متفرق مضامین

کچھ یادیں، کچھ باتیں

(عبدالرشید آرکیٹیکٹ۔ لندن)
جلسہ سالانہ قادیان 1950ء۔ انتظار قافلہ پاکستان۔ بہشتی مقبرہ کے آگے

خاکسار کو 1985ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے دہلی مسجد کے ڈیزائن کے لیے ہندوستان بھیجا۔ وہاں مکرم عبدالحمید عاجز صاحب ناظم جائیداد نے میری رہائش کا انتظام کیا۔ اس وقت پنجاب میں حالات کچھ خراب تھے اس لیے باوجود کوشش کے مکرم عبدالحمید عاجز صاحب میرے لیے قادیان جانے کا انتظام نہ کر سکے۔

تاہم 1987ء میں خاکسار کو قادیان جانے کی اجازت مل گئی اور پہلی دفعہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس وقت جلسہ سالانہ جہاں اب دفاتر ہیں وہاں ہوا۔ حاضری صرف درویشان قادیان پر مشتمل تھی۔ خاکسار دو دن قادیان میں رہا۔ اس لیے زیادہ احباب سے ملاقات نہ ہوئی۔ اگلے سال 1988ء میں بھی قادیان کے لیے ویزا مل گیا۔ اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔

خاکسار مکرم ملک صلاح الدین صاحب کے ساتھ STAGEپر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ کیسا جا رہا ہے۔ انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہم اس کو جلسہ سالانہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ ہماری حاضری بہت زیادہ ہے اور جلسہ سالانہ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ میں نے پوچھا کتنی حاضری ہوگئی ہے۔ کہنے لگے 1200تک حاضری ہوگئی ہے۔ میرے لیے تو یہ حاضری انصاراللہ کے اجتماع سے زیادہ نہ تھی۔

پھر 1991ء جب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کا جلسہ سالانہ پر آنے کا پروگرام بنا تو حالات مختلف ہوگئے۔ اس میں حاضری 25ہزار تک پہنچ گئی۔ احمدیوں کا اس سے بڑا اجتماع پنجاب میں 1947ء کے بعد کبھی نہیں ہوا۔ غیر مسلم بھی حیران تھے۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہوا کہ حضور کے دورہ کے بعد حالات سازگار ہوتے گئے۔ مجھے حضورؒ نے جلسہ سے ایک ماہ قبل قادیان بھیج دیا تاکہ جلسہ سالانہ کے انتظامات اور دارالمسیح کی Renovationکا کام مکمل ہو جائے۔ جب میں لندن سے قادیان کے لیے روانہ ہونے والا تھا تو امیر صاحب یوکے مکرم آفتاب احمد خاں صاحب مرحوم کا مجھے فون آیا کہ کیونکہ مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کو پاکستان میں ابھی تک ویزا نہیں ملا۔ اس لیے حضورؒ نے خاکسار کو انتظامات کی نگرانی کے لیے مقرر فرمایا ہے۔

خاکسار نے قادیان پہنچ کر جہاں تعمیراتی کاموں کو مکمل کرنے کا Scheduleبنایا وہاں افسر جلسہ سالانہ، افسر جلسہ گاہ اور ناظمین سے بھی Meetingsشروع کر دیں۔ حضورؒ کے لیے امّ طاہر والا مکان تیار کرنا تھا۔ اس کی مکمل Renovation، بجلی اور گرم پانی کا انتظام بہت پیچیدہ کام تھا۔ تاہم کافی حد تک حضورؒ کے آنے سے قبل مکمل کر لیا۔ کام کرنے والے لوگوں کی کمی کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں۔

