’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘
سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے ارشاد فرمودہ منتخب خطابات اور عالمی راہنماؤں کے نام تحریر کردہ چند مکتوبات کو کتابی شکل میں پہلی بار 2012ء میں پیش کیا گیا۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں “World Crisis and the Pathway to Peace” کے نام سے نہایت دیدہ زیب سرورق اور خوبصورت اندازِ طباعت کے ساتھ قریباً اڑھائی صد صفحات پر مشتمل تھی جو برطانیہ سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی اشاعت اُس عظیم الشان امن مہم کا حصہ تھی جو خلافتِ خامسہ کے آغاز میں ہی خاص طور پر شروع کی گئی تھی اور جس کا مقصد پرنٹ میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرونک و سوشل میڈیا کے ذریعے دنیابھر میں اسلام کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے امن کے بارے میں اسلام کا منفرد اور حقیقی پیغام پہنچانا تھا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ چند دہائیوں سے عالمی سطح پر بدامنی اور دہشت گردی کا جو بازار گرم ہے، بدقسمتی سے معاندینِ اسلام کی طرف سے ایک منظم منصوبے کے تحت دین اسلام اور قرآن کریم کی پُرامن تعلیمات کواس کا ذمہ دار قرار دینے کی کوششیں ہر سطح پر کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ یہ کتاب زمینی حقائق کو سمجھنے اور عالمی سطح پر جاری اسلام مخالف مہم کے پس منظر کو واضح کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا کرتی رہی۔ بعدازاں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے جن میں قابل قدر اضافہ بھی کیا جاتا رہا۔ اس سلسلے کا پانچواں ایڈیشن 2017ء میں امریکہ سے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کیا۔ اسی طرح مختلف زبانوں میں بھی اس گراںقدر تصنیف کے متعدد تراجم طبع ہوئے جن میں اردو زبان میں اس کتاب کا ترجمہ بھی شامل ہے، جو ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ کے نام سے لندن سے شائع ہوا اور آج ہمارے زیرنظر ہے۔ یہ کتاب اڑھائی صد سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں تاریخی اہمیت کی حامل متعدد رنگین تصاویر بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب الاسلام ویب سائٹ پر موجود ہے۔
محترم قارئین! ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں دنیاوی ترقیات اور اخلاقی اقدار کی مضبوطی کا دارومدار حقیقی امن کے قیام پر منحصر ہوتا ہے۔ امن قائم ہوگا تو عوام میں تحفظ کا احساس بھی قائم رہے گا اور وہ یکسوئی کے ساتھ ہر میدان میں مسابقت کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ امن کا قیام ہوگا تو معیشت اور تجارت کا پہیّہ بآسانی چل پائے گا۔ تحقیق کی نئی راہیں بھی قیامِ امن سے ہی وابستہ ہیں۔ نئی نسل کی علمی ترقیات کی بنیاد بھی پُرامن معاشرہ ہی فراہم کرسکتا ہے۔ بدامنی کے حامل معاشرے نہ صرف معاشی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر تباہ حال ہوجاتے ہیں بلکہ نتیجۃً روحانی تنزّلی میں بھی اپنی مثال آپ ٹھہرتے ہیں۔ پس یہ کس قدر ضروری ہے کہ اپنے ماحول میں ہر سطح پر فساد کو فرو کرنے اور حقیقی امن کے قیام کے لیے ہر ممکن کوشش بروئے کار لائی جائے۔
خداتعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اُس نے قرآن کریم اور آنحضورﷺ کے ارشادات کے ذریعے آنے والے ہر زمانے کے مطابق حقیقی امن کے قیام کی محض راہیں ہی متعیّن نہیں کیں بلکہ ہر دَور میں اُن راہوں کی نشاندہی کرنے اور ان پر استقامت کے ساتھ بڑھتے چلے جانے کے لیے روحانی راہنمائی کا سامان بھی عطا فرمادیا۔ خلافت حقہ اسلامیہ کا قیام بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کا ادراک رکھنے والا اور اس تعلیم کے نتیجے میں موجودہ دَور میں پیدا ہونے والی بدامنی کی راہوں کی نشاندہی کرکے اُن کو امن کی راہ میںبدل دینے کا شعور رکھنے والا ایک ایسا وجود ہمارے درمیان موجود ہے جس کی نیم شب کی دعاؤں، بےلَوث کوششوں اور پُرحکمت ارشادات پر عمل کرنے سے ہی آج انسانیت کو عافیت کا حصار اور دنیا کو امن کی ضمانت حاصل ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روحانی راہنمائی کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور اُس بابرکت وجود کا سلطان نصیر بننے کی ہر پہلو سے کوشش کی جائے۔
دنیا میں جاری شرانگیزی کے خاتمے اور کرۂ ارض کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی گراں قدر کوششوں کا تہ دل سے اعتراف ہر ذی شعور کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا کے سیاسی، سماجی اور مذہبی راہنماؤں کے سامنے جب اسلامی تعلیم کی روشنی میں امن کی حقیقی تعریف آپ بیان فرماتے ہیں اور پائیدار امن کے قیام کے لیے آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں حبّ الوطنی، انصاف، خدمتِ انسانیت، ایک دوسرے کی خاطر قربانی، نیکی اور تقویٰ پر مبنی باہمی تعاون کا ذکر فرماتے ہیں تو عظیم الشان دنیاوی مناصب پر فائز اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں کے نمائندگان آپ کے سامنے ایک طفل مکتب کی طرح بیٹھ کر ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں اور اُن کے مطمئن چہروں اور روشن ہوتی ہوئی نظروں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گویا اپنے گھمبیر مسائل کے سلجھاؤ کے لیے انہیں کنجیاں مل گئی ہوں۔ یہ کیفیت برطانیہ کے دارالعوام سے لے کر یورپین پارلیمنٹ تک اور مختلف اقوام کی قومی اسمبلیوں اور امن کانفرنسوں سے لے کر امریکہ کے کیپیٹل ہِل تک یکساں نظر آتی ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں سالانہ قومی امن کانفرنس کا آغاز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر 2004ء میں ہوا۔ اس کا مقصد مختلف طبقہ ہائے فکر کے افراد میں امن، رواداری اور ہم آہنگی کے خیالات اور جذبات کو فروغ دینا تھا۔ ہر سال اس کانفرنس میں وزرائے مملکت، ممبران پارلیمنٹ، سیاست دان، مذہبی راہنما اور دیگر معززین شامل ہوتے ہیں۔ حضورانور نے خدمتِ انسانیت کے فروغ کے لیے دنیابھر کے سفر بھی اختیار فرمائے اور آپ کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ مسلمہ نے متعدد سکول اور ہسپتال بھی قائم کیے جو دنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں میں تعلیمی اور طبّی سہولیات مہیا کررہے ہیں۔ اسی طرح متعدد ترقی پذیر ممالک میں سینکڑوں رفاہی منصوبے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں جاری ہیں جن سے لاکھوں مستحقین استفادہ کررہے ہیں۔یہ سارے عملی اقدامات بلاشبہ حضورانور کے ان خطابات اور مکتوبات کی عملی تصویر ہیں جو زیرنظر کتاب میں شامل اشاعت ہیں۔
اس کتاب میں سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دنیاوی مقتدر ہستیوں کے مختلف فورمز سے آٹھ اہم خطابات اور تیرہ عالمی راہنماؤں کے نام رقم فرمودہ خطوط شامل ہیں۔ان خطابات اور مکتوبات کا نچوڑ یہی ہے کہ دنیا میں حقیقی امن کا قیام خالق حقیقی کے ساتھ اشرف المخلوقات (بنی نوع انسان) کے مضبوط تعلق کے بِنا ناممکن ہے۔ جب انسان اپنے ربّ کے قرب سے آشنا ہوتا ہے تو یہی تعلق خاطر متقاضی ہوتا ہے کہ فرد واحد اپنے دائرہ اختیار میں خلق خدا کے ساتھ نہ صرف یہ کہ کسی بھی قسم کی زیادتی نہ ہونے دے بلکہ خداتعالیٰ کی محبت اور اُس کی خوشنودی کی خاطر اپنے معاشرے کے مجبور، لاچار، بےبس اور مظلوم طبقات کی مدد کرکے اُن کی حالتِ خوف کو حالتِ امن میں بدلنے کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ خالق حقیقی اور بنی نوع انسان کے درمیان مضبوط تعلق کو اُستوار کرنے کے لیے ہی سلسلۂ انبیاء جاری ہے اور اسی عظیم الشان نعمت کا تسلسل ہمیں صفت رحمانیت کے تحت خلافت علیٰ منہاج النبوۃ میں نظر آتا ہے۔ پس خلافت حقّہ اسلامیہ کے امتیازی مقاصدعالیہ میں خداتعالیٰ سے مضبوط تعلق اور ایک پُرامن معاشرے کا قیام بھی شامل ہے۔ آیت استخلاف سے بھی واضح ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ پر ایمان لانے اور اُس کی خاطر اعمال صالحہ بجالانے کے نتیجے میں مومنین کی جماعت کو خلافت کا وہ انعام عطا ہوتا ہے جو مومنین کے خوف کو دُور کرکے امن کے قیام کی ضمانت دیتا ہے۔
اگرچہ معلوم تاریخ عالم کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ و جدل اور فسادات کا عمل ہمیشہ ہی جاری رہا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کے اِس دَور میں تباہ کُن ہتھیاروں کے انبار اور برتری حاصل کرنے کی بے پناہ خواہش اس صورتحال کی کہیں زیادہ خوفناک اور ہلاکت خیز تصویر پیش کرتی ہے جو پہلے کبھی نظر آتی تھی۔ چنانچہ اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل ہی امن و امان کی مخدوش عالمی صورتحال نے ایسی خوفناک جنگوں کو جنم دیا جن کے نتیجے میں دنیا کے کئی ممالک تباہ و برباد کردیے گئے۔ لیکن اس فساد فی الارض کی پس پردہ وجوہات اور مستقبل میں تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی نقشوں پر گہری نگاہ رکھنے والےکم ہی دانشور ہیں جو عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے حکمت و جرأت کے ساتھ ہرممکن کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ان میں سرفہرست نام امام جماعت احمدیہ سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ہے جنہوں نےاپنے روحانی منصب کے حوالے سے جہاں احمدیوں کو خالق حقیقی سے مضبوط تعلق پیدا کرنے اور بنی نوع انسان سے ہمدردی کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف بارہا توجہ دلائی ہے وہیں اسلام کے ایک جری سپہ سالار کی حیثیت سے مختلف بین الاقوامی ایوانوں کے اجتماعات سے اور اقوام عالم کے راہنماؤں کو انفرادی خطوط کے ذریعے اُن کی ذمہ داریوں سے مسلسل آگاہ فرمایا ہے تاکہ بنی نوع انسان کے لیے خطرات کے گھنے بادل مزید گہرے ہونے کی بجائے چھٹنے لگیں اور باہمی نفرت و عداوت کی فضا میں پیدا ہونے والے ضرر رساں تعلقات کی جگہ ایسے زندگی بخش حالات پیدا ہوسکیں جن میں ہر انسان کے لیے بلاتفریق امن، رواداری اور ترقیات کی راہیں کشادہ ہوتی چلی جائیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے امن عالم کے عظیم الشان مقصد کے حصول کے لیے اقوام عالم کے نمائندوں اور قومی راہنماؤں کونہایت دردِ دل اور خلوص نیت سے اپنے خطوط میں متنبّہ فرمایا ہے کہ کسی بھی قسم کے تفاخر، اَنانیت اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری اقوام پر اپنی قومی بالادستی ثابت کرنے کی بجائے ہم سب کو مل جل کر انسان کی فلاح و بہبود اور امن کے قیام کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اپنے وسائل کو انہی مثبت مقاصد کے حصول کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
