اسلامو فوبیاکے سدّ باب کے لیےخلافت خامسہ کا مثبت کردار
حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی دو دہائیوں سے اسلام کی پُرامن تعلیم کے پرچار اور اس سے جڑی ہوئی دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے ردمیں عظیم الشان کردار ادا کیا ہے۔
آپ کی دن رات کی دُعاؤں نے آپ کو اس میدان میں ایک فتح یاب جرنیل کی صورت میں دنیا نے مشاہدہ کیا
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف مواقع پر اپنے خطبات جمعہ،خطابات، میڈیاو دیگر سیاسی راہنماؤں اور معززین سے گفتگو کے دوران اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اس کی حقیقی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے عظیم الشان اور تاریخی سعی بلیغ سرانجام دی ہے۔
اسلام کے متعلق غلط فہمیوں میں سر فہرست یہ ہے کہ نعوذ باللہ اسلام دہشت گردی ، ظلم اور بربریت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مغربی ممالک میں اسلام سے نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں جسے اصطلاح میں اسلاموفوبیا کا نام دیا جاتا ہے۔
چنانچہ مذہب اور دہشت گردی کے متعلق پائے جانے والے غلط تصور کی وضاحت کرتے ہوئے حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’آج دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہرطرف ایک افراتفری کا عالم ہے۔ چاہے وہ مشرقی ممالک ہوں یا مغربی، ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک ہوں یا ترقی پذیر یا نسبتی لحاظ سے غیر ترقی یافتہ۔ بعض ملک یا ملکوں کے رہنے والے اپنے ملکوں کے اندر فسادوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔ بعض دوسرے ممالک اور حکومتوں کی دخل اندازیوں کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں۔ بعض دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور خوف کا شکار ہیں۔ یہ دہشت گردی سیاسی وجوہات کی وجہ سے ہو یا نام نہاد مذہب کی وجہ سے۔ نام نہاد مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ مذہب کے نام پر یا مذہب کی طرف منسوب کرکے جو دہشت گردی ہوتی ہے اور اس منسوب کرنے والوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا کچھ تو مذہب کے نام پر کرنے والے ہیں اور کچھ خود ساختہ تصور پیدا کرکے اور خاص طور پر اسلام کے خلاف تصور پیدا کرکے پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ بہرحال مذہب کبھی بھی دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا اور خاص طور پر اسلام کی تعلیم تو کلیتاً اِس حرکت کے خلاف ہے اور پھر کسی حکومت میں رہ کر اس کا شہری ہو کر پھر اس قسم کی حرکتیں کرنا تو کسی بھی صورت میں اسلام میں قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ انسانیت اور خدا کی مخلوق پر بعض طبقات کی طرف سے ظلم خدا کے نام پر ہوتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ نومبر 2007ء)
امن کانفرنسزاور عالمی ’’امن انعام‘‘ کا اجرا
خلافت خامسہ کے عہد میں 2004ء سے امن کانفرنس (Peace Symposium) کا آغاز ہوا جس میں دنیا بھر سے مختلف نمائندے شامل ہوتے ہیں اورحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب میں حالات حاضرہ کے پیش نظر دنیا کو امن کا پیغام دیتے ہیں جو اسلام اور جماعت احمدیہ کے تعارف کے علاوہ عالمی امن کے قیام کے لیے نہایت مفید ثابت ہو رہا ہے۔چنانچہ حضور کے بابرکت عہد میں سولہ16 مرکزی امن کانفرنسز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔امن کانفرنسز میں ہر سال دنیا بھر میں قیام امن کے لئے نمایاں کام کرنے والوں کو احمدیہ امن پرائز سے بھی نوازا جا تا ہے۔احمدیہ امن انعام کا آغاز 2009ء سے ہوا اوراب تک دس10منتخب افراد کو جماعت احمدیہ کی طرف سے عالمی سطح پر یہ انعام دیا جا چکا ہے۔
(The Review of Religions, May 2013, Vol 108-Issue 5,p-62)
ان امن کانفرنسز اور امن انعام دینے کا مقصد دراصل یہی ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور معاشرے میں امن کو فروغ دیتا ہے۔چنانچہ ان پروگرامز کے نتیجے میں بارہا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ شاملین کی اسلام کے متعلق رائے ہا یکسر تبدیل ہوئی اور کئی مہمانان نے برملا اظہار کیا کہ خلیفۃ المسیح کے خطاب سننے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور یہ ایک ایسا مذہب ہے جس سے خوف نہیں کھنا چاہیے۔
دورہ جات وخطابات کے ذریعے اسلام کی پُرامن تعلیم کا پرچار
