متفرق مضامین

دل میں محفوظ جلسہ سالانہ کی کچھ خوبصورت یادیں

(مرزا نصیر احمد چٹھی مسیح۔ مربی سلسلہ، استاد جامعہ احمدیہ یوکے)

قادیان کے زمانہ کی کوئی جلسہ سالانہ کی یاد تو ذہن میں محفوظ نہیں۔ البتہ پارٹیشن کے بعدجب ہمارا کنبہ ہجرت کر کے اپنےآبائی گاؤں ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں آباد ہوا تو جلسہ سالانہ پر ہر سال ربوہ جانا خوب یاد پڑتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کے آہنی عزم نے تو 1947ء کے انتہائی خطرناک اور پُرآشوب ایام کے باوجود قادیان میں جلسہ سالانہ اپنے معمول کے ایام میں منعقد کرا دیا۔ جس میں تین سو سے زائد افراد نے شمولیت کی اور اس جلسہ کو ہی اصل جلسہ سالانہ قرار دیا گیا۔ مگر اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ حالات پاکستان میں ہندوستان سے لُٹے پٹے مہاجرین کے تھے۔ حضور رضی اللہ عنہ نے یہاں بھی اس انتہائی کس مپرسی کے عالم کے باوجود لاہور میں انہی تاریخوں میں ایک جلسہ سالانہ منعقد کرایا جس کو ’’ظلّی جلسہ‘‘ قرار دیا گیا۔ تاہم اس میں چونکہ عورتیں اور بچے شامل نہ ہوسکے تھے لہٰذا ان کی خاطر مارچ 1948ء میں ایک روزہ Suplimentaryجلسہ منعقد کیا گیا۔ میں اس وقت 6 سال کا تھا مگر مجھے رتن باغ کے سامنے کسی میدان میں لاؤڈ سپیکر پر کسی مقرر کی تقریر کا گونجنا اب تک یاد ہے۔ اور طبیعت پر اثر یہی تھا کہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی آواز تھی۔ پس اس لحاظ سے 1947ء کے جلسہ سے جس کا تتمہ اجلاس 1948ء میں منعقد ہوا محرومی کا احساس نہیں ہے۔ اس کے بعد 1948ء کا جلسہ 1949ء کے مارچ اپریل میں ربوہ میں منعقد ہوا اس میں بھی ہمارے والدین ہم دونوں بھائیوں (یعنی خاکسار اور میرا چھوٹا بھائی عزیز مرزا ظفر احمد مرحوم)ربوہ لے گئے۔ ان دنوں رات کو ہم کھلے میدان میں سوئے تھے کیونکہ یہ دن گرمی کے تھے۔ ربوہ کی سرزمین پر یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا جو میں نے سات سال کی عمر میں دیکھا اور اس کے بعد بفضلہ تعالیٰ 1971ء تک کا کوئی جلسہ ہم سے نہیں چھوٹا۔