زیرنظر کتاب میں شامل خطابات میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اقوام عالم کو توجہ دلائی ہے کہ آج دنیا جس تلاطم خیز دَور سے گزر رہی ہے یعنی بعض علاقوں میں جنگیں جاری ہیں اور پس پردہ کئی ممالک ان جنگوں میں عملی طور پر شامل ہیں جن میں لاکھوں انسان اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں یا مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں، ان جنگوں اور بعض عالمی وباؤں کی وجہ سے قحط سالی کے خطرات اور انسانی نقل مکانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ نیز عالمی مالیاتی بحران بھی شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے جس کا نتیجہ مزید لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس تباہی کا فائدہ محض اُن چند ترقی یافتہ ممالک کو ہی پہنچے گا جو عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے معاشی طور پر کمزور اور غریب ممالک کی خارجہ پالیسی خرید کر اُن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کریں گے۔ حضورانور نے وضاحت سے تنبیہ فرمائی کہ بعض ترقی یافتہ ممالک اگر موقع ملے تو کمزور ممالک میں اقتدار کی خواہش رکھنے والوں کو بدعنوانی کی راہوں پر چلا کر محض اپنے مفادات کے لیے اُن غریب ممالک کے عوام کے حقوق تلف کرتے ہیں اور انسانیت سوز مظالم کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ یہ طاقتور ممالک عالمی اداروں پر بھی مختلف قسم کے دباؤ ڈال کر اپنے حق میں فیصلے حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی معاملات میں مظلوم اقوام کی دادرسی نہیں کی جاتی جو کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے۔
حضورانور نے اسلامی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی اسلامی ممالک اور عالمی طاقتوں کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے کیونکہ اِس دَور میں ایک بہت بڑا ظلم یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کو قائم کرکے اُنہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانیت کی پامالی اور مسلمان ممالک کی تباہی کی نئی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔ داعش اور اسی طرح کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں اس کی ایک مثال ہیں جو اپنے ادنیٰ مفادات کے لیے دشمنوں کا آلہ کار بن کر ظلم و ستم کا وہ بازار گرم کرتی رہی ہیں جس کا الزام ایک منصوبے کے تحت اسلامی تعلیم کو دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی دہشت گردی کے پس منظر کو اکثر مسلمان بھی محسوس نہیں کرپارہے۔ عالمی سازشوں کا شکار ہونے کے باوجود دنیا کے اکثر طبقات بھی اُن وجوہات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ فساد برپا ہوتا ہے۔ دراصل میڈیا کی مخصوص طبقات کے مفادات کی ناجائز طرفداری کی وجہ سے عوام تو ایک طرف رہے، خواص بھی ان حالات کے پس منظر کا ادراک نہیں کرپا رہے۔ جن کو بنیاد بناکر بعض انتہاپسند اپنے مذموم مقاصد کو پورا کررہے ہیں۔ ایسے گھمبیر حالات میں لوگ کسی ایسے وجود کے شدّت سے منتظر تھے جو منظر عام پر آئے اور دنیا کی ایسی ٹھوس اور سنجیدہ راہنمائی کرے جو قابل اعتماد ہو۔ جس کی باتیں دل و دماغ دونوں پر یکساں اثر کریں اور وہ انہیں کسی ایسے راستے کے موجود ہونے کی امید دلائے جو امن، سلامتی اور فلاح کا راستہ ہو۔ پس سیّدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایسی ہی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور بلاخوف و خطر دنیا کو آگاہ فرمایا کہ دنیا میں پیدا ہونے والے حالات کا پس منظر کیا ہے اور آئندہ تباہی سے بچنے کا راستہ کیا ہے۔ آپ نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں باور کروایا کہ اس گلوبل ولیج میں رہتے ہوئے امن اور تحفظ کی راہ کس طرح متعیّن ہوسکتی ہے۔
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے یہ اعلان فرمایا کہ دنیا کے لیے امن کے حصول کا واحد راستہ عاجزی اور انصاف کی راہ اپنانے میں اور انکسار اور اطاعت کے ساتھ خدا کی طرف آنے میں ہے۔ اسی طرح بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی، کمزور کی مدد اور اُس کی عزّت نفس اور غم خواری اور سچائی اور تقویٰ کے راستے پر چلتے ہوئے عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اپنے خالق کی طرف واپس رجوع کرنے میں ہی انسانیت کی فلاح ہے۔
حضورانور نے دنیا کے راہنماؤں کے نام لکھے گئے خطوط میں عالمی تعلقات میں انصاف کی فراہمی کو مرکزی حیثیت دینے پر زور دیا اورقرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں بتایا کہ باہمی تنازعات کی صورت میں معاملے کو انصاف سے حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تاریخ سے ہمیں معلوم ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں نفرتوں کو دُور کرکے دیرپا امن کے قیام کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ آئیے زیرنظر کتاب میں شامل منتخب خطابات اور مکتوبات پر ایک نظر ڈالیں۔
پہلا خطاب ’’عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر‘‘ کے موضوع پر ہے جو برطانوی پارلیمنٹ (دارالعوام) میں منعقد ہونے والے ایک استقبالیہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا۔ یہ استقبالیہ رکن پارلیمنٹ جسٹن گریننگ کی طرف سے خلافت احمدیہ کی صدسالہ جوبلی 2008ء کے موقع پر دیا گیا تھا۔ حضورانور نے مختلف ممالک کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے قرآن کریم کی اس اصولی تعلیم کو بیان فرمایا کہ ’’اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر اُن میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لَوٹ آئے۔ پس اگر وہ لَوٹ آئے تو اُن دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورۃالحجرات آیت10)
