عائلی مسائل اور ان کا حل
ماں کہ بیوی؟
ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں درج ہے کہ ’’ایک دوست نے خط کے ذریعے اس امر کا استفسار کیا کہ میری والدہ میری بیوی سے ناراض ہے اور مجھے طلاق کے واسطے حکم دیتی ہے مگر مجھے میری بیوی سے کوئی رنجش نہیں۔ میرے لئے کیا حکم ہے ؟ فرمایا کہ
’’ والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض ۔ مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذّمہ کرتی ہو مثلا ً اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو تو اُس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی ایسا مشروع امرممنوع نہیں ہے جب تو وہ خود واجب الطلاق ہے ۔
اصل میں بعض عورتیں محض شرارت کی وجہ سے ساس کو دکھ دیتی ہیں ۔ گالیاں دیتی ہیں ،ستاتی ہیں ۔ بات بات میں اس کو تنگ کرتی ہیں ۔ والدہ کی ناراضگی بیٹے کی بیوی پر بے وجہ نہیں ہوا کرتی ۔ سب سے زیادہ خواہش مند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے ۔ بڑے شوق سےہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے توبھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آ سکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بہوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے ۔ ایسے لڑائی جھگڑوں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ والدہ ہی حق بجانب ہوتی ہے ۔ ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ تو ناراض ہے مگر میَں ناراض نہیں ہوں ۔ جب اس کی والدہ ناراض ہے تو وہ کیوں ایسی بے ادبی کے الفاظ بولتا ہے کہ میں ناراض نہیں ہوں۔یہ کوئی سوکنوں کا معاملہ تو ہے نہیں ۔ والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں ایسی بے ادبی کرتا ہے ۔ اگر کوئی وجہ اور باعث اَور ہے تو فوراً اسے دور کرنا چاہئے ۔ خرچ وغیرہ کے معاملہ میں اگر والدہ ناراض ہے اور یہ بیوی کے ہاتھ میں خرچ دیتا ہے تو لازم ہے کہ ماں کے ذریعہ سےخرچ کراوے اور کل انتظام والدہ کے ہاتھ میں دے ۔ والدہ کو بیوی کا محتاج اور دست نگر نہ کرے ۔
بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں ۔ پس سبب کو دور کرنا چاہئے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹا دینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئے ۔ دیکھو شیر اور بھیڑیئے اور اَور درندے بھی تو ہلائے سےہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں ۔ دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے ۔ اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے ۔‘‘(ملفوظات جلد10صفحہ192-193ایڈیشن1984ء)
جوائنٹ فیملی یا الگ رہنے میں حکمت؟
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں :’’مِنْ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآ ئِکُمْ…اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ : ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں ۔ قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو ۔ دیکھو اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں ۔ ماں کا گھر الگ ۔ اولاد شادی شدہ کا گھر الگ ۔ ‘‘( حقائق الفرقان جلد3صفحہ233)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس بارے میں فرماتے ہیں:’’جب عورت آتی ہے تو مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کا میاں اپنے والدین سے فوراً علیحدہ ہو جائے۔اگرچہ یہاں تک تو درست ہے کہ علیحدہ مکان ہو اور یہ شریعت کا بھی حکم ہے کیونکہ وہ نو جوان ہیں۔ اُن کو بے تکلفی کی بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ ہر وقت قید رہیں تو پھر وہ کیسےخوش رہ سکتے ہیں ۔‘‘(خطبات محمود جلد3صفحہ64)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’پھرایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھروں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اُسی گھر میں رہنا ہے ۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں ، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مدد گار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور اُن کی خدمت کرے ۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کراگرمزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔…
تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس آیت کی تشریح میں کہ لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ (النور:62)کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو (یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے۔ تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
مَیں نے کئی دفعہ بعض بچوں سے پوچھا ہے، ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ ان کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں۔ اور آخرپر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پرظلم کر رہی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو محبتیں پھیلانے آئے تھے۔ پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کے لئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں۔ اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر تو فیق ہے اور سہولتیں بھی ہیں، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے؟ ان کی خدمت کرنے کا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، ان کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، ان کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے، اس کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے، اس کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہو رہا ہوختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍نومبر2006ء بمقام بیت الفتوح لندن )
٭…٭…٭