1950ء تک تو ہم لوگ ترگڑی ضلع گوجرانوالہ سے ربوہ میں جلسہ ہائے سالانہ میں شرکت کے لیے جاتے رہے۔ ان میں سے ایک موقع پر تو مجھے یاد ہے کہ ترگڑی میں قیام کے دوران جلسہ سالانہ کے انعقاد سے پہلے ہمارے والد مرحوم مرزا محمد حسین صاحب چٹھی مسیحؓ بیمار پڑگئے آپ کو نمونیا لاحق ہوگیا۔ اورادھر جلسہ کے لیےروانگی کا دن قریب آگیا۔ ہماری والدہ کو شدید فکر لاحق ہوئی کہ سردی کا موسم ہے اور بیماری بھی شدید ہے اور جلسہ تو ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے۔ چنانچہ آپ بتایا کرتی تھیں کہ آپ ساری رات والد صاحب کے لیے دعا کرتی رہیں اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کو ایسے شفا بخش دی کہ آپ فجر تک بفضلہ تعالیٰ بالکل صحت یاب ہوچکے تھے جبکہ کسی قسم کا کوئی علاج بھی میسر نہ آیا تھا۔ صبح فجر کے معاً بعد ہماری روانگی تھی ہم لوگ ترگڑی سے روانہ ہو کر تین میل کا پیدل سفر طے کر کے راہوالی ریلوے سٹیشن پر پہنچے جبکہ والد صاحب نے چھوٹے بھائی عزیز مرزا ظفر احمد کو کندھے پر اٹھایا ہوا تھا۔ ان دنوں ہمارا روٹ ربوہ جانے کے لیے یہ ہوتا تھا کہ راہوالی سے ٹرین لے کر وزیر آباد اتر جاتے۔ وہاں سے ٹرین لے کر چک جھمرہ جاتے اور وہاں اتر کر شام کو لائل پورسے آنے والی ٹرین پر بیٹھ کر ربوہ پہنچتے اس طرح پورا ایک دن ہمارا سفر میں گذر جاتا۔ الغرض جلسہ سالانہ کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت یہی قبولیت دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی جلسہ سالانہ میں حاضر ہونے کی تڑپ قبول فرمالی اور معجزانہ شفا بخش دی بلکہ اس کے ساتھ اتنی طاقت بھی عطا فرما دی کہ ایک بچے کو کندھوں پر اٹھا کر تین میل کا پیدل سفر بھی طے کر لیا جبکہ آپ کی عمر اس وقت 70سال کے لگ بھگ تھی۔

مئی 1951ء میں ہم لوگ ترگڑی کو خیر باد کہہ کر ربوہ آن بسے اور پھر تو اگلے 21جلسے(یعنی 1951ء سے لے کر 1971ء تک جلسہ ہائے سالانہ) ہماری میزبانیوں پر مشتمل تھے کیونکہ ان جلسوں پر ہمارے قریبی اعزّہ وغیرہ جلسوں میں شرکت کے لیے ہمارے پاس آکر قیام کرتے۔ ہم لوگ ان کی خدمت کی بھی توفیق پاتے اور اس کے ساتھ جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں بھی ادا کرتے۔ جلسہ کے انعقاد سے کئی روز پہلے گھروں میں صفائیاں اور سفیدیاں وغیرہ شروع ہوجاتیں۔ مہمانوں کے قیام کے لیے مرکزی انتظام کے تحت جو پرالی منگوائی جاتی وہ بقدر حصہ رسدی گھروں میں بھی استعمال کے لیے مل جاتی تھی۔ مہمانوں کی آمد پر لسٹیں تیار ہوتیں جن کی تصدیق صدر محلہ سے کرانی ہوتی تھی اور اس کی بنیاد پر کھانے کی پرچی محلہ کے کوئی عہدیدار جاری کرتے اور اس پرچی کو لے کر ہم لوگ لنگر خانہ جاتے جہاں تقسیم روٹی کی کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی باری پر روٹی لے لیتے اور سالن کی کھڑکی کے سامنے کی لائن میں کھڑے ہو کر سالن بالٹی وغیرہ میں ڈلوا کر گھر لے آتے۔ شروع کے ایام میں دستور یہ تھا کہ صبح ناشتے میں تو روزانہ دال ہوتی۔ (اب یہ دال ایک Noveltyبن چکی ہے اور جب تک کوئی اس کا Specialistنہ ہو ویسی دال کوئی نہیں پکا سکتا) اور شام کو سالن ایک روز شلجم گوشت ہوتا تھا۔ اور دوسرے روز آلو گوشت ہوتا تھا مگر 60ء کی دہائی میں پھر روزانہ رات کو آلو گوشت پکنے لگ گیا اور شلجم متروک ہوگئے۔

جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں بھی ایک عجیب یادگار بن چکی ہے۔ جلسہ سالانہ کی نظامت جلسے سے کچھ دن پہلے ربوہ کے تمام مکینوں کو میزبان قرار دیتے ہوئے ہر مردوزن اور چھوٹے بڑے کی ڈیوٹی کو تعین کر کے ایک بہت بڑا ڈیوٹی چارٹ شائع کرتی تھی۔ ہم لوگ اس چارٹ میں اپنا نام تلاش کرنا اور پھر اس نام کا مل جانا اپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ بالعموم 26؍دسمبر کو چونکہ جلسہ شروع ہوتا تھا اس سے چار روز قبل حضرت خلیفة المسیح 22؍دسمبر کو ڈیوٹیوں کا افتتاح فرماتے اور دعا کراتے۔ 1959ء سے 1965ء تک سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی علالت کی وجہ سے خود حضور رضی اللہ عنہ تو اس کے لیے تشریف نہ لا سکے اور اس سے پہلے 1958ء تک کے دور میں مجھے کبھی ایسا موقعہ دیکھنا یاد نہیں۔ تاہم خلافت ثالثہ کے دَور میں تو پھر باقاعدگی سے حضور رحمہ اللہ کو اس تقریب پر دیکھنے کا موقعہ ملتا رہا۔ اس دور میں افسر جلسہ سالانہ استاذی المحترم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم تھے۔ 1964ء سے 1971ء تک خاکسار آپ کا شاگرد بھی رہا اور اس دوران جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیاں بھی آپ کی نگرانی میں ہی تھیں۔ ان ڈیوٹیوں کی وجہ سے جلسہ سالانہ کی اکثر کارروائی تو موقع پر یعنی جلسہ گاہ میں جا کر دیکھنے اور سننے سے رہ جاتی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے تو بہرحال محروم نہیں رہتے تھے۔ مجھے لنگر نمبر1 اور پھر لنگر نمبر 2 اور لنگر نمبر3میں ڈیوٹیاں انجام دینا یاد ہے۔

ایک مرتبہ قیام گاہ مستورات میں بھی باہر سیکیورٹی اور استقبالیہ پر ڈیوٹی تھی۔ یہاں ایک اور عجیب واقعہ ہوا۔ لاہور یا لائل پور سے آنے والی ٹرین پر سے اترنے والے کچھ مہمان اپنا سامان اتارنا بھول گئے ان کی خواتین جب نصرت جہاں کالج کے گیٹ پر پہنچیں تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کا کچھ سامان ٹرین میں ہی رہ گیا ہے۔ ٹرین تو اس وقت تک لالیاں پہنچ چکی تھی یا پہنچنے والی ہوگی اس کے بعد سکھانوالی سٹیشن تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے میرے تایا زاد محترم مرزا عبدالسمیع صاحب ریلوے سٹیشن ماسٹر رہ چکے تھے یا شاید ممکن ہے کہ ان دنوں بھی وہیں تعینات تھے تاہم جلسہ سالانہ کے دنوں میں ان کی ڈیوٹی بھی ربوہ ریلوے سٹیشن پر مقرر ہوجاتی تھی۔ چنانچہ خاکسار نے سوچا اگر ٹرین سرگودھا پہنچ گئی تو پھر سامان ملنا مشکل ہوگا اس سے پہلے پہلے یہ سامان اتار لیا جانا چاہیے۔ چنانچہ فوری طور پر ریلوے سٹیشن سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے ریل کے ڈبہ کی نشاندہی کر کے اور سامان کی نشانیاں بتا کر اگلے سٹیشن پر وہ سامان بخیر و عافیت اتروا لیا اور وہ ضائع ہونے سے بچ گیا۔ پس یہ جلسہ سالانہ کی برکت ہی تھی کہ ہمارے ان مہمانوں کا سامان سلامتی کے ساتھ اگلی ٹرین پر واپس ربوہ پہنچ گیا۔

