یاد کی رادھا تیر رہی ہے دور کہیں اُس پار
(ادارے کو موصول ہونے والے مضامین میں سے ایک انتخاب)
[دسمبر کا مہینہ اور جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ آپس میں ایک خاص تعلق رکھتے ہیں۔ ربوہ میں جلسہ سالانہ کے انعقاد کو 37 برس بیت گئے جبکہ قادیان میں بھی مسلسل دوسرا سال ہے کہ ناسازگار حالات کی وجہ سے جلسہ زیر التوا ہے۔ ایسے میں احباب جماعت کی خدمت میں جلسہ سالانہ سے متعلق اپنی یادیں تحریر کرنے کی تحریک کی گئی تو ایک بڑی تعداد میں مضامین اور واقعات ہمیں موصول ہونے لگے۔ ان میں سے بعض مضامین میں سے ایک انتخاب قارئین کی خدمت میں اس دعا کے ساتھ پیش ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد رونقوں کے بابرکت دنوں کو واپس لوٹائے۔ آمین۔ ادارہ]
٭…٭…٭
٭…محترم پروفیسر شریف خان صاحب آف امریکہ نے اپنی اہلیہ مرحومہ پروفیسر رشیدہ تسنیم خان صاحبہ کا ایک مضمون ہمیں ارسال کیا جس میں سے جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے ان کی یادوں کا تذکرہ درج ذیل ہے:
’’جلسہ سالانہ پر ہر سال ہمارے ماموں بمعہ فیملیوں کے اور گاؤں ڈوگری اور ترگڑی کی ساری احمدی خوا تین ہمارے گھر ٹھہرتیں اور آپا جی (والدہ محترمہ)مہمان نوازی نہایت خوش دلی سے کرتیں۔اس دوران ہماری خوب موج رہتی۔حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر بعض دفعہ گہری شام تک جاری رہتیں، اور ہم آپا جی کو ڈھونڈ کر جمیل ان کی گودی میں دے آتیں۔ اور خوب پرالی پر لوٹ کر لطف اندوز ہو تیں۔جلسہ سالانہ ہم بچوں کے لیے بہت سی انجانی خوشیاں لے کر آتا۔ کئی دن پہلے شروع ہوئی چہل پہل، پرا لیوں سے بھرے گڈوں اور اونٹوں کی لمبی لمبی قطاریں اور پرالی کی سوندھی سوندھی خوشبو فضا میں ہر طرف پھیلی ہو تی۔ پرالی کے ڈھیروں پر لوٹیں لگانا، مردانہ جلسہ گاہ میں لکڑی کے پھٹوں سے بنی بیٹھنے کی سیڑھیوںپر اچھلناکودنا ہم نے خوب انجائے کیا۔
ہمارے بڑے ما موں اور ممانی گاؤں کی رسم کے مطابق بہن کے گھر آتے ہو ئے کچے چاولوں کے آٹے اور تلوں اور مونگ پھلی سے تیار کی ہو ئی پنیاں لا تے۔ جلسے کی کارروائی کے بعد لوٹنے والے افراد کے لیے آپا جی گڑ والی بڑی مزیدار چائے بنا تیں، جس کا کھیسوں اور لو ئیوں کی بُکلوں میں بیٹھ کر پینے کا اَور ہی مزا ہو تا جو ساتھ ساتھ مونگ پھلی ٹھونگنیں سے دوبالا ہو جا تا۔ مہمانوں کی آمد اور رخصت پر دل کی دھڑکن تیز کر نے والے نعرہ ہائے تکبیر…… ہائے کیا بات تھی جلسہائے سالانہ کے دنوں کی!
جلسے کے اختتام پر پرالی کی صفائی ہو تی جس کے نیچے سے پیسے ڈھونڈنا اور ساتھ ساتھ حضرت مصلح مو عودؓ اور زیروی صاحب مرحوم کی نئی نظموں کے شعر گنگنانا بھی ہماری کھیل کا حصہ ہو تا تھا۔جو بعد میں ربوہ میں جب تک ہمارے کالج کا میدان زنانہ جلسہ گاہ بنتا رہا، جاری رہا۔‘‘
٭…مکرم سعید احمد انور صاحب بریڈفورڈ یوکے سے جلسہ سالانہ ربوہ 1983ء کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خاکسار اس سال اپنی فیملی کے ہم راہ پاکستان گیا ہوا تھا جہاں مجھے اپنے دو بیٹوں۔ حمود احمد انور(عمر 11سال) اور وقاص احمد انور (عمر10)سال کے ساتھ اس جلسہ میں شرکت نصیب ہوئی۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا بحیثیت خلیفۃ المسیح شامل ہونے والا دوسرا جلسہ تھا۔اس جلسہ میں شاملین کی تعداد تقریباً پونے تین لاکھ تھی۔ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی تاریخ میں غالباً یہ سب سے زیادہ حاضری تھی۔ واللہ اعلم۔
اس جلسہ کے آخری اجلاس کی صدارت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ خود فرما رہے تھے۔ اور اس جلسہ میں حضور ؒکی نظم
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو! آفت ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہِ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا رُخ پلٹ جائے گا رُت بدل جائےگی
یہ نظم شیخو پورہ کے غلام سرور صاحب نے اپنی بہت ہی خوبصورت آواز میں پیش کی تھی۔ اور اس نظم کے ایک ایک شعر پر شاملین جلسہ کے فلک شگاف نعروں سے جہاں پورے ربوہ کی فضا گونج رہی تھی۔ وہاں شاملین جلسہ کی آہوں۔سسکیوں اور آنسوؤں کے ذریعہ دعائیں رب ا لعالمین کے عرش کو یقیناً ہلا رہی ہوں گی۔ ساتھ میں اس نظم میں دعاؤں کی صدا بھی خدا کے حضور ضرور شرف قبولیت پا چکی ہو گی۔ وہ دعائیں تو ضرور قبول ہو رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہوتی رہیں گی۔‘‘
٭…محمد سلطان ظفر صاحب کینیڈا سے لکھتے ہیں:
’’دسمبر کے آخری عشرے میں سردیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی ہمارے گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہوجاتی۔ ان میں زیادہ تر مہمان ہمارے ننھیال سے ہوتے۔1977ء میں میری عمر ساڑھے چار سال ہوگی مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے نانا جان حضرت حکیم محمد رشیدصاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعودؑ بینائی سے محرومی اور ضیعف العمری کے باوجود بھی گھنوکہ ججہ ضلع سیالکوٹ سے تشریف لائے تھے۔
ایک جلسہ کے موقع پر ہمارے گھرچوبیس افراد نے بھی قیام کیا تھاجو مجھے اس لیے یاد ہے کہ لنگر خانہ سے کھانا لانے کے لیے ایک فارم پُر کرنا پڑتا تھا جس پر تمام مہمانوں کے اسماء گرامی درج کیے جاتے تھے اور اس پر صدرصاحب جماعت کی تصدیق کروائی جاتی تھی۔ صدر صاحب نے فارم پر مہمانوں کی گنتی کرکے تصدیق کرتے ہوئے تحریر کیا ’’24کَسْ‘‘۔ میں اور میرے دو بھائی جن میں سے ایک تو کارکن دفترامورِ عامہ صدر انجمن احمدیہ ہیں اور دوسرے مکرم محمد منور ظفر (حال کینیڈا) ایک بالٹی اور ’’پونے‘‘لے کر ربوہ لنگر خانہ گئے اور بالٹی میں دال اور پونوں (روٹی رکھنے والے بڑے رنگین رومال) میں اڑتالیس روٹیاں لے کر واپس پہنچے۔
جو احباب بیرونِ ربوہ سے بسوں کے ذریعہ تشریف لاتے، ان کے استقبال کے لیے بس اسٹاپ پر موجود چونگی کے دفتر کے ساتھ ایک استقبالیہ ٹینٹ لگا ہوتا تھا جس میں ایک صاحب مائیکروفون پر مختلف اشعار پڑھتے، اعلانات کرتے اور ہدایات دیتے رہتے۔ تاہم ان کی آواز میں اس وقت ایک عجب جوش و جذبہ پیدا ہوجاتا جب احمدی مسافروں سے بھری کوئی بس، اڈہ پر آکر رُکتی۔ وہ بار بار ’’اھلًا و سہلًا ومرحبًا‘‘ کا ورد کرتے رہتے۔ ٹینٹ میں ڈیوٹی پر موجود خدام بھاگ کر بس کی چھت پر چڑھ جاتے اور مسافروں کا سامان جوعموماً ان کے بستر بند وغیرہ پر مشتمل ہوتا، اتارنا شروع کردیتے ۔ مسافر استقبالیہ سے اپنی رہائش گاہ کا پتہ معلوم کرنے کے بعد منزل کی جانب گامزن ہوجاتے ۔ خدام ان کا سامان لیے ان کے ساتھ ہوتے مگر مہمانوں کا اصرار ہوتا تھا کہ وہ خود ہی اپنا سامان اٹھائیں گے جبکہ خدام کی ضد ہوتی تھی کہ وہ اٹھائیں گے۔ کبھی وہ جیت جاتے تھے اور کبھی یہ۔
بس اسٹاپ سے سڑک سیدھی مسجد اقصیٰ کو جاتی تھی۔ سڑک کے دائیں جانب صرف خواتین کی آمدورفت ہوتی تھی اور مردوں کو صرف بائیں جانب چلنے کی اجازت ہوتی۔ گول بازار کے سامنے میدان میں، جہاں بہت بعد میں دفتر صدرعمومی ربوہ کی تعمیر ہوئی، عارضی بازار لگا کرتے تھے جس میں دور دور سے لوگ آکر دکانیں لگایا کرتے تھے۔ یہ دکاندار اکثر غیرازجماعت مسلمان ہوتے تھے۔ یہاں سے جو کھلونے میں نے خریدے تھے ان میں جو مجھے یاد ہیں ان میں پہلا ایک بحری جہاز تھا جس کے اندر آگ جلا کر پانی میں چھوڑ دیتے تو وہ چلتا تھا۔ اسی طرح ایک کھلونا تھا جس میں مختلف رنگوں کی پنسلیں ڈال کر کاغذ پر بڑے خوبصورت ڈیزائن بنائے جاتے تھے۔ ایک چھوٹا سا حقہ بھی خریدا تھا جو کام بھی کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی بے شما ر اشیاء ہوتی تھیں۔
یہاں پر نئے سال کے کیلنڈر بھی فروخت ہوتے تھے جن میں ہجری شمسی مہینوں کا اندراج بڑے اہتمام کے ساتھ کیا جاتا تھا۔
اس بازار کے مشرق میں ایک سڑک، ٹیلیفون ایکسچینج کے پاس سے ہوتی ہوئی پہاڑی کے دامن تک جاتی تھی جہاں عارضی واش رومز بنائے جاتے تھے۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور ہزاروں لاکھوں لوگ ہونے کے باوجود بھی گندگی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔
گول بازار کے بعد دفاتر وقفِ جدید تھے۔ 1983ء میں جب میں نے پہلی دفعہ بازو پر ’’بِلا‘‘ لگا کر باقاعدہ ڈیوٹی دی تو مجھے انہی دفاتر میں خدمت کا موقع ملا۔یہ بیج مختلف رنگوں کے کپڑوں کے تقریباً چھ انچ لمبے اور پانچ انچ چوڑے ٹکڑے پر مشتمل ہوتا تھا جس کے درمیان میں، چاروں طرف ایک ایک انچ جگہ چھوڑ کر، ایک کاغذ لگا ہوتا تھا جس پر ڈیوٹی پر مامور خادم کا نام، جماعت کا نام، ڈیوٹی کی جگہ، ڈیوٹی کی نوعیت اور بیعت کا سن لکھا ہوتا تھا۔