جب حضور کے گھر کے لیے Furnitureکی لسٹ لندن منظوری کے لیے بھجوائی تو حضورؒ کا فیکس آگیا کہ میں بھی مہمانوں کی طرح فرش پر سوؤں گا اور گھر میں پرالی بچھا دی جائے۔ اور زیادہ Furnitureکی ضرورت نہیں۔ میں تو پڑھ کر پریشان ہوگیا کہ حضورؒ کو لوگ ملنے کو آئیں گے تو وہ کیا خیال کریں گے۔ میں نے مکرم چودھری حمید اللہ صاحب کو ربوہ فون پر حالات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کسی طرح حضور کی خدمت میں عرض کریں کہ خلیفة المسیح کے گھر کے لیے Furnitureاور دوسری سہولیات جماعت کی ذمہ داری ہے۔ اب ادب کے تقاضوں کے تحت مجھے یہ سوچ درپیش تھی یہ معاملہ کیسے حضور کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم سے بھی مشورہ کیا۔ محتاط اور مؤدب الفاظ میں خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں تحریراً عرضی بھیج دی دی کہ خلیفۃ المسیح کے گھر کے لیے سہولیات مہیا کرنا جماعت کے خوشگوار فرائض میں شامل ہے۔ حضور رحمہ اللہ نے شفقت فرماتے ہوئے بالآخر Furnitureخرید کرنے کی منظوری عطا فرمائی۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کے مشورہ سے امرتسر جا کر حضورؒ کے لیے Furniture خرید کر لائے۔

دوسری طرف اس وقت قادیان میں ٹیلیفون کی کوئی Direct لائن لینی تھی۔ بڑی مشکل سے ایک لائن ٹیلیفون اور Faxکے لیے حضور کے آنے سے پہلے بڑی کوشش کے بعد مل گئی۔

احمدیوں کے لیے رہائش کا مسئلہ بھی تھا۔ بہشتی مقبرہ کے کھلے میدان میں 3 بڑی بیرکس بنوائیں جہاں مردوں کی رہائش کا فیصلہ ہوا۔ یورپین گیسٹ ہاؤسز اس وقت زیر تعمیر تھے۔ صرف ان کا Structureمکمل تھا۔ بلڈنگ میں ابھی Dampتھی اور دوسری طرف سردی کا موسم۔ وہاں زیادہ مہمانوں کا انتظام کیا گیا۔ فرش پر پرالی بچھا کر اس پر پلاسٹک کے Sheetرکھے گئے۔ مہمانوں نے جلسہ کی خوشی میں نامناسب حالات کو بھی بغیر کسی اعتراض کے گزار لیا۔

مقامی لوگوں کو اس قدر تجربہ نہیں تھا کہ جلسہ کے انتظامات سنبھال سکیں۔ لیکن پاکستان سے آئے ہوئےمہمانوں نے مدد کی اور حالات کو Controlمیں رکھا۔ اور جلسہ سالانہ والا ماحول بھی پیدا کر دیا۔ حضورؒ جب لندن سے دہلی تشریف لے آئے۔ اس وقت مکرم چودھری حمید اللہ صاحب بھی دہلی آچکے تھے۔ وہاں سے انہوں نے انتظامات کا چارج لے لیا۔

حضور رحمہ اللہ دہلی ایئر پورٹ سے سیدھے دہلی مسجد تشریف لائے۔ خاکسار بھی قادیان سے دہلی آگیا۔ حضور رحمہ اللہ نے مسجد میں پہلی دفعہ نماز پڑھائی کیونکہ خاکسار نے مسجد کا ڈیزائن کیا تھا۔ ابھی Formalافتتاح کروانا تھا۔ خاکسار نے نماز کے بعد حضورؒ سے عرض کی کہ اس کا افتتاح ابھی باقی ہے۔ حضور رحمہ اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے نماز پڑھا دی ہے۔ اس سے مسجد کا افتتاح ہوگیا۔ لیکن میری دلجوئی کے لیے تھوڑی دیر کے بعد فرمایا آئیں باہر مسجد کے سامنے آئیں۔ اور فوٹو کا انتظام کر لیں تاکہ آپ کے مطابق افتتاح بھی ہوجائے۔ اس کے بعد اگلے دن خاکسار واپس قادیان آگیا۔ اور جلسے کے انتظامات دوبارہ شروع کروا دیے۔

پاکستان اور ہندوستان کے دوسرے حصوں سے مہمانوں کا آمد شروع ہوچکی تھی۔ پاکستان سے آنے والے مہمانوںکی بسیں جب قادیان سے اس Pointپر آتیں جہاں سے مینارة المسیح نظر آنا شروع ہوتا تو بسوں سے نعرۂ تکبیر اور اسلام احمدیہ زندہ باد کے نعرے بھی شروع ہوجاتے۔ اور یہ نعرے جب تک قیام گاہ نہ پہنچ جائیں جاری رہتے۔

