مسلمانان چین کے نمائندہ مکرم شیخ عثمان او صاحب کی قادیان میں تشریف آوری(نمبر20)
(یکم اکتوبر 1942ء)
شیخ صاحب نے …ملاقات کے بعد بعض دوستوں سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے۔ آپ بہت ہی قابل تعریف شخصیت ہیں۔ اور آپ کی معلومات نہایت وسیع ہیں۔ ہر ایک اہم مضمون پر نہایت عمدگی کے ساتھ عالمانہ گفتگو فرما سکتے ہیں۔ اور کئی زبانوں سے واقف ہیں۔
براعظم ایشیا کے آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے بہت بڑے ملک چین میں مسلمانوں کی ایک غیر معمولی تعداد آباد ہے اور یہاں اسلام کا پودا بالکل اوائل اسلام میں ہی غالباً صحابہؓ کے ہاتھ سے ہی لگ گیا تھا۔تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے مسلمانوں کی ایک مرکزی تنظیم ’’نیشنل اسلامک سالویشن فیڈریشن‘‘ کے نام سے قائم تھی جس کےنمائندہ شیخ عثمان صاحب نظارت دعوت و تبلیغ کی تحریک پر لاہور سے یکم اکتوبر 1942ء کو قادیان آئے۔اخبار الفضل میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق مکرم عثمان او صاحب قریباً پانچ ماہ سے ہندوستان تشریف لائے ہوئے تھے اور مختلف صوبوں کے مرکزی اور مشہور مقامات دیکھتے ہوئے جب حال ہی میں لاہور پہنچے تو نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے انہیں قادیان تشریف لانے کی دعوت دی گئی جسے انہوں نے بخوشی منظور کیا۔ اور یکم اکتوبر کو صبح گیارہ بجے کے قریب لاہور سے بذریعہ موٹر کار قادیان پہنچے۔ آنریبل چودھری سر محمدظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں جماعت کے معززین نے جن میں مختلف علاقوں اور صوبوں کے اصحاب شامل تھے، ان کا استقبال کیا۔ اور پرتپاک خوش آمدید کہا۔ معزز مہمان نے سب سے مصافحہ کیا اور السلام علیکم کہا۔ بعض اصحاب سے انگریزی اور چینی میں کچھ گفتگو بھی کی۔ جزائر شرق الہند (موجودہ انڈونیشیا وغیرہ کے علاقے) کے احمدی نوجوانوں سے مل کر بہت خوش ہوئے اور ملایا زبان میں ان سے گفتگو کی۔اس ملاقات کےبعد تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر مرکزی دفاتر کا معائنہ کیا۔ سب سے پہلے خدام الاحمدیہ کے دفتر میں تشریف لے گئے۔ اور وہاں سے دارالمجاہدین میں آئے۔ پھردفتر نشرواشاعت میں پہنچے۔ جہاں انہیں بعض تبلیغی کتب کا سیٹ پیش کیا گیا۔ وہاں سے دفتر دعوت و تبلیغ اور پھر دفتر الفضل کو دیکھا۔ ناظم صاحب نشر و اشاعت نے ان کو دنیا کا نقشہ دکھا کر بتایا کہ کن کن ممالک میں احمدیت پھیل چکی ہے۔ اس سے فارغ ہوکر آپ نے مدرسہ احمدیہ، بورڈنگ مدرسہ احمدیہ، دفتر محاسب، دفتر بیت المال، دفتر قضاء، دفتر مقبرہ بہشتی، دفتر امور عامہ، دفتر نظارت تعلیم وتربیت، اور دفتر ناظر اعلیٰ دیکھا۔ مولوی عبدالرحیم نیر صاحب ساتھ تھے۔ جو موقع کے مطابق ہر صیغہ کا تعارف کراتے جاتے تھے۔ دفتر بیت المال کے پاس ہی ایک کارخانہ ’’پیر ورکس‘‘ ہے۔ (یہ غالباً PEER WORKSہوگا۔)اسے دیکھا۔ دفاتر کو دیکھنے کے بعد آپ بذریعہ کار نور ہسپتال دیکھنے کے لیے گئے۔ پھر جامعہ احمدیہ، تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ٹینک(Swimming Pool) اور بورڈنگ تحریک جدید دیکھا۔ ہائی سکول کے احاطہ میں ایک مزدور کو کام کرتے دیکھ کر آپ نے پوچھاکہ کیا یہاں کارکنان سب مسلمان ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ یہاں کے بھنگی بھی مسلمان ہیں۔ چنانچہ ایک بھنگی نومسلم سے بورڈنگ تحریک جدید میں آپ نے مصافحہ کیا۔ اور اس سے کلمہ طیبہ سن کر بہت محظوظ ہوئے۔ یہاں اس کارخانہ میں گئے جہاں اے آر پی کے لیے بالٹیاں اورپمپ تیار ہوتے ہیں۔ پھر میک ورکس پہنچے اور وہاں کمپاس، ترازو اور میک لائٹ دیکھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ واپسی پر میکینکل انڈسٹریز کو سرسری طور پر دیکھا۔ پھر سٹار ہوزری میں تشریف لے گئے۔ اسے دیکھنے کے بعد آپ مسجد اقصیٰ میں درس سننے کے لیے تشریف لے گئے۔ اگرچہ آپ اردو زبان نہ سمجھتے تھے پھر بھی پورے احترام کے ساتھ کچھ دیر وہاں تشریف فرمارہے۔ اس کے بعد آرام کے لیے قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔
شیخ صاحب موصوف نے دفاتر اور صنعتی کارخانوں کا معائنہ کرنےکے بعد آرام کیا اور پھر ساڑھے چھ بجے بیت الظفر میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے انہیں شرف ملاقات بخشا۔ چونکہ شیخ صاحب روزہ سے تھے اس لیے حضور کی طرف سے بیت الظفر میں افطاری کا انتظام کیا گیا جس میں چند اور اصحاب بھی مدعو تھے۔ مغرب کے بعد حضور نے شیخ صاحب موصوف کے اعزاز میں اپنی کوٹھی دارالحمد میں دعوتِ طعام دی جس میں چالیس کے قریب اور اصحاب بھی مدعو تھے۔ چونکہ قادیان میں چینی خاندان بھی موجود ہے اس لیے علاوہ دیگر کھانوں کے چینی کھانے بھی ان کے لیے تیار کرائے گئے جو انہوں نے اپنے طریق کے مطابق تیلیوں کے ساتھ بڑی رغبت سے کھائے۔دعوت سے قبل حضور مسلمانان چین کے مذہبی، تمدنی اور معاشرتی حالات کے متعلق انگریزی میں ان سے گفتگو فرماتے رہے۔ شیخ صاحب موصوف دراصل عربی النسل اویس ہیں۔ چونکہ چینی زبان میں نام کا آخری حصہ حذف کردیتے ہیں۔ اس لیے عثمان اویس کی بجائے عثمان او کے نام سے معروف ہیں۔شیخ عثمان صاحب کے قیام قادیان کے دوران ان سے نمائندہ الفضل نے بھی ملاقات کی اوران کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ چین میں مسلمانوں کی تعداد پانچ کروڑ ہے۔ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت اچھی ہے۔ عام طور پر مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور نماز روزہ کے پابند ہیں۔ ان کے بعض پرائیویٹ سکول بھی ہیں جن میں دینی تعلیم کا انتظام ہے۔ قرآن کریم کا ترجمہ چینی زبان میں موجود ہے۔ مگر احادیث کا کوئی باقاعدہ ترجمہ نہیں۔
یہ جنگ عظیم دوئم کا زمانہ تھا۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ برما روڈ کے بند ہوجانے کا کوئی اثر چین کی جنگی مساعی پر نہیں پڑ سکتا۔ چینی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے کلیۃً بیرونی امداد کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے اپنے ملک میں آرسنل اور فیکٹریاں کافی تعداد میں موجود ہیں۔ اور وہ جاپانیوں سے کئی شہر واپس لے چکے ہیں۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی مہمان نوازی کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا۔مورخہ یکم اکتوبر 1942ء کےالفضل کے صفحہ 2 پر شائع ہوا:
