یہ اعلان اسلام کی بنیاد ہے کہ مجھے پکارو، مَیں سنوں گا
اس زمانے میں ہمیں زمانے کے امام کے ساتھ جڑ کر دعاؤں کی قبولیت کا بھی فہم و ادراک حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھنے کا بھی فہم حاصل ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کا بھی ادراک حاصل ہوا کیونکہ زمانے کے امام کے ساتھ چمٹنے سے اللہ تعالیٰ ان ماننے والوں کو بھی ہر ایک کے اپنے تعلق کے معیار کے مطابق جو اس کا خداتعالیٰ سے ہے، اپنی صفات کے جلوے دکھاتا ہے۔پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ صرف دعویٰ نہیں کہ اسلام کا خدا زندہ خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اسے پکارو، کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے بلکہ عملاً اس کے نمونے بھی دکھاتا ہے۔ پس اس اعلان سے اگر فائدہ اٹھانا ہے تو اس شرط پر عمل کرنا ہو گا کہ صرف اور صرف وہی معبود ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لئے باقی سب کچھ چھوڑنا ہو گا۔ اور جب دنیا کے تمام ذرائع خدا کے مقابلے پر ہیچ سمجھ کر چھوڑیں گے اور خالصۃً اسی کے ہو کر اس کو پکاریں گے پھر وہ ان پکارنے والوں کی پکار سنے گا، نوازے گا اور قبول کرے گا۔ہمیشہ ہمارے ذہن میں دعا کرتے ہوئے یہ بات ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی ہمارا رب ہے۔جب اس نے بغیرمانگے ہمارے لئے اتنے انتظامات کئے ہوئے ہیں تو جب ہم خالص ہو کر اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت کریں گے، اس کے احکامات پر عمل کریں گے تو کس قدر وہ پیارا خدا جو اپنے بندوں سے بےانتہا پیار کرتا ہے، ہماری طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے انعاموں اور فضلوں سے ہمیں نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تو خود کہہ دیا ہے کہ میں دعائیں سنتا ہوں، مجھے پکارو تاکہ میں تمہاری سنوں تو پھر کس قدر بدقسمتی ہے کہ ہم ضرورت کے وقت دوسری چیزوں پر زیادہ انحصارکریں، دوسروں پر زیادہ انحصار کریں اور اپنے پیارے رب کو پکارنے کی طرف کم توجہ ہو۔…. پس یہ اعلان ہی اصل میں اسلام کی بنیاد ہے کہ مجھے پکارو، میں سنوں گا۔ اور ایمان میں مضبوطی تبھی پیدا ہوتی ہے جب ایک سچا مسلمان اس بات کا خود تجربہ کرتا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍ اگست 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل1؍ستمبر2006ءصفحہ5)