مضامین

قبریں جواب دے رہی ہیں!

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

(رومن کیتھولک پیشوا پوپ فرانسس کے دورہ ٔکینیڈا کے تناظر میں لکھی گئی خصوصی رپورٹ)

کینیڈا کے بہت سے آبائی قبائل نے پوپ فرانسس کی کھلے عام ندامت اور معافی کو ’صحیح سمت میں‘ صرف پہلے قدم کے طور پر دیکھا ہے اور کینیڈین حکومت، کینیڈین معاشرہ اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر کیے گئے مظالم کا مداوا عملی طور پر بھی کیا جائے

والدین کے لیے بچے کی پیدائش ایک خاص قسم کی خوشی اور احساسِ ذمہ داری کاتجربہ ہوتا ہے۔ پیدائش سے لےکر جوانی بلکہ والدین کی زندگی ساتھ دے تو بچوں کے بڑھاپے تک ان کی حفاظت کے لیے وہمی اور پریشان رہتے ہیں ۔ ابتدا میں فکر ہوتی ہے کہ بھوکا تو نہیں؟ اس نے ڈکار لیا ہے کہ نہیں؟ رو کیوں رہا ہے؟ رو کیوں نہیں رہا ہے؟ کچھ بڑا ہوتا ہے اور ہم عمروں کے ساتھ کھیلنے کودنے لگتا ہے تو ہر وقت دھیان اس طرف رہتا ہے کہ چوٹ نہ لگ جائے، کسی دوسرے بچے کے ساتھ لڑائی نہ ہوجائے۔ ذرا سی دیر ہوجائے تو والدین خود میدان میں پہنچ جاتے ہیں اور بہت سے بچوں میں جب تک اپنے بچے کی جھلک نظر نہ آجائے انہیں بے چینی اور تکلیف کا احساس رہتا ہے۔ اور یہ کہانی پوری دُنیا کے ہر شہر، قصبہ اور گاؤں میں دہرائی جاتی ہے۔

وہ گاؤں بھی ویسا ہی تھا۔ والدین سارا دن جنگلوں میں درخت کاٹتے، جانوروں کا شکار کرتے، جھیلوں سے مچھلیاں پکڑتے اور بچے کھیلتے کودتے رہتے یا والدین کی مدد کرتے۔

پھر ایک چمکتے دن میں ایسی تاریک رات آئی کہ سارے گاؤں کی زندگی ہی بدل گئی، اور ساتھ والے گاؤں کی بھی اور اس کے ساتھ والے گاؤں کی بھی اور اس کے ساتھ والے گاؤں کی بھی ان کے ساتھ والے سب معلوم دیہاتوں، گاؤں اور قصبوں کی بھی۔