اقصیٰ روڈ پر چلتے چلتے بالآخر مردانہ جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے تھے۔ مسجداقصیٰ کے سامنے والے وسیع و عریض میدان میں چاروں طرف سیڑھیاں سی بنائی ہوتی تھیں جن پر لکڑی کے شہتیر رکھ کر بیٹھنے کا انتظام کیا جاتا تھا جبکہ میدان میں پرالی بچھا کر بیٹھنے کا انتظام ہوتا تھا۔
داخلی دروازوں پر موجود خدام ہر مہمان سے درخواست کرتے تھے کہ اگر ان کے پاس ماچس ہے تو اندر جانے سے پہلے باہر چھوڑ کر جائیں۔ اس طرح ہر دروازہ کے پاس رنگ برنگی ماچسوں کا ایک ڈھیر سا لگ جاتا تھا۔ یہ اس غرض سے ہوتا تھا کہ مبادا غلطی سے یا کسی کی شرارت سے پرالی کو آگ نہ لگ جائے۔
اکثر لوگ پرالی پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک طرف ایسے لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی کیا جاتا تھا جو جلسے کی تقاریر اور نظمیں ریکارڈ کرنے کے لیے اپنے اپنے ٹیپ ریکارڈرز لے کرآتے تھے۔ ان کے لیے لاؤڈ اسپیکرز کا خصوصی انتظام ہوتا تھا۔ یہ دوست درجنوں خالی کیسٹس اور زائد بیٹری سیل لے کر آتے تھے۔ چونکہ کیسٹ کی ایک طرف آدھ گھنٹے کی ریکارڈنگ ہوتی تھی لہذا ان کی نظریں مسلسل ریکارڈ ہوتی کیسٹ پرہوتی تھیں کہ جیسے ہی اس کی ایک طرف ختم ہوفوراً اس کی سائیڈ تبدیل کردیں تاکہ تقریر کا کوئی لفظ ریکارڈ ہونے سے رہ نہ جائے۔
ان جلسوں پر ثاقب زیروی مرحوم کی نظموں کو بھی بڑے ہی جوش و خروش سے سنا جاتا تھا۔ ان کی 1977ء میں پڑھی گئی نظم ’’انجام‘‘ اس دور کے بچوں، بڑوں میں یکساں مقبول تھی جس میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار بھٹو جنہوں نے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا تھا، کے درد ناک انجام کو بیان کیا گیا تھا۔
پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں
انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا
ان جلسوں میں بلاشبہ سب سے بڑی کشش خلیفۃ المسیح کی زیارت، قربت اور تقاریر ہوتی تھیں۔ ہر کس و ناکس کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ حضورِ انور کے ہر خطاب سے قبل جلسہ گاہ میں موجود ہو اور اپنے محبوب امام کے دہنِ پاک سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو پوری توجہ سے سُنے ۔
خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک تقریر کا وہ حصہ بھی یاد ہے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم تبلیغ کے لیے ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کریں لیکن جن ملکوں میں ہم اس کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں وہاں اجازت نہیں ملتی اور جہاں اجازت مل سکتی ہے وہاں کے اخراجات اتنے ہیں کہ ہماری استطاعت سے باہر ہیں۔
ان جلسوں میں بڑے گرم جوش نعرے لگا کرتے تھے۔ بیس بیس پچیس پچیس احباب بیک وقت اٹھ کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے اور لاکھوں لوگ ان کا جواب دیتے۔
خلیفۃ المسیح سے مختلف علاقوں سے آئی جماعتوں کے ممبران کی اجتماعی ملاقاتیں ہوتیں۔ غیرازجماعت دوستوں کے لیے سوال و جواب کی محفلیں سجتیں۔
جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والے مہمان بہشتی مقبرہ اور قبرستانِ عام میں خلفائے احمدیت، صحابہ ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر دُعا کرنے ضرور جاتے۔
ان جلسوں میں کئی خاندان اپنے بچوں کے رشتہ بھی طے کرتے بلکہ بعض دفعہ نکاح اور رخصتی بھی ہوجاتی۔
ان جلسوں پر حاضری ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ گئی تھی، ملک کے کونے کونے سے، مختلف ثقافتوں کے، مختلف طبیعتوں کے، لوگ ایک جگہ اکٹھا ہوجاتے تھے۔ لیکن مجھے نہیں یاد اور میں بار بار یاد کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور ناکام ہورہا ہوں کہ ایک بھی ایسا واقعہ یاد آسکے جس میں کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے لڑائی تو کُجا، بدتمیزی یا سخت لہجہ میں بھی بات کی ہو۔
ربوہ جلسہ سالانہ کی مخصوص رنگ کی قناتیں، رات کو سونے اور دِن میں بیٹھنے کے لیے پرالی، کھانے کے لیے مٹی کے برتن اور برتنوں میں دال اور بغیر چھیلے آلو گوشت، لنگر خانے کی گول اور کبھی کبھی چوکور روٹیاں، سڑکوں پر چھڑکاؤ کرتے واٹر ٹینک اور ہر طرف سے السلام علیکم ! السلام علیکم! کی آوازیں ہمارےلیے ماضی کا ایک حصہ ہیں جو بھلائی نہیں جاسکتیں۔ کینیڈا، امریکہ اور یوکے کے جلسے دیکھنے کے بعد بھی دل ربوہ کے جلسے ہی مانگتا ہے۔ ان بزرگوں کی طرح جو ربوہ کے جلسوں میں بیٹھ کر قادیان کے جلسے یاد کرکے آہیں بھرتے تھے اور ہمیں اپنے بچپنے کی وجہ سے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر یہاں انہیں کس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اور شاید ہمارے بچے بھی آج سے تیس چالیس سال بعد، کسی اور جدید دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی بےشمار برکتوں سے مزین جلسوں میں بیٹھ کر بھی ایسا ہی کوئی مضمون لکھ رہے ہوں گے جس میں اسلام آبادیا حدیقۃ المہدی کے جلسوں کا ذکر ہورہا ہوگا۔ ‘‘
٭…ابو قدوس شامی لکھتے ہیں:
’’جب سے ہوش سنبھالا ایک جلسہ ختم ہونے کے بعد دوسرے جلسہ سالانہ کی تیاری ساتھ ہی شروع ہوجاتی تھی۔ ربوہ کے پہلے جلسہ سالانہ، جس میں خاکسار اپنی والدہ مرحومہ کے ساتھ 8سال کی عمر میں شامل ہوا۔ بچپن کی یادیں دھندلی سی ہیں۔ مگر حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ملاقات بخوبی یاد ہے۔ والدِ محترم کے چھوٹے بھائی رانا عبدالسلام صاحب باڈی گارڈ حضرت مصلح موعودؓ اور خلیفة المسیح الثالثؒ کے ذریعہ ملاقات کے مواقع ملتے رہے۔ وہ دن اب خواب معلوم ہوتے ہیں ۔
پھر ربوہ کی رونقیں، اطفال خدام کا سڑکوں کی سائیڈوں پر ٹریفک کنڑول کرنا، دائیں طرف مستورات، بائیں طرف مرد حضرات اور درمیان میں گاڑیوں کے گزرنے کی جگہ۔ ایک اشارے سے اپنی اپنی سائیڈ پر ہوجاتے تھے۔ پھرشروع میں سرگودھا اور فیصل آباد، چنیوٹ سے ٹینکروں میں پانی میونسپلٹی کی گاڑیاں لے کر آتی تھیں۔ جلسہ گاہ کی پہاڑی کے قریب ٹیوب ویل اور پہاڑی کے اوپر ٹینکی سے پانی وضو اور طہارت وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جب تک سکول اور کالج قومیائے نہیں گئےاس کے صحنوں میں شامیانے اور چھولداریاں ایک ترتیب سے لگی ہوتی تھیں۔جامعہ احمدیہ کے گراؤنڈ، ہائی سکول، کالج اور گھوڑ دوڑ گراؤنڈ، محلہ جات میں خالی پلاٹس میں قیام گاہوں کے لیے فیملی کا انتظام اور جماعتی سکول اور کالج اور ایوان محمود، دفتر وقف جدید غرض جہاں بھی ضرورت ہوتی مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام ہوتا تھا۔ پھر الفضل کی سرخی کہ ’’لنگر خانے حرکت میں آگئے‘‘ سپشل ٹرینوں کی آمد، سپیشل بسیں وغیرہ اور لوگوں کی اپنی سواریاں۔ ربوہ ایک انٹرنیشنل شہر بنتاتھا۔ غرض تمام قوموں اور ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی بساط کے مطابق جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوتے۔
ایک بارحضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے سٹیج پر غیرملکی مہمانوں کو کھڑا کر کے فرمایا تھا کہ آپ تمام گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کس شان سے پوری ہو رہی ہے۔ جلسہ سالانہ میں مکرم محمد صدیق صاحب ثاقب زیروی کا اپنا منظوم کلام جو گذشتہ سال کی تاریخ کو کوزے میں بند کر دینے والا ہوتا تھا۔ جلسہ سالانہ خلافت ثالثہ میں حضرت مصلح موعود ؓکی یاد میں افتتاحی اجلاس میں کلام پھر ایک اجتماع انصار اللہ کے موقعہ پر ’’ناصر جو لیا طاہر بخشا ورنہ دیوانے مر جاتے سر ٹکرا کر دیواروں سے‘‘ یاد ہے۔
1974ء کے حالات کا جائزہ نظم کی صورت میں ’’کیوں خواب اب سب خاک ہوئے کیوں خون ہوا ارمانوں کا‘‘۔ پھر بھٹو صاحب کی گرفتاری کے موقعہ پر’’ آندھی کی طرح جو اٹھے تھے اب گرد کی صورت بیٹھے ہیں۔ ہے میری نگاہوں میں ثاقب انجام بلند ایوانوں کا‘‘۔ پھر آپ کا غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد کہ ’’ہم دین ھدیٰ کا پرچم اونچا ہی اڑاتے جائیں گے۔ ہماری مسکراہٹ نہ چھن سکی ہے۔ نہ چھن سکے گی‘‘ وغیرہ زبان زد عام تھیں۔
