خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 05؍اگست2022ء

یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسولؐ کی باتوں کو سننے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے ہم یہاں جمع ہوتے ہیں

دنیا یہ کوشش کرتی ہے کہ ہمیں رضاکارانہ کام کرنے کے لیے لوگ ملیں لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ اس کے بالکل برعکس مثال پیش کرتی ہے کہ اتنے کام کرنے والے آ جاتے ہیں کہ انتظامیہ کو مشکل پیش آ تی ہے کہ انہیں سنبھالیں کس طرح

جلسہ کے ان تین دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی اس جذبہ سے خدمت کریں کہ انہیں ہمیشہ یہ احساس رہے اور دل میں یہ رہے کہ ہم نے اپنے افسروں سے یا کسی مہمان کی طرف سے اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں لینا

جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر میزبانوں اور مہمانوں کو اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی بابت زرّیں نصائح

ایامِ جلسہ میں عمومی دعاؤں کے ساتھ ساتھ درود شریف پڑھنے کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 05؍اگست2022ء بمطابق 05؍ظہور1401 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی، آلٹن(ہمپشئر)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

خداتعالیٰ کےفضل سےاس سال جلسہ سالانہ برطانیہ 2019ء کے بعد دوبارہ وسیع پیمانے پر منعقد ہو رہا ہے۔

گذشتہ سال بھی جلسہ ہوا تھا لیکن محدود تعداد کے ساتھ۔ گو اس سال بھی یہ جلسہ سالانہ صرف برطانیہ جماعت کا ہے اور باہر کے مہمان بہت محدود تعداد میں شامل ہو رہے ہیں لیکن تینوں دن ان شاء اللہ تعالیٰ برطانیہ کی سب جماعتوں کو شامل ہونے کی اجازت ہے اور ان شاء اللہ ہوں گی۔ امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اچھی حاضری ہو جائے گی۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کووِڈ وبا کی وجہ سے باقاعدہ جلسہ سالانہ کا تسلسل ایک سال تو بالکل ہی توڑنا پڑا اور جلسہ کی برکات سے ہم باقاعدہ فیضیاب نہیں ہو سکے۔ اس سال بھی اس وبا کا زور کم زیادہ ہوتا رہا ہے اور آجکل بھی یہ پوری طرح ختم نہیں ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر، یہاں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی، گذشتہ دنوں میں یہ بڑھی ہے لیکن حکومت کی طرف سے جو اکٹھے ہونے پر پابندیاں تھیں وہ اب اتنی نہیں رہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم سب احتیاطی تدبیروں کو ختم کر دیں۔

سب احتیاطی پہلوؤں کو سب شاملین کو بہرحال سامنے رکھنا چاہیےاور ان کی پابندی کرنی چاہیے۔

احتیاطی تدبیروں میں سے ایک تو یہ ہے کہ سب شاملین بھی جب جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوں اس وقت اور ڈیوٹی والے بھی جب ڈیوٹیاں دے رہے ہوں اس وقت یا پھر باہر پھر رہے ہوں تب بھی ماسک پہن کر رکھنےکی پابندی کریں ۔ اسی طرح انتظامیہ نے بھی اس سال یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ صبح آتے ہوئے اور واپس جاتے ہوئے ہومیو پیتھی دوائی جو اُن کے خیال میں اس بیماری کے لیے بہتر ہے، دینے کا انتظام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں شفا بھی رکھے۔ دوائی میں شفا رکھنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن ہمیں ظاہری کوشش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں مَیں تمام شاملین سے کہوں گا کہ انتظامیہ سے تعاون کریں۔