دوسرا خطاب ’’وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات‘‘ کے موضوع پر ہے جو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ملٹری ہیڈکوارٹرز جرمنی (کوبلنز) میں 2012ء میں ارشاد فرمایا تھا۔ تیسرا خطاب اسی سال لندن میں منعقد ہونے والی نویں سالانہ امن کانفرنس میں ’’ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت‘‘ کے موضوع پر حضورانور نے ارشاد فرمایا تھا۔ حضورانور نے اس موقع پر فرمایا کہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے تو جہاں کہیں اور جب کبھی بھی موقع ملتا ہے تو ہم کھل کر اپنے اس نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا تباہی اور بربادی کے جس راستے پر گامزن ہے اسے بچانے کا صرف ایک طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب پیار، باہمی ہمدردی اور احساسِ وحدت کو پھیلانے کی کوشش کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو جو ایک خدا ہے، پہچان لے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خالق کی معرفت ہی ہے جو ہمیں اُس کی مخلوق سے محبت اور ہمدردی کی طرف لے جاتی ہے اور جب یہ جذبہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر ہم خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوجاتے ہیں۔
اس کتاب میں شامل تیسرا خطاب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت‘‘ کے موضوع پر 2012ء میں طاہر ہال (مسجد بیت الفتوح مورڈن) میں منعقد ہونے والی نویں سالانہ امن کانفرنس میں ارشاد فرمایا تھا۔ متعدد ممبرانِ پارلیمنٹ، بعض غیرملکی سفراء اور دیگر اعلیٰ بیوروکریٹس اس موقع پر موجود تھے۔ حضورانور نے اپنے خطاب کے آغاز میں فرمایا کہ ’’آپ سب لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیںاور ہمارے ساتھ ساری دنیا میں قیامِ امن کی خواہش میں شریک ہیں اور اسی تمنّا کی وجہ سے آپ آج کی اس تقریب میں شریک ہیں۔‘‘ حضورانور نے بین الاقوامی معاملات میں عدل کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور واضح فرمایا کہ ’’جہاں فیصلے بڑی طاقتوں کے دباؤ اور اثر کے تحت اور انصاف اور حقیقی حق خود ارادیت کے تقاضوں کے خلاف کیے جائیں تو ایسی تقاریر کھوکھلی اور بےمعنی ہوجاتی ہیں اور صرف دنیا کو دھوکا دینے کے کام ہی آتی ہیں۔‘‘ چنانچہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کُن انداز میں اعلان فرمایا کہ ’’اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم عاجز آکر اپنی کوششیں ترک کردیں۔ … اگر ہم ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا چھوڑ دیں گے تو ہمارا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوگا جو اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معیار سے بےبہرہ ہیں۔‘‘
کتاب میں شامل ایک خطاب ’’انصاف کی راہ۔ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات‘‘ کے موضوع پر ہے جو حضور انور نے واشنگٹن (امریکہ) کے Capitol Hill میں 2012ء میں ارشاد فرمایا تھا۔ اس موقع پر اہم اراکینِ کانگریس و سینیٹ، کئی ممالک کے سفارتی نمائندے، مذہبی قائدین، تھنک ٹینکس، پینٹاگان کے نمائندگان اور میڈیا کے افراد موجود تھے۔ اس موقع پر حضورانور کے احترام میں ایوان نمائندگان میں ایک قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں حضورانور کو خوش آمدید کہنے کے بعد یہ فقرہ بھی درج تھا کہ ’’امن عالم، انصاف، عدم تشدّد، حقوق انسانی، مذہبی آزادی اور جمہوریت سے ان کی وابستگی کو سراہتے ہیں۔‘‘ اپنے خطاب میں حضورانور نے قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے انصاف کی راہ سے قیام امن کے حصول پر روشنی ڈالی۔حضورانور نے فرمایا کہ ’’ایک سوال طبعاً پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جس عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کا معیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ تمہیں اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے والدین یا اپنے عزیز ترین رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تب بھی تمہیں انصاف اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔‘‘(سورۃالنساء:136)
ایک خطاب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے برسلز (بیلجیم) میں واقع یورپین پارلیمنٹ میں دسمبر 2012ء میں ارشاد فرمایا تھا جس کا موضوع تھا: ’’امن کی کنجی۔ بین الاقوامی اتحاد‘‘۔ اس موقع پر تیس ممالک کے ساڑھے تین صد نمائندگان موجود تھے۔ چند ممبرانِ پارلیمنٹ نے حضور انور سے انفرادی ملاقاتیں بھی کیں نیز ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی جس میں چالیس منٹ تک متعدد ممالک کے صحافیوں کے سوالات کے جواب حضورانور نے مرحمت فرمائے۔اپنے خطاب میں حضور انور نے فرمایا کہ امن و سلامتی کے بہت سے پہلو ہیں۔ جہاں ہر ایک پہلو اپنی ذات میں اہمیت کا حامل ہے وہاں یہ بھی نہایت اہم ہے کہ ہر پہلو دوسرے پہلو سے باہمی ربط رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر معاشرے میں امن کے قیام کا سب سے بنیادی عنصر گھریلو سکون اور ہم آہنگی ہے۔ کسی بھی گھر کی صورتحال صرف گھر تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ اس کا اپنے ماحول پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر کی امن کی صورتحال پورے ملک کی مجموعی صورتحال پر اثر انداز ہوگی اور کسی ایک ملک کی صورتحال ریجن یا تمام دنیا کے امن و سکون پر اثر ڈالے گی۔ حضورانور نے فرمایا کہ امن کو فروغ دینے کے لیے اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر کسی کے حقوق تلف کیے جارہے ہوں تو اس بات کو ہرگز برداشت نہ کیا جائے۔ جس طرح ہم اپنی حق تلفی ہوتی نہیں دیکھ سکتے اسی طرح ہمیں دوسروں کے لیے بھی اس ظلم کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔اسلام تعلیم دیتا ہے کہ جہاں سزا دینی پڑے وہاں یہ خیال رکھا جائے کہ یہ سزا جرم سے مناسبت رکھتی ہو تاہم اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو تو معاف کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اصل اور بنیادی مقصد اصلاح، مفاہمت اور دیرپا امن کا قیام ہونا چاہیے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الرشید ہیمبرگ (جرمنی) میں 2012ء میں ایک امن کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں ایک نہایت اہم موضوع ’’کیا مسلمان مغربی معاشرے میں ضم ہوسکتے ہیں؟‘‘ سے متعلق اسلامی تعلیم بیان فرمائی۔ حضورانور نے جماعت احمدیہ کی شدّت پسندی کے خلاف تعلیم سے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا۔ پھر فرمایا کہ احمدی جہاں کہیں جائیں اپنے اُس وطن سے اُسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اُس ملک کے وفادار شہریوں کو کرنی چاہیے اور عملاً اُس ملک کی ترقی اور بہتری کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلام ہی ہے جو ہمیں اس طرح جینا سکھاتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہوں، اُس کے ساتھ مکمل وفاداری کریں۔آنحضرت ﷺ نے واضح طورپر فرمایا ہے کہ وطن سے محبت ایک حقیقی مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔ جب حبّ الوطنی اسلام کا ایک بنیادی جزو ٹھہرا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی مسلمان اپنے ملک سے عدم وفاداری کا مظاہرہ کرے یا غداری کرکے اپنا ایمان ضائع کرے۔
کتاب میں شامل ایک خطاب ’’اسلام۔ امن اور محبت کا مذہب‘‘ کے موضوع پر ہے جو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برطانوی پارلیمنٹ میں 2013ء میں فرمایا تھا۔ اس موقع پر تیس اراکینِ پارلیمنٹ اور ہاؤس آف لارڈز کے بارہ ممبران موجود تھے جن میں چھ وزراء تھے۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کے آغاز میں فرمایا کہ ’’ہم اس وقت برطانیہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی صدسالہ تقریبات منارہے ہیں۔ پچھلے سو سال اس بات کا بیّن ثبوت ہیں کہ احباب جماعت احمدیہ مسلمہ نے اپنے ملک سے وفاداری کے تقاضوں کو ہمیشہ پورا کیا ہے اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی انتہاپسندی، بغاوت اور فساد سے بالکل الگ رہے ہیں۔ دراصل اس وفاداری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ ایک حقیقی مسلمان جماعت ہے، ہماری جماعت ایک ممتاز حیثیت کی حامل جماعت ہے کیونکہ ہم نے دنیا کو ہمیشہ تسلسل کے ساتھ حقیقی اور امن پسند اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا ہے اور ہمیشہ سے ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ان سچی تعلیمات کو ہی حقیقی اسلام کے طور پر قبول کیا جائے۔‘‘ بعدازاں حضورانور نے ایک پُرامن معاشرے کے قیام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان فرمایا اور آخر میں نصیحت فرمائی کہ ’’انصاف کا تقاضا ہے کہ گروہوں یا افراد کے ذاتی مفادات کو اسلامی تعلیمات کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔ اس طرح کے افعال کو جواز بناکر کسی بھی مذہب یا اُس کے بانی پر ناجائز اعتراضات نہیں اُٹھائے جانے چاہئیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے قیام کی کوشش میں سب لوگ ایک دوسرے کا اور تمام مذاہب کا احترام کریں۔‘‘
زیرنظر کتاب میں شامل ایک اہم خطاب وہ ہے جو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن میں واقع نیشنل پارلیمنٹ میں 2013ء میں ’’امنِ عالم۔ وقت کی ضرورت۔‘‘ کے موضوع پر ارشاد فرمایا تھا۔ اس موقع پر اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ بعض سفارت کار اور دیگر اہم افراد بھی موجود تھے۔ حضورانور نے گزشتہ دو عالمی جنگوں کے نتیجے میں انسانیت کو پہنچنے والے نقصانات اورآئندہ عالمی جنگ کی اُبھرنے والی خوفناک تصویر کو پیش کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ امن کے قیام کے لیے دنیابھر میں لیگ آف نیشنز یا اقوام متحدہ طرز کی کتنی بھی تنظیمیں بنالی جائیں، اُن کی کوششیں اُس وقت تک ناکام ہوں گی جب تک بنیادی سطح پر عدل کے تقاضے پورے نہیں کیے جائیں گے۔ حضورانور نے امن قائم کرنے کےلیے قرآن کریم کی تعلیمات سے منتخب آیات پیش کرکے فرمایا کہ جب تک اس تعلیم کو مشعل راہ نہیں بنایا جائے گا دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور ایک عالمگیر اسلامی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ مَیں دنیا کی توجہ قیامِ امن کی طرف مبذول کرواؤں۔ مَیں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ اسلام کا مطلب ہی امن او ر سلامتی ہے۔چنانچہ آنحضورﷺ نے اپنے متّبعین کو ہدایت دی ہے کہ ملنے پر ایک دوسرے کو سلام کیا کریں۔ آپؐ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ آپؐ ہمیشہ تمام غیرمسلموں کو خواہ وہ یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا کسی دوسرے مذہب کے پیروکار ہوں، سلام کیا کرتے تھے۔آپؐ جانتے تھے کہ تمام لوگ خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کا نام ’السلام‘ ہے لہٰذا وہ تمام بنی نوع انسان کے لیے امن اور سلامتی کا خواہشمند ہے۔