جلسہ سالانہ میں چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل کا اپنی خصوصی لے میں تلاوت قرآن کریم اور نظم کااپنا ہی انداز تھا۔ حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا والے اور قاری محمد عاشق صاحب کی آوازوں میں تلاوت قرآن کریم ایک سماں باندھ دیتی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کا خطاب بھی قبل از خلافت کی تقاریر، خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس،ؓ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، مولانا نسیم سیفی صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مولانا عبدالمالک خان صاحب، پھر حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم، مکرم مجیب الرحمان صاحب ایڈووکیٹ ۔’’احمدیت عافیت کا حصار‘‘ کیا رحمتیں نازل ہوتی تھیں سرزمین ربوہ پر۔
جلسہ سالانہ میں نمازوں کا ذوق و شوق اس کے سوا ہوتا۔ نماز تہجد مسجد مبارک میں ادا ہوتی۔ تمام قیام گاہوں میں بھی نمازوںکا پورا پورا خیال رکھا جاتا۔
ایک جلسہ سالانہ پر FSFکے جوان بھی جلسہ گاہ میں جو سٹیڈیم نما تھا ڈیوٹی پر موجود تھے۔ یہ لکڑی کی بھاری گِلیاں رکھ کر گولائی شکل میں بنا ہوتا تھا۔ مختلف انٹری گیٹ پر وہ ڈیوٹی دیتے تھے۔ رسیاں لگا کر بلاک بنائے جاتے۔ لاؤڈ سپیکر کا انتظام پھر تمام لنگر خانہ جات میں تمام تقاریر سنانے کا انتظام ہوتا تھا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی زیر نگرانی ایک ٹیم جلسہ سالانہ کی تقاریر کا رواں ترجمہ کرتی تھی۔ پھر جلسہ سالانہ میں دنیا کی مختلف زبانوں میں غالباً 40زبانوں میں ایک شبینہ اجلاس بھی ہوتا تھا۔‘‘
جلسہ سالانہ قادیان 2005ء
2005ء میں قادیان کے جلسہ سالانہ میں پہلی بار خاکسار اپنی بیگم کے ہم راہ شامل ہوا۔ حضور انور سے اس موقع پر کی جانے والی ملاقات اور شرف معانقہ کا سروراور لطف آج تک آرہا ہے۔
حضور انور کا دیدار دن میں تین چار بار ہوجاتا۔ کبھی بہشتی مقبرہ کو جاتے کبھی آتے اور مسجدمبارک اور مسجداقصیٰ میں نمازوں کا سرور حاصل ہوتا۔ قادیان سے 2005ء میں پہلا خطبہ جمعہ جو MTAکے ذریعہ لائیو نشر ہوا وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام احمدیوں کو مستفیض کرنے کا ذریعہ بنا ۔ہر روز بلاناغہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر حاضری اور سلام عرض کرنا روز کا معمول تھا۔
قادیان میں یوں محسوس ہوتا کہ نہ بھوک لگتی ہے، نہ تھکاوٹ ہوتی،ہے اور نہ کوئی دنیاوی خیال یا پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ بس ہر وقت دعاؤں کو لینے اور دینے میں دن گذر جاتا۔
قادیان کی بعض مساجد میں اذان دینے کی بھی توفیق ملی۔ بزرگوں کے حالات جوسنے یا پڑھے ہوئے تھے ایک ایک کی آخری آرام گاہ پر جا کر دعا کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ ہماری دادی جان حضرت رحمت بی بی صاحبہؓ جو صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھیں ان کی قبر پر دعا کی ۔
جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خلفاء نکاحوں کے اعلانات فرماتے۔خاکسار کا نکاح بھی حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒنے 1972ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھایا۔
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دن جلد لائے جب ہماری ربوہ کی رونقیں بحال ہوں۔ اب یہ نظارے خواب میں نظر آتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کو معاف کردے تاہم پھر وہ نظارے ربوہ میں دیکھیں جو پہلے دیکھا کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ ہمارے پر خلافت احمدیہ کا شفقت بھرا سایہ تاقیامت سلامت رکھے۔ ہمیں خلافت احمدیہ کا سلطان نصیر بنائے رکھے۔ ہمیں ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے اپنی جماعت کے لیے کیں اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…خواجہ محمد افضل بٹ صاحب آف امریکہ جلسہ سالانہ قادیان 1967ء میں اپنی شمولیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’24، 25، 26؍نومبر1967ء کو قادیان میں سالانہ جلسہ تھا۔ خاکسار اس جلسہ کے بارے کچھ ذکر کرے گا۔ اس بابرکت جلسہ سالانہ میں خاکسار کو بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ جلسہ کیا تھا احمدیت کی صداقت کا ایک بولتا ہوا نشان تھا۔
تقسیم ملک کا سانحہ پنجاب کے دو حصوں میں بٹ جانے کے باعث مسلمانوں کے لیے قیامت خیز ثابت ہوا۔ قادیان بھارت میں شامل کر دیا گیا۔ اور جماعت کی اکثریت کو اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ البتہ 313سرفروشانِ احمدیت قادیان کے درویش بن کر اسی آستانہ پر دھونی لگا کر بیٹھے گئے۔ اور سب کام حسبِ سابق جاری رہا۔ منارة المسیح کی بلندیوں سے اللہ اکبر کی صدائیں پانچوں وقت بلند ہوتی رہیں۔ قادیان میں خدا کے سلسلہ کے فدائی ڈٹے رہے۔ اور ہر سال سالانہ روحانی اجتماع باقاعدہ منعقد ہوتا رہا۔ اسی طرح قادیان مرکز کے بعد ربوہ مرکز میں ہر سال جلسہ سالانہ منعقد ہوتا رہا ہے۔ البتہ جماعت احمدیہ کے خلاف قوانین بننے کے بعد ربوہ مرکز میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو رہا۔
قادیان ہجرت کے بعد قادیان کی حفاظت کے لیے 313سرفروشانِ احمدیت قادیان کے درویش بن کر بیٹھ جانے والوں میں خاکسار کے سب سے بڑے بھائی مکرم خواجہ احمد حسین صاحب درویش بھی تھے۔اب اللہ تعالیٰ کی رضا کہ 92سال کی عمر میں متوفی ہوگئے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہکی تحریک پر لبیک
جیسا کہ ذکر ہوا خاکسار کے سب سے بڑے بھائی مکرم خواجہ احمد حسین صاحب درویش قادیان دارالامان تھے۔ تقسیم ملک کے وقت حضرت المصلح الموعودؓ نے تحریک فرمائی کہ
’’ہمیں ایسے نوجوان چاہئیں جو اپنی جان دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
چنانچہ بھائی جان نے والدین سے مشورہ کیا تو والدین نے آپ کے اصرار پر آپ کے قادیان رہنے پر راضی ہوگئے۔ اس طرح آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر اپنی خدمات پیش کر دیں اور 1947ء میں قادیان رہ کر درویشی کی سعادت حاصل کی۔ خاکسار نے جب ہوش سنبھالا تو دلی خواہش تھی کہ قادیان جاؤں۔ 1947ء کے بعد والدین اپنے بیٹے کو ملنے قادیان جاتے رہے ہیں۔ میں اور میرا چھوٹا بھائی والدین کے ساتھ قادیان گئے ہیں۔ مگر بہت جھوٹے تھے ہمیں قادیان کے بارے کچھ علم نہیں تھا۔ حضرت میر داؤد احمد صاحب ناظر خدمتِ درویشان تھے اور خاکسار کے ساتھ آپ کی پدرانہ شفقت تھی۔
1965ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔اس وجہ سے 1965ء، 1966ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں قافلہ پاکستان سے نہ جا سکا۔ اور 1967ء میں پاکستان سے قافلہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے جانے کی اجازت ہوئی۔ دونوں حکومتوں کی اجازت و منظوری کے بعد مکرم ناظر صاحب خدمت درویشان کی طرف سے جلسہ سالانہ قادیان جانے والوں کی درخواستیں طلب کی گئیں۔ میری بھی بہت خواہش تھی کہ قافلہ کے ساتھ جلسہ سالانہ قادیان جاؤں۔ چنانچہ میں نے بھی درخواست دے دی۔
منظوری ملنے کے بعد خاکسار بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھا جو 1967ءکے جلسہ سالانہ میں پاکستان سے شامل ہوئے۔ (اس قافلہ کی گروپ فوٹو میرے پاس محفوظ ہے) حضرت سید میرداؤد احمد صاحب ناظر خدمت درویشان بھی قافلہ میں شامل تھے، پاکستانی قافلہ کے افراد کے امیر قافلہ مکرم چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب کی قیادت میں قادیان گئے تھے۔
ہمارے ساتھ بارڈر انتظامیہ کا بہت اچھا سلوک تھا۔ کسی فرد کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد ہم سب اپنے قادیان سے آئے ہوئے درویش بھائیوں کے پاس پہنچ گئے۔ قادیان سے آئے ہوئے بھائیوں نے ہمارا بہت عمدہ استقبال کیا۔ قادیان کے والنٹیئرز ہمارا سامان پکڑتے اور بسوں پر لوڈ کرتے اور ہمیں کھانے کی جگہ پر پہنچا کر واپس چلے جاتے۔ اس طرح سب افراد قافلہ نے کھانا نوش فرمایا اور اس کے بعد بسوں میں سوار ہو کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ فیروز پور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے تو وہاں ویٹنگ ہال میں جمع ہوگئے۔