دنیا میں اسلام کے متعلق غلط تصورات کو ختم کرنے کی کاوشوں میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مختلف ممالک کے دورہ جات بھی شامل ہیں۔ان دوروں میں حضور انور نے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں، حکومتی وزراء،ممبر ان پارلیمنٹ، کونسلرز، میئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز ، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معز زین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا۔ دنیا کی موجودہ صورت حال ، عالمی معیشت، ماحولیاتی آلودگی ، دہشتگردی کے سدّ باب اور عالمی امن کے قیام جیسے موضوع زیر بحث رہے۔ حضور انور کے اعزاز میں استقبالیہ تقاریب میں حضور انور نے اپنے خطابات میں اسلام کی پُر امن تعلیمات کا خوبصورت تذکرہ فرمایا۔دوسرے ان دورہ جات میں دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمنٹس سے حضور انور کے خطابات بھی شامل ہیں۔
چنانچہ اس کی ایک مثال 08؍اکتوبر2019ء کو اقوام متحدہ کے ادارے NESCOمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے جس میں آپ نے فرمایا:’’یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی آج کل کی دنیا میں پیغمبر اسلام ﷺکی کردار کشی ہورہی ہے۔ انہیں ایک جنگی لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ در حقیقت رسول کریم ﷺنے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دوسروں کے حقوق کے دفاع میں گزارا اور اسلامی تعلیمات کے ذریعہ انسانی حقوق کے بےنظیر اور دائمی منشور کا قیام عمل میں فرمایا۔ مثلاً آپﷺنے تعلیم دی کہ لوگ ایک دوسرے کے عقائد اور جذبات کا خیال رکھیں اور دوسروں کی مقدس ہستیوں پر تنقید کرنے سے باز رہیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر 2019ء)
مساجد کی تعمیر کے ذریعہ دہشت گردی کی نفی
مساجد کی تعمیر اشاعت اسلام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں جن کے ذریعہ اسلام کی پُر امن تعلیم کا چرچا ہوتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا مختلف ممالک کے دورہ جات کے دوران مساجد کے سنگ بنیاد اور افتتاح کی تقاریب میں مساجد کے حقیقی مقصد کو اجاگر فرمایا اور بالخصوص غیر مسلم احباب کو یقین دہانی کروائی کی مسجد امن کی جگہ ہے اور معاشرے کو اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ جگہ پیار، محبت اور بھائی چارہ پھیلانے کا موجب ہو گی۔
اس امر پر زور دینے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل بد قسمتی سے مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے غیر مسلم دنیا میں مسجد کے متعلق ایک خوف پایا جاتا ہے کہ یہاں سے دہشت، ظلم اور بربریت پھیلتی ہے جو معاشرے کے امن کو برباد کرتی ہے۔چنانچہ ایک موقع پر فرمایا:’’مساجد بھی اسی طرح اللہ کا گھر ہیں اور عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ یہاں سے بھی امن کا پیغام دنیا کو پہنچتا ہے اور پہنچنا چاہیئے اور مساجد کی یہی حقیقی روح ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جولائی 2007ء بحوالہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 285)
مسجد المہدی بریڈ فورڈ برطانیہ کے افتتاح کے موقع پر فرمایا:’’جماعت احمدیہ ایک جما عت کی حیثیت سے ہمیشہ امن، پیار اور محبت کا پیغام پھیلاتی ہے۔ یہ مسجد ہمیشہ نیک کاموں کے لئے روشنی کا گھر رہے گی۔ یہاں سے ہمیشہ محبت، پیار ، صلح اور خیر کا پیغام جائے گا۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 12؍دسمبر 2008ء صفحہ16)
مسجد بیت الرحمان ویلنسیا (سپین) کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب فرمودہ29؍مارچ 2013ء میں فرمایا:’’آج جماعت کا 200سے زائد ممالک میں قیام ہو چکا ہے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہاں ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘کا پیغام پھیلاتے ہیں۔‘‘(الفضل انٹر نیشنل 03؍مئی 2013ء )
اس کے علاوہ حضور انور نے براعظم افریقہ، امریکہ، یورپ ، ایشیاء، آسٹریلیا اور مشرق بعید کے اپنے دورہ جات میں متعدد مساجد کا بنفس نفیس افتتاح فرمایا ہے اور ہر جگہ آپ مساجد کے متعلق غلط تصور کو مٹانے کی سعی کرتے ہیں۔
دہشت گردی کے واقعات کی پُر زور مذمت
دنیا میں جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ پیش آتا ہے جس کے پیچھے نام نہاد مسلمان ہوں تو مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف ایک نفرت کی لہردوڑتی ہے۔ایسے مواقع پر ضروری ہوتا ہےکہ مسلمانوں کی طرف سے ایسے واقعات کی پُر زور مذمت کی جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ ایسے عمل اسلام کی تعلیم سے کوسوں دور ہیں اور مسلمان بھی ایسے واقعات پر افسوس، رنج اور غم کے جذبات میں شریک ہوتے ہیں۔