شیخ محمد عثمان او صاحب کی تقریر کے متعلق اعلان
قادیان یکم اکتوبر۔ احباب کی آگاہی کے لیے اعلان کیا جاتا ہے کہ کل بروز جمعہ بوقت ساڑھے نو بجے صبح شیخ محمد عثمان او صاحب نمائندہ مسلمانان چین تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں بزبان انگریزی تقریر فرمائیں گے۔ انگریزی جاننے والے اصحاب مقررہ وقت پر پہنچ کر معزز مہمان کی تقریر سے مستفید ہوں۔مورخہ 4؍اکتوبر 1942ء کے الفضل کے صفحہ اول پر بتایا گیا کہ’’قادیان۔ 2؍اکتوبر۔ آج صبح جناب شیخ صاحب بہشتی مقبرہ میں گئے۔ ساڑھے نو بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں آپ کی تقریر تھی۔ تقریر سے قبل مولوی عبدالرحیم نیر صاحب نے اپنے مکان پر موصوف کو میجک لیٹرن کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے بعض مناظر دکھائے۔ یہاں سے فارغ ہوکر موصوف تقریر کے لیے ہال میں تشریف لائے…اس اجتماع کی صدارت کے فرائض حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ادا کیے۔ تلاو ت و نظم کے بعد مفتی صاحب نے معزز مہمان کا مختصر تعارف کرایا۔اس کے بعد شیخ صاحب موصوف تقریر کے لیے اٹھے۔ سب سے پہلے آپ نے انگریزی میں اپنے ہندوستان میں دورہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ آپ کہاں کہاں گئے اور ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق اچھے الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور قادیان میں اپنی آمد پر اظہار مسرت کرتے ہوئے جماعت کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔
اس کےبعد چینی مسلمانوں کے بارےمیں چند دلچسپ باتیں بیان کیں۔ آپ نے کہا کہ چین میں ہر جگہ مسلمان آباد ہیں۔ مگر شمال مغربی صوبوں میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جہاں تک تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ چین میں اسلام 651ہجری میں آیا۔ گو ممکن ہے کہ اس سے قبل بھی وہاں مسلمان ہوں۔ مگر تاریخ سے یہی ثابت ہے کہ اسلام نے چین میں کافی ترقی کی اب وہاں مسلمانوں کی تعداد پانچ چھ کروڑ کے قریب ہے۔ 43 ہزار مساجد ہیں۔ چینی مسلمان اپنے مذہب کے سختی سے پابند اور کنزرویٹو خیالات کے ہیں۔ مذہبی احکام و ہدایات کی پابندی بڑی احتیاط سے کرتے ہیں۔ آپ وہاں کوئی مسلمان خاندان ایسا نہ دیکھیں گے جس میں باپ کا مذہب کچھ اور ہو۔ اور بیوی کا کچھ اورلڑکے لڑکیوں کا کچھ اَور۔
غیر مسلموں کے ساتھ چینی مسلمان بہت کم ملتے ہیں اوران کے ہاں کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے۔ وہاں کے مسلمان تمباکو کا استعمال نہیں کرتے۔ گو کچھ لوگ سگریٹ وغیرہ استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ مگر اکثریت اس سے پرہیز کرتی ہے۔ چینی مسلمانوں میں ہندوستان کی طرح فرقے نہیں ہیں۔ چینی علماء جو وہاں اخون کہلاتے ہیں بہت قدامت پسند ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر تک تو وہ قرآن پاک کے چینی زبان میں ترجمہ کیے جانے کو اس کے تقدس کے منافی سمجھتے تھے۔ مگر اب بیس سال سے اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ دو تراجم غیر مسلموں نے کیے ہیں۔ مگر ایک ترجمہ ایک چینی مسلمان عالم الیاس نامی کا ہے۔ جو زیادہ مستند ہے۔ اس سے بھی زیادہ مستند ترجمہ کرانے کا انتظام کیا جارہا ہے۔