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو خطرات سے نکال کر امن کی راہ پر ڈالنے کے لیے جو مسلسل جدوجہد فرمائی ہے اس مقصد کے لیے ہر ممکن ذرائع کو استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ اُس مقبول مساعی میں دنیا کے اہم مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے نام خطوط بھی شامل ہیں۔ ان خطوط میں انہیں انسانیت اور مذہب کے نام پر دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ وہ عالمی امن کے قیام کے لیے اپنے دائرہ کار میں بھرپور کردار ادا کریں۔
زیرنظر کتاب میں شامل پہلا خط تقدّس مآب پوپ بینیڈکٹ XVI کے نام ہے (محرّرہ 31؍اکتوبر2011ء)۔ خط کے آغاز میں حضور انور ایدہ اللہ نے قرآن کریم کی اُس تعلیم کی طرف دعوت دی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے …۔ ‘حضورانور نے واضح فرمایا کہ مذہب کا مقصد بندے کو خدا کے قریب لانا اور انسانی اقدار کا قیام ہے۔ کسی بھی مذہب کے بانی نے کبھی یہ تعلیم نہیں دی کہ اس کے پیروکار دوسروں کے حقوق غصب کریں یا ظالمانہ کارروائیاں کریں اس لیے مسلمانوں کی ایک گمراہ اقلیت کی کارروائیوں کو اسلام اور بانی اسلام پر حملے کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔اسلام ہمیں تمام مذاہب کے بانی انبیاء علیہم السلام کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی تعلیم کی طرف منسوب ہونے کے دعوے کے باوجود اس تعلیم پر صحیح طور پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو یہ اُس فرد کا قصور ہے نہ کہ تعلیم کا۔ حضور انور نے تحریر فرمایا کہ لفظ اسلام کا مطلب ہی امن، محبت اور تحفظ ہے چنانچہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں!‘‘ قرآن کریم کا ایک واضح ارشاد ہے۔
اس کتاب میں شامل ایک خط اسرائیل کے وزیراعظم عزت مآب بنجمن نیتن یاہو کے نام ہے (محرّرہ 26؍اکتوبر 2012ء)۔ حضورانور نے ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کو آگے نہ بڑھانے کی اپیل کرتے ہوئے اسرائیلی مذہبی کتب زبور اور تورات کی روشنی میں اُن تعلیمات کو بیان فرمایا جن میں خداوندتعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے امن کے قیام کی تعلیم دی گئی ہے۔
کتاب میں شامل تیسرا خط عزت مآب محمود احمدی نجاد صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے نام ہے (محرّرہ 7؍مارچ 2012ء)۔ اپنے مکتوب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں امن و امان کی تیزی سے مخدوش ہوتی ہوئی صورتحال اور ایک خوفناک جنگ کے خدشات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ’’میرا ایمان ہے کہ امن کے سفیر اور رحمۃللعالمین حضرت نبی کریمﷺ کے اُمّتی ہونے کے ناطے سے ہمیں کبھی بھی برداشت نہیں ہوگا اور نہ ہم برداشت کرسکتے ہیں کہ دنیا میں ایسی تباہی واقع ہو۔لہٰذا ایران سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنی عالمی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو کم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔‘‘ حضورانور نے قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں نصیحت فرمائی کہ محض دشمنی اور نفرت کی بِنا پر آپ کو دوسری قوم کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔درحقیقت کوئی بھی ملک اگر آپ پر جارحانہ حملہ کرے تو آپ کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے تاہم جس حد تک ممکن ہو تصفیہ طلب اُمور کے لیے افہام و تفہیم اور مذاکرات کی راہ اپنانے میں ہی عافیت ہے۔
کتاب میں شامل ایک خط ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جناب باراک اوباما کے نام ہے (محرّرہ 8؍مارچ 2012ء) جس میں درخواست کی گئی ہے کہ وہ دوسری اقوام کی راہنمائی کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارت کاری، سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو بروئے کار لائیں۔ امریکہ جیسی بڑی عالمی طاقتوں کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چھوٹے ممالک کی غلطیوں کو بہانہ بناکر دنیا کا نظم و نسق برباد نہیں کرنا چاہیے۔ حضور انور نے متنبّہ فرمایا کہ آج نسبتاً چھوٹے ممالک بھی وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور اُن ممالک میں ایسے لوگ برسراقتدار ہیں جو زیادہ گہری سوجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں اور معمولی باتوں پر اشتعال میں آکر غلط فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم قیامِ امن کی کوششوں میں ناکام رہے تو ہماری آئندہ نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی اور اپنے آباء و اجداد کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔ یقیناً آج مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے اور اس بات کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ اُن کے لیے روشن مستقبل چھوڑ کر جائیں۔
اسی مضمون کا ایک خط عزت مآب سٹیفن ہارپر وزیراعظم کینیڈا کے نام بھی کتاب میں شامل اشاعت ہے (محرّرہ 8؍مارچ2012ء)۔