فیروزپور سے ٹرین پر سفر جاری رکھا۔ جب ٹرین بٹالہ پہنچی تو چند احباب پر مشتمل وفد قادیان سے ہمارے استقبال کے لیے بٹالہ آیا ہوا تھا۔ جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر مکرم امیر صاحب قافلہ کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی چلنے کی وسل ہوئی اور ہم سب گاڑی پر سوار ہوگئے اور بٹالہ سے قادیان کی طرف سفر شروع ہوگیا۔ ہم سب نے گاڑی کی کھڑکیوں سے قادیان کے ’’منارة المسیح کو دیکھنا شروع کردیا۔ گاڑی کے بٹالہ شہر سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ’’منارة المسیح‘‘نظر آنا شروع ہوگیا۔ اور گاڑی کے اندر ہی نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے نعرے لگنے شروع ہوگئے۔ قادیان اسٹیشن پر پہنچنے پر ریلوے اسٹیشن قادیان پر ہمارے استقبال کے لیے عوام مرد و زن بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ اس میں عورتیں اور مرد اور بچے تھے۔ قادیان کے احباب کے علاوہ بیرون قادیان سے جلسہ میں شمولیت کے لیے آنے والے احباب بھی موجود تھے قادیان اسٹیشن نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ہم قافلہ کے افراد گاڑی سے سامان اتارتے تو رضاکاران ہمارا سامان پکڑ لیتے اور بسوں پر لوڈ کرتے جاتے۔ جب سامان لوڈ ہوگیا تو بسیں اپنی منزل کی طرف بہت آہستہ آہستہ روانہ ہوگئیں۔ اور عوام نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے نعرے لگاتے بسوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔بسیں منزل مقصود پر پہنچ کر رکیں اور ہم نیچے اتر آئے شائد وہ جگہ مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول تھا جہاں بسیں رکیں۔
قافلہ کے افراد جن کے عزیز یا رشتہ دار قادیان رہتے تھے ان کے ساتھ جا سکتے تھے۔ میرے بھائی مکرم خواجہ احمد حسین صاحب درویش مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ میں ان کے ساتھ گھر چلا گیا۔ قافلہ کے جن افراد کا اپنا کوئی انتظام نہیں تھا وہ انتظامیہ کے ساتھ جارہے تھے جہاں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس طرح ہمارا سفر بخیر و عافیت انجام پذیر ہوا۔ الحمد للہ
جلسہ سالانہ قادیان اور پاکستان کا روحانی ماحول
جلسہ قادیان کے روحانی ماحول کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ خاکسار قادیان کے جلسہ منعقدہ 1967ء جو 24، 25، 26؍نومبر کو قادیان میں اس سال کا سالانہ جلسہ تھا۔ جس میں شمولیت کے لیے دُور دُور سے زمین کے کناروں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے شیدائی یَاتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کامظہر بنے ہوئے جوق در جوق کھنچے چلے آرہے تھے۔ بھارت کے دُور ونزدیک شہروں، دیہاتوں، کشمیر اور بیرون ممالک کے نمائندے آئے ہوئے تھے۔ کافی تعداد میں شمع احمدیت کے پروانے جمع تھے۔ یوپی، بہار، اڑیسہ اور دہلی سے آنے والے بھی اس اجتماع میں موجود تھے۔ فجی اور افریقہ کے علاوہ پاکستان سے بھی احباب اس جلسہ میں شامل تھے۔ غرض جلسہ سالانہ کا اجتماع دُور بین نظر کے لیے اسلام کے شاندار مستقبل کا آئینہ دار تھا۔
اس جلسہ میں جو تقاریر ہوئیں اور ہم نے درویشانِ قادیان کے اخلاق و کردار کا جو نمایاں اثر و نفوذ غیر مسلموں، سکھوں اور ہندوؤں میں دیکھا وہ بھی نہایت ایمان افروز تھا۔ جس بلند ہمتی اور اولوالعزمی کے ساتھ ہمارے قابل احترام درویشان نے دور درویشی گزارا وہ یقیناً ان کے مضبوطیٔ ایمان کی علامت ہے۔
قادیان جلسہ سالانہ پر حاضرین کی تعداد اُس وقت چند ہزار تھی۔ ان اجتماعات کے اندر جو روح کام کرتی نظر آئی تھی وہ بنیادی طورپر وہی ہے جس کے طفیل ایمان کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
الحمد للہ ۔ اس عاجز کو بیت الدعا میں نفل ادا کرنے اور راتوں کو انفرادی اور باجماعت تہجد پڑھنے کا موقع ملا۔ نیز دیگر مقدس مقامات دیکھنے اور منارة المسیح کے اوپر کے حصہ تک چڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ اسی طرح تقریباً دو بار صبح و شام بہشتی مقبرہ جانے کی توفیق ملتی رہی۔خصوصاً قطعہ خاص میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ’’مزار مبارک‘‘ اور دیگر بزرگان کی قبور پر دعائیں کرنے کا موقع ملا۔ اپنے عزیز رشتہ داران بزرگان کی قبروں پر دعا کی توفیق ملی۔ الحمد للہ۔
اس طرح یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً دس روز کا تھا بخیر و خوبی ختم ہوا۔ اور قادیان کی مقدس سر زمین میں رونق افروز ایام کو خیر آباد کہتے ہوئے پاکستان واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اور قافلہ کے احباب بخیر و عافیت واپس ربوہ پاکستان پہنچ گئے۔ الحمدللہ۔‘‘
٭…احمد ابراہیم صاحب آف سری لنکا جلسہ سالانہ قادیان 2017ء میں اپنی شمولیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’25؍ دسمبر 2017ء کی صبح خاکسار اپنی اہلیہ اور 3 بچوں کے ہم راہ لاہور ماڈل ٹاون میں واقع اپنے گھر سے صبح 6:30 بجے قادیان جانے کے لیے روانہ ہوا ۔
نماز مغرب سے کچھ دیر قبل خاکسار قادیان پہنچا، دور سے منارۃ المسیح کو دیکھ کر بے ساختہ نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے نعرے فضا میں بلند ہوئے ۔ قادیان کی ہر گلی روشنیوں سے سجی ہوئی تھی۔ بس سے نیچے اترتے ہی نیچے فیملی سے ملاقات ہو گئی جو کچھ دیر پہلے پہنچ چکی تھی۔ قادیان کے اطفال اور خدام نے جذبات میں رچی ہوئی نظموں اور نعروں سے قافلے کو خوش آمدید کہا۔اور قافلوں کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔
خاکسار کی فیملی کو سرائے طاہر میں رہائش ملی، جبکہ خاکسار کو کیمپ میں رہائش ملی۔سامان رکھنے کے بعد نماز پڑھنے کے لیے مسجد مبارک روانہ ہوا۔مسجد مبارک میں پر نم آنکھوں سے سجدہ کیا، اور نماز کی لذت کو روح تک محسوس کیا، تمام دن سفر میں گزرنے کے باوجود بالکل بھی تھکان نہ محسوس ہوئی ۔نماز ادا کرنے کے بعد واپس اپنی رہائش گاہ میں آگیا، سخت سردی میں کیمپ میں زمین پر لیٹ گیا مگر سردی کی شدت کا احساس نہ ہوا۔صبح 2:30پر نیند سے بیدار ہوا تو دیکھا ایک بزرگ مسجد جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔خاکسار فوراً اٹھا اور ان کے ساتھ تہجد کی ادائیگی کے لیے مسجد مبارک روانہ ہو گیا ۔ وہاں پہلے سے کافی تعداد میں نمازی موجود تھے اور سسکیوں اور آہوں سے اپنے رب سے گریہ و زاری کر رہے تھے۔ تہجد اور نماز کی ادائیگی کے بعد درس القرآن ہوا۔اور اس کے بعدبہشتی مقبرہ حضرت مسیح موعود ؑکے مزارپر دعا کے لیے حاضر ہوا۔
جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لیے ہزاروں لوگ تشریف لائےہوئے تھے۔اور ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان سب سے کوئی گہرا رشتہ ہو۔بیت الدعا میں جانے کے لیے فدائیوں کا رش لگا ہوتا تھا اور خاکسار اپنی باری کا انتظار نوافل کی ادائیگی اور درود شریف کا وردکرتے ہوئے گزارتا۔زندگی کے سب سے یاد گار دنوں کو ربّ کے آگے جھک کر اس کا قرب پانے کے لیے گزار دیے۔
جلسہ کا دن آیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے جسم کے اندر پھر سے جوش بھر دیا ہو رہائش گاہ سے 3کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے جلسہ گاہ میں پہنچے اور بزرگان دین کی ایمان افروز تقاریر نے ایک نئی روح پھونک دی۔جلسہ سالانہ قادیان کے تین دن اتنی جلدی گزرے کہ اداسی روح میں اترتی گئی۔
جلسہ کا اختتام ہوا تو آہستہ آہستہ قادیان کی رونقیں ماند ہونے لگیں۔ گلیوں میں سناٹا چھانے لگا، مگر مساجد خدا کے عاشقوں سے بھری پڑی تھیں۔4؍جنوری 2018ءکی صبح کو قادیان سے پاکستان روانگی کا سفر باندھا تو دل اداس تھا۔مگر جسم میں یوں محسوس ہوتا تھاجیسےکوئی نئی روح پھونک دی گئی ہو۔جلسہ سالانہ قادیان کی شمولیت نے خاکسار کو بالکل بدل کر رکھ دیااور پاک تبدیلیاں واضح ہونا شروع ہوگئیں ۔اور خدا نے اپنا قرب عطا فرما دیا۔اور اب نمازوں اورتہجد کی ایسی روح پیدا ہوگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے تہجد کے لیے خود بخود نیند اڑ جاتی ہے اور یہ حالت ہم دونوں میاں بیوی کی ہو گئی ہے کہ تہجد اورنماز اور نوافل پڑھے بغیر سکون میسر نہیں آتا۔
اللہ تعالیٰ یہ پاک تبدیلیاں ہمیشہ قائم رکھے، اور ہماری اولاد کو اس جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اور جلسہ کی یہ رونقیں پھر سے آباد ہوں ۔اور اس آفت(کورونا وائرس) کو جلد اللہ تعالیٰ ختم کردے۔ آمین‘‘
٭…محمد اسحاق عاجز صاحب معلم سلسلہ ندون انڈیا سے جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے اپنی یادیں کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
’’جلسہ سالانہ پر آنے جانے کی خواہش ہمارے والدین نے ہم میں ڈالی ۔ خاکسار کے دادا مکرم ناصر احمد صاحب مرحوم اور ان کےبعد والد صاحب مرحوم جلسہ سالانہ پر قادیان آیا کرتے تھے۔ وہ پیدل چل کر جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے تھے۔ یہ 1947ء سے قبل کی بات ہے جب گاڑی وغیرہ کا انتظام نہیں ہوتا تھا۔ تب یہ بزرگ پیدل جہلم اور سیالکوٹ سےہوتے ہوئے قادیان تک پہنچتے تھے۔ جلسہ سالانہ سے تقریباً پندرہ روز پہلے ہی گھر سے چلتے تھے۔ اور گھر سے کچھ روٹی اور آٹا لے کر چلتے اور راستے میں جب ضرورت محسوس ہوئی روٹی پکوالی اور کھا کر پیدل سفر کر کے قادیان جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے تھے۔ اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نصیحت کو لفظاً بھی پورا کرتے کہ اگر برف کے پہاڑ بھی سر کرنے پڑیں تو کرنا اور جا کر مہدی کو میرا سلام کہنا۔ خاکسار کا تعلق جموں کشمیر ضلع پونچھ سے ہے اور یہاں برف بھی پڑتی ہےاور پہاڑ ی علاقہ بھی ہے۔ ان تمام بزرگوں کو کم سے کم آنے اور واپس گھر پہنچنے تک ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگ جاتا۔