تاجِ برطانیہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کینیڈا کی سرزمین کو باقاعدہ طور پر کالونی اور یہاں کے مقامی رہائشیوں کو اپنے زیرِ نگیں کرلیا جائے گا۔ عیسائی مشنریوں نے حکومت کی سرپرستی میں گرجا گھروں کی تعمیر شروع کردی اور مقامی لوگوں میں عیسائیت کا پیغام پہنچانا شروع کردیا۔ عیسائی تنظیموں نے ایسے اسکول کھولےجہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ بائبل کے درس دیے جاتے۔ کینیڈا میں برطانوی حکمرانوں اور مشنریوں نے فیصلہ کیا کہ مقامی کینیڈین کے بچوں کو ’’فرسودہ‘‘ ماحول سے نکال کر ’’اچھے اور ماڈرن عیسائی‘‘ بنایا جائے۔چنانچہ حکام نے مقامی قوم کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچے ، والدین سے زبردستی چھین کر، ان اسکولوں میں تعمیر شدہ ہوسٹلز میں، جن کی نگرانی چرچ کے ذمہ تھی، منتقل کردیے جہاں ان کو انگریزی سکھائی جاتی اور بائبل کی دعائیں یاد کروائی جاتیں۔یہاں پر ان بچوں کو مادری زبانیں بولنے اور اپنےکلچر کے مطابق رہنے سہنے پر مکمل پابندی لگادی گئی۔ ان ننھے منے بچوں کو انگریزی بولنے یا بائبل یاد کرنے میں دشواری ہوتی تو سخت سزائیں دی جاتیں، منجمدکرنے والی سردی میں کھڑا کردیا جاتا، بھوکا رکھا جاتا، چھڑیوں سے مارا جاتا ، جنسی تشدد کیا جاتا اور سب کے سامنے سخت ذلیل کیا جاتا۔ اور جو بچے یہ سب کچھ برداشت نہ کرپاتے ان کے مردہ جسموں کو اسکولوں کے صحن میں اسی مقصد کے لیے تیار کیے گئے گڑھوں میں پھینک دیا جاتا۔ دسیوں ہزار بچوں کی نعشیں ان گڑھے نما اجتماعی قبروں میں ہمیشہ کے لیے چھپادی گئیں۔ ان کے والدین اپنے بچوں کا انتظار کرتے کرتے اس دُنیا سے چلے گئے۔ انہیں یہی بتایا گیا کہ ان کے بچے اسکولوں سے بھاگ گئے ہیں۔ کچھ والدین اس بات پر یقین کرکے اپنے بچوں کو جنگلوںمیں، پہاڑوں میں، دریاؤں میں، جھیلوں میں تلاش کرتے کرتے خود گم ہوگئے۔ ان بچوں کے بہن بھائی، تایازاد، خالہ زاد، بھانجے بھتیجے اب تک ان کو تلاش کررہے ہیں۔

1874ء سے 1996ء تک قائم رہنے والے ان اسکولوں کے مظالم کا واویلا مقامی کینیڈین قبائل کرتے رہے ہیں مگر دُنیا کے کان ان کے لیے بہرے ہوچکے ہیں۔ ان قبائل کو آج 2022ء میں بھی وہ وسائل دستیاب نہیں ہیں جو باقی کینیڈینز کو ہیں۔ اکثر کی رہائش اب بھی دوردراز پسماندہ علاقوں میں ہے جہاں تعلیم اور صحت کے بنیادی مسائل حل طلب ہیں۔ 2021ء میں پہلی دفعہ ان کو فنڈز جاری کیے گئے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے کلچر کے مطابق تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لیکن یہ فنڈز اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔

اور اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ان قبروں میں دفن بچوں نے اپنے والدین اور پیاروں کی پکاروں کا جواب دینا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ چند سال پہلے کچھ قبائل نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے زیرِزمین گم شدہ قبروں کو تلاش کرنے کی تکنیک پر کام کرنا شروع کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2021ء میں ایسی کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جہاں کئی کئی سو بچوں کی باقیات دفن ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اگلے دس سالوں میں تقریباً 70 اجتماعی قبریں دریافت ہوں گی ۔ اس دوران ،تلاش شدہ قبروں سے بچوں کی نعشوں کو نکالنے، ان کے ڈی این اے کرکے ان کی شناخت کرانے اور ان کی باوقار طریقہ سے دوبارہ تدفین کرنے کے مراحل ہوں گے۔ ان بچوں کے رشتہ داروں میں کئی ابھی تک زندہ ہیں اور ان کے ڈی این اے کے ذریعہ ان بچوں کی شناخت ممکن ہوسکے گی ۔

کینیڈین عوام کے دیرینہ مطالبہ پر رومن کیتھولک فرقہ کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے 24 تا29؍ جولائی 2022ءکینیڈا کا دورہ کیا اور کینیڈا کے آبائی لوگوں کے اجتماعات میں ’’گہرے دکھ اور ندامت‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کینیڈا کے رہائشی اسکول کے نظام میں رومن کیتھولک چرچ کے کردار پر معذرت کی اور اسے ’’افسوسناک برائی‘‘ قرار دیا ہے۔ اور اقرار کیا کہ بہت سے عیسائیوں نے مقامی لوگوں پر ظلم کرنے والی طاقتوں کی نوآبادیاتی ذہنیت کی جوحمایت کی وہ انتہائی شرمناک تھی۔ پوپ فرانسس کی تقاریر کا اردو میں خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