خادم حرمین شریفین شاہ سعودی عرب عزت مآب عبداللہ بن عبدالعزیز السعود کے نام بھی حضورانور نے ایک اہم خط تحریر فرمایا (محرّرہ 28؍مارچ 2012ء) جس میں اُمّت مسلمہ میں اُن کے اُس مقام کو بیان کرنے کے بعد جو حرمین شریفین کے خادم ہونے کی حیثیت سے انہیں حاصل ہے، قرآنی تعلیم رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی تعلیم کے مطابق مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا احساس پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ حضورانور نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ اور مسیح موعود و امام مہدی علیہ السلام کے خلیفہ کی حیثیت سے اُن سے درخواست کی کہ جماعت احمدیہ مسلمہ اور دیگر مسلمان فرقوں کے درمیان بعض اعتقادی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں دنیا میں قیام امن کی کوششوں کے لیے متحد ہوجانا چاہیے اور دنیا کو اسلام کی سچی تعلیم جو محبت اور امن پر مبنی ہے، سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ ایسا کرکے ہم وہ غلط فہمیاں دُور کرسکتے ہیں جو عام طور پر اہل مغرب اور باقی دنیا کے ذہنوں میںا سلام کے خلاف راسخ ہوچکی ہیں۔ حضورانور نے قرآنی راہنما اصول کہ ’’اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘ (سورۃالمائدہ:3) پیش کرکے اُنہیں اُمّت مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہر کوشش کرنے پر زور دیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خط عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم عزت مآب وین جی باؤ کو لکھا گیا (محرّرہ 9؍اپریل 2012ء)۔ حضورانور نے چین کی وسیع و عریض سلطنت، بہت زیادہ عوامی طاقت، اقوام متحدہ میں ویٹو کی طاقت رکھنے کا ذکر کرنے کے بعد دنیا کو درپیش تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنے پر زور دیا اور فرمایا کہ قوم، مذہب، رنگ و نسل اور ذات پات کے فرق سے قطع نظر ہمیں انسانیت کی بقا کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ حضورانور نے تحریر فرمایا کہ آپ کی قوم کے عظیم راہنما عزت مآب جناب ماؤزے تنگ نے جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد رکھی، انہیں انسانی اَقدار کا ایک اعلیٰ معیار بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ گو کہ آپ خدا کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے اور آپ کے اصولوں کی بنیاد محض اخلاقیات پر ہے مگر اس خدا نے جس کا تصور اسلام نے پیش کیا ہے، قرآن کریم کو تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے نازل کیا ہے اور قرآن کریم نہ صرف وہ تمام اخلاق ہمیں سکھاتا ہے جن پر آپ عمل پیرا ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن کریم ایسی اخلاقی راہنمائی سے بھرا ہوا ہے جو انسانیت کی بقا اور اعلیٰ انسانی اقدار کے قیام کی طرف ہماری توجہ ایسے حسین پیرائے میں مبذول کرتی ہے جن پر اگر دنیا بالعموم اور مسلم دنیا بالخصوص کاربند ہوجائے تو تمام بین الاقوامی مسائل اور قومی تنازعات کا خاتمہ ہوکر امن اور رواداری کا خوبصورت ماحول پیدا ہوجائے۔ امرواقعہ یہی ہے کہ آج جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا کے ہر خطے میں اسی نیک مقصد کے حصول و فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
حضورانور کا وزیراعظم برطانیہ عظمیٰ عزت مآب ڈیوڈ کیمرون کے نام ایک خط بھی کتاب میں شامل ہے (محرّرہ 15؍اپریل 2012ء)۔ اسی طرح جرمنی کی چانسلر عزت مآب اینجلا مرکل کے نام رقم فرمودہ خصوصی مکتوب بھی اس کتاب کا حصہ ہے (محرّرہ 15؍اپریل 2012ء)۔ ایک خط جمہوریہ فرانس کے صدر عزت مآب فرانسس ہولاندے کے نام بھی ہے(محرّرہ 16؍مئی 2012ء)۔ ان خطوط میں ان راہنماؤں کو عالمی امن کے قیام کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے دلی نصائح فرمائی گئی ہیں۔
کتاب میں شامل ایک خط برطانیہ عظمیٰ اور دولتِ مشترکہ کی ملکہ عزّت مآب الزبتھ ثانی کے نام تحریر کیا گیا ہے (محرّرہ 19؍اپریل 2012ء)۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کروڑوں احمدی مسلمانوںکی طرف سے ملکہ معظمہ کو اُن کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر پُرخلوص مبارک باد پیش کرتے ہوئے اُن کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ اور پھر فرمایا کہ مَیں ملکہ معظمہ سے مُلتمس ہوں کہ اس پُرمسرت موقع کو بنی نوع انسان کے لیے ایک انعام کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کریں کہ بڑے اور چھوٹے تمام ممالک باہمی محبت، امن اور رواداری کو فروغ دیں۔ حضورانور نے مزید تحریر فرمایا کہ آپ دنیا کو پیغام دیں کہ خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہیں یا دہریہ ہیں ہر صورت میں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں۔ آج اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو اس سے امن پسند مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور دوسری طرف غیرمسلموں کے دل میں اسلام کے بارے میں نفرت اور بداعتمادی پنپتی ہے۔ اگر ملکہ معظمہ تمام لوگوں کو ہرمذہب اور ہر مذہب کے پیروکاروں کی عزت کرنے کا مشورہ دیں تو یہ ان کا احسان عظیم ہوگا۔