اس طرح جب سفر کے حالات بزرگوںسے سنتے تودل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ہم بھی بڑے ہو کر قادیان جلسہ سالانہ میں شامل ہوں۔
چنانچہ 1991ء میں جلسہ سالانہ پر آنے کی توفیق ملی۔اس سال حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ قادیان تشریف لائے تھے اور ہم نے بھی پہلی بار اتنی قریب سے کسی خلیفۃ المسیح کو دیکھا تھا ۔ دل کرتا تھا کہ دیکھتے ہی رہیں۔ اس کے بعد آج تک تقریباً ہر سال جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کی توفیق ملتی رہی ہے۔ہم سارا سال جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی غرض سے پیسے جمع کرتے تھے۔ علاوہ اور فوائد کے یہاںآکر دور کے دیشوں سے آنے والوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ۔
2005ءمیں جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لائے تو قادیان جلسہ کی رونق اور بھی بڑھ گئی۔افریقہ، امریکہ، کینیڈا،یورپ، انڈونیشیاء، ملائشیاء، عرب ممالک غرض ہر جگہ ہر دیش سے عشاق احمدیت آئے۔
اے رحیم و کریم تو اپنے فضل کا نظارہ دکھا۔ تشنہ روحوں کو سیراب کر ۔یہی التجا کرتے ہوئے خاکساراپنے مضمون کو ختم کرتا ہے۔ آمین۔‘‘
٭…قدسیہ یاسمین صاحبہ انڈیا سے لکھتی ہیں:
’’جلسہ سالانہ کی بہت سی خوشگوار یادوں میں سب سے حسین وہ یادیں ہیں جو خلفائے کرام کے ساتھ ملاقات کی ہیں۔یہ اس گلدستہ کے بہت ہی حسین پھول ہیں۔
ان حسین یادوں کے ذکر سے پہلے ان لوگوں کا ذکر خیر کروں گی جن کے باعث ہمیں اس بابرکت جلسہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
سب سے پہلے تو میرے داداعبدالمجید صاحب مرحوم اور دادی فاتو بی صاحبہ مرحومہ اور میرے نانا عبدالرؤوف صاحب مرحوم حیدر آبادی۔ میرے دادا، دادی ہر سال بڑا لمبا اور مشکل سفر کر کے عثمان آباد سے حیدر آبادپہنچتے جہاں سے ایک بوگی بک کرا کر تمام احمدی احباب و خواتین مل کر سفر کرتے۔ وہاں سے جب واپس آتے تو سفر کی روئداد،ایک ایک واقعہ سناتے۔ جب تک یہ بزرگان چل پھر سکتے تھے ہر سال آتے رہے۔ میرے نانا کو ربوہ کے آخری جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ان لوگوں کو دیکھ کر ہمیں بھی جلسہ سالانہ کا چسکا لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت لمبے سفر اور خرچ وغیرہ کی مجبوریوں کی بنا پر ہم نہیں آپاتے۔ میرے دادا پر جب فالج کا حملہ ہوا تو ایسی حالت میں بھی وہ جلسہ سالانہ پر بڑی مشکل سے تشریف لے گئے۔ایسی تڑپ تھی کہ ہر سال جلسہ کی یاد سے اشکبار ہوجاتے۔
داداکی ہر خواہش پوری کرنے کے جذبہ سے میرے والد صاحب جلسہ سالانہ میں ہر سال جاتے تھے۔ کبھی کبھار کسی نہ کسی بہن بھائی کو بھی ساتھ لے جاتے۔ ہم تمام افراد خاندان پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ پر خلیفة المسیح الرابع ؒکی آمد پر1991ءمیں گئے۔ ہم گرم علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہاں کا ماحول اجنبی تھا۔پھر بھی خلیفہ وقت کے دیدار کی گرمی ہر قسم کی سردی کو مات دینے کے لیے کافی تھی۔ ہر روز تقاریر کے ساتھ ساتھ خلیفة المسیح کا خطاب سننے کا اتنا مزہ تھا۔ اتنے سارے احمدی بھی پہلی بار دیکھے کیونکہ ہمارا صرف ایک ہی خاندان احمدی ہے۔ اتنے احمدیوں کو دیکھنا اور ملنا بھی ایک خوشگوار احساس اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
ہماری حضور ؒسے ملاقات بھی جلسہ سالانہ کی برکت سے ہی ہوئی۔ جلسہ پر مہمان نوازی کی ڈیوٹی دینا بھی آج تک یاد ہے۔ ہاتھ شل ہوجاتے تو گرم روٹیوں پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا آرام محسوس ہوتا۔ انڈیا پاکستان کے کئی لوگوں سے اس ڈیوٹی کے دوران واقفیت ہوگئی تھی۔
بیت الدعا کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہونا اور تہجد کی لائن دارالمسیح سے لنگر کی روڈ تک دیکھنے کا منظر آج بھی یاد ہے۔ کہرہ ایسا کہ سامنے کا شخص نظر نہیں آتا۔ لیکن خدا کے یہ پیارے اپنے خدا کو راضی کرنے لائن میں کھڑے ہیں کہ ہم بھی اس جگہ دعا کریں جہاں مسیح دوراں نے دعائیں کی تھیں۔
جلسہ سالانہ کے مقاصد میں ایک مقصد اپنی عبادات کو بام عروج تک پہنچانا ہے۔اس کا نظارہ باہر بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
ہم جلسہ سالانہ کے لیے نکلے تو جلسہ سالانہ کے حوالے سے ایک بینر بنوایا گیا ۔ جس جس سواری پر ہم چڑھتے اس بینر کو آویزاں کرتے تھے۔ اس سے تبلیغ کے بہت سے مواقع میسر آئے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا اور ہر کوئی اس کے بارے میں پوچھتا اور احمدی بھی جہاں کوئی اسٹیشن پر گاڑی رکتی آکر ملتے۔ اس طرح یہ قافلہ جماعت کی صد سالہ جوبلی کی خوشیاں بانٹتا بالآخر قادیان پہنچا وہاں فلک بوس نعروں نے ٹرین کا استقبال کیا۔ خدام نے ہمارا سامان گاڑیوں میں رکھا اور ہمیں دارالمسیح لے گئے یہاں گرلز سکول میں لجنہ کو کمرہ ملا تھا۔
اسی طرح پھر دوسری بار 1995ءکے جلسہ سالانہ میں بھی شمولیت کی توفیق ملی۔ پھر اس کے بعد ہر سال اللہ تعالیٰ ہمیں جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق دیتا رہا۔
چونکہ میرے خاوند معلم سلسلہ ہیں تو کئی صوبوں سے جلسہ میں شامل ہونے کا مواقع میسر آئے اور بہت سے لوگوں کو جلسہ میں لانے کی توفیق ملی۔ ہر ایک وقت کی الگ یاد ہے۔ پہلے یوپی سے شامل ہوئے پھر اندھرا پردیش سے بذریعہ سپیشل ٹرین سے۔ اس کی بھی اتنی یادیں اور باتیں ہیں تمام مناظر قلم بند کرنا ممکن نہیں۔
ٹرین میں اذان ہوتی اور پھر تمام افراد وضو کرتےپھر نماز باجماعت کی ادائیگی ہوتی۔ایک دفعہ ٹرین میں پانی کم تھا تو تیمم کا طریقہ سکھایا گیا چونکہ ٹرین میں نومبائعین بھی شامل تھے گویا تربیت کا کام بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ جماعتی نظمیں بچے مائک سے پڑھ لیتے ۔اس طرح سارا راستہ جلسہ سالانہ کا ہی ماحول لگتا۔ دلی میں ٹرین کی ضیافت کا انتظام تھا۔ خدام نے بریانی کے پیکٹ لا کر تمام مسافروں میں تقسیم کیے۔
سفرلمبا تھا۔ کچھ عورتوں کے پاس کھانے کے ٹفن ختم ہوگئے تو خدام نے جن لوگوں کے پاس کھانا موجود تھا سےلے کر ان میں تقسیم کیے۔ صفائی وغیرہ بھی خدام ہی کر رہے تھے۔ اس سفر میں نئے نئے احمدیوں سے ملنے کا موقع ملا جس میں تلگو بولنے والے بھی شامل تھے، اردو بولنے والے بھی، مگر سارے احمدی تھے جیسے الگ الگ رنگوں کا گلدستہ ہو۔یہ ٹرین تین دن کی مسافت طے کر کے فلک بوس نعروں کےساتھ قادیان کے اسٹیشن پہنچی اور پھر تین دن جلسہ سالانہ کی برکات کو لوٹ کر اسی ٹرین سے واپس ہم قاضی سیٹھ پہنچے اس کے بعد بذریعہ بس اپنے گھر گئے۔
اگلا جلسہ ہم نے صوبہ جھار کھنڈ سے جا کر دیکھا۔ پھر یوپی سے، بریلی سے شامل ہوتے رہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر تین دن کے سفر کرتے رہے۔ بریلی سے ایک ہی دن کا سفر ہمیں معلوم ہوتا اور قادیان کے نزدیک ہونے کا احساس دلاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور قادیان کے قریب کیا ہم ہریانہ چلے گئے وہاں سے بھی شامل ہوتے رہے۔
بریلی سے ہمیں 2005ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد پر جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی اور حضور جتنے دن قادیان مقیم رہے ہمیں حضور انور کی صحبت میں رہنے کی سعادت ملی۔ یہ روح پرور نظارے تو ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ جب حضور انور کے ساتھ ملاقات کی تصاویر دیکھتے ہیں تو سارے مناظر آنکھوں کےسامنے آجاتےہیں۔
حضور انور سے پہلی ملاقات کا واقعہ تو بہت ہی دلچسپ ہے۔ ہم سفر کر کے جب نور ہسپتال پہنچے تو وہاں صرف اپنی والدہ امة القدیر صاحبہ کو ہمارا منتظر پایا باقی افراد خاندان وہاں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا حضور انور بعد عصر دعا کرنے بہشتی مقبرہ جاتے ہیں۔ وہاں حضورکا دیدار کر نے کے لیے سب لوگ گئے ہوئے تھے۔یہ سنتے ہی ہم نے سامان ہال میں رکھا اوردوڑ پڑے کہ شاید حضور انور کو ہم بھی دیکھ پائیں۔ دیدار کی تڑپ میں دعائیں کر تے ہوئے کبھی چلتے توکبھی دوڑ پڑتے لیکن احمدیہ چوک پہنچے تو میرا چھوٹا بھائی سامنے سے آرہا تھا۔ اس نے بتایا حضور انور واپس تشریف لے جاچکے ہیں۔
