حضورانور کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز معرکہ آرا اختتامی خطاب فرمودہ 07؍اگست 2022ء (خلاصہ)
اسلام ہر طبقے کے حقوق کا حقیقی محافظ ہے
٭…اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مذہب نے اس تفصیل سے حقوق کو بیان نہیں کیا جس تفصیل سے اسلام نے بیان کیا ہے
٭…اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مردوں، عورتوں، سائل اور محروموں کے حقوق کا بیان
٭…اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق حقوق ادا کرنے والے ہوں تو دنیا ہمارے نمونوں کو دیکھتے ہوئےاپنے نئے سے نئے قوانین وضع کرنے کی بجائے اسلام کی خوب صورت تعلیم کی طرف متوجہ ہوگی
٭…اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلامی تعلیم کی عملی مثال قائم کرتے ہوئے اس زمانے کےامام کے مشن کو پورا کرنے میں معاون و مددگار بن سکیں
(حدیقۃ المہدی 7؍ اگست 2022ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل) آج جلسہ سالانہ کا آخری دن ہے۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازِ ظہر و عصر سے قبل عالمی بیعت لی جبکہ آج شام جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے پُرمعارف خطاب فرمایا۔ اختتامی خطاب کے لیے حضورانور کا قافلہ ایم ٹی اے کی سکرین پر چار بج کر تیرہ منٹ پر نمودار ہوا۔ سوا چار بجے حضورانور نعرہ ہائے تکبیر کی گونج میں جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مولانا عبد المومن طاہر صاحب (انچارج عربک ڈیسک) کو سورۃ النساء کی آیات 37تا41کی تلاوت کرنے اور تفسیر صغیر سے ان کا ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔
اس کے بعد مکرم ربیع مفلح عودہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عربی قصیدہ
یا قلبی اذکر أحمدا عینَ الہدی مُفنی العدا
کے منتخب اشعار پڑھ کر سنائے۔ ان اشعار کا اردو ترجمہ مکرم حافظ سعید الرحمٰن صاحب (مربی سلسلہ رشین ڈیسک) کو پڑھنے کی سعادت ملی۔ بعد ازاں مکرم مصور احمد صاحب آف آسٹریا کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام:
جمال و حُسن قرآں نُورِ جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کی سعادت ملی۔اس کے بعد پروگرام کے مطابق مکرم سیکرٹری صاحب تعلیم جماعت یوکے نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے کل 161؍طلبہ کے نام پڑھ کر سنائے۔
بعد ازاں مکرم امیر صاحب یوکے نے احمدیہ پیس پرائز کے ناموں کا اعلان کیا۔ امسال ڈاکٹرTadatoshi Akiba آف جاپان احمدیہ پیس پرائز حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرے۔ یہ انعام انہیں آئندہ کسی پیس سمپوزیم میں دیا جائے گا۔
پانچ بجے کے قریب حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
اختتامی خطاب
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسلام نے مختلف لوگوں، طبقوں اور کُل مخلوق کے جو حقوق قائم کیے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر مَیں نے 2019ء اور پھر 2021ء کے جلسہ سالانہ کی تقاریر میں کیا تھا۔ لیکن جس تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے اِن حقوق کا ذکر فرمایا اور جس طرح رسول اللہﷺ نے ان حقوق کو قائم فرمایا اور پھر جس طرح آپؐ کے غلامِ صادق حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اِس زمانےمیں اِن حقوق کی تفصیل بیان فرمائی ہے، کئی گھنٹوں میں بھی اُس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔
آج بھی مَیں بعض حقوق کا ذکر کروں گا۔ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مذہب نے اس تفصیل سے حقوق کو بیان نہیں کیا جس تفصیل سے اسلام نے بیان کیا ہے۔ جب کوئی انصاف پسند انسان اسلام کے بیان فرمودہ حقوق کو سنتا ہے تو اسلام کی خوب صورت تعلیم کا حسن نکھر کراس کے سامنے آتا ہے۔ چنانچہ انصاف پسند لوگ ہماری تقاریب میں بھی اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔
آج سب سے پہلے مَیں مردوں اور عورتوں کے حقوق کا ذکر کروں گا۔ ان دونوں طبقوں کے حقوق پر بہت باتیں ہوتی ہیں، بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں مگر وہ سب افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ آنحضورﷺ نے اُس زمانے میں عورتوں کے حقوق قائم فرمائے جب عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اوراسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر اسی سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔‘ پس مرد اورعورت نفسِ واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک ہی جنس ہیں۔ جب ایک ہی جنس ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ بھی ایک جیسے بنائے ہیں۔ ان کے احساسات اورجذبات ایک ہی طرح کے ہیں۔ یہ آیت نکاح کے موقعے پر بھی پڑھی جاتی ہےگویا شادی کے بندھن میں بندھتے وقت ہی مرد پر یہ واضح کردیا جاتا ہے کہ یہ بندھن تب ہی مضبوط ہوگا جب مرد یہ یاد رکھے کہ احساس، جذبات،عقل اور حقوق کے اعتبار سے مرد و عورت برابر ہیں۔
آنحضورﷺ عورتوں سے اہم امور میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ آپؐ کے اس اسوۂ حسنہ نے عورتوں میں اتنی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ مردوں کی بےجا روک ٹوک کے سامنے جواب دے دیا کرتیں۔ عورتیں دینی تعلیم حاصل کرتیں اور بعض دینی معاملات میں صحابیات خلفاء کو بھی اپنی رائے دے دیا کرتیں۔ اسلام نے میاں بیوی کویہ توجہ بھی دلائی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتے داروں کا بھی خیال رکھو۔ وسیع تر حقوق کا تحفظ اور ان کا قیام معاشرے کے امن کا ضامن ہے۔
اسلام نے مرد اور عورت دونوں کے ترکے کے حق کوقائم فرمایا۔ عورت کو اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے ترکے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ آج عورتوں کے حقوق کا نعرہ لگانے والے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی تاریخ کو دیکھیں۔ عورت کے حقوق پامال کرنے کی ان کی تاریخ اتنی پرانی نہیں، یہ کوئی سینکڑوں سال پرانی بات نہیں۔ اس کے باوجود اسلام پر اعتراض کو ڈھٹائی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مرد اور عورت کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اگر تم ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہو گے تو تم اس بات کے حقدار ہو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نوازے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے واے مردوں اور عورتوں دونوں کواس بات کی ضمانت دی کہ اللہ نہ صرف تمہیں بخش دے گا بلکہ تمہیں اجر عظیم بھی عطا کرے گا۔ پس بندے کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حق کا مطالبہ کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کاسلوک ایسا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ بندے کا حق ادا کررہا ہے۔
حضور انور نے سورۃ الاحزاب کی آیت 36 کے حوالے سے فرمایا کہ یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم یہ ہے اسلام کی خوبصورتی کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف مرد اور عورت دونوں کو تلقین فرمارہا ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کرو بلکہ خود اللہ تعالیٰ بھی مرد اورعورت دونوں کو جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کا، معاشرے کا حق ادا کرنے والےاور پاکیزگی رکھنے والے ہیں اجر دینے کا وعدہ فرمارہا ہے۔
اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کو برابری کا مقام دیتا ہے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اسلام مرد و عورت میں امتیازکرتا ہے۔ یہ فرق وہاں ہے جہاں جسمانی ساخت اور گھریلو فرائض ادا کرنے فرض ہے۔ ایک حسین معاشرہ قائم کرنے کی خاطرعورت اور مرد اپنے فرائض کو سمجھیں اور ادا کریں تا کہ گھر جنت نظیر بنیں۔ اعتراض کرنے والوں کے گھر اس لیےبے اعتمادی اور فساد کا نمونہ بنے ہوئے ہیں کہ اپنے فرائض کو بھول گئے ہیں۔ ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرتے۔ اس طرح بچوں کی تربیت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ پس ہم احمدی اگر حق ادا کرنے والے بن جائیں گے تو ایک حسین معاشرہ قائم کرنے والے بن جائیں گے۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ک حالتِ جنگ میں کسی یتیم، کسی بچے، کسی عورت اور کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا۔ اپنی اصلاح کرنا اور حسن سلوک سے پیش آنا کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ یعنی جنگ کی حالت میں بعض باتوں کا خیال نہیں رہتا لیکن یہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں، عورتوں اور ضعیف العمر افراد کے حقوق ادا کرنے کا ایک ضابطہ قائم فرمایا۔ اسلام پر الزام ہے کہ ظلم کرتے ہیں حالانہ اسلام تو ظلم روک کر رکھے ہوئے ہے۔ بیویوں سے حسن معاشرت کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہترین ہے اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سے بہترین ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ہمیں توکمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہوکر عورت سے جنگ کریں، ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔ خاوند کا کام ہے کہ نیکی کرے کیونکہ عورتیں اپنے خاوند کا اثر لیتی ہیں۔ خاوند اگر برا نمونہ دکھائے تو عورتوں بھی اچھی نہیں بنیں سکیں گی۔ خدا نے عورت اور مرد میں مساوات رکھی ہے اس لیے عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں گرمی کے موسم میں بھی قید و حبس میں نہ رکھا جائے۔ عورتوں کو طبعیت کی تازگی کے لیے گھر سے نکلنے دینا بالکل جائز ہے۔ اس لیے ہم بھی اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ مکمل پردہ کی پابندی کے ساتھ سیر کرتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ عورتوں کے حق کی بات ہی کی ہے لیکن جہاں تک مردوں کے حق کی بات ہے تو مرد خود بھی اپنے حق لے لیتا ہے اوراسی لیے اسلام نے عورتوں کے حقووق کی حفاظت کی بات کی ہے۔ لیکن اسلام نے پھر بھی مردوں کے حقوق کی نفی نہیں کی بلکہ اسلام نے عورتوں کو بھی کہا ہے کہ مردوں کے جو فرائض ہیں وہ بھی ادا کرو ورنہ تم قصور وار ٹھرو گی۔
سوالی اور محروم کے حقوق
اس کے بعد حضورِانور نے معاشرہ کا ایک اور کمزور طبقہ سوالی اور محروم کے حقوق کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن میں اللہ کے نزدیک اپنے مال کو کمزوروں اور ضرورت مندوں کی خاظر خرچ کرنے والے ہی متقی ہیں ان میں اسیراور لپٹ کر سوال نہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ نفلی صدقہ استطاعت اور تقویٰ کے مناسب حال ہے۔ اس لیے اس کی شرح مختص نہیں کی گی۔ پھر قرآن کریم میں ظاہر اور پوشیدہ خرچ کرنے کا حکم ہے۔ یہاں زکوۃ سے مراد نہیں کہ وہ پوشیدہ نہیں ہو سکتی بلکہ نفلی صدقہ مراد ہے۔ ظاہراً خرچ اس لیے فرمایا کہ دوسروں کو نیکی کی ترغیب ہو اور پوشیدہ اس لیے فرمایا کہ سفید پوش لوگوں کا پردہ رہے۔
قرآن میں ایک اور جگہ خرچ کا مصرف سائل بتایا ہے۔ سائل سے مراد پیشہ ورمانگنے والا نہیں کہ سوال کرنا توکل کے بالکل خلاف ہے۔ حضورﷺ نے سوال سے سختی سے منع فرمایا اور حضرت عمرؓ ایسے انسان کا مال پھینک کراس کو کام کی ترغیب دیتے تھے۔ یہاں سائل سے مراد وہ ہے جو در حقیقت معذور یا بزرگ یا عیال دار یا ہنرمند ہو اورکام چلانے کے لیے سوال کرنے والے بن جائیں۔ ان کو بھی بہر حال سوال کے لیے اکسایا نہیں گیا لیکن اسلام نے ان کو سائل کہہ دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک بھائی ہی بھائی کےکام آتا ہے۔
دوسرا مصرف قرآن کریم نے صدقے کا محروم لوگوں کا بیان ہوا ہے۔اس آیت میں وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ سائل اور محروم دونوں میں بیان ہوا ہے، ان لوگوں کا ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۔ یہاں ایسے لوگوں کا بیان ہے جو اپنی غربت کو چھپانے کے لیے امراء سے بھی بچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قرآن کریم نے فرمایا کہ ان لوگوں کو تلاش کرو جو ان کا حق ان کو دو، دیکھو غور کرو کون کون غریب ہے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھو!