جلسہ سالانہ کیInstitutionدراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کا ایک شاہکار ہے اس کا صحیح نقشہ کھینچنے کے لیے تو بےشمار جلدیں (Volumes)انشاء اللہ کسی زمانہ میں معرض وجود میں آئیں گی ابھی تو چند سطریں صرف اپنی دو تین یادیں قلمبند کرنے کے لیے صفحۂ قرطاس پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس کا انعقاد قدرت کا ایک بہت بڑا معجزہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا بہت بڑا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بے شمار سعید روحوں کو محض اور محض اس جلسہ سالانہ میں شمولیت کی برکت سے ہدایت نصیب ہوگئی اور وہ احمدیت کے نور سے منور ہوگئیں۔ جلسہ کےایام میں جس طرح الٰہی تائیدات و نصرت بارش کی طرح اترتی دیکھی گئی ہیں اس کا تصور باہر رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔ صرف وہی ان کا مشاہدہ کر سکتا ہے جو خود بنفس نفیس اس میں شامل ہو۔ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں اور صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ کارخانہ خود خدائے قادر و توانا اپنے دست قدرت سے چلا رہا ہے۔ ورنہ اتنا بڑا انتظام انسانی ہاتھوں سے انجام پانا نہایت مشکل ہی نہیں بلکہ قطعی ناممکن ہے۔ مجھے یاد ہے ایک جلسہ کے موقع پر جب کہ لنگر نمبر1 کے افتتاح کے لیے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ لنگر میں تشریف لائے تو افسران حضور کو راؤنڈ لگوا رہے تھے اور ساتھ ساتھ جملہ انتظامات کی رپورٹ بھی عرض کرتے جارہے تھے اسی دوران حضورؒ جب تنوروں کی طرف بڑھے تو باوجود اس کے کہ تمام تنوروں پر متعلقہ کارکن یعنی نانبائی وغیرہ موجود تھے اور دیگر ناظمین اور ان کے معاون وغیرہ بھی تھے حضور رحمہ اللہ کو کشفاً یہ ساری جگہ بالکل خالی دکھائی گئی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ’’کل کا فکر کرلیں ‘‘یہ لنگر چونکہ سب سے بڑا بلکہ مرکزی لنگر کی حیثیت رکھتا تھا لہٰذا یہاں کسی بھی قسم کا Crisisنہایت ہی تشویشناک ہوسکتا تھا۔ اغلباً اسی رات کوئی واقعہ ہوگیا اور نانبائی ہڑتال کر کے بھاگ گئے اور ہزارہا مہمانوں کو کھانے کی سپلائی معرض خطر میں پڑگئی جب حضور کو اطلاع ملی تو آپ نے تمام مہمانوں اور میزبانوں کو حکم دیا کہ ہر شخص صرف ایک روٹی کھائے اور احباب گھروں سے روٹیاں پکوا کر لنگر میں پہنچائیں۔ چنانچہ اکثر گھروں میں آٹا بھجوا دیا گیا اور ربوہ کی مستورات نے روٹیاں پکا پکار کر دھڑا دھڑ لنگر میں بھجوا کر روٹیوں کے ڈھیر لگا دیے اور اس بحران پر جلد ہی قابو پا لیا گیا۔ اغلباً یہ صورت حال زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ پھر جلد ہی پکانے والی نئی کھیپ میسر آگئی اور اس پریشانی پر قابو پالیا گیا اور پھر حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطاب میں شاید ذکر بھی فرمایا۔ الغرض جلسہ سالانہ کی کارروائی ایک ذرہ بھر بھی متاثر نہ ہوئی اور بفضلہ تعالیٰ جلسہ معمول کے مطابق جاری رہا۔ پس جلسہ اور جلسے میں شامل ہونے والے ہمیشہ ہی اللہ کی حفاظت میں رہے اگر اس قسم کے واقعات جمع کرنے شروع کیے جائیں تو کئی جلدوں میں بھی نہ سما سکیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ربوہ میں ابتداءً جو جلسے ہوئے ایک موقع پر مستورات کی قیام گاہوں میں آگ بھڑک اٹھی یہ عارضی بیرکیں ہوتی تھیں۔ ان کی چھت بھی گھاس پھونس پر مشتمل ہوتی تھی اور فرش تو تھا ہی پرالی کا اس آگ نے بہت جلد بیرکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل شامل رہا اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور بچوں کو محفوظ رکھا گو مالی لحاظ سے کچھ نقصان ہوا۔