حضورؒ دہلی سے 19؍ دسمبر کو Trainکے ذریعے امرتسر تشریف لائے۔ اور امرتسرسے ایک Specialٹرین سے قادیان تشریف لائے۔ قادیان تک Trainآنے کا یہ 1947ء کے بعد پہلا موقع تھا۔ امرتسر سے Trainکو ظہر کے بعد روانہ ہونا تھا لیکن انجن کی خرابی کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ Trainجب بٹالہ کے بعد قادیان کے قریب پہنچی جہاں سے پہلی بار مینارة المسیح نظر آیاحضور رحمہ اللہ نے وہاں Train رکوائی۔ ڈبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر دعا کی۔ احباب نے نعرے بھی لگائے۔ مغرب کے قریب Train قادیان پہنچی۔ Stationسے حضور رحمہ اللہ کار کے ذریعہ خدام الاحمدیہ کے دفتر تک گئے پھر کار سے اتر کر پیدل دارالمسیح تک گئے۔

خدام الاحمدیہ کے دفتر سے دارالمسیح تک راستہ احباب سے پُر تھا۔ اور نعرے لگ رہے تھے۔ احمدیہ محلہ رنگ دار جھنڈیوں سے پُرہوا تھا۔ ہر طرف روشنی تھی۔ ایک مقام پر حضورؒ پہنچے تو وہاں ایک سکھ دوست کھڑے تھے۔ اس نے حضورؒ کو دیکھ کر نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ سب لوگوں نے اس کی طرف بھی حیرانگی سے دیکھا۔ جب حضور رحمہ اللہ دارالمسیح کے کالے گیٹ سے اندر چلے گئے تو پھر آگے جانا مشکل تھا۔

اگلے روز خاکسار صبح صبح حضورؒ کے دفتر چلا گیا تاکہ پہلی فرصت میں حضورؒ کی خدمت میں رپورٹ پیش کر سکوں۔ مکرم نصیر قمر صاحب اس وقت پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ وہ کہنے لگے کہ حضور صبح نماز تک تو سوئے نہیں۔ امید ہے دو تین گھنٹے تک تشریف لے آئیں گے۔ مکرم قمر صاحب نے جیسے ہی بات ختم کی میں نے دفتر کی طرف دیکھا تو کھڑکی میں حضور رحمہ اللہ کھڑے تھے اور مجھے دیکھ کر اشارہ کیا کہ اندر آجاؤ۔ میں نے قمر صاحب کو بتایا وہ دیکھیں حضور رحمہ اللہ تو دفتر میں آگئے ہیں۔ انہوں نے فوراًدفتر کا دروازہ میرے لیے کھول دیا۔ خاکسار نے اندر جا کر السلام علیکم کے بعد حضور رحمہ اللہ کو قادیان آنے پر مبارکباد دی۔ حضورؒ اس قدر خوش نظر آئے کہ بیان سے باہر ہے۔ میرا خیال ہے حضور رحمہ اللہ قادیان میں پہلی رات سوئے ہی نہیں۔

میں نے انتظامات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور معافی چاہتا ہوں سارے کام مکمل نہیں ہوسکے۔ کوشش میں نے مکمل کی ہے۔ حضور مسکرا کر فرمانے لگے مجھے سب رپورٹیں ملتی رہی ہیں۔ میں آپ سے بہت خوش ہوں۔ آپ فکر نہ کریں۔ میری جان میں جان آئی۔ اجازت لے کر خاکسار رخصت ہوا۔