جلسہ کے حوالے سے کارکنان، وہ رضا کار جو اپنا وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کے لیے قربان کرتے ہیں انہیں مَیں جلسہ سے عموماً ایک ہفتہ پہلے خطبہ میں بعض باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ گذشتہ خطبہ میں مَیں اس طرف توجہ نہیں دلا سکا اس لیے آج اس بارے میں کچھ باتیں کروں گا۔ بعض بچے، نوجوان اور ڈیوٹی میں نئے شامل ہونے والے بھی ہیں ان کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ گذشتہ تین سالوں میں پاکستان سے بھی یہاں بہت سے لوگ آئے ہیں جنہیں جلسہ کی ڈیوٹیوں کا تجربہ نہیں ہے۔ ایک لمبا عرصہ ہوگیاوہاں جلسے نہیں ہوئے۔ اس طرف توجہ دلانے سے ان کو ان کے جو اپنے فرائض ہیں ان کی ادائیگی کا بھی پتا چل جاتا ہے یا پتا چل جائے گا۔ اسی طرح پرانے کارکنان کو بھی یاددہانی ہو جاتی ہے۔ بہرحال مختصراً اس بارے میں کچھ کہوں گا اور اس کے علاوہ آنے والے مہمانوں سے بھی بعض باتیں یاددہانی کے طور پر کہوں گا۔ اگر ہم ان باتوں کو مدنظر رکھیں تو جلسہ کے حقیقی ماحول سے ان شاء اللہ تعالیٰ ہم فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں ہے۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)

بلکہ اللہ اور رسولؐ کی باتوں کو سننے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے ہم یہاں جمع ہوتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ جب ہم ان باتوں پر عمل کرتے ہیں جو اللہ اور رسولؐ نے کہیں تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی احسن رنگ میں ہم کرنے والے بن سکتے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا پہلے کارکنان سے چند باتیں کہنی چاہوں گا۔ ماسک کے بارے میں اور دوائی کے بارے میں تو میں نے پہلے ہی بتا دیا، اس کی پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں کو بھی، بچوں کو بھی، بوڑھوں کو بھی، عورتوں کو بھی اس بات کا شوق بھی ہے اور ادراک بھی ہے کہ ہم نے جلسہ پر آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے اور احسن رنگ میں خدمت بھی کرنی ہے۔ چاہے وہ لوگ جو خدمت کرنے والے ہیں کسی بھی پیشے سے تعلق رکھنے والے ہیں یا کسی بھی خاندان سے تعلق رکھنے والے ہیں، امیر ہیں یا غریب ہیں، سب اس جذبہ سے آتے ہیں۔ جلسہ کا کام صرف جلسہ کے ان تین دنوں میں نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ کئی ہفتے پہلے شروع ہو جاتا ہے اور اب تو ایم ٹی اے اپنی خبروں میں اور چھوٹے چھوٹے کلپس (clips)کی صورت میں یہ دکھاتا رہتا ہے کہ کس طرح کام ہو رہا ہے۔ کچھ کام بیشک باہر کی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں سے کروایا جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سا کام ہے جس کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قوت رضا کار اپنا وقت قربان کر کے، اپنی خدمات پیش کر کے مہیا کرتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہر طبقہ کے لوگ اس میں شامل ہیں۔

دنیا یہ کوشش کرتی ہے کہ ہمیں رضاکارانہ کام کرنے کے لیے لوگ ملیں لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ اس کے بالکل برعکس مثال پیش کرتی ہے کہ اتنے کام کرنے والے آجاتے ہیں کہ انتظامیہ کو مشکل پیش آ تی ہے کہ انہیں سنبھالیں کس طرح۔