جلسہ کے دوران لنگر خانے 22؍دسمبر سے چالو ہوجاتے تھے اور 31؍ دسمبر کی صبح تک یعنی پورے دس دن مسلسل چوبیس گھنٹے ان میں دیوانہ وار کام ہوتا تھا کارکنان خواہ وہ افسران ہوں یا پیشہ ور مزدور یا معاونین دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر کام میں جُتے رہتے تھے۔ اور یہی حال دیگر شعبہ جات کا ہوتا تھا۔ جو لنگر خانوں کے علاوہ ہوتے تھے۔ خاکسار نے اوپر افسران کا لفظ لکھا ہے یہ افسران صرف نام کے افسر ہوتے تھے ورنہ یہ مزدوروں سے بڑھ کر انکسار کے ساتھ خدمت میں مصروف ہوتے تھے ان کو کسی چیز کا ہوش نہ ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک سال ہمارے افسر اعلیٰ یعنی افسرجلسہ سالانہ حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم نے اپنے بلّے (Badge)پر افسر کی بجائے ’’خادم جلسہ سالانہ‘‘لکھوایا تھا ۔ میر صاحب تو جلسہ سالانہ کے دوران ویسے بھی خادموں سے بڑھ کر خدمت کرتے تھے۔ میرانہیں خیال کہ آپ کبھی ان دس دنوں کی راتوں میں کبھی لمحہ بھر بھی آنکھ لگاتےہوں گے۔ ایک روبوٹ کی طرح ’’راؤنڈ دی کلاک‘‘آپ ہر جگہ پہنچے ہوئے ہوتے تھے۔ خاکسار جس سال جامعہ (1964ء)میں داخل ہوا اس سال میری ڈیوٹی لنگر خانہ نمبر 2(رحمت بازار)میں لگی۔ خاکسار کے ساتھ دفتر میں میرے کلاس فیلو مکرم اقبال احمد نجم صاحب بھی تعینات تھے ہمارے انچارج دفتر مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب مرحوم (والد محترم محمد الیاس منیر صاحب اسیر راہ مولیٰ ساہی وال ) تھے ایک روز نصف شب کے قریب ایمرجنسی نافذ ہوگئی پتہ چلا کہ آٹا گوندھنے والے اور پیڑے بنانے والے مزدور نہیں پہنچے۔ مولانا صاحب نے ہم سب کو اس کام پر لگا دیا عموماً رات ایک ڈیڑھ بجے روٹیاں پکنا شروع ہوجاتی تھیں بہرحال کام شروع ہوگیا۔ میں بھی گندھا ہوا آٹا بالٹیوں میں ڈال ڈال کر تندوروں پر پہنچا رہا تھا۔ رات تقریباً 2بجے کا وقت ہوگا کہ اچانک کسی نے میرے کندھے پر تھپکی دی مڑ کر دیکھا تو حضرت میر صاحب تھے۔ میر صاحب کو جیسے ہی اس ایمرجنسی کی اطلاع ملی تو بجائے اس کے کہ کسی متعلقہ افسر کو صورت حال کا جائزہ لینے بھجواتے خود ہی فوراً موقع پر پہنچ گئے اور کارکنان کی حوصلہ افزائی کی اور صورت حال کا خود آکر جائزہ لیا کہ سب کام ٹھیک ہورہا ہے۔ پس یہ وہ افسران تھے جو اپنے ماتحت معاونین کےلیے ایک بہترین رول ماڈل اور قابل اقتدا اسوۂ حسنہ تھے۔