محروم کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہیں سکتے۔ سو ان معنوں کی رو سے وہ لوگ ہیں جو بوڑھے گونگے، پردہ دارعوتیں یا بچے یا جانور ہیں جن کو زبان ہی نہ دی۔ تو ایسے لوگوں ہر خرچ کرنا صدقے میں داخل ہے۔ آنحضرتﷺ سوال کرنے والے کو کیسے جواب دیتے تھے۔ اس بارے میں حضور انور نے ایک حدیث پیش کی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب سوال پیش کیا جاتا یا ضرورت پیش کی جاتی تو فرماتے کہ تم بھی سفارش کرو تم کو بھی ثواب ملے گا۔ اور اللہ اپنے نبیﷺ کی زبان سے جتنی چاہے کا ضرورت پوری کر دے گا۔ پھر سوالی کا حق قائم نہیں کروایا بلکہ اس بارے میں کوشش کرنے والے کو بھی ثواب کا حق دار بنایا۔ توجہ دو اگر اپنے وسائل نہیں تو دلوایا کرو جہاں سے مل سکیں۔
عام سوالی کے لیے تو یہ حق قائم کیا کہ پورے کرولیکن ساتھ ہی امت کے افراد کو محبت اور غیرت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ کسی سے نہ مانگو۔ مانگنا اچھی بات نہیں۔ فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ تو وہی ہے جو خرچ کر رہا ہےاور نچلا ہاتھ مانگ رہا ہے۔
پھر آپﷺ نے فرمایا: کیا میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر شخص کے بارے میں بتاؤں؟ فرمایا کہ جو شخص اپنے گھوڑے کو لیے ہوئے اللہ کی راہ میں جائے اور مارا جائے یعنی جہاد کرے۔ پھر فرمایا: اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس کے قریب ہے۔ فرمایا: جو شخص لوگوں سے جدا ہو کر گھاٹ میں چلا جائے اور نماز ادا کرے اور صدقہ دے اور لوگوں کی برائیوں سے دور رہے۔ یعنی چھپ کر عبادت کرے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور بری مجالس سے بچے۔ حضور انور نے اس کی وضاحت میں فرمایا کہ آج کل تو ایسے کئی مواقع ہیں۔ ٹی وی انٹرنیٹ اور کمپیوٹرپر دن رات آتے رہتے ہیں۔ جس سے اکثر لوگ برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں خاص طور پر نوجوان۔ فرمایا ان چیزوں سے دور رہو۔ عبادت توجہ سے کرو مالی قربانیاں کرو تو یہ جہاد کے قریب ہے۔ پھر فرمایا کہ اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو سب سے بد تر ہے۔ وہ شخص جس سےاللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے۔ سوالی اللہ کے نام پر سوال کر رہا ہے تو اس کی حاجت پوری نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے تو جھڑک دیتے ہو تو وہ بد تر انسان ہے۔
ایک لنگڑا آدمی ایک لنگڑی اونٹنی کے ساتھ حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی تعریف میں اشعار کہے۔ آپ نے اس پر لاحول ولا قوة الا باللہ کہا۔ پھر اس نے اپنی اونٹی کے لنگڑا ہونے کی شکایت کی حضرت عمرؓ نے وہ اونٹی اس سے لے لی اور اس کے بدلے میں ایک قیمتی سرخ اونٹ پر اس کو سوار کر وا دیا۔ اور زادِ راہ بھی دے دیا۔ فرمایا إنما الصدقات للفقراء والمساكين میں فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے یہ اہل کتاب ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کا جزیہ بھی معاف فرما دیا۔پھر حضرت عمرؓ نے اعلان کروا رکھا تھا کہ جس کو مال چاہیے وہ میرے پاس آئے۔ کیونکہ اللہ نے مجھے ان کا مال کنندہ اور خزانچی بنا رکھا ہے۔ چنانچہ جہاں کہ آپؓ نے مانگنے والوں کے تھیلے الٹا دیے کیونکہ ان کو مانگنے کی عادت تھی اور وہ صرف مال جمع کرنا چاہتا تھا وہاں عام طور پر سائل کو اس کا حق دیا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں کہ بعض لوگ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں۔ مولویت کی رگ ہو تو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مطالب سمجھانے لگ جاتے ہیں۔ اور اس پر مولویت کا رعب بٹھا کر سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں۔ یہ لوگ اتنا نہیں سوچتے کہ اگر سائل باوجود صحت کے سوال کرتا ہے وہ خود گناہ کرتا ہے۔اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا۔ یعنی اگر کوئی باوجود صحت کے مانگ رہا ہے تو اسے دو بعد میں سمجھا بھی دو لیکن پہلے دو تو سہی۔ تم اگر کچھ دے دو گے تو تمہیں تو کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ خواہ سائل سوار ہو کر بھی آئےتو بھی کچھ دے دینا چاہیے اور قرآن میں و اما السائل فلا تنھر کے الفاظ آئے ہیں۔ کہ سائل کو مت جھڑک۔
فرمایا بعض دفعہ نیکی کی روک پیدا ہو جاتی ہے۔ شیطان روک دیتا ہے۔ تو اگر ایک نیکی کرو کے تو دوسری نیکی خود بخود ہوتی چلی جائے گی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا طریق بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کہتے ہیں ماشٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کے بیوی نے انہیں بتایا کہ ماسٹر صاحب حضور کے واقعات سناتے تھے۔ ایک بار بتایا کہ ایک بار ڈاکیا آیا تو حضورؑ کے پاس چائے پڑی ہوئی تھی تو کسی آدمی نے چائے مانگ لی۔ حضورؑ نے اس کو مٹھی بھر کر چائے کی پتی دے دی۔ اس کو دیکھ کر ڈاکیا نے کہا کہ چائے کی مجھے بھی عادت ہے۔ اس کا بھی دل چاہا ہو گا تو حضورؑ نے اس کو بھی دے دی۔ اس نے کہا کہ حضور دودھ اور میٹھا کہاں سے لاؤں گا؟ اس پر اسے ایک روپیہ بھی دے دیا۔
انہیں سے ایک اور روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ماسٹر صاحب نے سنایا کہ سردیوں میں ایک بار ڈاکیا خط لایا اور کہا کہ حضورؑ مجھے سردی لگی ہے۔ آپ مجھے اپنا کوٹ دے دیں۔ حضورؑ اسی وقت اندر گئے اور دو گرم کوٹ لے کر آ گئے۔ کہنے لگے کہ جو پسند ہو لے لو۔ اس نے کہا مجھے دونوں پسند ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اچھا چلو دونوں لے لو۔
ایک بار ایک سائل کی دُور سے درد بھری آواز آئی جو ملاقاتیوں کی آوازوں میں گُم ہوگئی۔ کچھ دیر بعد جب وہ سائل دوبارہ آیا تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ لپک کر باہر آئے اور اس کو کچھ عطا کرنے کے بعد فرمایا میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بےچین تھی اور مَیں نے دعا کی تھی کہ خدا اس سائل کو واپس لائے۔
حضرت مصلح موعودؓ الذاریات آیت 20 کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اموال میں مساکین کا حق رکھنےکی یہ وجہ ہے کہ دنیا میں امیر اور غریب بدلتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا کو اگر مجموعی نگاہ سے دیکھا جائےتو کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں بلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دنیا کی تمام اشیاء اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے بحیثیت جماعت پیدا کی ہیں اس لیے اسلام کسی کو مالک بلا شرکتِ غیر تسلیم نہیں کرتا اور دوسروں کو بھی اموال میں حق دیتا ہے۔