جو جلسہ کی باقاعدہ ڈیوٹیاں ہیں ان میں تو پہلے چارٹ بن جاتے ہیں، پروگرام بن جاتے ہیں، ہر شعبہ کو اس کی ضرورت کے مطابق کارکن مہیا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کر دیے جاتے ہیں لیکن جلسہ سے پہلے کا جو وقارعمل ہے یا بعد کا جو وقار عمل کا کام ہے اس میں بسا اوقات توقع سے زیادہ افراد آ جاتے ہیں کیونکہ عمومی تحریک کی جاتی ہے۔ ابھی گذشتہ اتوار کو ہی اتنے کارکن حدیقة المہدی میں جمع ہو گئے جس کی انتظامیہ کو امید بھی نہیں تھی اور ان کے لیے مجھے پتا لگا ہے کھانے کا بھی صحیح انتظام نہیں ہو سکا حالانکہ انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ دیکھ لیتے کہ اتنے لوگ ہیں تو پہلے ہی انتظام کرتے۔ یہ ضیافت والوں کا کام ہے۔ یہ رضا کار کوئی کھانے کے موقع پر تو جمع نہیں ہو گئے تھے۔ آخر صبح سے کام کر رہے ہیں یا وہاں موجود تھے۔ میرے خیال میں جب گذشتہ جمعہ کو میں نے آخر میں جلسہ کے حوالے سے دعا کے لیے کہا اور جو کام کرنے والے ہیں ان کے لیے بھی دعا کے لیے کہا تو فوراً ایک جذبہ کے ساتھ اَور لوگوں نے بھی اپنی خدمات پیش کیں لیکن بہرحال انتظامیہ کو چاہیے کہ خاص طور پر جو weekends ہیں ان پہ خاص انتظام رکھا کرے۔ ضیافت کے شعبہ کو آئندہ کے لیے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے۔

اسی طرح ضیافت کے شعبہ کا یہ بھی کام ہے کہ جلسہ کے دنوں میں بھی عموماً وافر مقدار میں کھانا تیار کریں۔ اس سال جو جلسہ ہو رہا ہے کیونکہ اندازہ صحیح نہیں ہے، کچھ لوگوں کے تحفظات ہیں کہ پتا نہیں بیماری کی وجہ سے لوگ آئیں کہ نہ آئیں، کچھ خوف کی وجہ سے آئیں کہ نہ آئیں ۔کچھ کا خیال ہے کہ ایک عرصہ کے بعد جلسہ ہو رہا ہے اس لیے ضرور آئیں گے لیکن عموماً ہماری انتظامیہ کا، خاص طور پر کھانے والوں کا، ضیافت کا جہاں خرچ کرنے کا سوال آتا ہے وہ منفی طرف جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وافر مقدار میں کھانا تیار کریں اس امید پہ ہوتے ہیں کہ کم کھانا تیار کرو لوگ کم آئیں گے۔ یہ بالکل غلط چیز ہے۔

ضیافت کی ذمہ داری ہے کہ جو مہمان آ رہا ہے اس کی پوری طرح مہمان داری کریں۔

اسی طرح کھانے کے بارے میں اسی ضمن میں مَیں ہدایت دے دوں کہ آجکل گرمیوں کے دن ہیں تو ضیافت کے شعبہ کو چاہیے کہ جب گوشت کٹواتے ہیں تو جس طرح کٹتا جاتا ہے تھوڑا تھوڑا گوشت فوری طور پر چلر (chiller)میں چلا جانا چاہیے نہ یہ کہ سارا دن پڑا رہے اور خراب ہو اور پھر لوگوں کو بیمار کرے۔ اسی طرح باقی کھانے کی بھی تسلی کرنی چاہیے۔ بہرحال جو لوگ، خدمت کے لیے رضاکار آئے تھے جن کا مَیں پہلے ذکر کر رہا تھا، وہ تو خدمت کے لیے آئے تھے۔ انہیں کھانا ملا یا نہیں ملا وہ تو خاموشی سے چلے گئے لیکن انتظامیہ کی ایک کمی سامنے آ گئی۔

کارکنوں کو بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ

جلسہ کے ان تین دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی اس جذبہ سے خدمت کریں کہ انہیں ہمیشہ یہ احساس رہے اور دل میں یہ رہے کہ ہم نے اپنے افسروں سے یا کسی مہمان کی طرف سے اس خدمت کا کوئی صلہ نہیں لینا

