کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیوار وں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے! اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد3صفحہ34)
مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔اورمَیں اُس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19صفحہ61)
اتمام حجّت کے لئے مَیں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ … خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریّت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں
(آئینہ کمالاتِ اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ251)
یہ بھی یاد رہے کہ خدا کے وجود کا پتادینے والے اور اس کے واحد لاشریک ہونے کاعلم لوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں۔ اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور محال امر تھا۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 114)
اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ (الرعد:18) …یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے پیشگوئیوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کوقوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کرکے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو۔ پس انبیاء کی طرف نسبت دے کر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء من حیث الظّل باقی رکھے جاتے ہیں اور خداتعالیٰ ظلّی طور پر ہر یک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کوان کی نظیر اور مثیل پیداکردیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہو کر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے۔
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ 351-352)
خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو … خلیفہ درحقیقت رسول کاظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقانہیں لہٰذا خداتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیاکبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔
(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6صفحہ353)