خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍جولائی 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابوبکر ؓکے دَور خلافت میں ایرانیوں کے خلاف حضرت خالد بن ولیدؓ کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگوں اوراُن میں فتوحات کا تفصیلی تذکرہ
٭…فتح حیرہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی۔اس فتح سے مسلمانوں کے دلوں میں فتح فارس کی امیدیں جاگ اٹھیں
٭…اسلامی دستوں نے حضرت خالدؓ کے حکم سے ایسے پُر زور حملے کیے کہ دشمن کا لشکر سنبھل نہ سکا اور بہت جلد شکست کھا گیا
٭…جلسہ سالانہ برطانیہ کے انعقاد کے حوالے سے دعاؤں کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍جولائی 2022ء بمطابق 29؍ وفا 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 29؍جولائی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے کی مہمات کا ذکرہورہا تھا۔بقایا جنگیں جو حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں لڑی گئی تھیں ان کی تفصیل آج بیان کروں گا۔جنگوں کا یہ مضمون ختم کرنےکےلیے عین ممکن ہے کہ آج کا خطبہ کچھ لمبا بھی ہوجائے۔
ربیع الاوّل 12؍ہجری کے اوائل میں جنگِ حیرہ ہوئی۔ دریائے فرات کےقریب حیرہ عیسائی عربوں کا قدیم مرکز تھا۔ حیرہ کے ایرانی حاکم نےخطرے کو بھانپ کر جنگ کی پہلے ہی تیاری شروع کردی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ خالد دریائی راستہ اختیار کرتے ہوئے کشتیوں کے ذریعےحملہ آور ہوں گےلہٰذا اس نے دریا کے پانی کو روکنے کا حکم دیا اور خود لشکر کے ساتھ حیرہ کے باہر صف آراء ہوگیا۔ جب حضرت خالدؓ کے لشکر کی کشتیاں پانی کی کمی کی وجہ سے روانہ نہ ہوسکیں تو آپؓ نہروں کا پانی روکنے کے لیے روانہ ہوئے تاکہ دریائے فرات میں پانی جاری ہوسکے۔ راستے میں دریائے عتیق پر دشمن کے لشکر کے ایک حصّے سے آپؓ کا مقابلہ ہوا جنہیں آپؓ نے اچانک حملہ کرکے شکست دےدی۔ آگے بڑھے تو آپؓ نے حیرہ کے حاکم کے بیٹے کو دریائے فرات کے پانی کے روکے جانے کی نگرانی کرتے ہوئے پایا۔ آپؓ نے اس لشکرپر بھی اچانک حملہ کرکے بند توڑ دیا اور دریا میں پانی دوبارہ جاری ہوگیا۔ حضرت خالدؓ نے ازخود پانی جاری ہونے کی نگرانی کی۔ جب حیرہ کے حاکم کو حضرت خالدؓ کی آمد اور اپنے بیٹے کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو وہ فرار ہوگیا ۔ حاکم کےفرار ہونےکے باوجوداہلِ حیرہ نے ہمت نہ ہاری اور وہ قلعہ بند ہوگئے۔ یہاں چار قلعے تھے جن کا حضرت خالدؓ نے بڑی مہارت سے محاصرہ کیا۔ آپؓ نے اپنے امرا ءکو پیغام دیا کہ قلعہ بند ہونے والوں کو پہلے اسلام کا پیغام دیا جائےاور اگر وہ انکار کریں تو ان سے لڑائی ہو۔ اہلِ حیرہ نے لڑائی کواختیار کیا اور مسلمانوں پر پتھروں سے حملہ کردیا۔ مسلمانوں کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں اہلِ حیرہ کو شکست ہوئی اور انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا۔ حضرت خالدؓ نے اہلِ حیرہ کے قلعہ بند لوگوں کے سرداروں سے ان کی حفاظت کے عوض ایک لاکھ نوّے ہزار درہم سالانہ پر معاہدہ کیا۔ حیرہ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ نے نماز فتح ادا کی ۔ اہلِ حیرہ نے حضرت خالدؓ کی خدمت میں تحائف پیش کیے جو آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو بھجوادیے۔ حضرت ابوبکرؓ نےکمال عدل و انصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان تحائف کو جزیے میں شمار فرمایا۔ مسلمانوں نے اہلِ حیرہ کے ساتھ کشادہ دلی کا معاملہ کیا جس کے باعث اردگرد کے لوگوں نے بھی جزیہ دینا قبول کرلیا۔