اور نہ ہمیں صلہ ملنا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور اس صحابی کے اسوہ کو اوراس کی بیوی کے اسوہ کو سامنے رکھنا ہے جس نے بچوں کو بھی بھوکا سلا دیا تھا اور خود بھی بھوکے رہے اور مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا۔ مہمان پر یہی ظاہر کیا روشنی بجھا کر کہ جس طرح وہ بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو اتنا سراہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر دی اور اگلے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے یعنی اس مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے جو مسلمان کی تدبیر تھی اس پر اللہ تعالیٰ بھی ہنسا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر بڑا خوش ہوا اور ہنسا اور قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قربانی کرنے والوں کا ذکر فرمایا ہے۔

یہ قربانی کرنے والے ہیں جو بے نفس ہو کر قربانی کرتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّٰہ و یؤثرون علی انفسھم … الخ حدیث 3798)

پس یہ تھے صحابہؓ کے طریق مہمان نوازی کرنے کے، مہمان کی خدمت کرنے کے۔

کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر مہمان بھی وہ جو زمانے کے امام کے بلانے پر آئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کے لیے آئے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش لے کر آئے ہیں۔

پس بہت خوش قسمت ہیں وہ سب رضا کار جو دین کی خاطر آنے والے مہمانوں کی خدمت اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

جب بڑی تعداد میں لوگ ہوں تو مختلف مزاج کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ بعض زیادہ گرم طبیعت کے بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ سختی سے کارکن سے مخاطب ہو جاتے ہیں یا سختی سے کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کارکن کا کام ہے، مرد کارکنان کا بھی، لجنہ کی کارکنات کا بھی کہ کسی سے سختی نہیں کرنی۔ کسی سختی سے بولنے والے کا سختی سے جواب نہیں دینا بلکہ مسکراتے ہوئے جواب دینا ہے۔ اگر ضرورت پوری کر سکتے ہیں تو ضرورت پوری کریں ورنہ نرمی سے، پیار سے معذرت کر دیں یا اپنے بالا افسر کے پاس لے جائیں جو مہمان کا مسئلہ حل کر دے۔ بعض دفعہ یہ کام بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کےلیے یہ کام کرنا چاہیے۔ اپنے جذبات کو، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آپس میں بھی کارکنان جو ہیں اپنی زبان کو ایک دوسرے کے لیے نرم رکھیں۔ افسران اور نگران بھی اپنے معاونین کے ساتھ نرم زبان میں گفتگو کریں۔ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو پیار سے سمجھائیں۔ افسران کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ رضا کار اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں اور باوجود اس کے کہ کسی خاص شعبہ کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں خدمت کے جذبہ سے بے نفس ہو کر خدمت کر رہے ہیں تو ان کی عزت افزائی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آپس میں بھی سب کو مل جل کر کام کرنے کی توفیق دے اور یہ جذبہ اس وقت پیدا ہو گا جب افسروں کو بھی اور معاونین کو بھی اس بات کا ادراک ہو گا کہ ہم نے یہ خدمت قربانی کے جذبہ سے کرنی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے غلط رویے پر بھی خدمت اور قربانی کا کیا معیار قائم فرمایا اس بارے میں ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مہمان جو غیر مسلم تھا وہ آتا ہے تو اس کی کھانے سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ اسے بستر رات کو سونے کے لیے مہیا کیا جاتا ہے۔ رات کو زیادہ کھانے کی وجہ سے یا کسی وجہ سے اس کا پیٹ خراب ہو گیا یا جان بوجھ کر تنگ کرنے کی وجہ سے اس نے یہ حرکت کی کہ وہ اپنا بستر گندا کر کے صبح صبح چلا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس حرکت کا برا نہیں منایا بلکہ پانی منگوایا اور خود ہی اسے دھونے لگ گئے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ باوجود ہمارے کہنے کے کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم خادم حاضر ہیں ہمیں دھونے دیں، آپؐ نے فرمایا وہ میرا مہمان تھا۔ پس خود ہی یہ کام کروں گا۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ 295۔ایڈیشن1984ء)