اب سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں۔ میرے بھائی نے کہا ایسا کرتے ہیں ہم ابھی سے مسجد میں جا کر بیٹھ جائیں گے حضور نماز مغرب کے لیے آئیں گے تو وہاں ہمارا دیدار ہوجائے گا۔ یہ سوچ کر ہم دارالمسیح کی جانب بڑھے ۔میرے ساتھ بڑی بیٹی صالحہ اور بیٹا وسیم احمد تھے۔ بیٹاوالد صاحب کے ساتھ آگے مسجد اقصیٰ چلا گیا۔ جب میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں کی جانب بڑھی تو ڈیوٹی پر موجود خادم نے کہاکہ لائن سے آنا ہے۔ میں نے تعجب سے دیکھا پیچھے بھی کوئی نہیں دکھائی دیا نہ آگے زیادہ لوگ تھے۔ نماز کا وقت بھی نہیں تھا ۔ آگے بڑھنے پر ایک سرپرائز معلوم ہوا کہ حضور انور لجنہ سے ملاقات فرما رہے ہیں۔
خدا کے اس احسان کا جتنا شکرادا کیا جائے کم ہے۔ ہم نماز کی نیت سے آئے اور ساتھ ہی حضور کے دیدار کا بھی شرف حاصل ہو گیا۔ اب تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ تیز تیز قدموں سے اوپر پہنچی۔ بیت الفکر سے لائن لگی ہوئی تھی اور برآمدہ میں وہ چاند نزول فرما تھا۔ باری باری تمام خواتین شرف زیارت حاصل کرتیں۔ بالآخر ہماری باری بھی آئی۔ حضور انور نے جب ہماری طرف مسکرا کر دیکھا تو مجھے خیال آیا کہ میں سفر والے لباس میں ہی آ گئی نہ شیشہ دیکھا نہ کچھ اسی حال میں ملاقات کو پہنچ گئی ۔ حضور انور نے مسکرا کر ہمارے سلام کا جواب دیا۔ خاکسار نے بتایا میرے خاوند وقف زندگی ہیں میرے بچے بھی سارے وقف نو میں شامل ہیں اور دعا کی درخواست کی۔ حضورانور نے فرمایا اللہ فضل فرمائے اور ہم سب کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بچوں کو چاکلیٹ دیں۔خدا کے فضل و احسان کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ یہ اس نے اپنے خلیفہ کے دیدار کے تڑپ والوں کو شرف ملاقات بھی بخش دیا۔
پھر جتنے دن حضور وہاں رہے ہم روزانہ حضور کی آمد سے قبل بہشتی مقبرہ میںموجود ہوتے ۔اس طرح حضور کا دیدار ہوجاتا۔
جلسہ سالانہ میں حضور کی آمد سے ایک اور خاص فضل ہوا کہ تمام جلسہ کے وقت سورج نکلتا رہا اور بہت ہی سہانےموسم میں جلسہ کی کارروائی سننے کو ملی۔ حضور انور کے خطابات، مہمانوں کے تأثرات اور علمی تقاریر سننا اور اتنے سارے اپنے قریبی لوگوں سے ملاقات جنہیں دیکھے کئی سال بھی ہوگئے تھے۔ یہ جلسہ کی برکت سے ممکن ہوا ۔ میرے والدین بھی جتنے دن حضور انور قادیان رہے وہ بھی وہیں رہے بلکہ حضور انور کی آمد سے پہلے ہی وہ استقبال کے لیے مہارشٹرا سے آچکے تھے۔
اللہ کرے کہ جلد حالات بدلیں اور پھر سے ہم جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہو سکیں۔آمین۔‘‘
٭…ظفر احمد گوندل صاحب کینیڈا سےجلسہ سالانہ سے وابستہ یادوں کے حوالے سےلکھتے ہیں:
’’حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے وقت میں ہم چک نمبر 99 شمالی سرگودھا میں رہتے تھے ۔ ریل گاڑی پر جلسہ میں شمولیت کے لیے سفر اختیار کرتے۔
ہنڈیوالی اسٹیشن سے ربوہ کا سفر بڑے شوق سے کرتے تھے۔ جلسہ گاہ میں پرالی ڈال کر بیٹھنا، جلسہ سننا مونگ پھلی اور چلغوزے کے ساتھ انجوائے کرنا یاد ہے۔
1964ء میں ٹی آئی کالج میں داخلہ لیا۔ ہمارے چچا جان چودھری عبدالواحد گوندل ہم تین بچوں کو داخل کروانے ربوہ آئے۔ دو ان کے بیٹے تھے اور ایک میں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ پرنسپل تھے۔ ان کے دفتر میں تعارف ہوااور ہم تینوں کا داخلہ ہوگیا۔ بعد میں ایک نے چھوڑ دیا۔ ہم دو ہاسٹل میں داخل ہوگئے۔ جلسے کے ایام میں ہاسٹل میں بھی مہمان ٹھہرتے تھے۔ ہماری ڈیوٹی مہمانوں کو کھانا کھلانے کی تھی۔ دوپہر کو دال ہوا کرتی تھی اور رات کو آلو گوشت۔ مہمانوں کی خدمت کر کے بڑا مزا آتا تھا۔
1965ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ خلیفہ مقرر ہوئے۔ ہم ہاسٹل میں رہتے تھے ایک دن میں اور ایک ساتھی حضور کی ملاقات کے لیے گئے۔ حضورؒنے فوراً پوچھا آپ کا تیسرا ساتھی کہاں ہے؟ ہم اکٹھے تین داخل ہوئے تھے۔ ہم حیران تھے کہ حضورؒ کی اتنی زبردست یادداشت ہے کہ سب کچھ یاد ہے۔ سینکڑوں بچے آتے جاتے ہیں۔
پھر ہم نے ہجرت کی اور سندھ آگئے۔ جلسہ پر آنا جانا رہتا تھا۔ جلسے کا ماحول جلسے کی برکتیں خلیفہ وقت کی دعائیں یہ بہت یاد آتی ہیں۔
1990ء میں مَیں قادیان جلسے پر گیا۔ خوب جلسے کا مزا آیا۔ میرے ماموں محمود احمد مبشر گوندل صاحب درویش قادیان تھے۔ مسجد مبارک میں اذان دینے کا موقعہ بھی ملتا رہا۔ بیت الدعا میں بھی اکثر موقعہ مل جاتا تھا۔اُس بستی کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔
1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان جلسے پر تشریف لائے۔میں بھی ویزا لگوا کر پہنچ گیا۔ 26؍دسمبر 1991ء کو صبح کی نماز حضور ؒنے پڑھائی۔ الحمد للہ نماز شروع کرتے ہی رقت طاری ہوگئی۔ اور یہ کیفیت ساری نماز میں برابر قائم رہی۔پیاسی روحیں انڈیا، پاکستان اور دوسرے ممالک سے آئیں تھیں۔ سب نے خوب اپنی پیاس بجھائی۔ ایسی نماز میں نے کبھی نہیں پڑھی۔
جلسے کا تو اپنا ہی مزا، ہر طرف رونقیں، بشاشتیں، ملنا جلنا تھا۔ جلسے کی برکتیں اور فیوض ہر طرف عام تھیں۔
پھر حضور ؒکا معمول صبح سیر کرنا تھا۔ حضورؒ فجر کی نماز کے بعد پہلے بہشتی مقبرہ جاتے ۔ ہم بھی ہر روز حضورؒ کے پیچھے پیچھے رہتے کہیں پر لوگ زیادہ ہوجاتے تو لائن بن جاتی اور مصافحہ ہوجاتا۔ ہم بھی ساتھ موقع سے فائدہ اٹھا لیتے۔
پھر یہ مبارک دن ختم ہوئے۔ ہمارے واپس آنے کا پروگرام تھا۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ میں لوگوں نے قطاریں بنالیں کہ حضورؒ سے مصافحہ ہو جائے۔
دو دو چار چار لوگ اکٹھےکھڑے تھے حضور ؒمصافحہ کرتے جاتے تھے خاکسار کو بھی حضورؒ سے مصافحہ کرنے کا موقع ملا گیا۔‘‘
٭…اُم مسرور صاحبہ لندن سے لکھتی ہیں:
’’پاکستان میں ہم نےاس دورمیں ہوش سنبھالا کہ جب ہم نے جلسوں اور خلافت دونوں کا سنا اورپڑھا تھا اور دل میں خواہش اٹھتی کہ کبھی ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے کہ نہیں۔پاکستان میں چونکہ جلسہ قادیان میں شمولیت اورویزے کاحصول بذریعہ قرعہ اندازی ہوتا ہے۔لہٰذا 2010ءمیں میرا،میرےسسر محترم اوردونوں بچوں کا نام نکلا۔ اس خوشخبری کے ملتے ساتھ ہی ہم نے تیاری شروع کردی پاسپورٹ اور دیگر کاغذات مکمل کرکے مرکز بھجوادیے اور ہم انتظار کرنے لگے ماہ دسمبر کا۔لیکن سانحہ لاہور نے کچھ عرصہ کے لیےیہ بھلا دیا کہ ہم قادیان جانے کے منتظر تھے چونکہ اس سانحہ میں میرے سسرمحترم محمد یحییٰ خان کو بھی شہادت نصیب ہوئی اب وہ ہمارے ساتھ نہیں تھے۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوا تو پھرسے انتظار شروع ہوااور پھر آخر وہ دن بھی آپہنچا جس دن ہماری روانگی تھی۔ صبح نماز کے بعد ہم دارالذکر سے واہگہ بارڈر کے لیے روانہ ہوئے۔ واہگہ بارڈر پر عجب سماں تھا۔ کسی کو نہ جانتے ہوئے بھی سب اپنے تھے۔ امیگریشن وغیرہ سے فارغ ہوکر بارڈر کراس کرنے کے بعد ہم بے چین تھے کہ جلدازجلد قادیان پہنچ جائیں چونکہ جمعہ کا دن تھا تو جلد ازجلدمنزل پر پہنچنے کی خواہش تھی کہ جمعہ کی نماز سرزمین مسیح پر ادا کریں۔ خدا تعالیٰ نے ہماری اس خواہش کو بھی پورا کر دیا الحمدللہ!اور ہم گیارہ ساڑھے گیارہ کے درمیان بس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سامنے نظر پڑی تو دل یکدم ہی جذبات سے لبریز اور خدا کا ایکدفعہ پھر سے شکر گزار ہوا کہ سامنے وہ مینار اپنی پوری شان وشوکت سے نظر آرہا تھا کہ جس کو آج تک صرف تصویروں اور ایم ٹی اے پر ہی دیکھا تھا ۔مینارۃالمسیح کا نظر آنا تھا کہ ہماری بس نعرہ تکبیر کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھی،عجیب کیفیت تھی دل کی کہ ہم امام الزمانؑ کی سرزمین پر موجود ہیں۔
بس سے اترتے ہی مستعد خدام آپ کی رہ نمائی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں آپ نے کس جگہ جانا ہے کس کے گھر جانا ہے اسی وقت آپ کا سامان اٹھا کر آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دیں گے ۔جمعہ کی ادائیگی کے بعد بہشتی مقبرہ جا کر مزارِمبارک حضرت اقدس مسیح موعودؑپر دعا کی توفیق ملی ۔ نمازوں کی ادائیگی اور ان گلیوں میں اور دارالمسیح کے احاطہ میں پھرتے ہوئے دل بارہا جذبات سے لبریز ہوتا کہ مسیحِ وقت بھی یہاں وقت گزارتے اور عبادت کرتے تھے اور خدا کا احسان کہ اس نے ہمیں یہ سعادت بخشی کہ ہم بھی ان برکتوںکو حاصل کرنے والے بنے۔