فتح حیرہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی۔اس فتح سے مسلمانوں کے دلوں میں فتح فارس کی امیدیں جاگ اٹھیں۔حضرت خالدؓنے حیرہ کو اپنا مرکز بنایا یہاں آپؓ ایک سال مقیم رہے اورمسلمانوں کی حکومت کو مستحکم کیا۔دوسری جانب اہلِ فارس کی حکومت اس دوران عدم استحکام کاشکار رہی۔ حیرہ اور دجلہ کے درمیانی علاقےسے فارسی عمل دخل ختم ہونے کے بعد حضرت خالد ؓنے براہِ راست ایران پر حملہ آور ہونے کا عزم کیا۔ ارد شیر کسریٰ کے مرنے کے بعد ایرانی حکومت شدید خلفشار کا شکار تھی ایسے میں آپؓ نے ایران کے امراءاور عمّال کو خط تحریر فرمایا اور انہیں اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ حضرت خالدؓ نے عراقی مہمات کا آغاز محرم 12؍ہجری میں کیا تھا اور ربیع الاوّل 12؍ہجری میں آپؓ حیرہ تک پہنچ گئے تھے۔
اس کے بعد جنگِ انبار یا ذات العیون کا ذکر ہے۔ یہ بھی 12؍ہجری میں ہوئی۔ ایرانی فوج حیرہ کے قریب انبار اور عین التمر کے باہر لشکر آرا تھی۔ حضرت خالد ؓنے جنگی حکمتِ عملی کے تحت فوج کو تیاری کا حکم دیا اورحضرت قعقاع بن عمرو کو حیرہ پر حاکم مقرر فرمایا اور خود لشکر کے ہمراہ دشمن کےمقابلے کےلیے روانہ ہوگئے۔ جب حضرت خالدؓ انبار پہنچے تو اہلِ انبار قلعے کے اردگرد خندق میں پانی چھوڑ کرقلعہ بند ہوگئے ۔ حضرت خالدؓ نے اپنی خداداد فراست سے ایک منصوبہ بنایا اور ایک ہزارتیراندازوں کو منتخب کرکے انہیں ہدایت کی کہ دشمن کی فوج کی آنکھوں کو نشانہ بناؤ۔ اس روز دشمن کی ایک ہزار آنکھیں پھوٹی تھیں اسی لیے اس جنگ کو ذات العیون بھی کہاجاتا ہے۔ اس حکمتِ عملی کے باوجود جب حاکمِ انبار نےغیرمشروط ہتھیار نہ ڈالےتوآپؓ نے اپنی فوج کے کمزور اور نڈھال اونٹوں کو ذبح کرکے خندق کے تنگ ترین مقام پر ڈال دیا یوں خندق میں ایک پُل بن گیا۔ اس حکمتِ عملی کی وجہ سےحاکم انبار نے ہتھیار ڈال دیے اور وہاں سے بحفاظت نکلنے کی اجازت چاہی جو حضرت خالدؓ نے دےدی۔
جنگِ عین التمربھی 12؍ہجری میں لڑی گئی۔یہاں دشمن کو بغیرلڑائی کے شکست ہوئی اکثر قید کیے گئے اور سرداروں کو قتل کیا گیا۔ حضرت خالدؓ نے فتح کی خوش خبری اور خمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھجوادیا۔
جنگِ دومة الجندل 12؍ہجری میں ہوئی۔ شام کا یہ شہر مدینےکے سب سےزیادہ قریب ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ولید بن عتبہ کو عیاض بن غنم کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔ ولید کے مشورے سے عیاض نے حضرت خالدؓ سے مدد کےلیے قاصد روانہ کیا۔ حضرت خالدؓ نے تین سَو میل کا فاصلہ دس روز سے بھی کم عرصے میں طے کیا اور دومة الجندل آپہنچے۔ دونوں لشکروں میں سخت جنگ ہوئی اورحضرت خالدؓ کی حکمتِ عملی کے باعث مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ جنگجوؤں کو قتل کیا گیا اور بہت سے قیدی بنائے گئے۔ فتح کے بعدحضرت خالدؓ نے دومة الجندل میں قیام کیا۔ یہ مقام جنگی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہاں سے جنوب میں جزیرہ نما عرب، شمال مشرق میں عراق اورشمال مغرب میں شام واقع ہے اور یوں یہاں سےتین اہم ترین سمتوں میں راستے نکلتے تھے۔