(ماخوذ از مثنوی مولوی معنوی دفتر پنجم صفحہ 20 تا 25)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہےوہ اپنے مہمان کا احترام کرتا ہے۔

(صحیح البخاری، کتاب الأدب باب من کان یؤمن باللّٰہ … الخ حدیث 6018)

پس ہمارے سب رضا کاروں، کارکنان، کارکنات، افسر یا معاون سب کا فرض ہے کہ جو مہمان دین کی غرض سے آئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمان ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے ہیں، ان کی خدمت ہم قربانی کرکے بھی کریں گے۔ بلند حوصلگی کا مظاہرہ بھی ہر وقت کریں۔ خوش دلی سے چہرے پر بغیر کسی قسم کی ناپسندیدگی کے آثار ظاہر کیے خدمت کریں۔ یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کارکنان میں بہت سوں میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس جذبے سے سب کارکنان کام کریں گے۔ مختلف شعبوں کے جو افسران مقرر کیے گئے ہیں وہ بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں خدمت کا موقع مل رہا ہے وہ افسر بن کر نہیں بلکہ خادم بن کر اپنے فرائض ادا کریں۔ اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں تو ماتحت اور معاونین بھی جو ہیں وہ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مہمانوں سے حسن سلوک کے بارے میں بہت سے مواقع پر نصائح فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم جانتے ہو۔ بعض کو تم شناخت کرتے ہو بعض کو نہیں۔ اس لیے مناسب ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 226)پس یہ اصول ہمیشہ ہر کارکن کو اور خصوصاً ان کارکنان کو جن کا براہ راست لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے سامنے رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر شعبہ مہمان نوازی اور طعام وغیرہ کی جو خدمت ہے وہ اس پر بہت پابندی سے عمل کریں۔

اس سال کیونکہ covidکی وجہ سے احتیاط بھی بہت کرنی پڑے گی اس لیے ایسا انتظام ہونا چاہیے اور میرےخیال میں شعبہ نے یہ انتظام کرنے کی کوشش کی ہے کہ کھانے کے وقت زیادہ لوگ زیادہ دیر تک بیٹھے نہ رہیں اور کھانا کھا کر جلد مارکی سے نکل جائیں۔ مہمانوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور انتظامیہ سے تعاون کرنا چاہیے۔ کھانا کھاتے ہوئے تو مجبوری ہے۔ ویسے عام طور پر جیسا کہ میں نے کہا ماسک پہنے رکھنے کی پابندی کریں اور کھانا کھاتے ہوئے کم سے کم بولیں اور باتیں کریں۔ خاموشی سے کھانا کھانے کی کوشش کریں اور جلد فارغ ہو کر چلے جائیں۔ نہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالیں نہ انتظامیہ کو۔

کارکنان کو تو میں نے چند بنیادی باتیں کہہ دیں اور انہیں مہمانوں کی خدمت کی طرف توجہ بھی دلا دی۔

اب مہمان بھی چند باتیں سن لیں۔ اگر مہمان اس بات کو سمجھ جائیں اور اس کی پابندی کر لیں جو اسلام کی تعلیم ہے کہ مہمان اپنے میزبان پر غیر معمولی، غیرضروری بوجھ نہ ڈالے تو پھر محبت اور پیار والی فضا قائم رہتی ہے۔

مہمان اگر میزبان سے غلط توقعات یا ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کریں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پس مہمانوں کو بھی چاہیے کہ ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں۔ اگر یہ صورت ہوگی تو پھر گھر والے بھی سہولت میں رہیں گے اور جن کے سپرد مہمانوں کا انتظام ہے وہ بھی اور مہمان بھی سہولت میں رہیں گے۔ پس اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ جماعتی نظام کے تحت بھی جو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ ان کارکنان کے شکر گزار ہوں کہ ان کے احمدی بھائی بہنوں نے باوجود اپنی اچھی پوزیشنوں کے اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لیے پیش کیا ہوا ہے۔ بعض دفعہ کھانا مہمان کے مزاج کے مطابق نہیں بنتا حالانکہ اس جماعتی روایت کا ہر احمدی کو پتا ہے کہ جلسہ کے دنوں میں ہمارے ہاں عموماً آلو گوشت اور دال پکتی ہے تو مہمانوں کو ان کے مزاج کے مطابق کھانا نہ بھی ملے تو خوشی سے کھا لینا چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمان کو میزبان کی طرف سے جو بھی کھانا پیش کیا جائے اسے خوشی سے کھا لینا چاہیے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 204 حدیث 15048 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)

