہونے لگے۔
جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی اکثریت ان افراد کی ہوتی جو پورا سال مرکز سے دور رہے تھے۔ بعض مہمان اس سے بھی طویل تر غیر حاضری کے بعد ربوہ آئے ہوتے تھے لہذا ان کی دلی خواہش ہوتی کہ وہ اپنے پیارے امام کی زیارت سے فیضیاب ہوئے بغیر واپس نہ جائیں۔ اِن میں سے کئی اپنے مسائل کے حل کے لئے امامِ وقت سے دعا کی درخواست کرنا چاہتے تو کچھ حضور سے اپنے نجی معا ملات میں مشورہ کے طلبگار ہوتے ۔ بعض محض ازدیادِ ایمان کے لیے اپنے پیارے امام کی زیارت کرنا چاہتے۔ جلسہ سالانہ ان تمام لوگوں کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کا موقع فراہم کرتا ۔ان ملاقاتوں کے لئے’’جماعتی ملاقات‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ اس مقصد سے جماعتوں کے لیے وقت کی پہلے سے تخصیص کر دی جاتی اور یہ پروگرام عوام الناس کی اطلاع کے لیے بروقت مشتہر کر دیا جاتا۔ میںخود تو ایسی کسی ملاقات میں شامل نہیں ہوا لیکن میں نے سن رکھا ہے کہ چونکہ مہمانان کی تعداد زیادہ اورمتعلقہ جماعت کے لیے مخصوص وقت محدود ہوتا تھالہٰذا بالعموم یہ ملاقات مصافحے سے آگے نہ بڑھتی۔ ہاں! موقع پر موجود امیر یاصدر جماعت کسی خاص وجہ سے کسی شخص کا تعارف حضور سے کرانا چاہتے یا حضور خود کسی مہمان سے گفتگو فرمانا چاہتے تو ملاقات مصافحے سے آگے بھی بڑھ جایا کرتی۔
یوں تو ہر احمدی کے لیے حضور کے ساتھ گزرے ہوئے یہ چند لمحے اس کی زندگی کے یادگار لمحات بن جاتے اور وہ ان کی تفصیل اپنے ملنے والوں کو مزے لے لے کر سناتاتاہم دیکھیے اکبر حمیدی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثّالثؒ کے ساتھ ایسی ہی ایک ملاقات پر اپنے تاثرات کس خوبی سے نظم کیے ہیں:
ربوہ کی فضا، موسمِ سرما کی خنک رات
اُس حسنِ مجسم سے ہوئی میری ملاقات
تھی رُوئے جہاںتاب پہ انوار کی بارش
وہ ذات تھی اک پیکرِ صد کشف و کرامات
وہ جوشِ مسرت وہ مرے شوق کا عالم
تھے کتنے گراں مایہ حضوری کے وہ لمحات
مت پوچھیے کیا پایا مرے شوق نے اُس وقت
آیا مرے ترسے ہوئے ہاتھوں میں جو وہ ہات
رعنائی صد رنگ میں ڈوبی ہوئی نظریں
انوارِ تبسم میں نہائے ہوئے کلمات
تھا ان کے ہر انداز میں سو حُسنِ بلاغت
باتوں میں اشارات ، نگاہوں میں کنایات
تا عمر نہ بھولے گا وہ اندازِ تلطّف
وہ پیار ، وہ شفقت ، وہ تبسم ، وہ مدارات
وہ اور مرے حال پہ یہ حُسنِ توجہ
میں اور مرے حال پہ اس درجہ عنایات
جلسہ سالانہ جہاں احمدیوںکے لیے اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا وہیں کئی وسیع الظرف سعید فطرت غیرازجماعت معززین بھی اس موقع سے استفادہ کے لیے یہاں حاضر ہوتے۔ ان معززین کی فہرست خاصی طویل ہے اور ان سب کا ذکر یہاں مقصود بھی نہیں۔ میں تو صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نیک نیتی کے ساتھ یہاں آنے والے غیر از جماعت احباب خدا کے فضل و کرم سے بہت عمدہ اثر لے کر واپس جاتے رہے ہیں جس کی گواہی سلسلہ کے لٹریچر میں جا بجا ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک سعید الفطرت شخصیت رُوحی کنجاہی کے نام سے معروف ہے جو اردو شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہے۔
روحی کنجاہی میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں۔ 1959ء میں جب وہ لائلپور میں تعینات تھے وہ اپنے ایک احمدی دوست کی تحریک پر ربوہ تشریف لائے اور انہوں نے جلسہ سالانہ میں بھی شمولیت اختیار کی۔ بعد میں انہوں نے اپنے مشاہدات و تاثرات کو نظم کیا۔ یہ نظم اُن ہی دنوں الفضل میں شائع ہوئی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ان کی یہ نظم:
اے سر زمینِ ربوہ! تجھ پر ہو لاکھ رحمت
دینِ محمدی کی قائم ہے تجھ سے عظمت
تیرے جواں نمازی، تیرے جوان غازی
قرآن پڑھ رہے ہیں، واللہ ہیں نیک فطرت
تیرے سپوت غالب آجائیں گے عدو پر
ہاتھوں میں ان کے دیکھا ہے پرچمِ صداقت
سارے جہان سے ہے تیری فضا نرالی
ہر دم برس رہی ہے تجھ پر خدا کی رحمت
تیری ترقیوں سے مجھ پر عیاں ہوا ہے
ہر گوشۂ جہاں پر چمکے گی احمدیت
عرفان و معرفت کی دراصل کان تُو ہے
پنہاں ہیں تجھ میں لاکھوں دُر ہائے بیش قیمت
کیوںکر نہ ہو مبارک ربوہ کی سیر روحی
روشن ہوئی ہے مجھ پر اسلام کی حقیقت
یہ جلسہ جہاں ایک روحانی مائدے کا کام دیتا وہیں یہ موقع معاشرتی تعلقات میں تنوع کا باعث بھی بنتا۔ اس موقع پر کئی اجنبی خاندانوں کا باہمی رابطہ ہوتا۔ بعض دفعہ یہ ملاقاتِ اخوان ان کے درمیان دیرپا تعلقات کی بنیاد بن جاتی اور احمدیوں کے درمیان نئے رشتے قائم ہوتے۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں اعزّہ و اقربا کے گھروں میں آنے جانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ عرصہ دراز کے بعد ملنے والے رشتہ داروں سے تجدید تعلق کی اپنی اہمیت تھی اور یہی وجہ تھی کہ جب ان مہمانوں کو رخصت کرنے کا وقت آتا تھا دل غمگین سا ہو جاتا اور جب گارڈ کی وسل اور سبز جھنڈی گاڑی چلنے کا اشارہ دیتی تو جانے والوں کے ساتھ ساتھ پیچھے رہ جانے والوں کی آنکھیں بھی ڈبڈبا جاتیں اور وہ دل میں نہ جانے کیا کیا ارمان لیے دیر تک ہاتھ ہلا ہلا کر ایک دوسرے کو الوداع کرتے رہتے۔
(ماخوذ از قریۂ جاوداں)
٭…٭…٭