چینی علماء عربی اور فارسی السنہ میں مہارت رکھنے کے باوجود یہ زبانیں بول نہ سکتے تھے اگر کوئی عرب یا ایرانی آجاتا تو وہ اس سے گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے دس پندرہ سال سے مسلم طلباء کو مصر تعلیم کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تا وہاں ماڈرن عربی سیکھ سکیں۔ مصری حکومت چینی مسلمانوں سے بہت ہمدردانہ سلوک کرتی ہے۔بیس طلباء کو منتظمین ازہر کی طرف سے اور بیس طلباء کو شاہ فاروق کی طرف سے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ہم دیگر اسلامی ممالک کی یونی ورسٹیوں میں بھی اپنے نوجوانوں کو بھیجنا چاہتے ہیں اور میرے سفر کے مقاصد میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے لیے مناسب انتظام کروں۔ چنانچہ میں نے عثمانیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی میں اس کے لیے انتظام کیا ہے۔ جنگ کے بعد چینی طلباء یہاں آئیں گے۔ مصر کے علاوہ استنبول کی یونی ورسٹی میں بھی بعض طلباء پڑھنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ مگر ہم اور زیادہ بھیجنا چاہتے ہیں۔آپ نے بتایا کہ بعض چینی سوداگر اور ہاکر(hawker) اپنے آپ کو ہندوستان میں مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اپنے رویہ سے چینی مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں۔ میں نے پوری تحقیق کی ہے یہ سب جھوٹے ہوتے ہیں۔ اور میں پہلا مسلمان ہوں جو چین سے یہاں آیا ہوں۔ یہاں کے ہاکروں وغیرہ میں سے کوئی حقیقی مسلمان نہیں۔ صرف اپنے کام کاج کو چلانے کے لیے مسلمان بنتے ہیں۔ چینی مسلمانوں کا کوئی تبلیغی نظام موجود نہیں۔ انفرادی تبلیغ ہوتی ہے۔تقریر سے فارغ ہونے کے بعد جناب شیخ صاحب نے مسجد مبارک کی زیارت کی اور حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے الوداعی ملاقات کی درخواست کی۔ جسے حضور نے منظور فرماتے ہوئے قصر خلافت میں شرف باریابی بخشا۔ اس کے بعد آپ گیارہ بجے کے قریب بذریعہ کار لاہور واپس چلے گئے۔ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر بھی مشایعت کے لیے آپ کے ساتھ گئے۔شیخ صاحب نے کل حضرت امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے بعد بعض دوستوں سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی شخصیت نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے۔ آپ بہت ہی قابل تعریف شخصیت ہیں۔ اور آپ کی معلومات نہایت وسیع ہیں۔ ہر ایک اہم مضمون پر نہایت عمدگی کے ساتھ عالمانہ گفتگو فرما سکتے ہیں۔ اور کئی زبانوں سے واقف ہیں۔ ‘‘