اذان کی آواز پر سب جوق درجوق مسجد کی طرف روانہ ہوتے۔ باوجود شدید سردی کے کیا بوڑھے،بچے،جوان مرد عورتیں ہرایک اس کوشش میں ہوتا کہ جلد از جلد مسجد پہنچ جائے۔انتہائی پر سوز تلاوت کے ساتھ با جماعت تہجد کی ادائیگی کا مزہ ہی اور تھا اس کے بعد نمازِفجر کی باجماعت ادائیگی اور بعد از نماز بہشتی مقبرہ میں دعا کے لیے جانا عجب سماں ہوتا تھا ۔بیت الدعا میں دعا یا نفل ادا کرنے کا موقع مل جائے اس کے لیے لائن میں لگنے کا بھی اپنا ہی مزا تھا،بیت الفکر اور بیت الدعا میں محض خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان سے دو دفعہ عبادت کا موقعہ ملا۔جلسہ کے تین دن جلسہ گاہ میں بیٹھ کر تقریریں سننا اور اس ماحول کی برکات کو اپنے اندرسمیٹتے ہوئے کب اور کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا،یوں تو جلسہ کا ہر لمحہ ہی بابرکت اور فیوض سے بھرپور تھا لیکن حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کا براہ راست خطاب سننے کا ایک الگ ہی مزہ تھا۔
جلسہ کے بعد دودن مزید قیام کے دوران مقامات مقدسہ کی زیارت اور قادیان کی سیر کا موقع ملا مگر یوں لگتا تھا کہ روح میں تشنگی باقی تھی۔مسجد مبارک،مسجد اقصیٰ میں نمازوں کی ادائیگی،منارۃالمسیح سے گونجتی اذان کی صدائیں کیا دلفریب اور روح کو پگھلانے والے مناظر تھے کہ دل ہر لمحہ خدا کے حضور سجدہ ریز رہنے کے لیے بے چین رہتا کہ یہ وہ جگہیں ہیں کہ جن پر مسیح وقت کے مبارک قدم پڑے تھے اور یہ وہ راستے اور جگہیں ہیں کہ جن پر مسیح الزمان رہا کرتے تھےاور آج خدا نے ہمیں یہ توفیق بخشی کہ ہم امام وقت کو ماننے والوں میں شامل ہوئےاور اس کی بستی کو دیکھنے کی سعادت نصیب فرمائی۔واپسی کے وقت بارہا قادیان کے رہنے والوں کی خوش نصیبی پر رشک آیا۔دکھی اور بوجھل دل و قدموں کے ساتھ واپسی کا سفر اختیار کیااس امید اور آس کے ساتھ کہ خداتعالیٰ یہ خوش نصیبی آئندہ بھی نصیب فرمائے۔آمین!‘‘
٭…والدہ درثمین احمد صاحبہ ربوہ میں جلسوں کی یادکے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
اگر نظام کائنات میں گذشتہ وقت میں لوٹنا ممکن ہوتا تو شاید بہت سے لوگ اس کی تمنا کرتے مگر جس قدر شدت سے یہ خواہش آج پاکستان کے احمدی کرتے ہیں شاید ہی کسی نے کی ہو۔کا ش وہ بابرکت ایام جب خلیفۂ وقت کے بابرکت وجود کی موجودگی میں ربوہ ہی کیا سارا پاکستان جہاں جہاں احمدی موجود ہوتے ربوہ کی طرف مقنا طیسی طاقت کے زور سے کھنچے چلے آتے تھے ۔ اور دسمبر کے مہینہ میں جلسہ کے ایام میں تو اس کا نظارہ ہی کچھ مختلف ہوتا تھا ۔میرے بہت بچپن میں تو ابا جی کی گورنمنٹ ملازمت کی وجہ سے جلسہ میں صرف بطور مہمان شامل ہونے کے مواقع ملتے رہے مگر 1970ء میں ربوہ منتقل ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی میزبانی کے جو مزے لوٹے وہ نقوش انمٹ ہیں۔
ستمبر میں امی موسم سرما کے بستروں کی صفائی ستھرائی میں مشغول ہو جاتیں۔ پھر گھروں کی حسب توفیق صفائی سفیدی وغیرہ کا اہتمام ہوتا اور دسمبر کے آغاز کے ساتھ تو گویا اس کام میں ہر طرح کی تیزی آجاتی ۔
گھر میں راشن کی وافر فراہمی باوجود کم وسائل ہونے کے طاقت سے بڑھ کر کی جاتی۔ اور پھر ہم بچوں کی نماز وںمیں لمبی لمبی دعائیں کہ اللہ میاں ہمارے گھر میں زیادہ مہمان بھیجنا ۔
آج سوچیں تو ہنسی آتی ہے کہ کوئی ان باتوں میں بھی مقابلہ کرتا ہے مگر خدا جانتا ہے کہ ہم تین چار خالاؤں کے بچے باقاعدہ مقابلہ کرتے تھے کہ کس کے گھر زیادہ مہمان آتے ہیں ۔
دسمبر میں امی لوگوں کے ساتھ مل کر ایام جلسہ کے لیے ناشتے کا سامان جس میں گھر کے بنے ہوئے کیک، نمک پارے، شکرپارے اور سرگودھا کے جالندھر بیکری کے رسک،باقرخانیاں وغیرہ شامل ہوتیں جمع کرنا شروع کردیتیں۔
مہمانوں کے آنے سے قبل حسب ضرورت چارپائیوں اور فرشی بستروں کی مکمل تیاری کر لی جاتی تھی ۔
بہت سہولتیں نہ ہونے کے باوجود وضو کے لیے گرم پانی کا بھی بندوبست کیا جاتا تھا ۔
پھر20؍دسمبر سے تو جلسہ کی رونقیں باقاعدہ شروع ہوجاتیں۔ نماز فجر سے قبل سارا سال گلیوں میں گونجنے والی ’صلِّ علیٰ‘ کی صداؤں میں جو جوش اور ولولہ آ جاتا وہ خواب خرگوش کے مزے لینے والوں کو بھی نماز تہجد اور فجر کے لیے اٹھنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ مرد حضرات نماز کے لیے مسجد جاتے تو خواتین گھروں میں تہجد اور نماز فجر سے فارغ ہوکر ساتھ ہی ناشتے کے اہتمام میں لگ جاتیں۔ چائے کے دیگچے چولہوں پر چڑھ جاتے اور ساتھ ناشتے کے برتن سجائے جاتے۔ اگر کوئی مہمان لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ناشتے کی خواہش کرتا تو اس کو وہ بھی فراہم کیا جاتا جو گرم گرم روٹیوں اور انتہائی لذیذ دال پر مشتمل ہوتا جس کو اکثر لوگ روٹی کے ساتھ کم اور چمچوں کے ساتھ زیادہ کھاتے تھے ۔
ربوہ میں ہماری امی وغیرہ تین بہنوں کے گھر بالکل ساتھ ساتھ تھے اور طے یہ تھا کہ جلسہ کے تینوں دن سب قیام پذیر مہمان بھی روزانہ سرگودھا سے آنے والے رشتہ دار بھی ایک ایک گھر میں دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔ اللہ اللہ! وہ دن ہمارے لیے کسی عید سے بڑھ کر ہوتا جس دن ہمارے گھر دعوت شیراز ہوتی تھی۔ حسب توفیق ہراچھی چیز مہمانوں کو پیش کرنے کی خواہش ہوتی، جو نہ میسر ہوسکتی اس کا سخت قلق ہوتا ۔
غرضیکہ یہ برکتوں سے معمور تین دن خوشگوار ہوا کے جھونکے کی طرح گزر جاتے اور مہمانوں کی واپسی کے دن آپہنچتے ۔
ہاں ایک بات تو میں بھول گئی کہ ہم اہل خانہ کی خواتین نے جلسہ گاہ جانے کی باری مقرر کی ہوتی تھی ۔ ایک دو خواتین گھر رہ کر مہمانوں کی خدمت گاری کے کام کرتیں تاکہ سب جلسہ کے پروگرام بھی باری باری سن سکیں اور گھر پر رہنے والی خواتین شام کو جلسہ گاہ سے واپس آنے والوں سے سارے پروگرام سے آگاہی حاصل کرتیں ۔
مہمانوں کی واپسی کی سوچ آتے ہی آنکھوں سےباقاعدہ آنسو بہنے لگتے کہ یہ بابرکت ایام دوبارہ پورے ایک سال بعد نصیب ہوں گے۔
جلسہ سالانہ کی برکات صرف تقاریر یا میل ملاقات تک محدود نہیں ہوتی تھیں بلکہ زندگی کا ہر ایک پہلو اس کی برکات سے فیض پاتا تھا۔ شہر ربوہ جو شاید پورے پاکستان میں سب سے زیادہ سرکاری طور پر نظر انداز شدہ شہر ہے اس کو اپنی مدد آپ اور وقار عمل کے ذریعے غریب دلہن کی طرح آراستہ کیا جاتا تھا۔ ناراض اور نظرانداز رشتہ داروں کو گلے لگایا جاتا۔ مدد کے محتاج ہر طرح کی مدد حاصل کرلیتے تھے۔
ہم ان سچی خوشیوں سے محروم ہو گئے جو یہ تین دن ہمیں دیتے تھے ۔ اب خدا تعالیٰ نے یہ خوشیاں، یہ برکتیں دنیا کے ایک نہیں سینکڑوں ممالک کو عطاکر دی ہیں ۔ اے اللہ! ان کے لیے یہ برکتیں دائمی بنا دینا اور ان کو کبھی ان برکات سے محرومی کا دکھ نہ دینا۔آمین‘‘
٭…سلیمہ رفیق صاحبہ کینیڈا سے لکھتی ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کل عالم کو دینِ واحد پر جمع کرنے کے لیے جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور ابھی انیسویں صدی کے ختم ہونے میں دس سال باقی تھے کہ امّتِ واحدہ کی ایک جھلک دکھانے کے لیے اور صادقوں کا ایک گروہ اکٹھا کرنے کے لیے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جلسہ سالانہ کا آغاز 1891ء میں کیا۔ جس میں 75 صادقوں پر مشتمل ایک گروہ نے شرکت کی۔ پھر یہ صادقوں کا گروہ پھلتا پھولتا چلا گیا اور 1946ء میں متحدہ ہندوستان کے آخری جلسہ سالانہ قادیان میں 39 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت نے ایک نیا جلوہ دکھانے کا ارادہ کیا۔ جماعت کو بے سرو سامانی کے عالم میں اپنا مرکز چھوڑنا پڑا اور خلافتِ ثانیہ کی رہ نمائی میں یہ سفر ایک دفعہ پھر بڑی شان کے ساتھ 1949ء میں شروع ہوا۔
جلسہ سالانہ کی برکتوں کے طفیل خاکسار کو 1951ء میں مہدیٔ دوراں مسیح آخر الزمان حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کی پیاری ساتھی حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ سے شرفِ ملاقات اور برکت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ یادوں کے دریچے سے جھانکتے ہوئے مجھے وہ پیارا وجود اب بھی یاد ہے۔ ایک کچے مکان کا سادہ کمرہ، جس میں ایک نورانی وجود چارپائی پر لیٹا ہوا ہے۔ ہم تین بہنیں اپنی والدہ کے ہمراہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ہماری والدہ مرحومہ نے آپ سے درخواست کی کہ اماں جان یہ میری بیٹیاں ہیں ان کے سرپر اپنا دستِ شفقت پھیر دیں۔ حضرت اماں جان ؓنے ہمارے سروں پر اپنا ہاتھ پھیرا اور ہم اس بات کو آج بھی اپنے لیے ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ ہم تینوں بہنیں بڑے فخر سے اس واقعہ کا ذکر کیا کرتی تھیں۔