چنانچہ چند سال قبل پیرس(فرانس) میں ایسے ہی ایک افسوس ناک واقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پریس ریلیز میں فرمایا:’’میں دنیا بھر کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کی جانب سے پیرس میں ہونے والے گھناؤنے دہشت گردانہ حملوں کے بعد فرانسیسی قوم، اس کے عوام اور حکومت کے ساتھ دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس وحشیانہ اور غیر انسانی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ میں اس بات کا اعادہ بھی کرنا چاہوں گا کہ ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی مکمل طور پر اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن پاک نے کہا ہے کہ ایک بے گناہ کو بھی قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ لہٰذا کسی بھی حالت میں قتل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور جو لوگ اسلام کے نام پر اپنی نفرت انگیز کارروائیوں کو جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں وہ اسے بدترین طریقے سے بدنام کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں اور دعائیں ان حملوں کے متاثرین اور ان تمام لوگوں کے ساتھ ہیں جو کسی بھی طرح سے سوگوار یا متاثر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور میں امید اور دعا کرتا ہوں کہ اس مذموم فعل کے مرتکب افراد کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘‘
(NOVEMBER 14, 2015 – PRESS RELEASE)
’’اسوۂ رسولﷺ اور خاکوں کی حقیقت‘‘
اسلاموفوبیا کو منہ توڑ جواب
محسن انسانیت، نبی اطہر،بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق آپ کے مخالفین اپنی مایوسی،بغض، تکبر اور حق دشمنی کے جذبات میں بہہ کر توہین و گستاخی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ سال 2005ء میں ایسے ہی عناصر نے آزادیٔ ضمیر اور آزادی صحافت کے نام پر بہت ہی گھناؤنی اور ظالمانہ حرکت کی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے لیے بےہودہ خاکے اور کارٹون بنا کر مختلف کتب اور اخبارات میں شائع کیے۔اس پر مختلف مسلم تنظیموں اور مسلمان ممالک نے بڑے سخت ردعمل کا اظہار کیا، آگیں لگائی گئیں اور غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لیے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس تناظر میں امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبات جمعہ کا سلسلہ شروع فرمایا جس میں آپ نے بیان فرمایا کہ ایسے حالات میں ایک حقیقی مومن کا کیا ردعمل ہونا چاہیے۔نیزاسلام کے خلاف نفرت کے جذبات رکھنے والوں تک پُر حکمت طریق سے حقیقی اسلامی تعلیم اور اسوۂ رسولﷺ کے پاک نمونے پہنچانے کی تحریک کی۔
ان خطبات کا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جہاں مغرب میں اسلام کے خلاف اس قسم کی سازشیں ہوتی ہیں وہاں مسلمانوں کا فرض ہے کہ مسیح محمدی کو مان کر دنیا تک اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچانا از حد ضروری ہے تا کہ اس قسم کے واقعات جنم ہی نہ لے سکیں۔اور اسلام کے متعلق منفی رائے رکھنے والوں کے خیالات ہی بدل جائیں۔ چنانچہ انہی خطبات میں حضور انور نے احمدی نوجوانوں کو صحافت کے شعبہ میں جانے کی بھی تحریک فرمائی جس کےذریعہ وسیع پیمانے پر اہل مغرب تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ سکے۔یہ خطبات کتابی شکل میں اسوۂ رسول اور خاکوں کی حقیقت کے نام سے شائع شدہ ہیں۔
پمفلٹس کی تقسیم اور امن کانفرنسز کے ذریعے اسلامو فوبیا کا مقابلہ
حضور انور کی راہنمائی اور ہدایات کے مطابق ہر سال مختلف مقامات پر peace pamphlets کی تقسیم بھی اسلامو فوبیا کے مقابلے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہر سال لاکھوں پمفلٹس، قرآن کریم کے تراجم اور کتب لوگوں میں مختلف زبانوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ احباب جماعت مقامی اور ملکی سطح پرپالیسی ساز احباب سے ملاقات اور ان کو امن کے قیام کے لیے تلقین کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ممالک میں امن کانفرنس کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتاہے جس میں مقامی سیاستدان، وکلاءاور دوسرے پڑھے لکھے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ان کانفرنسز میں خلیفہ وقت کے پیغام کو سنایا جاتا ہے جس سے اسلاموفوبیا جیسے مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس کا انصاف پسند لوگ بعد میں کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔
’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘
دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے تناظر میں لاجواب کتاب
اس جگہ سیدنا حضور انور اید ةاللہ تعالیٰ کے خطابات، امن کانفرنسز، عالمی راہنماؤں کو لکھے گئے خطوط پرمشتمل کتاب کا ذکر کرنا ضروری ہے جسے مختلف زبانوں میں شائع اور تقسیم کیا گیا ہے۔اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ عالمی بحران کے حالات کا تفصیلی تجزیہ کیا اور اسلامی تعلیمات کی رو سے ان کا حل پیش کیا ۔
اگر عالمی قوتیں امام وقت کی پیش کردہ تنبیہ اور انصاف کے اصولوں کو تھام لیں تو عالمی امن کوئی دور کی بات نہیں مگر افسوس سوائے چند ایک لائق سیاستدانوں کے اکثر قومیں اپنے ذاتی نفع نقصان کو مد نظر رکھے ہوئے ہیں جو اسلام کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی مساعی کے مثبت اثرات
حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی دو دہائیوں سے اسلام کی پُرامن تعلیم کے پرچار اور اس سے جڑی ہوئی دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے ردمیں عظیم الشان کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی دن رات کی دُعاؤں نے آپ کو اس میدان میں ایک فتح یاب جرنیل کی صورت میں دنیا نے مشاہدہ کیا ۔چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کاوشوں کا ثمر ہے کے جو لوگ خلیفۃ المسیح کی بُر حکمت باتوں پر کان دھرتے ہیں ان کے خیالات اور افکار میں اسلام کے حوالے سے ایک غیر معمولی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔اس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
٭…اکتوبر 2020ء میں کینیڈا کے وزیراعظم جناب جسٹن ٹروڈو کا آزادیٔ اظہار پر قیود لگانے اور اسلاموفوبیا کے خلاف ایک پریس ریلیز جاری کی۔جس میں کہا کہ آزادیٔ اظہار کی حدود وقیود ہونی چاہئیں اور تمام مذاہب ،بشمول اسلام ،کا احترام ہم پر فرض ہے۔یاد رہے کہ وزیراعظم صاحب کئی مرتبہ جماعت احمدیہ کینیڈا کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوچکے ہیں اور حضورانور سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔
٭…سیدنا حضور انور ایدةاللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ یکم نومبر 2019ء میں اپنے دورہ یورپ کے دوران فرانس کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک غیر از جماعت خاتون جو پیشے کے اعتبار سے انتھراپولوجسٹ (Anthropologist) تھیں کے بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کہتی ہیں کہ’’جب خلیفہ نے یہ بات کی کہ وہ فرانس میں جو مختلف حملے ہوئے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں تو انہوں نے واضح کر دیا کہ اسلام کا ایسے حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو حقیقی تصویر پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان آسانی سے مغربی دنیا میں انٹیگریٹ (Integrate) ہو سکتے ہیں اور کہنے لگیں کہ جو کہتے ہیں کہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، مسلمان وہاں مل کر نہیں رہ سکتے وہ غلط کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آج کی تقریر سننی چاہیے تھی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم نومبر 2019ء)
٭…حضور انور ایدةاللہ تعالیٰ اپنے UNESCO کے خطاب کے بعد ایک مہان برنرڈ (Bernard) صاحب کا تاثر ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ’’ہم ٹی وی پر اسلام کے بارے میں جو پروپیگنڈا سنتے تھے آج اس سے بالکل مختلف اسلام کی تعلیم پیش کی گئی ہے اور یہی حقیقی اسلام ہے۔…میں نے آج آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم حاصل کیا ہے کہ کس طرح مدینے میں بہت اعلیٰ معاشرہ قائم کیا۔ مجھے آج پہلی دفعہ پتا چلا ہے کہ اسلام نے علم کے میدان میں کتنا بڑا حصہ لیا اور دنیا کو علم دیا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 29؍نومبر 2019ء)
خدا تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کو صحت والی طویل عمر عطا کرے جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں اور اس پر اٹھنے والے ہر اعتراض کا شافی جواب بھی دیتے ہیں۔ آمین
٭…٭…٭