جلسہ سالانہ قادیان کی انمول یادیں اور تاریخ کے جھروکے
جلسہ سالانہ کا آغازجماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک ایسا سنگ میل تھا کہ رہتی دنیا تک احمدی نسلوں میں اس کے انعقاد اور اس میں شمولیت کو ایک مذہبی مقدس فریضہ کے طور پر جانا جائے گا اور بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کی نصائح بصورت تحریرات اس بابرکت جلسہ کی اہمیت کو ہمیشہ اجاگر کرتی رہیں گی۔ ان جلسوں میں شامل ہونےوالاجماعت احمدیہ کا ہرمردوزن، پیر وجوان نہ صرف ان کے روحانی ماحول سے اپنی اصلاح کرتا اور تربیت پاتا تھا بلکہ دنیا کے چپہ چپہ میں علم اسلام احمدیت بلند کرتے ہوئے ایک بہترین منتظم بھی ثابت ہوا۔
پاکستان میں ان جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کرنا دشمنان احمدیت کی بزعم خودایک ایسی ناپاک سازش تھی کہ جس نے آنےوالی احمدی نسلوں کو نہ صرف اس کی روحانی برکتوں سے محروم کردینا چاہا بلکہ اس کی دنیاوی ترقی کے اسباب بھی منقطع کرنا چاہے۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس قادر،
وَاللّٰہُ خَیْرُالمَاکِرِیْنَ
جیسی صفات کے مظہر خدا نے دنیا کے ہرکونے میں ان جلسوں کے انعقاد کو ممکن بنادیا اور مزید ترقیات سے نوازدیا۔
الحمدللہ خاکسار کے ذہن میں بچپن میں ربوہ میں منعقد ہونے والے آخری جلسہ سالانہ کی دھندلی یادوں کا جھروکہ ہمیشہ سے کھلا رہا جو اس کے انعقاد اور شمولیت کے جوش کو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھاتا رہا۔
ویزا اور سفر کے مسائل کے باوجودپاکستان ربوہ میں رہتے ہوئے قادیان کا جلسہ سالانہ ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جو نہ صرف اس کمی کو پورا کرتا تھا بلکہ دیار مسیح دوراںؑ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اور بھی بہت ساری برکتیں سمیٹے ہوئے تھا۔ یہ بستی مہدی آخرالزماںؑ کا نہ صرف مسکن رہی بلکہ اپنے بہشتی مقبرہ میں حضرت امامؑ کی آخری آرام گاہ سے بھی مشرف ہے۔
ہمارے موجودہ امام حضرت مرزامسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جب دسمبر2005ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے تشریف لے گئے تو پاکستان کے احمدیوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا جب وہ اپنے موجودہ امام کی قیادت اور موجودگی میں اس جلسہ اور دیار حبیب کی روحانی برکتوں سے فیضیاب ہوسکتے تھے۔ اس لیے شمع احمدیت اور خلافت کے یہ پروانے نہ صرف پاکستان سے بلکہ دنیا بھر سے کرمانوالی اُچی بستی میں جمع ہوگئے۔ مگر پھر بھی ہم جیسے کچھ مجبور ایسے بھی تھے جو اپنی ڈیوٹی پر حاضررہنے کی وجہ سے اس دارالامان کی طرف پرواز نہیں کرسکتے تھے۔ اس وقت ایم ٹی اے کی اسکرین پر قادیان کے روح پرور مناظر اور حضرت مسرور کی آمد پر ہر مسرور کن نظارہ دیکھ کر خود کو وہاں نہ پاکردل تو خون کے آنسو رو ہی رہا تھا، آنکھوں سے بھی پانی نہیں تھم رہا تھا۔ ایسی ہچکی بندھی تھی کہ آج بھی اس کا سوچ کے دل آہ بھرتا ہے۔
مگر شاید یہ ہماری قسمت نہ تھی کہ ایسے میں داخلہ دارالامان ہوتا۔ اس لیے یونیورسٹی کے امتحانات اسی محرومی کے احساس کے ساتھ دیے۔
بہرحال ماسٹرز کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ربوہ واپس آئے تو سوچا کہ اب کے برس جلسہ سالانہ پر تو لازمی عازم سفرقادیان ہونا ہی ہے۔ لہٰذا شکر رب عزوجل کہ جو دلوں کی کیفیت اور بھید بھی جانتا ہےاس نے سن لی اور وہ دن آن پہنچا کہ دسمبر 2009ء (بقیہ تمام تفصیل طوالت مضمون کے پیش نظر چھوڑتے ہوئے) میں 19؍تاریخ کو قافلہ علی الصبح واہگہ بارڈر پہنچا جہاں سے بھارتی سرحد میں داخل ہوتے ہوئے ایک ایسی کیفیت طاری تھی کہ بارڈر کے اس پار بھی اپنے ہی جیسے انسان جن کے ظاہری خدوخال بھی ہمارے جیسے تھے مگر پرائے کیوں؟ دیکھ کر ذہن میں بار بار سوال اٹھ رہا تھا کہ فرق کیا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اپنے ہمسایہ ملک میں جو پہلے ایک ہی تھے، چند کلومیٹرسرحد کا علاقہ گزرنا کسی فلک بوس کوہ کو سر کرنے کے مترادف تھا۔ کئی اندیشے ڈرا بھی رہے تھے۔ مگر اس پار انہی کے درمیان ایک گروہ ایسا بھی تھا جس نے کھلی بانہوں سے ہمارا استقبال کیا، ہمیں گلے لگایا یہ شعبہ استقبال ہی ہوگا۔ ان کےجذبات ایسے تھے کہ جیسے کوئی اپنا واپس گھر آنے پر ملتا ہے۔ ایسی مہمان نوازی کہ خود بھی شرم آرہی تھی۔ اس قدر اکرام ضیف ہے۔ مگر ایسے سوالوں کا جواب ہمارے پاس تھا کہ ہم سب احمدی مسلمان ہیں۔ جو ایک عالمگیر امام اور عالمگیر جماعت کے پیروکار ہیں جو سرحدوں کی قید سے آزاد ایک محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے ایک ہی شمع کے پروانے ہیں۔ ایک امام اور خلیفہ کی آواز پر لبیک کہنے والے، محمد عربیﷺ کے غلام صادق غلام احمدؑ کی بیعت میں شامل تھے۔