ایک اور آیت کی تفسیر میں آپؓ فرماتے ہیں کہ اگر سائل کو بخل کی بجائے اس وجہ سے نہیں دیتا کہ قوم میں سوال کی عادت پروان نہ چڑھے تو یہ جائز ہے۔ پھر نشّے وغیرہ کے عادی کو اگر نہیں دیتا تو یہ بھی نیکی ہے۔
یہ دو طبقوں کے حقوق آج مَیں نے بیان کیے ہیں۔ یہ باتیں ہماری علمی حالت کے ساتھ ساتھ عملی حالت میں بھی بہتری لانے والی ہونی چاہئیں۔ خدا کرے کہ ہم ان حقوق اور معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی گھر کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں۔ اگر ہم میاں بیوی اور بچوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں گے تو معاشرہ بھی پُرامن رہے گا۔ گھریلو فضا پُرامن رہنے سے ایک مثالی معاشرےکا قیام ہوگا اور دنیا ہمارے نمونوں کو دیکھتے ہوئےاپنے نئے سے نئے قوانین وضع کرنے کی بجائے اسلام کی خوب صورت تعلیم کی طرف متوجہ ہوگی۔
معاشرے میں امن قائم کرنے اور آپس میں پیار ومحبت کےقیام کے لیے سائل اور محروم کے حقوق قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ دنیا والے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حقوق قائم کرتے ہیں لیکن اسلام بےلوث ہوکر یہ حقوق قائم فرماتا ہے۔ اس تعلیم کا عملی نمونہ ہی دنیا کوحقیقی اسلام سےروشناس کروانے اور تبلیغ کے میدان کھولنے کا ذریعہ بنے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلامی تعلیم کی عملی مثال قائم کرتے ہوئے اس زمانے کےامام کے مشن کو پورا کرنے میں معاون و مددگار بن سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں بھی اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لیے، معاشرے کے محروم طبقے کےلیے، اسیرانِ راہِ مولیٰ کی رہائی کے لیے، دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کے لیے، اس وبا کے جلد خاتمے کےلیے اور جلسے کے مہمانوں کی بخیریت واپسی کے لیے دعا کریں۔ اللہ کرے کہ اگلا جلسہ سالانہ ہم مکمل طور پر آزادانہ ماحول میں پرانی رونقوں کے ساتھ منعقد کرسکیں اور اس کے فیض سے سب خواہش رکھنے والے فیض یاب ہوسکیں۔
اس کے بعد 6 بجکر8 منٹ پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے حاضری کی رپورٹ کی بابت بتاتے ہوئے فرمایا کہ امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سےکُل حاضری 26ہزار 649ہے۔11ہزار 862 مرد 10ہزار687عورتیں ، کارکنان 2ہزار600 جبکہ بچوں کی تعداد 1500 ہے۔امسال 53ممالک لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ اس جلسہ میں شریک ہوئے۔
دعا کے بعد جلسہ گاہ میں موجود مختلف گروپس نے ترانے پیش کیے گئے۔
6 بج کر29 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے السلام علیکم ورحمۃ کا تحفہ پیش کیا جس کے بعد یہ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔
……………
ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ الودود بنصرہ العزیز اور دنیا بھر میں بسنے والے تمام احمدیوں کوعالمگیر اور تاریخی جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ءکے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ تمام احمدی اس جلسے کی برکات سے وافر حصہ لینے کی توفیق پانے والے ہوں۔ آمین
(شیخ لطیف احمد، اظہار احمد راجہ، ذیشان محمود، حافظ نعمان احمد خان، سیّد احسان احمد)
٭…٭…٭