آج سے 65سال پہلے کا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ ربوہ ایک ریت کا میدان تھا، نہ بجلی نہ سڑکیں دور دور تک کوئی عمارت نظر نہ آتی تھی لیکن جلسہ سالانہ کے ایام میں یہاں خیموں کی بستی آباد ہوجاتی۔ لالٹینوں کی روشنیاں رات کے اندھیرے میں ایسے محسوس ہوتیں گویا حدِّ نگاہ تک جگنو چمک رہے ہوں۔ مجھے یاد ہے جلسہ سالانہ کے دن تھے۔ لجنہ ہال کی عمارت اپنی تکمیل کے مراحل میں تھی۔ نہ فرش بنا تھا نہ ابھی دروازے لگے تھے کہ ہمیں وہاں رہائش کا موقع ملا۔ اس حالت میں بھی ہم بچے اور مستورات بہت خوش تھے۔ میرے والدین اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ انہیں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ اور خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ سے ایک دلی محبت بلکہ عشق تھا اور ہماری والدہ صاحبہ جب تک تمام خواتین مبارکہ سے مل نہ لیتیں چین نہ لیتیں۔ ان کی اسی والہانہ محبت کا نتیجہ ہے کہ آج بھی خاندانِ مسیح موعودؑ کے بزرگ ہم سے بہت شفقت اور محبت کا سلوک کرتے ہیں۔
ربوہ جلسہ سالانہ کے ابتدائی دور میں اتنی زیادہ پابندیاں نہیں تھیں۔ دروازے پر پہرہ تو ہوتا لیکن آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مستورات پہروں قصرِ خلافت میں انتظار کرتی رہتیں۔ اُس دور میں حضور اپنےصحن میں ہی خواتین سے بیعت لیا کرتے تھے۔ آپ بالکونی میں کھڑے ہوتے، اکثر حضرت امّ ناصر یا حضرت چھوٹی آپا آپ کے ساتھ ہوتیں۔ آپ بیعت کے الفاظ بولتے جاتے اور خواتین دہراتی جاتیں۔
سپیشل ٹرینیں جلسہ سے ایک دن پہلے ربوہ پہنچ جاتی تھیں۔ اللہ اکبر! اور احمدیت۔ زندہ باد! کے نعروں سے ساری فضا گونج اٹھتی۔ ملنے ملانے کا کافی وقت ہوتا۔ حضور کی ازواج میں حضرت امّ ناصر اور حضرت امّ وسیم سے ملاقات کی سعادت ملی۔ حضرت چھوٹی آپا سے بھی ہر بار ملاقات ہوتی۔ ہمیں جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دینے کا بہت شوق تھا۔ اللہ کے فضل سے کئی سال حلقۂ خاص میں ڈیوٹی دینے کا موقع ملا۔ بہت سے بزرگان اور جید علماء حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ، مولوی ابوالعطاء صاحب، چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ وغیرہ کی پُرمعارف تقاریر سننے کا موقع ملتا رہا۔
یادوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ ایک لہر کے بعد دوسری لہر آرہی ہے۔ اور ان لہروں میں واقعات کا سلسلہ غوطہ زن ہے۔ یہ جامعہ نصرت ہے۔ آج کل اس میں پورا پاکستان سمایا ہوا ہے۔ کہیں راولپنڈی ہے، کسی کمرے میں لاہور والے براجمان ہیں اور کسی کمرےمیں سیالکوٹ والوں نے محفل جما رکھی ہے۔ رات فارغ اوقات میں ہر کمرے میں جا کر نئی نئی دوستیاں اور ملاقاتوں کے دائرے بڑھائے جاتے۔ ایک دوسرے سے مل کر ایسی خوشی ہوتی جیسے ماں جائے ہوں۔ یہ مسیح موعود اور مہدیٔ زماں کی برکت ہے کہ اگر دو احمدی اکٹھے سفر کر رہے ہوں اور ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ ہوں تو بھی دل میں ایک کشش سی محسوس ہوتی ہے اور تعارف پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔
1953ء میں مخالفتوں کے شدید دور میں بھی جلسہ اُسی آن بان سے منعقد ہوا۔ اس جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے پُرزور الفاظ میں فرمایاکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا میری طرف دوڑتا ہوا آرہا ہے اور یہ دشمن میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے اور ہم سب نے اپنی آنکھوں سے یہ بات پوری ہوتی دیکھی۔ مجھے یاد ہے کہ اسی جلسے میں مخالفین نے عورتوں کی بیرکس میں آگ لگا کر اپنے گھٹیا پن کا اظہار کیا۔ کسی کا بستر جل گیا اور کسی کے کپڑے، دشمن سمجھا تھا کہ ان حرکتوں سے جماعت کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دے گا لیکن خدا کے فضل سے صبح کی روشنی نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ہر کوئی اُسی ذوق و شوق سے جلسہ گاہ کی طرف رواں دوراں ہے اور رات کے واقعہ کا شائبہ تک کسی کے چہرے پر نہیں تھا۔
اسی طرح ایک جلسہ پر نان بائیوں نے روٹی پکانے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر وحدت اور یگانگت کی جو مثال قائم ہوئی اس نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر دی۔ اہل ربوہ نے اپنے مہمانوں کے لیے روٹیوں کے ڈھیر لگا دیےاور دشمن اپنی چال کو ناکام دیکھ کر دانت پیستا رہ گیا۔
1974ء کے جلسہ سالانہ پر دل زخم خوردہ تھے مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ہمارے پیارے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ جن کا موٹو ہی یہ تھا کہ ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘وہ اپنی دلنشین باتوں سے جماعت کو حوصلہ دے رہے تھے اور پُردرد دعاؤں سے سب کا استقبال کرتے نظر آتے تھے۔
واقعات اور یادیں تو اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو بیان کرنے کے لیے بہت وقت چاہیے۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بابرکت اور پررونق دن جلد دوبارہ لائے تاکہ ہم سب اور ہماری نسلیں بھی ان پُربہار دنوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ آمین‘‘
٭…خاور رشید باجوہ صاحب جرمنی سے لکھتے ہیں:
’’بے شک ہم سب ایک وبائی سال سے گزر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا اچھے وقت کی امید لگا کرصبر کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس وبا کی وجہ سے ہمارے جیسے کتنے ہی ہیں جن کے سب پلان ادھورے یادھرے کے دھرے رہ گئے۔
ہم نے بھی گذشتہ سال ایک پلان بنایا تھا اور یہ ایسا پلان تھا جو بڑے سال پہلے سے بن رہاتھا کہ جلسہ سالانہ قادیا ن میں شامل ہوںمگر اس بار پوری کوشش کرکے اس کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا ۔اس کے لیے کام سے بھی رخصت حاصل کرلی گئی تھی۔
الحمدللہ کہ پلان کے مطابق خاکساراپنے ایک عزیز احمدی دوست برادرم چودھری حفیظ اللہ باجوہ صاحب اور ان کے صاحبزادے عزیزم پروفیسر نداء الحبیب باجوہ صاحب کے ہمراہ جرمنی سے انڈیا روانہ ہوا۔ ہم جلسہ کے انعقاد کی تاریخوں سے کچھ روز قبل وہاں پہنچ گئے تھے اور پلان یہ تھا کہ جلسہ سے پہلے انڈیا کے بعض تاریخی مقامات کی سیر کرلی جائے اور اس کے بعد دیار مہدی پہنچ کر وہاں کی برکات سمیٹیں گے۔دل اور دماغ اس مقدس بستی کے متعلق جو سن اور پڑھ چکا تھا اس میں خود کو گھومتے پھرتے دیکھنے کو بے تاب تھا۔ہر روز کیلنڈر پر نظر جاتی کہ جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام کب شروع ہوںگے اور کب اس بستی میں ہمارا نزول ہوگاجہاں مسیح موعودؑ اور مہدیؑ دور اں کا نزول ہوا تھا۔
مگر دل ڈر بھی رہا تھا کہ اس بابرکت جلسہ کے انعقاد میں کوئی روک پیدا نہ ہوجائے کیونکہ انہی دنوں میں حالات کچھ کچھ ناسازگار نظر آتے تھے۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ایک روز جب دہلی میں ٹرین کے سفر سے محظوظ ہورہے تھے علیٰ الصبح میرے ایک کزن جو مربی سلسلہ ہیں اور ان دنوں جماعتی دورہ پر انڈونیشیا میں تھےکا فون آیا اور یہ خبر سنائی کہ موجودہ حالات کی وجہ سے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ قادیان 2019ء کا انعقاد ملتوی کرنے کا فیصلہ فرمادیا ہے۔
یہ سن کر ایک دفعہ تو دل ٹوٹا مگر تمام سوچیں ایک طرف کرکے پھر ہمت میں آیا کہ ہمارے امام نے جو فیصلہ فرمایا ہے تو اسی میں برکت ہوگی۔ انشاء اللہ۔
لہٰذا ہمیں جلسہ میں شمولیت کا موقع تو نہ ملا مگر اس مقدس بستی میں نزیل ہوکر اس کے بابرکت اور مقدس مقامات کی زیارت کا بھر پور موقع مل گیا۔ الحمدللہ
مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں نماز تہجد و نوافل اور فرض نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دعائیں کرنے اوردروس میں شامل ہونے کی سعادت پائی اور پھر دارالمسیح کے اندر تک کی زیارت، بیت الدعا میں نوافل اور دعا کے علاوہ منارۃ المسیح،لنگر خانہ،روٹی پلانٹ، بہشتی مقبرہ،آبائی قبرستان، مسجد نور، بورڈنگ، نمائش قرآن کریم اور کوٹھی دارالسلام،جدیدپریس،سرائے طاہر جامعہ احمدیہ اور گیسٹ ہاؤسز گویا سب اہم اور تاریخی مقامات کی بھر پور زیارت کا موقع ملا۔
اس سلسلہ میں خاکسار محترم نجیب احمد معلم سلسلہ بھارت کا نہایت مشکور ہے جنہوں نے ہمیں مہمان کے طور پر ان تمام مقامات کا تعارف کروایا اور زیارت کروائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس مہمان نوازی کی بہترین جزا سے نوازے۔آمین‘‘
٭…٭…٭