حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط5)
بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ
اگر منشائے الٰہی یہ ہوتاکہ صرف اسحاق ہی اس خدائی عہد میں شامل ہوگا تو وہ اسحاق کی پیدائش کے بعد اپنا عہد باندھتا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اسحاق کی پیدائش کا انتظار نہیں کیا۔ اور اپنا عہد اسماعیل اور صرف اسماعیل کی پیدائش کے بعد باندھا
خدائی پلان میں اسماعیل کی حیثیت
ہم لکھ چکے ہیں کہ پیدائش کے باب 21 کے شروع میں حضرت اسحاق کی دودھ چھڑانے کی تقریب کے حوالے سے جو قصہ درج ہے۔ وہ گھڑا ہی اس لیے گیا تھا تاکہ خدائی پلان میں حضرت اسماعیلؑ کی حیثیت کو نشانہ بنایا جا سکے۔ چنانچہ بائبل کی ایک تفسیر نے اس قصے کو حضرت اسماعیل پر اعتراضات کے لیے بنیاد بنایا ہے۔
A childs weaning when about three years old was the occasion of a (religious) feast. Ishmael is not mentioned by name throughout the story; he is only the son of a slave girl which emphasizes his lesser position in Gods plan in relation to Isaacs. The reference to his playing with Isaac is another pun on latters name. Rabbinical traditions interpreted this reference in an evil sense; and it was on this tradition that Paul based his persecution of Isaac by Ishmael.
(R. E. Brown, J. A. Fitzmyer, and R. E. Murphy (eds.):Genesis. In: Jerome Biblical Commentary.Prentice-Hall 1968, section 2:70)
ترجمہ: بچہ جب تقریباً تین سال کا ہوگیا تو اس کا دودھ چھڑانا ایک (مذہبی) تقریب کا موقع تھا۔ اس کہانی کے دوران اسماعیل کو ا س کے نام سے نہیں پکارا گیا۔ وہ صرف لونڈی کا بیٹا ہے۔ اور یہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ خدا کے پلان میں اس کی حیثیت اسحاق سے کم تر ہے۔ اسحاق کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے اس کے نام پر ایک اور طنز کی گئی ہے۔ رابیوں کی روایات میں اس حوالے کو بُرا مفہوم دیا گیا ہے۔ اور اسی روایت کی بنیاد پر ہی سینٹ پال نے یہ قرار دیا ہے کہ اسماعیل اسحاق کو دکھ دیا کرتا تھا۔کمنٹری کا مندرجہ بالا اقتباس اس بغض وعناد کی بھر پورعکاسی کرتا ہے جو یہود ونصاریٰ کے دلوں میں حضرت اسماعیلؑ کے خلاف پایا جاتا ہے۔ ہم شواہد کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ جس قصے کی بنیاد پر حضرت اسماعیلؑ کے خلاف یہ طعن زنی کی گئی ہے وہ قصہ جعلی اور جھوٹا ہے۔ اور مفسرین کی یہ رائے بھی لکھ چکے ہیں کہ حضرت ابراہیم اور سارہ کے واقعات میں ایسے قصے داخل کر کے رابیوں نے بیہودہ انوکھے پن کا مظاہرہ کیا ہے اور اصل واقعات میں تضاد اور تصادم پیدا کیا ہے۔ بایں ہمہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ کمنٹری کے اٹھائے گئے اعتراضات کا عقلی اور نقلی لحاظ سے جائزہ لیا جائے۔
اسحاق کے ساتھ کھیلنے کی طنز
کمنٹری نے اسحاق کے ساتھ کھیلنے کو اسماعیل پر طنز قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ رابیوں نے اس کھیلنے کو برے معنوں میں لیا ہے اور سینٹ پال نے بھی اس سے یہ مراد لیا ہے کہ اسماعیل اسحاق کو دکھ دیا کرتا تھا۔ (گلتیوں۔ باب 4 آیات 28۔ 30)ہم پھر واضح کرتے ہیں کہ اسحاق کے ساتھ کھیلنے کے حوالے سے جو کچھ یہود کے رابی حضرت اسماعیلؑ کے متعلق کہتے ہیں وہ سب ان کی خود ساختہ روایات ہیں۔ جہاں تک بائبل کا تعلق ہے ہم شواہد کے ساتھ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ بائبل کے پرانے اور مستند تراجم میں اسماعیل کے اسحاق کے ساتھ کھیلنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ان سب تراجم میں اسماعیل کو اکیلے کھیلتے دکھایا گیا ہے۔ ایک جرمن ترجمے کے مطابق تو سارہ نے جب اسماعیل کو کھیلتے دیکھا تھا تو اس وقت وہ نہ صرف اکیلا تھا بلکہ چند ماہ کا بچہ تھا۔ پس اسحاق کے ساتھ کھیلنے یا اس کو دکھ دینے کی بات محض ایک افترا ہے جو خود ان رابیوں نے اسماعیل کی دشمنی میں گھڑی اور عوام میں پھیلائی ہے۔