’’مجھے انتہائی افسوس ہے۔ میں خاص طور پر اس طریقہ کار کی معافی مانگتا ہوں جس سے کلیسیا اور مذہبی برادریوں کے بہت سے ارکان نے ثقافتی تباہی اور ظلم و جبر کے منصوبوں سے بے اعتنائی برت کر، ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ میں یہاں آنے اور دردناک یادوں سے وابستہ ان جگہوں پر آپ کا ساتھ دینے کے لیے بے چین تھا۔میں ایک عظیم جدوجہد کے آغاز کے لیے آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں آپ کی آبائی سرزمین پر آیا ہوں کہ آپ کو اپنا غم ذاتی طور پر بتاسکوں اور آپ کے سامنے خدا سے معافی، شفا اور مفاہمت کی درخواست کروں، آپ سے اپنی قربت کا اظہار کروں۔

رہائشی اسکولوں نے مقامی لوگوں کی زبانوں اور ثقافتوں کو بدنام کیا اور انہیں کچل دیا اور خوفناک بدسلوکی کا باعث بنے جس کی لہریں آج بھی محسوس کی جارہی ہیں۔ رہائشی اسکولوں کا نظام مقامی لوگوں کے لیے ایک تباہ کن غلطی ہے۔اس افسوسناک برائی کے سامنے کلیسیا خدا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور اپنے بچوں کے گناہ کے لیے اس سے معافی مانگتی ہے۔ میں عاجزی کے ساتھ مقامی لوگوں کے خلاف بہت سے عیسائیوں کی برائی کے لیے معافی مانگتا ہوں۔‘‘

ان کی تقاریر میں سے بعض حصے ان کے اپنے الفاظ میں ذیل میں دیے جارہے ہیں۔

I am deeply sorry, …

Sorry for the ways that regrettably many Christians supported the colonizing mentality of the powers that oppressed the Indigenous people.…

I ask forgiveness in particular for the ways many members of the church and of religious communities cooperated, not the least through their indifference, in projects of cultural destruction and forced assimilation.…

I have been waiting to come here and be with you here from this place associated with painful memories, …

I would like to begin what I consider a penitential pilgrimage. I have come to your native lands to tell you in person of my sorrow, to implore God’s forgiveness, healing and reconciliation, to express my closeness and to pray with you and for you.…

In the face of this deplorable evil the church kneels before God and implores his forgiveness for the sins of her children.…

I humbly beg forgiveness for the evil committed by so many Christians against the Indigenous peoples.

کینیڈا کے بہت سے آبائی قبائل نے پوپ فرانسس کی کھلے عام ندامت اور معافی کو ’صحیح سمت میں‘ صرف پہلے قدم کے طور پر دیکھا ہے اور کینیڈین حکومت، کینیڈین معاشرہ اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر کیے گئے مظالم کا مداوا عملی طور پر بھی کیا جائے اور ملکہ برطانیہ بذاتِ خود کینیڈا میں آکر ان بچوں کی اجتماعی قبروں پر کھڑے ہوکر معافی مانگے، نیز ان قبائل کے رسوم و رواج کو پوری طرح تسلیم کیا جائے۔ علاوہ ازیں برطانوی حکمرانوں نے ان قبائل سے جو روایتی نوادرات چھینے تھے ان کا پتہ لگایا جائے اور ان قبائل کو واپس کیا جائے جن سے چھینے تھے۔ مزید برآں یہ کہ ان قبائل کو اپنے رسم و رواج کی تعلیم اپنی زبانوں میں حاصل کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان اجتماعی قبروں کی تلاش جدید طریقوں سے کرکے ایک ایک بچے کو شناخت کرکے الگ الگ عزت و احترام سے دفن کیا جائے۔

بظاہر یہ معاملات جلد حل ہوتے نظر نہیں آرہے لیکن جب تک ان اجتماعی قبروں سے بچوں کی خاموش آوازیں آتی رہیں گی اس عظیم انسانی المیہ کا مداوا نہیں ہوسکے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button