احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
’’کون تم میں ہے جومیری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتاہے‘‘
تین اور حیرت انگیز مثالیں
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے قلم سے تین اور مثالیں بھی درج کرنا ضروری ہیں جو اگرچہ براہ راست اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔ مگر آپ کے مقدمات میں آپ کے معمول پر گہری روشنی ڈالتی ہیں۔ حضورؑ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘میں تحریر فرماتے ہیں[اس عبارت کا سیاق وسباق یہ ہے کہ مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب نے آپؑ پر یہ الزام لگایاتھاکہ جھوٹ بولنا ا ور دھوکادینا آپ کا وصف لازم بن گیا۔نعوذباللہ۔ اس جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے آپ نے جو لکھااس کا ایک فائدہ آج ہمیں یہ بھی ہواکہ آپ کی سوانح میں سے راستبازی کے وہ پہلوبھی ہمارےسامنے آگئے کہ جو نہ جانے پوشیدہ ہی رہتے اور آپؑ اپنی عاجزی اورانکسارکی بدولت کبھی بھی نہ بیان فرماتے۔چنانچہ معترض کو اس الزام کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:]’’…اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس سے کرامات صادر ہوسکتی ہیں۔ غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریمہ لَھُمُ الْبُشْرٰی اور حدیث نبوی اَصْدَقُکُمْ حَدِیْثًا کے صادق ثابت ہوتا ہے۔ مع ہٰذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادقین ہوجاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں آتا۔ تب اس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ اس قسم کے نمونے اس عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تاہم تین نمونے اس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ان کے برابر بھی آپ کو کبھی آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ آپ ان کو معہ ثبوت ان کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا۔
ازانجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شرکاء ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کرا دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ ان شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہوچکی تھی اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے باز یافت کے لئے آٹھ ہزار کے قریب خرچ و خسارہ اٹھایا تھا جس میں وہ شرکاء ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے۔ سو اُن مقدمات کے اثناء میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ اِلَّا فِیْ شُرَکَائِکَ یعنی میں تیری ہریک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں۔ سو میں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد اور عزیزوں کو جمع کیا جو ان میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکاء کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزارہا روپیہ کا نقصان اٹھانے کے لئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جواب دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار اُن کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اٹھایا۔
ازانجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا۔ چونکہ خط میں ایسےالفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونًا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو روٴیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آ سکتی ہے۔ غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسابیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہوجائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہوجائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاک خانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا۔ اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنےپیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے۔ تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی رنج کی بات تھی۔اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر یک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو رد کردیتا تھا۔ انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت۔ یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا۔ میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے۔
از انجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے۔ میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو اِبْتِغَاءً لِمَرْضَاتِ اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔ یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں۔ پہلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپورہ میں موجود ہوگی۔ اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جو اب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے۔ غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے۔اب حضرت شیخ صاحب اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال اور راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو للہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر ملا اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو طیار ہیں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ296-300) نوٹ:ڈاکخانہ والے مقدمہ کی مزیدتفصیلات کے لیے تیسری جلدملاحظہ فرمائیے۔
آپؑ کی سوانح میں اعلیٰ درجہ کا تقویٰ اورنیکی و راستبازی کا یہی وہ پہلو تھا کہ بعد میں آپؑ نے اپنے تمام مخالفین کو جو آپؑ کو نعوذباللہ جھوٹا اورکذاب کہتے تھکتے نہ تھے مخاطب کرتے ہوئے اپنی اسی سوانح کو فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ کے مصداق چیلنج کے طورپرپیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’تم کوئی عیب،افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تاتم یہ خیال کرو کہ جوشخص پہلے سے جھوٹ اورافترا کا عادی ہےیہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جومیری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتاہے۔پس یہ خداکافضل ہے کہ جو اس نے ابتداسے مجھے تقویٰ پر قائم رکھااورسوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔ ‘‘(تذکرة الشہادتین ،روحانی خزائن جلد20 صفحہ 64)
مقدمات میں آپؑ کی بعض امتیازی خصوصیات
الغرض ان مقدمات میں آپؑ کی سوانح مبارکہ کے کئی خوبصورت اور قابل تقلید پہلو ہمارے لیے ایک اسوۂ حسنہ کے طورپر سامنے آتے ہیں اورہم خلاصۃً کہہ سکتے ہیں کہ ان مقدمات کی کچھ امتیازی خصوصیات یوں ہیں کہ
I.آپؑ کو مقدمہ بازی سے بہرحال نفورتھا۔
II.محض اطاعت والد کے ثواب کے حصول کے لیے آپ شامل ہوئے۔
III.باوجودا س کے کہ بادل نخواستہ یہ کام کیالیکن جب تک کیاپوری محنت اوردیانتداری سےکیا۔
IV.صرف اسباب ظاہری پر اکتفا نہ کیاجواصل ذریعہ اور طریق تھا یعنی دعاکااس کو مقدم رکھا۔
V.مقدمات کی دنیا میں تب بھی اوراب بھی جیساکہ عام دستورہے کہ مکروفریب ،جھوٹ وغیرہ سے کام لیاجاتا ہے لیکن آپؑ نے اس سے (بلکہ حیرت انگیز طورپربکلی) اجتناب فرمایا۔
VI.ذکرالٰہی اور نمازوں کاالتزام قابل رشک حدتک فرماتے رہے،جو کہ آپ کے تعلق باللہ کا ایک منہ بولتا ثبوت تھا۔
VII.اپنے خدام اور ہمسفروں کا خیال اپنی ضرورتوں سے زیادہ رکھاکرتے۔
VIII.عاجزی اورمنکسرالمزاجی کا بھی ایک خاص پہلو نظرآتاہے ۔
IX.سفروں کی صعوبت اورمشقت اختیارکرتے ہوئے ان مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے دیکھ کر الْقَوِيُّ الْأَمِيْنُ کی ایک پیاری صورت ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
X.اورمقدمات کے ان سفروں میں بھی ہرلمحہ اگردھیان رہاتواسی ذات کاجو خالق اوررب العالمین ہے۔آپ کو طلوع ہوتے ہوئے سورج اور رات کے آسمان پرچمکتے ہوئے چاند ستاروں اورگرتے ہوئے جھرنوں اورآبشاروں اور بلندوبالاپہاڑوں اور بہتے پانیوں اور لہلہاتے کھیتوں اور پرندوں کی چہچہاہٹ اور رعدوبرق کی آوازوں میں ایک ہی ہستی کا پرتونظرآتا۔اسی مبدءالانوار کی جھلک نظرآتی ہے۔ ہرطرف اسی محبوب حقیقی کا جلوہ نظرآتاہے ،وہ چاندکودیکھ کر اگرسخت بے کل ہوتاہے تواس لیے کہ اس میں بھی جمالِ یارکے کچھ کچھ آثار دکھائی دیتے ہیں ، چشمہ ٔخورشید میں اسی کی موجیں مشہودنظرآتیں، اور ہرستارے میں اسی کی چمکارکاتماشادکھائی دیتا، خوبرویوں میں ملاحت اسی خالق حقیقی کے حسن کاپتا دیتی،ہرحسیں آنکھ اُسی کو دکھاتی اور ہر گیسوئے خمدارکاہاتھ اُسی خدائے واحد کی طرف اشارہ کررہاہوتا اورہرگل وگلشن اُسی کے حسن واحسان کے چمن کی خوشبو سے معطر کردیتا۔سچ بات تویہ ہے کہ کہنے کو تو وہ ان مقدمات کے لیے جارہے ہوتے تھے لیکن دراصل ان سفروں میں بھی غمِ اغیارکے سارے جھگڑے کٹ رہے ہوتے تھے۔اس کیفیت کا ذکرکرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں : ’’جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتاتو پہاڑوں کے سبزہ زارحصوں اوربہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیاراللہ تعالیٰ کی حمدکاجوش پیداہوتا اور عبادت میں ایک مزاآتا۔میں دیکھتاتھاکہ تنہائی کے لئے وہاں اچھا موقع ملتاہے۔ ‘‘(حیات احمدؑجلداول صفحہ85)
٭…٭…٭