کچھ واقعات

٭…1989ء میں قادیان کے احمدیہ گراؤنڈ میں انصار اللہ بھارت نے پہلی مرتبہ اپنا پہلا اجتماع کیا۔ قادیان کے سکھ اور ہندو مہمانوں کو بھی اس اجتماع میں دعوت دی گئی تھی۔ خاکسار بھی اس وقت قادیان میں تھا۔ چائے کے وقفہ میں ایک سکھ مہمان نے بتایا کہ Partitionکے بعد بہشتی مقبرہ والا باغ ہمیں بہت پسند تھا۔ اس پر ہم نے ایک رات قبضہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ پہلے ایک دوست کو اندر حالات دیکھنے کے لیے بھیجا۔ دوسرے باہر انتظار کرتے رہے جب وہ دوست خاصی دیر کے بعد واپس آیا۔ اور بتایا کہ جب میں اندر گیا تومیری نظر کے سامنے اندھیراآگیا۔ اور بڑی مشکل سے راستہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس آیا ہوں۔ دوسروں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ اور واپس چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد پھر زیادہ تیار ہو کر قبضہ کرنے کے لیے آئے۔ ایک دوست کو اندر جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ اس نے واپس آکر سب کو بھاگ جانے کو کہا۔ اس نے بتایا اس جگہ پر قبضہ کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ جب میں اندر گیا تو ایسا لگا کہ ان کے مردے بھی کفن سمیت قبروں سے باہر نکل کر مقابلے کے لیے کھڑے ہیں۔ اس لیے ہم سب ڈر کے مارے بھاگ گئے۔ ان کو کیا علم کہ اس جگہ پر خدا تعالیٰ کے پیارے مسیح موعود علیہ السلام کا مزار مبارک ہے۔ جو دراصل خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہے۔

٭…1991ء کا جلسہ سالانہ قادیان کے لیے ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ 1947ء کے بعد پہلی دفعہ خلیفۃ المسیح نے اس کو اپنی شرکت سے یادگار بنا دیا تھا۔ مقامی لوگ اتنے بڑے اجتماع کو دیکھ کر بہت حیران تھے۔ اور زیادہ لوگ حضورؒ کو بھی دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ (ایک مقامی سکھ دوست حضورؒ کا مبارک چہرہ دیکھ کر اور آپ کے خطاب سن کر مجھے کہنے لگا کہ اگر سکھ قوم کو آپ کے خلیفہ کی طرح کا لیڈر مل جائے تو ہم بہت جلد دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔)

٭…ایک مقامی سکھ دوست نے جلسہ کے ماحول کو دیکھ کر اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے احمدیوں کو دیکھ کر کہ کس طرح ایک دوسرے کو محبت اور پیار سے مل رہے ہیں جیسے یہ مدت سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ مجھے کہنے لگا۔ مجھے آپ کا مذہب پسند آیا ہے۔ لیکن ایک چیز مجھے مشکل لگتی ہے یہ جو آپ کو بار بار مسجد جانا پڑتا ہے۔ یہ نہ ہو تو میں بھی مسلمان ہوجاؤں۔ اسے کیا معلوم کہ نماز کے بغیر زندگی کا کوئی مزا ہی نہیں۔

٭…مقامات مقدسہ میں بہشتی مقبرہ ایک بہت ہی اہم جگہ ہے۔ یہاں روزانہ ہی حضرت مسیح پاک علیہ السلام اور حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ و صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبور پر دعا کی توفیق ملی۔ یہاں آکر تو خاص طور پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا احساس ہوتا ہے کہ اس قدر کثرت سے لوگ یہاں آتے ہیں اور آپ کے مزار مبارک پر دعا کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ کیا کسی جھوٹے کو ایسی عزت مل سکتی ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

خاکسار نے آزاد کشمیر میں میر پور کے نزدیک میاں محمد بخش جنہوں نے سیف الملوک لکھی ہے ان کے مزار کا ڈیزائن کیا تھا۔ وہ Corruptionاور بدمعاشی کا اڈہ تھا۔ لوگ قبر کو چومتے، دیئے جلاتے، چادریں بچھاتے اردگرد بیٹھ کر قرآن کریم پڑھتے تھے۔ وہاں ٹھہرنا مشکل ہوتا ہے۔ دعا کا تو کوئی تصوّر ہی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اور شدید عقیدت رکھتے ہیں۔ مگر آپ کے مزار مبارک پر کوئی بھی مشرکانہ حرکت نہیں کی جاتی۔ یہ سادگی دیکھ کر غیر از جماعت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