مزید برآں اسحاق کی دودھ چھڑانے کی جس تقریب میں (بقول ان کے) سارہ نے اسماعیل کو کھیلتے دیکھا تھا وہ تقریب تو کنعان میں ہورہی تھی جہاں ابراہیم اور سارہ رہتےتھے۔ جبکہ ( بچہ ) اسماعیل کے بارے میں تو اسی باب 21 میں لکھا ہے کہ وہ فاران کے بیابان میں بڑا ہوااور وہیں رہنےلگا اور تیر انداز بنا۔ اور وہیں رہتاتھا (آیات 20۔21)۔ اب جب اس تقریب کے وقت اسماعیل سارہ کے گھر میں رہتاہی نہ تھا تو وہ اسحاق کے ساتھ کھیل کیسے سکتا تھا۔ اور سارہ نے نکالنا کس کو تھا اور کہاں سے؟پس یہ تضادات صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سارا قصہ جھوٹا ہے۔ اس کو بنی اسرائیل کے رابیوں نے غلامی اور جلا وطنی کے دور میں گھڑا اور اصل کہانی میں داخل کر دیا۔ مقصد بنی اسماعیل کی تحقیر کرنا اور ان پر بنی اسرائیل کی فضیلت جتانا تھا۔ اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ چونکہ بنی اسماعیل کا جد امجد لونڈی کا بیٹا تھا لہٰذا حضرت ابراہیمؑ کے حقیقی وارث صرف بنی اسرائیل ہیں۔لیکن اسماعیل کے اسحاق کے ساتھ کھیلنے کی بات تو اس قصے کو بنانے والے رابیوں نے بھی نہیں کی تھی۔ یہ شوشہ تو بعد میں یہود کے علماء نے چھوڑا ہے جنہوں نے اس قصے کی تشریح اور تفسیر کرتے ہوئے اس قصے میں اسحاق کا نام داخل کیا اور پھر جہاں اسحاق موجود ہی نہ تھا وہاں اس پر ظلم و ستم کی داستانیں بیان کرنی شروع کر دیں۔
اسلام کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار
دوسرا اعتراض کمنٹری نے یہ کیا ہے کہ اس قصے میں اسماعیل کو اس کے نام سے نہیں بلکہ لونڈی کا بیٹا کہہ کر پکارا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے پلان میں اسماعیل کی حیثیت اسحاق سے کم تر ہے۔کمنٹری کا بیان کردہ یہ نظریہ یہودو نصاریٰ کا سب سے بڑا ہتھیارہے جسے وہ اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم عقلی اور نقلی شواہد سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ قصہ جس میں اسماعیل اور ان کی والدہ کی غلامی کا ذکر ہے جھوٹا اور جعلی ہے۔ تاہم امکانی طور پرہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا غلامی کی بنیاد پر کسی کی حیثیت خدا کے پلان میں کم ہوسکتی ہے یا نہیں۔
خدائی پلان میں غلاموں کی حیثیت
ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ(جن کا الہامی نام اسرائیل تھا) کے بارہ بیٹے تھے جن کی نسل سے وہ بارہ قبائل بنے جو مجموعی طور پر بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ سب قبائل ان برکات کے وارث تھے جن کا وعدہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا۔ اور یہ سب قبائل اس خدائی پلان کا حصہ تھے جو خدا نے دنیا کو برکت بخشنے کے لیے بنایا تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ جو حضرت یعقوبؑ کے ان بارہ بیٹوں میں سے ایک تھے دو مرتبہ بطورغلام فروخت کیےگئے اور کئی سال تک وہ مصر میں غلامی میں رہے۔ لیکن اس غلامی کے باوجود خدائی پلان میں ان کی حیثیت کم نہ ہوئی بلکہ نبوت سے سرفراز کیےگئے۔ پس یہ خیال ہی غلط ثابت ہوتاہے کہ محض غلامی کی وجہ سے کسی کی حیثیت خدائی پلان میں کم ہوجاتی ہے۔(پیدائش باب37 آیت 28 اور باب 39 آیات 1 تا 20)پھرہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یعقوبؑ کی دو بیویاں لیاہ اور راخل تھیں۔ ان سے ان کے آٹھ بیٹے پیدا ہوئے۔ بعد میں ان بیویوں نے اپنی لونڈیاں حضرت یعقوبؑ کو بطور بیوی کے دے دیں (جیسے بقول بائبل سارہ نے اپنی لونڈی ہاجرہ ابراہیم کو دی تھی) اور ان دونوں لونڈیوں سے حضرت یعقوبؑ کے مزید چار بیٹے پیدا ہوئے۔ چنانچہ لکھا ہے :’’اس وقت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ لیاہ کے بیٹے یہ تھے۔ روبن یعقوب کا پہلوٹھا۔ اور شمعون اور لاوی اوریہود اور اشکار اور زبولون۔ اور راخل کے بیٹے یوسف اور بنیمین تھے۔ اور راخل کی لونڈی بلہا کے بیٹے دان اور نفتالی تھے۔ اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بیٹے جد اور آشر تھے۔ یہ سب یعقوب کے بیٹے ہیں۔ ‘‘(پیدائش باب 35 آیات 23 سے26) مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے چار قبائل لونڈیوں کی اولاد تھے۔ (بالکل اسی طرح جیسے اسماعیل کے بارے میں کہا گیا کہ وہ لونڈی کا بیٹا تھا)۔ لیکن خدا نے اپنی برکات کا وعدہ پورا کرتے وقت مالکن اور لونڈی کے قبیلہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اور نہ ہی لونڈیوں کے قبائل کی حیثیت خدا کے پلان میں کم ہوئی۔ اب بالفرض اگر اسماعیل لونڈی کا بیٹا تھا بھی تو اس کی حیثیت خدا کے پلان میں کیسے کم ہوگئی؟ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ غلامی کی یہ بات صرف بنی اسرائیل کے چار قبائل تک ہی محدود نہیںرہتی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ ان کے بارہ کے بارہ قبائل ہی چار سو سال تک مصر میں بد ترین قسم کی غلامی میں پستے رہے۔ اپنی غلامی کے دور میں یہ ایسے روتےاور آہیں بھرتے رہے جیسے لوہے کی بھٹی میں ہوں۔ اور بالآخرجب ان کو حضرت موسیٰؑ کے ذریعے غلامی سے نجات ملی تو یہ ساری کی ساری قوم ہی نسل در نسل غلام زادوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس طویل غلامی کے باوجود خدا کے پلان میں ان کی حیثیت کم نہ ہوئی۔ نہ ہی یہ خدائی برکات سے محروم ہوئے۔ (خروج، ابواب 2، 6، 12 اور استثناء ابواب 4، 6) مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت یوسفؑ کی حیثیت ان کی غلامی کے باوجود خدائی پلان میں کم نہیں ہوئی،اگر بنی اسرائیل کے ان چار قبائل کی حیثیت لونڈیوں کی اولاد ہونے کے باوجود خدائی پلان میں کم نہیں ہوئی۔ اور اگر بنی اسرائیل کے سب قبائل کی حیثیت مصر میں چار سو سال کی غلامی کے باوجود خدائی پلان میں کم نہیں ہوئی۔ تو پھر اسماعیلؑ کی حیثیت غلامی کی وجہ سے خدائی پلان میں کیسے کم ہوگئی؟یا کیا یہ مان لیا جائے کہ صرف ابرہیمؑ جیسے برگزیدہ بندوں کی غلامی ہی خدائی پلان میں کسی کی حیثیت کو کم کرتی ہے لیکن مصریوں جیسی مشرک قوم کی غلامی اس حیثیت کو بڑھاتی ہے؟ حیرت ہوتی ہے ان یہود ی علماء کی کوتاہ نظری پر۔ اپنی صدیوں پر محیط غلامی یاد نہیں اور لگے قصے گھڑنے بنی اسماعیل کی غلامی کے۔
حضرت ابراہیمؑ سے خدا کا عہد
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک بہت سی قومیں دنیا میں پھیل چکی تھیںاور ان قوموں کو برکت بخشنے کے لیے خداتعالیٰ نے ایک پلان بنایا۔ اس سلسلے میں خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کا انتخاب فرمایا اور ان سے ایک عہد باندھا۔ جب یہ عہد باندھا گیا تو اس وقت ان کے ساتھ ان کا 13سالہ اکلوتا بیٹا اسماعیل بھی موجود تھا۔ اس خدائی عہد کی تفصیل پیدائش کے باب سترہ اور اٹھارہ میں درج ہے۔ اس عہد کے اہم نقاط یہ تھے۔خداتعالیٰ نے عہد کیا کہ وہ ابراہیم کی نسل کو بہت بڑھائے گا۔ ان کی نسل سے قومیں پیدا ہوں گی اور بادشاہ برپا ہوں گے۔سرزمین کنعان کی ملکیت حضرت ابراہیمؑ کی نسل کو دی جائے گی۔ حضرت ابراہیمؑ اور اس کی نرینہ اولاد کے لیے ختنہ کرانا لازمی ہوگا۔ ان کی 90 سالہ بانجھ بیوی سارہ سے بھی ان کو بیٹا عطا کیا جائے گا۔ (دونوں میاں بیوی کو اس خبر پر یقین نہیں آتا اور وہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں) ان کی نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔خدا (ان کے اکلوتے بیٹے) اسماعیل کو برکت دے گا۔ بڑی قوم بنائے گا اور بارہ سردار اس میں سے پیدا ہوں گے۔ (پیدائش، باب 17 اور 18)