کتاب میں شامل ایک خط اسلامی جمہوریہ ایران کے سرپرست اعلیٰ آیت اللہ علی حسینی خامنئی کی خدمت میں تحریر کیا گیا ہے (محرّرہ 14؍مئی 2012ء)۔ اس میں حضورانور فرماتے ہیں کہ اگر ایران پر حملہ ہو تو ایران اپنے دفاع کا پورا پورا حق رکھتا ہے لیکن اشتعال کو ہوا دینا اور جھگڑوں میں آگے بڑھ جانا مناسب نہیں۔ مناسب ہوگا کہ مذہبی اختلافات بھلاکر اتحاد کی کوشش کی جائے اور مشترک اقدار تلاش کی جائیں کیونکہ تاریخ اسلام میں ہمارے اسلاف کا یہی طرزِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ حضورانور نے فرمایا کہ مَیں یہ خط آپ کو مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں جن کی بعثت کی پیشگوئی آنحضرتﷺ نے فرمائی تھی۔ آپؑ کی قائم کردہ جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر آج اللہ کے فضل سے دو سو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہےاور اس کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں دنیابھر میں موجود ہیں۔
زیرنظر کتاب میں شامل آخری خط ریاست ہائے متحدہ روس کے صدر عزت مآب ولادیمر پیوٹن کے نام ہے (محرّرہ 18؍ستمبر 2013ء) جس میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ کی حیثیت سے حضورانور نے مُلک شام اور دیگر ممالک میں امن قائم کرنے کے لیے کی جانے والی اُن کی کوششوں کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔ نیز ایک مغربی اخبار میں شائع ہونے والے اُن کے ایک مضمون کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ مَیں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کے اس بروقت قدم نے دنیا کو درپیش ایک بہت بڑی تباہی سے بچالیا ہے۔آپ کی قیامِ امن کی کوششوں نے مجھے ترغیب دلائی ہے کہ مَیں آپ کو خط لکھ کر آپ کا شکریہ ادا کروں۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کوشش عارضی ثابت نہ ہو، آپ ہمیشہ امن قائم کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد میں کامیابی عطا فرماتا رہے۔ آمین
ان خطابات اور مکتوبات کے ساتھ ساتھ سیّدنا حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں قیام امن کے لیے کی جانے والی جماعت احمدیہ کی بھرپور مساعی کو زیادہ بھرپور انداز میں جاری رکھنے کے لیے اپنے خدام کو بھی مسلسل ہدایات سے نوازا ہے۔ جماعت احمدیہ کی اپنے روحانی امام کی اقتدا میں دنیابھر میں جاری ان بے لَوث کوششوں کا ثمریہی ہے کہ ہمارا کرۂ ارض ہرقسم کے جنگ و جدال، دہشت گردی اور فساد سے پاک ہوکر دنیا کے کناروں تک بسنے والے ہر انسان کے لیے جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی ترقیات کے ایسے دروازے کھول دے جس کے نتیجے میں دنیا میں موجود ہر انسان اپنی وجۂ تخلیق سے آشنا ہوکر خدائے واحد ویگانہ کی عبادت و اطاعت کو اپنا مقصود حیات بنالے، مخلوق خدا کی خدمت پر کمربستہ ہوجائے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس سے کہیں بہتر ارض و سما چھوڑ کر جائے جس میں آج وہ خود سانس لے رہا ہے۔
محترم قارئین! زیرنظر کتاب عافیت کا ایسا حصار ہے جس کے مضامین پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ امن اور اس کا قیام جماعت احمدیہ کے جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔یہ کتاب انسانیت کے احترام کے حوالے سے مستند اسلامی تعلیمات کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور قرآن کریم کی پُرامن تعلیم کی رُوح کو ہر پہلو سے بیان کرتی ہے۔ گویا موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں داعیان الی اللہ کے لیے نہایت مفید معلومات کا مخزن ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ سیّدنا حضورانور کی دُوررس نگاہ نے کس قدر حکمت اور دانش کے ساتھ ہر سطح پر اپنی کوششوں کو بام عروج تک پہنچادیا اور خداتعالیٰ نے آپ کی اَن تھک کوششوں اور دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے عالمی امن و امان کی مخدوش صورتحال کو بہتری کی طرف لَوٹا بھی دیا۔ پس اس کتاب کا مطالعہ ایک مخصوص زمانی دَور کے عالمی حالات و واقعات کے پس منظر، نیز مختلف ممالک اور خطوں میں جاری مذہبی فکر کے گہرے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اُس غلط رجحان سے آشنا کرتا ہے جس کا سیاسی راہنماؤں کے علاوہ اس دَور کے مذہبی راہنما بھی شکار ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ یہ احساس بھی جاگزیں کرتا ہے کہ ہمارا مقدّس امام اور خدا کا منتخب خلیفہ اپنی ہمہ جہت کوششوں اور کاوشوں کو جس عزم صمیم کے ساتھ دو دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے اُس کا تقاضا ہے کہ ہم اُن کو اپنی عاجزانہ دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں۔ بلاشبہ آئندہ نسلوں کی بہبود کے لیے دلی تڑپ رکھنے والا وہ ایک ایسا راہنما ہے جو نہایت حکمت کے ساتھ دنیا بھر کے منتخب قلوب و اذہان کو مسخّرکرکے اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں اُن کو اپنا ہم خیال بناکر اس جہانِ رنگ و بُو کو امن، صلح جوئی اور آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔کرۂ ارض پر سسکتی ہوئی انسانیت کو عافیت کے حصار میں لانے کی آرزو میں وہ آج تن تنہا مصروف ہے۔ ایک عظیم روحانی وجود کی صورت میں وہ منزل کی تلاش میں بھٹکنے والے قافلوں کو نشانِ منزل عطا کرکے اُس حصنِ حصین کے قدموں میں بٹھانے کا آرزومند ہے جو مہدیٔ آخرالزماں کی حیثیت سے مبعوث ہوا ہے اور جس کی ’’کشتی نوح‘‘ میں بیٹھنے والوں کا ہر خوف و خطر آسمانی وعدوں کی روشنی میں امن و آشتی میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ پس ہم احمدیوں کو اس کتاب کا نہ صرف خود مطالعہ کرنا چاہیے بلکہ اپنے ماحول میں اس کی بھرپور اشاعت بھی کرنی چاہیے تاکہ اسلام کی گہوارۂ امن اور ابدی سلامتی کی حسین تعلیم کا ادراک ہر اہل نظر اور اہل فکرو دانش کو بخوبی ہوجائے اور ہم بھی اپنے امام ہمام کے سلطان نصیر بن کر دین و دنیا میں حقیقی فلاح کے حق دار ٹھہریں۔ آمین
٭…٭…٭