گذشتہ سالوں میں تو یہ ہوتا تھا کہ اگر کسی نے لنگر کا کھانا نہیں کھانا یا اس کا دل نہ چاہے تو عارضی طور پر یہاں جلسہ کے اس علاقے میں جو بازار لگایا جاتا ہے وہاں سے جا کر کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں۔ اس دفعہ تو بازار کی سہولت اس طرح میسر نہیں ہے اس لیے ایسے لوگوں کو جن کے کھانے کے مزاج مختلف ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خوشدلی سے جو میسر ہو کھا لینا چاہیے لیکن ضیافت والوں کو میں پھر کہوں گا کہ وہ اپنی بھرپور کوشش کریں کہ اچھا کھانا پکائیں۔ گو چند لوگ ہوتے ہیں اس مزاج کے لیکن وہ چند لوگ بھی بعض دفعہ پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ اچھے اخلاق کا مظاہرہ صرف کارکنوں کا ہی کام نہیں ہے بلکہ ہر شامل ہونے والے کا کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے شاملین جلسہ سے بھی فرمایا کہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو اور ایک دوسرے کا خیال رکھو۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

ہمیشہ ہر شامل ہونے والا یہ بات پیش نظر رکھے کہ اس نے اس جلسہ میں شمولیت اپنی دینی اور علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لیے کی ہے

اور اس بات کے حصول کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیےکہ یہ جلسہ خالصۃًللّٰہی جلسہ ہے۔ اس لیے کبھی بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسی قسم کی بے چینی اور رنجش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ کارکن بھی انسان ہیں۔ اگر ان سے کوئی زیادتی ہو جاتی ہے تو صَرفِ نظر کرنا چاہیے اور اپنے اخلاق کی درستگی کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض دفعہ ایسا ماحول بن جاتا ہے جہاں آپس میںکسی طرف سے، مہمانوں کی طرف سے بھی،کارکنوں کی طرف سے بھی،کوئی بات دوسرے کا غصہ بھڑکانے کا باعث بن جاتی ہے۔ لیکن اعلیٰ اخلاق تو یہی ہیں کہ صَرفِ نظر کرتے ہوئے انسان اس جگہ سے چلا جائے اور جھگڑے کو نہ بڑھائے۔ نوجوانوں میں بعض دفعہ ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ

ہم جس مقصد کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں وہ بہت بڑا مقصد ہے۔اپنی روحانی پیاس بجھانے کا مقصد ہے، اپنے دینی علم میں اضافے کا مقصد ہے،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے طریق سیکھنا مقصد ہے

تو پھر اس کے لیے کم از کم اپنے جذبات کی قربانی بھی دینی ہو گی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ بھی مدد مانگنی ہوگی۔ جب یہ جذبہ ابھرے گا، جب زبانیں ذکر الٰہی کی طرف متوجہ ہوں گی، جب توبہ اور استغفار کی طرف توجہ ہو گی تو پھر اگر کسی سے کوئی تکلیف پہنچ بھی جائے گی تو عفو اور درگذر سے کام لیا جائے گا۔ پس ہمیشہ ان دنوں میں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ یہاں ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے گھر چھوڑ کر سفر کر کے آئے ہیں۔ سفر کی دعا سکھاتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دعا کیا کرو کہ

اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں۔
تُو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہیں۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج باب استحباب الذکر اذا رکب … الخ حدیث (3275))