٭…مکرم محفوظ احمد صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ قادیان نے مجھے بتایا کہ ’’ایک دن انہوں نے پرانی مسجد اقصیٰ کے صحن میں ایک احمدی خاتون کو دیکھا کہ وہ پرانے صحن کے حصہ میں اپنے پاؤں ساتھ ساتھ رکھ کر آہستہ آہستہ مسجد اقصیٰ کے اندرونی حصہ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید ان کی ٹانگوں میں کوئی تکلیف ہے اور چلنے میں کوئی دقت محسوس کر رہی ہیں۔ اس لیے میں احمدی خاتون کے پاس گیا اور پوچھا کہ اگر آپ کو کوئی مدد چاہیے تو مجھے بتائیں تو احمدی خاتون نے کہا نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تب میں نے پوچھا کہ آپ اس طرح پاؤں ساتھ ساتھ ملا کر کیوں چل رہی ہیں۔ تو اس نے بتایا کہ پتہ نہیں صحن کے کس حصہ پر حضرت مسیح موعودؑ کے پاؤں پڑے ہوں گے اور میری کوشش ہے کہ کوئی بھی جگہ چھوٹ نہ جائے اورکسی نہ کسی جگہ پر میرا قدم بھی صحن کے اس حصہ پر پڑ جائے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قدم رکھے ہوں گے‘‘۔ اللہ اکبر یہ ہے احمدیوں کے دلوں میں قادیان کے مقدس مقامات کا تقدس۔

٭…جلسہ سالانہ پر احباب مختلف ممالک سے ٹرینز، بسوں، کاروں اور ہوائی جہازوں سے آتے ہیں۔ لیکن اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے Charterd Flights کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ قادیان کے 2016ء کے جلسہ سالانہ پر انڈونیشیاسے 201احباب (85مرد، 116عورتیں )ایک چارٹرڈ فلائٹ سے 23؍دسمبر بروز جمعہ امرتسر ہوائی اڈے پر اترے۔ تاریخ احمدیت میں یہ پہلا موقع ہے کہ احباب کسی چارٹرڈ فلائٹ سےقادیان تشریف لائے۔ یہ تو آغاز ہے ان شاء اللہ آئندہ کئی ممالک سے چارٹرڈ فلائٹس جلسوں میں شمولیت کے لیے پہنچیں گی۔

٭…تین سال پہلے کی بات ہے کہ ایک دن صبح کی نماز پر مسجد مبارک میں میری ملاقات ایک احمدی سے ہوگئی جو اپنے بیٹے کے ساتھ جو تقریباً 20سال کی عمر کا تھا قادیان آیا ہوا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کب آئے ہو۔ کہنے لگے ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ پھر کہنے لگے بیٹے کی پیدائش لندن میں ہوئی ہے۔ اس سال میں نے فیصلہ کیا کہ اس کو قادیان دکھا کر لاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا بیٹے کو قادیان پھر پسند بھی آیا ہے یا نہیں۔ کہنے لگے ذرا سردی ہے۔ آپ خود ہی پوچھ لیں۔ جب میں نے بیٹے سے بات شروع کی اور پوچھا کہ قادیان کیسے لگا۔ لندن والی سہولتیں تو یہاں نہیں ہیں۔ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ فوراً جواب دیا مجھے تو یہاں بہت مزا آرہا ہے اور سکون ملا ہے۔ میں تو اب ان شاء اللہ قادیان ہر سال آیا کروں گا۔

٭جلسے کے دنوں میں لوگ دارالمسیح آتے اور بار بار آتے ۔ ایک نوجوان دوست کو جو اپنی فیملی کے ساتھ تھامیں نے دیکھا کہ دن میں تین بار دارالمسیح کو دیکھنے کے لیے آیا۔ میں نے اس سے جب وجہ پوچھی تو کہنے لگےکہ یہاں آ کرسکون ملتا ہے اور مزا آتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت اماں جانؓ ان جگہوں پر سکونت پذیر تھے۔

٭…خاکسار اکثر قادیان نومبر میں ہی چلا جاتا تھا تاکہ بعض تعمیراتی کام جلسے سے پہلے مکمل ہو جائیں۔ بیت الدعا خاکسار اکثر صبح کی اذان سے ایک گھنٹہ پہلے چلا جاتا۔ مگر پھر بھی اکیلے دعا کے لیے جگہ نہ ملتی۔ پھر خاکسار نے رات 12 کے بعد جانا شروع کر دیا۔ تو پھر ایک گھنٹہ نفل ادا کر کے واپس گھر آجاتا۔ اور صبح کی نماز کے لیے دوبارہ مسجد جاتا ورنہ جگہ نہ ملتی۔