جمعۃ المبارک کا یہ یوم عید واقعی ہمارے لیے عید کی خوشی لے کر آیا تھا جب پہلی بار اس دیار مہدی میں نزیل ہونا تھا۔ شعبہ ٹرانسپورٹ کی بس میں بیٹھے کھڑکی سے اچانک منارۃ المسیح کا نظر آنا اور زبان سے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہونا، بس کے ہرمسافر کا ایسا حال ہوا کہ جو اس وقت محسوس ہو ا تھامگر اس کے بیان سے اب تحریر قاصر ہے۔ قادیان کا نظارہ ہوتے ہی ذہن میں اس کی تمام تاریخی، مذہبی اہمیت اور ابتدائی آباد کاری یاد آنے لگی کہ کیسے حضورؑ کے آباء میں سے حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب جو فارسی الاصل تھے سمر قند سے آکر یہاں آباد ہوئے۔ 1530ء کے قریب دریائے بیاس کے کنارےیہ گاؤں آباد ہوا تھا اور اس کا نام ’’اسلام پور ‘‘ تھا جو بعد میں اسلام پور قاضی ماجھی اور پھر قاضیاں سے قادیان بن گیا۔ دریا کنارے آباد یہ لوگ بھینسیں بھی پالنے میں مشہور تھے۔ پھر علاقے میں قاضی کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے تھے۔
نظامت ٹرانسپورٹ کی بس نے ہمیں جامعہ احمدیہ قادیان کی وسیع و عریض عمارت’’سرائے طاہر‘‘ کے سامنے لا اتارا۔ یہ وہی درسگاہ تھی جس کی ربوہ میں قائم شاخ کے ہم بھی فارغ التحصیل تھے۔ قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں دو مدرسوں کی بنیاد پڑی تھی۔ 1898ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ شروع ہوا۔ قادیان میں ابتدا میں احمدی بچوں کو آریہ سکول میں بھیجنے کی بجائے حضورؑ نے یہ اپنا اسکول جاری کرنے کا فیصلہ فرمایاتھا۔ جو بعد میں ترقی کرکے مڈل اور پھر ہائی بن گیا تھا۔
مارچ 1900ء میں اسی مدرسہ میں ایک شاخ دینیات کی کھولنے کی تجویز ہوئی تھی۔ دوبزرگان و علما سلسلہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت برہان الدین جہلمی صاحبؓ کی وفات کے بعدجلسہ سالانہ1905ء میں حضرت اقدسؑ نے اپنی تقریر کے دوران اسی تجویز کو دوبارہ پیش فرمایا کہ موجودہ انگریزی مدرسہ کے علاوہ ہمیں ایک ایسی درسگاہ کی بھی ضرورت ہے جس میں ایسے علماء پیدا کیے جائیں جو علوم عربی کے ساتھ ساتھ کسی قدر انگریزی اور دیگر علوم سے بھی واقفیت رکھتے ہوں۔ حضورؑ کی تقریر میں اتنا سوز اور درد تھا کہ کہا جاتا ہے کہ سامعین پھوٹ کر رونے لگے اور تقریر کے بعد اس کو عملی جامہ پہنانے پر غور شروع ہوگیا۔ اور یہ طے پایا کہ علماء اور مبلغ پیدا کرنے کے لیے الگ شاخ قائم کی جائےجو 1906ء سے جاری کردی گئی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سلسلہ احمدیہ جلد اول میں اس کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ’’حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد 1908ء کے جلسہ سالانہ میں یہ سوال پھر جماعت کے مشورہ کے لئے پیش کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یادگار میں دینیات کی شاخ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول سے کاٹ کر ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم کردیا جائے۔ چنانچہ اس وقت سے یہ شاخ ایک مستقل مدرسہ کی صورت میں قائم ہوگئی اور یہی وہ درسگاہ ہے جو اس وقت مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی صورت میں قائم ہے۔ ‘‘
وہاں پر موجود شعبہ رجسٹریشن سے فارغ ہوکر شعبہ رہائش نے ہمیں رہائش کی جگہ دکھائی۔ مگر ہم پر اس وقت صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ دارالمسیح جائیں جو
اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِیْ الدَّارِ
کا ظاہری مقام تھا۔ طاعون جیسی وبا کے پھوٹنے پرجس ’’الدَّار‘‘ کی حفاظت کا خدائی وعدہ تھا۔ خاندان مسیح موعودؑ کے علاوہ کئی اصحاب احمدبھی ان دنوں وہاں رہے تھے مگر مجال ہے انسان تو کیا کسی چوہے تک کی بھی موت نہ ہوئی تھی اور بطور نشان اپنے لیے اور ان سب کے لیے جو اس گھر کی چاردیواری میں رہ رہے تھےحفاظتی ٹیکہ کی بھی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔
’’تائی آئی ‘‘ کا الہام بھی مدنظر تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دَورخلافت میں پورا ہوا۔ آپؑ کی اسی بھاوج کا آپ سے اور پھر حضرت مصلح موعودؓ سے کیا رویہ تھا۔ وہ کنواں دیکھیں جہاں سے تائی نے پانی بھی بھرنے سے روک دیا تھا۔ گویا حضورؑ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے حالات زندگی اور بچپن میں حضورؑ کے ابن اکبر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا اس گھر سے تعلق تاریخ کے سب صفحات ساتھ ساتھ پلٹ رہے تھے۔ پھردالان حضرت اماں جانؓ دیکھیں جہاں حضورؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ وہ بھی بیت الفکر کی طرح برکتوں سے مامور تھا بلکہ اسی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ ابتدا میں بیت الفکر میں تالیف و تصنیف کا کام فرماتے تھے۔ ہمارے محترم اور مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی معمولات زندگی میں گھر کے تین مقامات بیت الفکر، بیت الدعا اور بیت الذکر کے حوالے سے نصیحت کی تھی کہ یہ ہمارے لیے نمونہ ہے کہ ہر مبلغ کو بھی زندگی میں ان تینوں کو اپنانا چاہیے۔ دل میں تمنا تھی جلد از جلد ان مقامات کی بھی زیارت کی جائے۔ بیت الدعا ایک چھوٹا سا حجرہ تھا جو حضورؑ نے اس غرض سے تعمیر کروایا تھا کہ جس میں سوائے دعا کے اور کوئی کام نہ ہو۔ یہ مارچ 1903ء میں تیار ہواتھا۔ یہ بھی دالان حضرت اماں جانؓ کی مغربی جانب تھا۔ پھر بیت الریاضت بھی دیکھیں جس میں حضورؑ نے آٹھ نو ماہ کے روزے رکھے تھے اور براہین احمدیہ بھی تصنیف فرمائی تھی۔