پس جب ہم اس طرح دعا کر رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے یہاں قیام کو بھی اور سفر کو بھی برکتوں سے بھر دے گا۔

پس ان دنوں کو دعاؤں اور ذکر الٰہی سے بھرنے کی کوشش کریں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ بعض لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جلسہ کی برکات سے مستفیض ہونے کے لیے آئے ہیں۔ انہیں پیچھے اپنے گھر والوں کی فکر بھی ہو گی تو آپؐ نے فرمایا یہ دعا کیا کرو

اے ہمارے خدا! مَیں پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اور بےچین کر نے والے مناظر سے، مال اور اہل و عیال میں بُرے نتیجہ سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج باب استحباب الذکر اذا رکب … الخ حدیث (3275))

بڑی جامع دعا ہے۔سفر میں اپنے آپ کو بھی ہر طرح سے محفوظ رکھنے کے لیے دعا ہے اور گھر والوں کے اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہنے کی بھی دعا ہے۔ ایسی سوچ اور ایسی دعاؤں سے زبانوں کو تر کرتے ہوئے جب یہاں ہر مرد، عورت پھر رہا ہو گا تو پھر جہاں ماحول پُرسکون ہو گا، دلوں کی تسکین کے سامان ہو رہے ہوں گے وہاں اللہ تعالیٰ ہر برے منظر سے بھی بچا کے رکھے گا۔

آجکل covidکی وجہ سے فکرمندی بھی ہے۔ دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ یہاں شاملین کو بھی محفوظ رکھے اور جو گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے۔ پس

عمومی دعاؤں کے ساتھ ان دنوں میں درود بھی خاص طور پر پڑھیں۔

اسی طرح نمازوں کے اوقات میں نمازوں کے لیے آئیں۔ باہر باتوں میں وقت ضائع نہ کریں۔ اسی طرح کارکنان بھی نمازوں کے اوقات میں جن کی ڈیوٹی نہیں ہے، باجماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح

سب شاملین یہ کوشش کریں کہ جلسہ کے پروگراموں کے دوران جلسہ گاہ میں بیٹھ کر تقریریں سنیں۔

مقررین نے بڑی محنت سے تقریریں تیار کی ہوتی ہیں۔ ان سے علمی اور روحانی فائدہ ہوتا ہے۔ اس لیے صرف یہ نہ دیکھیں کہ کون اچھی تقریر کر رہا ہے،کون اچھا مقرر ہے۔ یہ دیکھیں کہ نفس مضمون کیا ہے اور اس کا کتنا فائدہ ہے۔ عموماً تقریریں ایسے موضوعات پر ہوتی ہیں جن کی اس وقت ضرورت ہے اور اگر غور سے سنی جائیں تو بہت سے سوالات کے جوابات مل جاتے ہیں جو دلوں میں پیدا ہو رہے ہوتے ہیں۔