یاد رہے کہ اس سےقبل 25؍جون 1942ء کوشائع ہونے والے روزنامہ الفضل قادیان کے شمارہ کے صفحہ 5 پر ’’مسلمانان چین کے نمائندہ کا خطاب مسلمانان ہند سے‘‘کے عنوان سے رپورٹ کیا گیا کہ مکرم عثمان صاحب چینی مسلمانوں کے نمائندہ اور چینی نیشنل اسلامک سالویشن فیڈریشن کے نمایندہ نے اپنے دورہ ہندوستان کے دوران مسلمانان بمبئی کی طرف سے منعقد کیےگئے جلسہ سے خطاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کے دورہ کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کے حالات معلوم کرنا اور مسلمانان چین کے حالات انہیں بتانا ہے تا آپس میں رابطہ اتحاد و محبت پیدا ہو اور وہ بیگانگت جو صدیوں سے چلی آرہی ہے اٹھ جائے۔ نیز بتایا کہ مجھے اسلامک فیڈریشن کے صدر جنرل عمر پائی نے نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ نیز بتایا کہ چین میں اسلام پہنچنے کی تاریخ ینگ ہوئی خاندان کی حکومت کے دوسرے سال (مطابق 651ء)سے شروع ہوئی ہے اور یہ خلیفہ سوم کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ایک سفیر بھیجا جسے اس شہنشاہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس وقت سے 1263ء تک مسلمان تاجر آکر سرحدی شہروں اور ساحلی مقامات پر بستے گئے۔ مگر ان لوگوں نے بہت عیاشانہ اور امیرانہ زندگی گزاری۔ اور تبلیغ کا کام نہ کیا۔ اس زمانہ کے بعد چین میں مسلمانوں کے لیے شاندار ترین دور آیا۔ یان اور ینگ خاندان کے زمانہ (1264ءسے 1643ء)میں چین کی تاریخ میں مسلمانوں کا نام اور ان کے کارنامے یادگار ہیں لیکن اس کے بعد مسلمانوں کے لیے چین میں تاریخ کا تاریک ترین دور آیا۔ اس تاریخی دور کا خاتمہ مشہور چینی راہنما اور مفکر سن یت سین کے وقت یعنی 1911ء میں ہوا۔تاریک دور میں مسلمان بالکل تباہ کردیے گئے۔ بہت سے قتل کر دیےگئے۔ زمینیں چھین لی گئیں۔ مال و متاع میں آگ لگادی گئی۔1911ء میں ڈاکٹر سن یات سین نے مان پین حکومت کا خاتمہ کرکے ایک جمہوریہ قائم کی۔ اس وقت سے ایک نیا زمانہ نئی زندگی اور نئی ترقی چینی مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ چنانچہ اب چینی مسلمانوں میں کافی بیداری پیدا ہوچکی ہے اور وہ اب اپنے نقائص کا احساس کرنے لگے ہیں…۔
اس کے بعد شیخ عثمان او صاحب نے چین اور جاپان کے مابین جاری جنگ کا نقشہ پیش کرکے بعض سیاسی امور پر بات کی تھی۔یاد رہے کہ فروری 1942ء میں چین سے جنرل اور میڈم چیانگ کائی شیک دہلی آئے تھے اور اس دوران وائسرائے ہند اور جنرل چیانگ کائی کے درمیان جو بات چیت ہوئی تھی اس میں یہ بھی طے پایاتھا کہ چین اور ہندوستان کے درمیان براہ راست تعلق قائم کیا جائے۔
اس موقع پر اپریل 1942ءکے شروع میں وائسرائے ہند نے حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کو مفصل خط لکھ کر چین میں بے آرامی اور خطرات کا ذکر کرکے آپ کو ہندوستان کا نمائندہ بن کر چین جانے کا کہا۔ حضرت چوہدری صاحب کے سفر چین، وہاں قیام، چینی مسلمانوں سے روابط اور دیگر اہم امور کا تفصیلی تذکرہ تحدیث نعمت کے صفحہ 434سے 443پر موجود ہے۔(الفضل 3؍اکتوبر 1942ء صفحہ اول اور دوم۔الفضل 4؍اکتوبر 1942ء صفحہ اول۔الفضل 25؍جون 1942ء صفحہ 5تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 348،تحدیث نعمت از چودھری سر ظفراللہ خان)
٭…٭…٭