پھر کمرہ پیدائش حضرت مسیح موعودؑ اور ان کے پسرموعود حضرت مصلح موعودؓ جن کی پیدائش کے متعلق ہوشیار پور کی چلہ کشی میں عظیم الشان خوشخبری وپیشگوئی دی گئی تھی کا کمرہ پیدائش بھی دیکھیں، جو حضرت اقدسؑ کی دوسری شادی
یَتَزَوَّجُ وَ یُوْلَدُ لَہٗ
کی پیشگوئی کے ماتحت (مع حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ، المعروف حضرت اماں جانؓ ) سے دس بچوں یعنی پانچ لڑکوں اور پانچ لڑکیوں میں سے تیسرے مولود تھے، کاجائے پیدائش دیکھنا تھا (یہ اولاد بالترتیب : صاحبزادی عصمت صاحبہ، بشیر اول، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ صاحب، صاحبزادی شوکت صاحبہ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے، حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ، حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب، صاحبزادی امۃ النصیر صاحبہ، صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ تھی۔ ان میں سے پانچ صغر سنی میں وفات پاگئے تھے)۔ آپؑ کی پہلی شادی (بعمر 15سال مع ماموں زاد حرمت بی بی صاحبہ جو بعد میں علیحدہ ہوکر خاندانی شرکاء سے جاملی تھیں اورحضورؑ کے خلاف ان کی سازشوں میں بھی ساتھ دیتی رہیں مگر حضورؑ ہمیشہ اس زوجہ سے حسن سلوک فرماتے تھے) سے دو فرزندوں (حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب، جو حضرت مصلح موعودؓ کے عہد خلافت میں حضورؓ کے ہاتھ پر بیعت کرکے ’’تین کو چارکرنےوالا‘‘کے مصداق ٹھہرےاور صاحبزادہ مرزا فضل احمد، جو حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی وفات پاگئے تھے)۔ آپؑ کے خسرثانی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ جو دہلی کے ایک مشہور خاندان سادات سے تعلق رکھتے تھے اور ننھیالی سلسلہ حضرت خواجہ میر دردؒ سے جاملتا تھا۔ پھر گول کمرہ بھی تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ حضرت اقدسؑ نے یہ کمرہ خود تعمیر کروایا تھا اور اس کو بطور مہمان خانہ استعمال فرماتے تھے۔ پھر اسی میں شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر نے’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ کی طباعت کے لیےحضورؑ کے ارشاد پر لاکراپنا پریس نصب کردیا۔
اس کے بعدنظریں ان مقامات کو بھی ڈھونڈ رہی تھیں کہ جہاں دشمنان سلسلہ اور خاندانی شریک چچازاد مرزا نظام دین اور امام دین، امام الزمانؑ کی زیارت اور بیعت کے لیے آنےوالوں کو بیٹھ کر ورغلاتے اور ناپاک منصوبے بناتے تھے۔
یٰحَسْرَۃً عَلیٰ العِبَادِ۔
انہوں نے حضرت اقدسؑ سے مطالبہ اور اصرار بھی کیا تھا کہ ہمیں کوئی نشان دکھلاؤ تو اس کے مطابق حضورؑ نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ اکتیس ماہ تک ان پر کوئی ایسی مصیبت پڑے گی کہ ان کے اہل وعیال میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہوجائے گا۔ لہٰذا ٹھیک اس عرصہ سے اکتیسویں مہینہ کے درمیان میں مرزا نظام الدین کی بیٹی اور مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر 15سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔ پھر محمدی بیگم والی پیشگوئی میں بھی اول مخاطب یہی خاندان تھا جنہیں آیات اللہ کی تکذیب اور استہزا سے باز کرکے توبہ و استغفار کی طرف رجوع کروانا مقصود تھا۔
اور وہ مقدمہ دیوار کا جو مشہور واقعہ ہے اس کا مقام دیکھیں۔ دیوار کا ایک مقدمہ بڑا مشہور مقدمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لڑا گیا جس میں 1900ء کے آغاز میں آپ کے خاندان کے مخالفین نے مسجد کے راستے پہ دیوار کھڑی کر دی اور راستہ بند کر دیا۔ یہ اتنا تکلیف دہ امر تھا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ حضورؑ نے سنت انبیاء جانتے ہوئے اصحاب سےہجرت کرنے کے لیے بھی مشورہ کرلیا تھا مگر پھر فرمایا کہ اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیں گے۔ حضرت اقدسؑ کی مطہر زندگی میں جتنے بھی مقدمات دشمنان سلسلہ اپنوں اور غیروں کی طرف سے کیے گئے مگر خدا تعالیٰ نے اپنے اس فرستادہ کو ہمیشہ سرخرو فرمایا اور آپؑ کی عزت و عصمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔
اس مقدمہ دیوارکے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے کہ یہاں ہمارے ہی بعض عزیز راستہ میں کلے گاڑ دیا کرتے تھے تا کہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگرکلےاکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے۔ اسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ مسجد مبارک کے سامنے دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی۔ بعض احمدیوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوار کو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ہے۔ پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھااور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رؤیائے صادقہ ہوا کرتے تھے۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے۔ اسی حالت میں مَیں نے دیکھا (خواب میں ) کہ مسجد کی طرف سے حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں۔ (آپ فرماتے ہیں کہ) جب مقدمے کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جا رہی تھی۔ مَیں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا مَیں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا۔ میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہو گیا۔ ‘‘
(خطبات محمود جلد15صفحہ 206-207)
پھر آپ اسی دَور کی بات کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ علیہ السلام کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے۔ (یعنی گھر کے اندر سے گزار کے لانا پڑتا تھا) اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے (لمبا چکر کاٹ کر)۔ سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا۔ آخر مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ دیوار گرائی گئی۔ ‘‘
(خطبات محمود جلد20صفحہ 574-575)
اور مسجد اقصیٰ پہنچیں۔ تاریخ احمدیت کا پہلا جلسہ سالانہ جو 1891ء میں منعقد ہوا تھا اور اس میں کل پچھتر (75)احباب شامل ہوئے تھے، اسی مسجد میں منعقد ہواتھا۔ اورجہاں خطبہ الہامیہ ہوا تھا۔ دو سو لوگوں نے اس وقت حضورؑ کی اس الہامی کیفیت کو دیکھا اور اسے سنا تھا۔ یہ ایک زبردست علمی نشان اور معجزہ تھا۔ 11؍اپریل 1900ء کو عید الاضحی کے دن صبح کے وقت حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ جب حضرت اقدس عربی خطبہ پڑھنے کے لیے تیار ہوئے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہو کر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہو گئے تو حضور نے یَاعِبَادَ اللّٰہ ِکے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثنا ئےخطبہ میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا کہ’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں ‘‘ (یعنی ساتھ ساتھ لکھتے جاؤ۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہیں آیا تو ابھی پوچھ لینا)۔ جب حضرت اقدس خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے تو اکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ نےاس کا ترجمہ سنایا تھا۔ یہ خطبہ اگست 1901ء میں شائع ہوا۔ حضور نے نہایت اہتمام سے اسے کاتب سے لکھوایا۔ فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی خود کیا اور اعراب بھی خود لگائے۔ اصل خطبہ کتاب کے (جو خطبہ الہامیہ کتاب ہے اس کے) اڑتیسویں صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے جو کتاب کے باب اول کے تحت درج ہے۔ اگلا حصہ آخر تک عام تصنیف ہے جس کا اضافہ حضور نے بعد میں فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 11؍ اپریل 2014ء میں اس کی پوری تفصیل بیان فرمائی تھی۔
منارۃ المسیح بھی جو پیشگوئیوں کے مطابق آمد مسیح ثانیؑ کا ببانگ دہل اعلان کر رہا تھا، ہمیں دعوت نظارہ دے رہا تھا۔ 28؍مئی 1900ء کو حضرت اقدسؑ نے احادیث نبویﷺ کی روشنی میں مسجد اقصیٰ کے شرقی جانب اس مینار کی تعمیر کی تجویز فرمائی تھی کہ مؤذن پنجوقت بانگ دے جو تبلیغ کا کام ہوپھرمینارہ کی دیوار میں اونچے حصہ پر لالٹین کی تنصیب ہوتا لوگ آسمانی روشنی کو پہچانیں اوراس پر گھنٹہ کی تنصیب کی جائے تا لوگ وقت کی حقیقت سے روشناس ہوں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب آسمان کے دروازے کھل چکے ہیں۔ حضورؑ نےاس کا سنگ بنیاد 1903ء میں رکھاتھا مگر مخالفوں کی بعض شکایات کہ اردگرد بے پردگی ہوتی ہے حکومتی مداخلت پر اس کاکام رک گیا اور خلافت ثانیہ میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
مسجد اقصیٰ جس کی قادیان کے وسط میں تعمیر کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعودؑ کے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب برلاس رئیس قادیان نے رکھا تھا اور تعمیر مکمل ہوہی چکی تھی کہ ان کی وفات ہوگئی اور اس کے صحن میں ہی آخری آرام گاہ بھی ہے جو ان کی وصیت کے مطابق نشان زدہ جگہ پر تیار کی گئی تھی۔ پھر حضورؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ جن کی قبر آبائی قبرستان میں تھی، پر بھی دعا کے لیے قادیان سے باہر مغرب کی طرف زرعی اراضی میں جانا مقصود تھا۔ ہمیں ان بازاروں اور گلیوں میں جانا تھا جہاں کی خاک نے امام آخرالزماںؑ اور ان کے خلفاء و رفقاء کے قدم چومے تھے۔ قادیان کے باہر شمالی جانب کی ڈھاب اور پل بھی دیکھنا تھا۔ جس کا حضرت مسیح موعودؑ نے رسالہ الوصیت میں شرائط وصیت میں بھی ذکر فرمایاہے۔