پس تقریروں کو بہت غور سے بیٹھ کر سنیں۔ اس مرتبہ تو بازار نہیں ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے لیکن جلسہ کے پروگراموں میں وقفہ کے دوران جو مختلف نمائشیں لگائی گئی ہیں،گوچھوٹے پیمانے پر ہیں اس دفعہ،وہاں جائیں اور ان کو دیکھیں۔ ان سے فائدہ اٹھائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ حالات ٹھیک ہوں گے تو نمائشیں بھی وسیع ہو جائیں گی اور باقی نظام بھی اسی طرح چلنا شروع ہو جائے گا۔ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس دفعہ خشک موسم بھی ہے۔ بارشیں نہیں ہوئیں۔ اس لیے مجھے امید ہے گذشتہ سال کی طرح کارپارکنگ میں اتنی دِقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ان شاء اللہ۔ گذشتہ سال تو بارشوں کی وجہ سے بہت زیادہ دقت ہوئی تھی۔ ویسے بھی اس سال بہتر انتظام ہے۔ ٹریک وغیرہ کا انتظام بہتر کیا گیا ہے نیز مستقل بنیادوں پر پانی کے نکاس کے لیے ماہرین کی مدد سے پانی کے نکاس کا وسیع کام ہوا ہے۔ گذشتہ مہینے جو بارشیں ہوئی تھیں ان میں جس طرح پانی کی نکاسی ہو رہی تھی اس ذریعہ سے لگتا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہ بڑا فائدہ مند ثابت ہو گا۔ بہرحال اس سال تو ان دنوں میں خشک موسم کی پیشگوئی ہے لیکن کارپارکنگ میں بعض دفعہ زیادہ کاروں کے آنے کی وجہ سے انتظامیہ کو بھی بعض دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر کاروں پر آنے والوں کا تعاون ہو تو آرام سے یہ سب کچھ کنٹرول ہو جاتا ہے۔ اس لیے صبر اور حوصلے سے کاروں پر آنے والے ٹریفک کے نظام کے ساتھ تعاون کریں تا کہ کسی بھی قسم کی دقت نہ ہو۔

اسی طرح جیسا کہ میں ہر سال کہتا ہوں ٹائلٹس استعمال کرنے والے،غسل خانے استعمال کرنے والے جو ہیں وہ صفائی کا بھی خیال رکھیں اور اس سال خاص طور پہ پانی کو بھی ضائع نہ کریں۔ کم بارشوں کی وجہ سے حکومت نے بھی کم پانی استعمال کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ احتیاط سے پانی استعمال کریں۔ اسی طرح خشک گھاس کو بڑی آسانی سے یہاں آگ لگ جاتی ہے۔ اس بارے میں بھی خاص احتیاط کریں۔ کسی بھی قسم کی بے احتیاطی مشکل پیدا کر سکتی ہے۔ اپنوں کو یا ہمسایوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حفاظتی نقطۂ نظر سے بھی ہر ایک کو محتاط ہونا چاہیے۔ ماحول پر گہری نظر رکھیں۔ کوئی بیگ یا کوئی ایسی چیز پڑی نظر آئے

جس پہ شک ہو تو فوراً انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ انتظامیہ بھی اور سکیننگ والے بھی کارڈ چیک کرتے ہوئے ماسک اتار کر ہر ایک کا چہرہ دیکھیں کہ کارڈ کی تصویر کے مطابق ہے کہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہر شر سے ہر ایک کو محفوظ رکھے اور اپنی خاص برکات نازل فرماتا رہے۔

پھر دوبارہ مَیں کہتا ہوں کہ ان دنوں میں ذکرِ الٰہی اور عبادتوں کی طرف خاص توجہ رکھیں۔ جماعت کی ترقی اور دشمنوں سے محفوظ رہنے کے لیے بہت دعائیں کریں۔ اسیران جو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ جمعہ کی نماز میں بھی اور جمعہ کے بعد بھی، باقی دنوں میں بھی خاص دعائیں کرتے رہیں۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے جلسہ کے حوالے سے دعائیہ کلمات پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہر یک صاحب جو اس للّٰہی جلسہ کے لیے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرِ عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرماوے اور ان کو ہر یک تکلیف سے مخلصی عنایت کرےاور ان کی مرادات کی راہیں ا ن پر کھول دیوے اور روزِ آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تااختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا اے ذوالمجد والعطاء اور رحیم اور مشکل کشا! یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت اور طاقت تجھ ہی کو ہے۔ آمین‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 342)

اللہ تعالیٰ جلسہ میں شامل ہونے والے سب مردو زن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ بعض لوگ جلسہ میں شامل ہونے کی نیت سے باہر کے ممالک سے بھی آئے ہیں لیکن یہاں آ کر بیمار ہو گئے یا بعض بڑی خواہش سے شامل ہونا چاہتے تھے لیکن شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان کی نیتوں کا اجر دے اور ان دعاؤں کا انہیں بھی وارث بنائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button