قادیان کا نام سنتے ہی ہر ایک شخص خواہ وہ کہیں کا باشندہ ہو چوکنا ہوجاتا ہے اور جتنا اس بستی سے اس کا تعلق ہوتا ہے اس کے مطابق اس کے دل میں خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک احمدی جب یہ نام سنتا ہے تو اس کا دل پگھل جاتا ہے اور ایک ایسا درد اس کے دل میں اٹھتا ہے کہ جس کو وہ برداشت نہیں کرسکتا۔ قادیان ایک روحانی بستی ہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

زمین قادیاں اب محترم ہے

ہجوم خلق سے ارض حرم ہے

(درثمین صفحہ65)

اکیسویں صدی کا آغاز ہوچکا ہے۔ لیکن ابھی بھی یہ قصبہ ان بنیادی سہولتوں سے جو ایک شہر میں موجود ہونے کی وجہ سے کشش کا باعث ہوتی ہیں خالی ہے۔ اس کے باوجود ہر احمدی لندن، نیویارک یا پیرس جانے کی بجائے اس قصبہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ میں غیر معمولی روحانی کشش ہے۔ اس مقام پر روح کو ایسا سکون ملتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ آپ مسافر ہوتے ہوئے بھی یہاں ایسا محسوس کرتے ہیں کہ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔ لوگ آپ کے واقف نہ بھی ہوں پھر بھی ایسے ملتے ہیں جیسے آپ ایک ہی خاندان کے ہوں اور ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ گلیاں چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن آپ جب ان میں سے گزرتے ہیں تو ایسے محسوس کرتے ہیں کہ ان دیواروں نے آپ کو دنیا کے خطرات سے محفوظ کر رکھا ہے۔ محبت اور پیار سے آپ کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ چلتے چلتے آپ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر قدم رکھنے کی تمنا کرتے ہیں کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ سے بھی گزرے ہوں۔

ہر رہ کو دیکھا ہے محبت کی نظر سے

شاید کہ وہ گزرے ہوں اسی رہ گزر سے

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍دسمبر 2005ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان میں فرمایا:

’’مَیں جب سے اس ملک بھارت میں آیا ہوں، مجھ سے کئی دفعہ یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ اب آپ قادیان جا رہے ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟ تو میرا جواب تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہے اور ہر احمدی کو اس سے ایک خاص تعلق ہے، ایک جذباتی لگاؤ ہے اور جوں جوں ہم قادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ان جذبات کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دنیا دار کا جذباتی تعلق تو ایک و قتی جوش اپنے اندر رکھتا ہے لیکن ایک احمدی کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روحانیت کے مدارج طے کرنے کے راستے دکھائے ہیں اس کا آپ سے روحانیت کا تعلق ہے۔ اس کے جذبات میں تلاطم یا جذباتی کیفیت وقتی اور عارضی نہیں ہوتی اور نہ ہی وقتی اور عارضی ہونی چاہئے۔ اس بستی میں داخل ہو کر جو روحانی بجلی کی لہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے سب احمدیوں کو، یہاں آنے والوں اور رہنے والوں کو، اس لہر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینا چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کی تویہ سب سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کے گلی کوچوں نے مسیحا کے قدم چومے۔ اور آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کی خاک نے مسیح دوران اور امام الزمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے پاؤں دم بدم چومے ہیں۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ میں سے ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے یا اُن لوگوں کی نسل میں سے ہے جنہوں نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2006ءصفحہ5)

حقیقت میں مسیح موعود علیہ السلام ہی اصل قادیان ہیں۔ آپ کے وجود ہی سے ایک نئی دنیا کا آغاز یہاں سے ہونا تھا۔ اس بستی کی اصل غرض ،مقصد اور مغزمسیح موعود علیہ السلام کے آنے میں پنہاں ہے۔ آپ کی لاتعداد شاندار اور پُر رعب پیشگوئیاں ہیں۔ جو ظاہر کررہی ہیں کہ آپؑ کی تعلیم دنیا کے ہر خطے میں پھیل جائے گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قادیان کی بستی کو اسی طرح مرجع خاص و عام بنائے رکھے اور دنیا ہمیشہ مسیح پاک کی بستی سے برکتیں حاصل کرتی رہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button