اللہ اللہ کرکے وہ لمحہ آپہنچا کہ جب دارالمسیح کے احاطہ میں داخل ہوکر نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے مسجد مبارک کے اس حصہ میں جگہ ملی جو ابتدائی تعمیر شدہ مسجد تھی اور جس میں کھڑے ہوکر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ غیرمبائعین و منکرین خلافت کے اعتراضات کے جوابات دیا کرتے تھے۔ سونے پر سہاگہ تب ہوا کہ جب اس کھڑکی کے سامنے نماز ادا کرنے کا موقع ملا جہاں سے البیت سے حضرت مسیح موعودؑ بیت الفکر اور بیت الدعا کی طرف سے بیت الذکر مسجد مبارک میں نماز کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ابتدا میں یہ مسجد اتنی چھوٹی تھی کہ ایک صف میں چھ کے قریب نمازی کھڑے ہوسکتے تھے اور کل تیس بتیس نمازی جمع ہوسکتے تھے۔ اس دوران پھر بیت الفکراور مشرقی صحن بھی نماز کے وقت استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کی توسیع 1907ء میں عمل میں آئی تھی۔ مسجد مبارک جس کی تعمیر1882-83ء میںہوئی۔ اس کی تعمیر کے بعد حضرت اقدسؑ یہیں نماز ادا کرتے تھے۔ شروع میں اذان اور امامت بھی خود ہی کرواتے تھے۔ اس کے متعلق حضورؑ کو الہام ہوا تھا کہ
’’مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ‘‘
یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امرِمبارک اس میں کیا جائے گا۔ (تذکرہ صفحہ 83 ایڈیشن چہارم)۔ اس کی پہلی مرتبہ توسیع 1907ء میں ہوئی تھی۔ اسی کی چھت پرحضرت اقدسؑ اپنے اصحاب خاص کے ساتھ شہ نشین میں پاک مجالس کا انعقاد فرماتے تھے۔ اسی کی چھت پر کھڑے ہوکر نشان کسوف و خسوف میں سورج گرہن ملاحظہ فرمایا اور نماز کسوف و خسوف کا اہتمام فرمایا تھا۔ اسی کا دوسرا نام بیت الذکر بھی ہے۔
خاکسار کا تو قادیان حاضر ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس لیے نماز سے قبل محل وقوع کے اعتبار سے اس کھڑکی کی تاریخی اہمیت سے اس قدر واقف نہ تھا مگر نماز کے بعد بزرگان سلسلہ نے اس سعادت کو اس ناچیز پر آشکار کیاکہ واقعی ایں سعادت بزور بازو نیست۔ اسی وقت سرخ چھینٹوں کے نشان والا وہ کا کمرہ بھی دیکھا جو اب مسجد کا ہی حصہ تھا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کا وہ کرتا تبرک کے طور پر حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحبؓ جو اس وقت حضرت اقدسؑ کے پاس بطور خادم موجود تھے، کو عطا ہوگیا تھااور حسب وعدہ و نصیحت ووصیت ان کی وفات پر ان کے ساتھ ان کی قبر میں ہی مدفون ہوگیاتھا تا شرک کا باعث نہ ٹھہرے۔
جی تو چاہتا تھا کہ اب انہی جگہوں پر مصلیٰ ڈالے حضرت احدیت کی بارگاہ میں حاضر رہا جائےمگر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی مرکزی عاملہ کے مہتمم کی حیثیت سے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حاضر ہوکر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے ساتھ قادیان کے اہم مقامات پر عمومی کی ڈیوٹی دینا بھی ایک بڑی سعادت تھی۔
اس کے ساتھ یہ بھی کوشش کی گئی کہ رہائش بھی دارالمسیح کے اس قدر قریب ہو کہ صبح نماز تہجد اور نماز فجر نیز درس میں بھی شامل ہونے میں سہولت رہے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے ایک ربوہ کے دوست جنہوں نے قادیان میں ایک گھر خرید کر جماعت کے سپرد کیا ہوا تھاکہ اسے بطور مہمان خانہ استعمال کرلیا جائے۔ اس کے ایک چھوٹے سے اسٹور نما کمرہ میں ہم تین احباب کو جگہ مل گئی جہاں فرش پر بستر بچھا لیے گئے اورموقع محل کی مناسبت سے جو سہولتیں وہاں میسر آگئیں آج لندن جیسے شہر میں بیٹھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی یورپین ہوٹل سے کم نہ تھا۔ اس لیے ڈیوٹی کرنے کے بعد کچھ دیر کی نیند اور فریش ہوکر میسر عبادات بجالانے کے علاوہ وقفہ میں قادیان اور اس کے مضافات میں مقامات مقدسہ کی زیارت کا موقع ملنا سونے کا پہاڑ ملنے کے مترادف تھا۔
ان میں سب سے پہلے تو بہشتی مقبرہ میں روضہ مبارک حضرت مسیح موعودؑ پر حاضری تھی۔ بہشتی مقبرہ جس کے متعلق خدا نے خبر دی تھی کہ انزل فیہا کل رحمۃ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں۔ قطعہ خاص کے سامنے کھڑے ہوکر جنگلے کے اس پار عین اس جگہ جو مسیح موعود ومہدی معہودؑ کو خواب میں چاندی سے زیادہ چمکتی ہوئی دکھائی گئی تھی بلکہ اس کی تمام مٹی چاندی کی تھی اور کہا گیا تھاکہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر دعا کے لیے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ بلند کیے۔ دل اور دماغ اس رب جلیل کی حمد سے معمور اور شکرانہ سے لبریز تھے اور زبان بھی ورد کررہی تھی اور اس نبی خاتم النبیینﷺ پر درود بھیج رہی تھی کہ جس نے اپنے مہدی کو ماننے، اس کو سلام پہنچانے کی توفیق دی جو محض اور محض اس کے فضل سے ہی ممکن ہوا تھا۔