پرانے زمانے میں جب بیوروکریسی میں ابھی کمینگی نے ترقی نہیں کی تھی۔ سول گورنمنٹ جماعت کے ساتھ تعاون کرتی تھی۔ اور پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے مہمانان کرام کو جلسہ سالانہ پر ربوہ پہنچانے کے لیے اسپیشل ٹرینوں کا انتظام کرتی تھی بعض جگہوں سے اسپیشل بوگیاں ٹرینوں کے ساتھ لگا دی جاتی تھیں جو مہمانوں سے لدی ہوئی ربوہ دن اور رات پہنچ رہی ہوتی تھیں اور ان پر سوارمہمان نعرے لگاتے ہوئے ربوہ پہنچتے تھے اور یہ عجیب سماں ہوتا تھا۔ ربوہ کی پہاڑیاں ان نعروں سے گونج اٹھتی تھیں اور ربوہ کے مکینوں کو عجیب قسم کی فرحت اور سرور پہنچانے کا موجب ہوتے تھے یہ نعرہ ہائے تکبیر۔ ربوہ کے دکان داروں کے لیے بھی یہ دن بہت بابرکت ہوتے تھے بیشتر احمدی اپنے اپنے شہروں میں اتنی شاپنگ نہیں کرتے تھے ان کا اخلاص ان کو شاپنگ سے روکے رکھتا تھا ان کی خواہش ہوتی تھی کہ جب ربوہ جائیں گے تو وہیں شاپنگ کریں گےاور اس خیال سے وہ بچت بھی کرتے رہتے تھے اور پھر جب جلسہ پر آتے تو اپنی ضروریات کی اشیاء ربوہ سے خرید کر لے جاتے۔ ان دنوں میں اردگرد کے غیر از جماعت لوگ بھی مختلف قسم کے سٹالز ربوہ میں لگا لیتے۔ بعض مالٹوں اور سنگتروں کی بوریاں بھر لاتے اور سڑک کے کنارے ڈھیر لگا کر بیٹھ جاتے۔ ان کا مال بھی بک جاتا تھا۔

یہ دن روحانی لحاظ سے عجیب قسم کی بہار کے دن ہوتے۔ مساجد میں خشوع و خضوع سے بھری ہوئی نمازیں ادا ہوتیں۔ ربوہ کی فضا دعاؤں سے معمور ہوجاتی۔ ہر طرف سے سلامتی کی دعائیں السلام علیکم کی صورت میں بلند ہو رہی ہوتیں۔ ربوہ کا ماحول اس قدر آباد ہونے کے باوجود ہر قسم کی لغویات سے پاک ہوتا ایک صاف ستھری فضا ہر طرف نظر آتی جو

’’تَحَیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلَامٌ‘‘

کا نظارہ پیش کرتی ۔مدتوں کے بچھڑے ہوئے آپس میں ملتے۔ نئے رابطے پیدا ہوتے ہیں جو مستقل رشتوں میں بدل جاتے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اتفاقاً کسی اجنبی مہمان کو کسی نے اپنے گھر میں جلسہ کے لیے ٹھہرا لیا تو ان کی خواہش ہوتی کہ وہ آئندہ بھی انہی کے ہاں قیام کریں۔ الغرض جلسہ سالانہ کی برکتوں کو الفاظ کے ذریعہ بیان کرنا ممکن نہیں یہ برکتیں اور افضال ایک بحر بے کنار ہیں مسیح پاک علیہ السلام نے اس جلسہ کو بے حساب دعائیں دی ہیں جو خدا کی درگاہ میں قبول شدہ ہیں اور جن کی قبولیت کا ہم ہر جلسہ میں مشاہدہ کرتے ہیں خواہ یہ مرکزی جلسہ ہو یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں منعقد ہورہا ہو۔ اور اب تو خدا کی تقدیر نے اس میں اس قدر وسعت پیدا کر دی ہے کہ خدا کا خلیفہ اپنے گھر یعنی مرکز میں بیٹھا ہوتا ہے اور ساری دنیا سارا کرّہ ارض اس کے لیے جلسہ گاہ بنا دیا جاتا ہے اور ہر احمدی اس کو ایسے ہی سن رہا ہوتا ہے جیسے کہ وہ اسی شامیانہ میں موجود ہے۔ جہاں سے خلیفة المسیح کا خطاب نشر ہو رہا ہے۔

جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا

کا نظارہ یہاں خوب نظر آتا ہے کہ ساری دنیا مسجد بنا دی جاتی ہے۔ جس کا ایک ہی امام ہے۔

لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ

میں بھی شاید اسی طرف اشارہ تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button