پھرجنگِ حُصَیداور خَنافس کا ذکر ہے۔ حُصَید کوفہ اور شام کےدرمیان ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ حضرت خالدؓ دومة الجندل میں مقیم تھے اور عجمی آپؓ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ ان سازشوں کی اطلاع ملنے پر حضرت خالدؓ حیرہ واپس آئے۔ دشمن کی پیش قدمی کی خبر ملنے پر آپؓ نے عیاض بن غنم کو حیرہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا اور خود خَنافس روانہ ہوئے۔ عین التمر پہنچ کر آپؓ نےقعقاع بن عمرو کوامیرِ فوج بنایا اورانہیں حُصَیداور ابولیلیٰ کو خَنافس روانہ کیا۔ آپؓ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ دشمن اور ان کے بھڑکانے والوں کو ایک جگہ جمع کرو۔حُصَیدمیں دونوں لشکروں کا مقابلہ ہوا، دشمن کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کے ہاتھ کثیر مالِ غنیمت لگا۔ جنگِ خَنافس میں حضرت ابولیلیٰ کو بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی۔ ان تمام فتوحات کی اطلاع حضرت خالدؓ کی خدمت میں بھجوادی گئی۔
جب حضرت خالدؓ کو حُصَیداور خَنافس سے دشمن کے ایک حصّے کے بھاگنے کی خبر ملی تو آپؓ نے اپنے سرداروں کو ایک وقت مقرر کرکے مُصَیّخ میں ملنے کی ہدایت کی۔ آپؓ اور ان کے سرداروں نے ایک مقررہ رات دشمن پر تین اطراف سے حملہ کیا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں دو ایسے مسلمان مارے گئے جن کے پاس حضرت ابوبکرؓ کا عطاکردہ امان نامہ تھا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپؓ نےان دونوں کا خون بہا ادا کردیا۔
یہاں سے آگے حضرت خالد بن ولیدؓ ،حضرت قعقاع بن عمرو اور ابولیلیٰ تینوں نے نہایت بہادری اور ماہرانہ حکمتِ عملی سے پیش قدمی جاری رکھی اور فتوحات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
جنگِ فِراض کے متعلق ذکر ہے۔ فِراض بصرہ اور یمامہ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں شام عراق اور جزیرےکے راستے ملتے ہیں۔ یہ معرکہ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان ذیقعدہ 12؍ہجری میں پیش آیا۔حضرت خالدؓ کی پیش قدمی کی خبریں عراق کے صحرائی علاقے میں پوری طرح پھیل چکی تھیں اور تمام قبائل آپؓ کے لشکرسے خوف زدہ تھے۔ حضرت خالدؓ نے دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ آپؓ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے آپؓ سے صلح کرلیتے۔فِراض میں حضرت خالدؓ نے ایک ماہ قیام کیا۔ یہاں آپؓ چاروں جانب سے دشمن میں گھرے ہوئے تھے۔ رومیوں، ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک بہت بڑا لشکر دریائے فرات عبور کرکے مسلمانوں سے لڑائی کے لیے سامنے آیا۔ اسلامی دستوں نے حضرت خالدؓ کے حکم سے ایسےپرزور حملے کیے کہ دشمن کا لشکر سنبھل نہ سکا اور بہت جلدشکست کھا گیا۔ اس معرکے میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے۔ فتح کے بعد حضرت خالدؓ نے دس دن مزید فِراض میں قیام کیا اور 25؍ذیقعدہ 12؍ہجری کو اپنی فوج کو حیرہ کی جانب کُوچ کا حکم دیا۔
جنگوں کے بیان کا سلسلہ مکمل ہونے اور حضرت ابوبکرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے آئندہ جمعے سے جلسہ سالانہ برطانیہ کے آغاز کے متعلق دعاکی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ دو تین سال کے وقفے کے بعد بڑے پیمانے پر جلسہ منعقد ہورہا ہے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو بابرکت فرمائے۔ شامل ہونےوالوں کا سفر خیریت سے ہو، خیریت سے آئیں۔ ڈیوٹی دینے والوں کے لیےبھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فرائض صحیح طرح ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
٭…٭…٭