اس کے بعد باغ احمدؑ کے احاطہ میں اصحاب احمدؑ کی ان قبروں کی بھی زیارت اور دعاکی جن کی قبروں کی جگہ اسی خواب میں دکھا دی گئی تھی اور جس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا تھا اور ان تمام برگزیدہ اصحاب کی قبریں بتلایا گیا تھا جو بہشتی ہیں۔ جن کے لیے حضرت مسیح پاکؑ نے دعا بھی کی تھی کہ یہ جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ بنے۔ پھر یہ بھی دعا کی کہ اے میرے قادر خدا !اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لیے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ان میں سے وہ بھی تھےجو قادیان میں آکر ایسے آباد ہوئے کہ مہدی دوراںؑ کے قدموں میں ہی ہمیشہ کے لیے ڈھیر ہوگئے اور اپنے وطن کا خیال تک بھی دل میں دوبارہ نہ آنے دیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ جن کی وفات 11؍اکتوبر 1905ء میں ہوئی تھی اور امانتًا عام قبرستان میں جو آبادی کے جانب شرق ڈھاب کے قریب تھا میں دفن کیے گئے تھے، جلسہ سالانہ 1905ء کے ایام میں جب بہشتی مقبرہ کے لیے زمین مختص ہو چکی تھی، حضورؑ نے 27؍دسمبر کو خود ایک مجمع کثیر کے ساتھ ان کی نماز جنازہ ادا کرکے بہشتی مقبرہ میں تدفین فرمائی اور یہ وہاں سب سے پہلی قبر تھی۔ اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے لیے حضورؑ نے چند شرائط بھی رکھی تھیں اور اس کے انتظام کے لیے ایک انجمن بھی قائم فرمائی جس کا نام ’’انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘ رکھا۔ اس کے صدر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ مقرر فرمائے۔ پھر جب کام پھیلنا شروع ہوگیا تو مختلف انتظامات اور امور کو یکجائی صورت میں چلانے کے لیے احباب کی تجویز پر ایک واحد مرکزی کمیٹی کا قیام منظور فرمایا اوریوں صدر انجمن احمدیہ کا وجود سامنے آیا۔ اس کے بعد تینوں انجمنیں جو اس سے پہلے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ریویو آف ریلیجنز اور مقبرہ بہشتی کے انتظام کے لیے علیحدہ علیحدہ مقرر تھیں اس مرکزی انجمن کے ماتحت آگئیں۔ جنوری 1906ء میں اس کے قواعد مرتب کرکے شائع ہوئے اور صدر حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کوہی مقرر فرمایاجبکہ سیکرٹری مولوی محمد علی صاحب ایم اے کوبنایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جو ابھی چھوٹے تھے اس انجمن کے ممبر مقرر فرمائے۔ لنگر خانہ اور مہمان خانہ حضرت اقدسؑ نے براہ راست اپنے ماتحت ہی رکھا تا مہمان نوازی میں کسی قسم کی کمی نہ رہےاور مہمانوں کا بھی براہ راست آپ کے ساتھ تعلق ہو۔ وہ لنگر خانہ اور مہمان خانہ بھی دیکھے جہاں اب شعبہ مہمان نوازی سرگرم عمل تھا۔
پھرقادیان کےاسی باغ میں جو بہشتی مقبرہ سے ملحقہ ہے شہ نشین جہاں اب بارہ دری تعمیر ہوچکی ہے دیکھا۔ اس چبوترا نما جگہ پر حضورؑ باغ میں اپنے اصحاب کے ساتھ مجلس لگاتے تھے۔ مقام ظہور قدرت ثانیہ دیکھا جہاں 26؍مئی 1908ء کواحمدیہ بلڈنگز لاہور میں وفات پاجانے اور تجہیز وتکفین کے بعد وہاں موجود احباب نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کی امامت میں جنازہ اداکرکے حضرت اقدسؑ کا جسد اطہر باوجود مخالفین سلسلہ کی ہر طرح کی سازشوں کے اگلے روز صبح 27؍مئی 1908ء کو بغرض تدفین لاکر مکان حضرت اماں جانؓ میں رکھا گیا تھا۔ وہیں احباب جماعت نے اپنے آقا کےآخری دیدار کا شرف پایا۔ آم کے درخت کے نیچےانتخاب خلافت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی تھی جو اب جنازہ گاہ کے نام سے جانی جاتی ہے اور پھربہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کا قیام حضورؑ کی وفات کے بعد ہی مقدر تھا۔ اس وقت جماعت کی کل بارہ سو کی تعداد پر مشتمل تجنید تھی جو وہاں حاضر بھی تھے۔ جماعت قادیان نے حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں تحریری درخواست پیش کی اوربالاتفاق ان کے بطورخلیفہ انتخاب کو حضرت مسیح موعودؑ کے ’’ وصایا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق ‘‘قرار دے کرسب نےبیعت کرلی تھی۔ جبکہ بعد میں کچھ لوگوں نے اس کی حقیقت کو نہ سمجھا اور سلسلہ خلافت سے انکار کرکے منکرین خلافت و غیر مبائعین کہلائے اور لاہوری فرقہ کے طور پر مشہورہوئےاور یوں حضرت اقدسؑ کے مقام نبوت کے بھی منکر ہوگئے۔
کانگڑہ کے 4؍اپریل 1905ء کے زلزلہ کے بعدحضرت اقدسؑ کےکچھ عرصہ کے لیے بہشتی مقبرہ سے متصل اس باغ میں ٹھہرنے کے واقعات تاریخ کے صفحات سے دماغ کی فلم پر نظروں کے سامنے چل رہے تھے۔ اس باغ میں تو گویا ایک چھوٹی سی بستی ہی آباد ہوگئی تھی۔ بعض اصحاب کی رہائش کے ساتھ اخبارات اور انجمن کے دفاتر بھی یہیں منتقل ہوگئے تھے۔ کوئی عرصہ تین ماہ یہیں قیام فرمایا۔ 2؍جولائی 1905ء کو حضورؑ واپس قادیان تشریف لائے تھے اور احمدی محلہ پھر سے آباد ہوگیا۔ جوطاعون جیسی مہلک وبا کے ایام میں بھی امن است درمقام محبت سرائے ما کا مصداق تھا۔
پھر ہم نے مسجد نور بھی دیکھی جہاں خلافت ثانیہ کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ یہ مسجد تعلیم الاسلام اسکول اور کالج کے احاطہ میں تھی۔ حضورؓ نے خلیفہ اولؓ کا جنازہ ہائی اسکول کے میدان میں پڑھایا تھا۔ خلافت احمدیہ کی تاریخ کے حوالے سے اس مسجد کی اپنی اہمیت ہے۔ تعلیم الاسلام کالج کی زمین صدر انجمن احمدیہ کی ملکیت ہے مگر اب وہاں سکھ نیشنل کالج قائم تھا۔ وہاں کے پرنسپل سے ملے۔ بورڈنگ تحریک جدید بھی دیکھی جو صدر انجمن احمدیہ کی ملکیت ہے مگر وہاں اب خالصہ ہائی اسکول تھا۔ محلہ دارالعلوم میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ جن کو حضرت اقدسؑ کی دامادی کا بھی شرف عطا ہوا تھایعنی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے شوہرتھے اور حضرت نواب امۃ الحفیظ صاحبہؓ کے رشتہ میںسسر بھی تھے کیونکہ حضرت نواب عبداللہ خاں صاحبؓ جو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بیٹے تھے، کی شادی حضرت نواب امۃ الحفیظ صاحبہؓ سے ہوئی تھی جو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی چھوٹی بہن تھیں۔ پھر قصر خلافت، دفاتر صدرانجمن احمدیہ، سرائے وسیم، گیسٹ ہاؤسز اور نورہسپتال بھی دیکھنے کا موقع مل گیا۔
خاکسار کے آبا واجداد بھی قادیان کے قریب ایک گاؤں پیروشاہ کے رہنے والے تھے اور عہد خلافت ثانیہ کے آغاز میں سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے تھے۔ ویزا کو مدنظر رکھتے ہوئے جلسہ میں شاملین کے لیے دی گئی ہدایات اور جلسہ کی مصروفیات نیز ڈیوٹی اور قادیان کی سیر کے دوران اتنا وقت نہ مل سکا کہ وہاں بھی جانے کا سوچتا۔ مگر الحمدللہ محض خدا کے فضل سےجلسہ سالانہ قادیان میں خاکسار کے ساتھ خاکسار کے والد محترم کو بھی شمولیت کے ساتھ مندرجہ بالا تمام اہم مقامات کی زیارت اور پھر وہاں پر نوافل و دعا کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ درویشان قادیان جو تقسیم ہند کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر حفاظت مرکز پر مامور ہوئے تھے، میں سے جو حیات تھے ان کے ساتھ ان کی رہائش گاہوں پر جاکر ملنے کا موقع ملا۔ تفصیلات کے ساتھ تاریخی حقائق جاننے کا ایسا سنہری موقع ملا کہ آج بھی اللہ کا شکر اداکرتے ہیں۔ زیارت مقامات مقدسہ میں ہمیں ایک ایسے محترم بزرگ کی صحبت حاصل تھی جوسلسلہ کے دیرینہ خادم تھے اور خاندان مسیح موعودؑ سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کا اپنا بچپن بھی اسی مقدس بستی میں گزرا تھا۔ وہ ان تمام بابرکت جگہوں میں پلے بڑھے تھے۔ اللہ اس نافع الناس اور سلسلہ کے مفیدوجود کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
آخر پر جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک اور سعادت جو اپنے والد محترم صادق علی صاحب کے ساتھ ملی وہ ایک ساتھ ’’لوائے احمدیت‘‘ کا پہرہ دینا تھا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک کہ اس موقع پر جب احباب ایک خاص جوش اور ولولہ کے ساتھ اس ڈیوٹی کے لیے لائنوں میں لگے ہوتے ہیں اس خدمت کا موقع مل گیا۔ لوائے احمدیت کی تاریخ بھی اس حوالے سے جاننا ضروری ہوگی۔ مختصرًا تحریر ہے کہ 1939ء کا سال جو کہ جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ قیام اور خلافت ثانیہ کے عہد کا پچیسواں سال تھا۔ اس سال جلسہ سالانہ کو خلافت جوبلی کے لیے مخصوص کردیا گیااورجلسہ سالانہ کے موقع پر ہی لوائے احمدیت بناکر لہرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لہٰذا اس کام کی تکمیل کے لیے حضورؓ نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی جس میں جھنڈے کا ڈیزائن اور پیمائش کے علاوہ صحابہؓ و صحابیاتؓ حضرت مسیح موعودؑ سے اس کے اخراجات کے لیے چندہ وصول کرنا اور ان سے کپڑا تیارکروانا نیز پول کی تیاری اور جھنڈے کے نصب کرنے اور لہرانےجیسے امور شامل تھے۔ اس کمیٹی کی نگرانی حضرت چودھری سرظفر اللہ خان صاحبؓ کے ذمہ تھی مگر ان کی مصروفیات میں ان کی غیر موجودگی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صدارت کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔
تمام کوشش کے بعد ایک سو تیس روپے کے قریب جمع ہوئے۔ اس سے روئی کی خرید کی باری آئی تو حضرت مصلح موعودؓ کی منشائے مبارک تھی کہ وہ کپاس خریدی جائے جو صحابہؓ نے کاشت کی ہو۔ اس کے لیے سندھ کی خبر ملی مگر ایسی کپاس نہ مل سکی۔ مگر حضورؓ کی خواہش کو خدا تعالیٰ نے اس طرح پورا کردیا کہ حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ امیر جماعت ونجواں ضلع گورداسپور جو مشہور صحابی تھے، قادیان تشریف لائے اور کچھ سوت حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں پیش کیااور عرض کیا کہ میں نے حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں اپنے ہاتھ سے بیج بویا اور پانی دیتا رہا اور پھر چنا اور صحابیوںؓ سے دھنوایا اور اپنے گھر میں اس کو کتوایا ہے۔ یہ سوت پہنچنے پر ان سے درخواست کی گئی کہ گھر پر اس کا بچا کوئی اور سوت بھی ہے تو بھجوادیں تو حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ کے ذریعہ مزید آٹھ دس سیر روئی قادیان پہنچی جو حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ سیکرٹری لجنہ اماء اللہ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ بھیجی گئی کہ حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت صحابیاتؓ سے اس روئی کا سوت تیارکروادیں۔ اس امر کی تعمیل کے بعد صحابی بافندگان کے ذریعہ قادیان اور تلونڈی میں کپڑا بنوایا گیا۔ پھر جھنڈے کا سائز طے ہونے پر کپڑا کو مطلوبہ سائز جو اٹھارہ فٹ لمبا اور نو فٹ چوڑا تھا صحابی درزیوں کی خدمات سے تیار کروایا گیا۔ پھر اس پر جھنڈے کی شکل نقش کروائی گئی۔ اس کے نصب کرنے اور لہرانے کے لیے پائپ کرائے پر لیا گیا کیونکہ مطلوبہ سائز 62فٹ کی سیدھی اور خوبصورت لکڑی ملنا مشکل تھی۔
حضورؓ نے جلسہ سالانہ 1939ء میں 28؍دسمبر کے روز اپنی تقریر میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے جھنڈا کی اہمیت اور ضرورت پر نہایت پرحکمت ارشادات فرمائے اورفرمایا کہ جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اس سے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ ’’لوائے ما پنہ ہر سعید خواہد بود‘‘ یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہوگی۔ ا س لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کردیں …پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے اس کے کہ بعد میں آکر کوئی بادشاہ اسے بنائے۔ یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے۔ اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کے لیے سند نہیں ہوسکتی۔ چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا۔ اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی…اور اس لیے آج جو جھنڈا نصب ہوگا اس میں سب قومیں شامل سمجھی جائیں گی۔ اور وہ جماعت کی شوکت کا نشان ہوگا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا ابھی بن جاتا۔ تا بعد میں اس کے متعلق کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ تقریر کے اخیر پر حضورؓ نے ایک اقرار نامہ بھی پڑھ کرسنایا اور سامعین کو دہرانے کا ارشاد فرمایا۔ پھر حضورؓ نے
رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ
کی رقت بھری دعا کے ساتھ جھنڈے کی رسی کو کھینچا اور اس کو ہوا میں لہرادیا۔ اس موقع پرحضورؓ نے لوائے خدام الاحمدیہ بھی جو تیار ہوچکا تھا لہرایا۔ حضورؓ نے فرمایا اب لوائے احمدیت کی حفاظت کے لیے مجلس خدام الاحمدیہ بارہ آدمی پہرہ پر مقرر کرےاور کل جمعہ کے روز نماز جمعہ کے بعد اسے دوناظروں کے سپرد کردے جو اس کی حفاظت کے ذمہ دارہوں گے۔ وہ نہایت مضبوط تالہ میں رکھیں جس کی دوچابیاں ہوں اور وہ دونوں مل کر اسے کھول سکیں۔ بعد ازاں حضورؓ زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے اور لجنہ اماء اللہ کا لواء بھی لہرایا۔
یہ تیار کردہ لوائے احمدیت آج بھی محفوظ ہے اور اللہ کافضل و احسان ہے کہ ایک موقع پر خدام الاحمدیہ کی مرکزی عاملہ میں بطور مہتمم خدمات بجالاتے ان بارہ خداموں میں شامل ہو کر اس صندوق کو اٹھانے اور پھر اس کو کھول کر پھیلانے اور معائنہ کے بعد دوبارہ بحفاظت بند کرکے محفوظ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
دس دن کے قیام میں جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام اور قادیان دارالامان کے بابرکت مقامات سے برکات سمیٹنے کے بعد جب واپسی پر روضہ مبارک حضرت اقدس مسیح موعودؑ پر حاضری دی اور دعا کے بعد قدم بس اسٹینڈ کی طرف اٹھ رہے تھے تو خدا گواہ ہے دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آنکھیں پرنم تھیں۔ جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا بالکل یہی حالت تھی کہ جیسے کوئی اپنے بہت پیارے سے جدا ہورہا ہو۔ اور وہ مٹی کھینچ رہی تھی کہ اسی جگہ جذب ہو جاؤ جہاں مہدی دوراںؑ کی تمام پاک عمر گزری۔ ان کا مدفن اور آخری آرام گاہ بھی یہی ہے۔ اب حقیقت سمجھ آرہی تھی کہ اس احقر العباد جو ان ہستیوں کی پاؤں کی خاک کے بھی برابر نہیں اور اس دنیا کا کیڑا ہے اس کا یہ حال ہے تو ان دیوانوں کی جو ان کی زندگی میں یہاں آتے تھے اورصحبت، فیض روحانی پاتے تھے کیسے چاہتے کہ اس در کو چھوڑ کر کہیں اور جائیں۔ واقعی پھر خدا کا نبی ہی ہر رشتے اور تعلق سے بڑھ کر پیارا ہوتو ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ
کی دعا کے ساتھ مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ یہ نافع الناس ہو۔ آمین