حضرت ابراہیمؑ پر یہ عنایات کیوں؟
خدائی عنایات کی مندرجہ بالا تفصیل پیدائش کے ابواب 17 اور 18 میں درج ہے لیکن وہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ عنایات حضرت ابراہیمؑ اور ان کی نسل پر کیوں کی گئی تھیں۔ ان عنایات کا پس منظر ان ابواب سے غائب ہے۔ باب 17 سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے جب یہ وعدے کیےتو اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر 99 سال تھی اور ان کا 13 سالہ بیٹا اسماعیل ان کی نسل کا واحد نمائندہ موجود تھا۔ اور یہ کہ ان دونوں باپ بیٹے نے خدائی عہد کے مطابق اسی دن ختنہ کرا لیا تھا۔ اس کے علاوہ ان ابواب میں کچھ ذکر نہیں کہ ان باپ بیٹوں نے کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ جس کے انعام کے طور پر خداتعالیٰ نے ان کو دین و دنیا کی ان نعمتوں سے نواز دیا تھا۔ ان عنایات خداوندی کا پس منظر کیا تھا۔ اور اس کو کیوں چھپایا گیا ہے یہ معلوم کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ان عنایات کا پس منظر پیدائش کے ابواب 17 اور 18 میں تو غائب ہے لیکن اس کی جھلک باب 22 میں نظر آتی ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ کے اکلوتے بیٹے کی سوختنی قربانی کا قصہ درج ہے۔ اس قصے کے آخر میں لکھا ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی کے بعد خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے عہد کیا تھا کہ …چونکہ تو نے یہ کام کیا کہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتابیٹا ہے دریغ نہ رکھا۔ اس لیے میں بھی ….تجھے برکت پربرکت دوںگا۔ اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں….کی مانند کر دوںگا… اور تیری نسل کے وسیلے سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تو نے میری بات مانی۔(پیدائش، باب 22 آیات 16۔ 18)مندرجہ بالا حوالے میں جن برکات اور انعامات کا وعدہ خداتعالیٰ نے کیا ہے وہ بنیادی طور پر وہی ہیں جن کی تفصیل باب 17 اور 18 میں بیان کی گئی ہے۔ اس موازنے سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کی نسل سے جو عہد باندھا گیا تھا اور جو عنایات ان پر کی گئی تھیںوہ اکلوتے بیٹے کی قربانی کے بعد بطور انعام کی گئی تھیں۔ گویا ابواب 17 اور 18 میں مذکور عنایات خداوندی کے پس منظر میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کار فرما تھی۔ اور باب 17 سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب خداتعالیٰ نے وہ عہد باندھا اور وعدے کیےتھے تو اس وقت اسماعیل ہی حضرت ابراہیمؑ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اسحاق تو اس وقت پیدا نہیں ہواتھا۔ لیکن صدیوں بعد یہود کے کاہنوں نے اکلوتے بیٹے کی قربانی کی سعادت کو اسماعیل سے چھین کر اسحاق سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے باب 17 میں سے اکلوتے بیٹے کی قربانی کا ذکر غائب کر دیا لیکن اس قربانی کے نتیجے میں ہونے والے خدائی عہد اور اس کی برکات کی ساری تفصیل اسی طرح اس باب میں رہنےدی۔ پھر انہوں نے اسحاق کی سوختنی قربانی کا الگ ایک قصہ گھڑا اور باب 22 کے طور پر کتاب پیدائش میں داخل کر دیا۔اس اسحاق کی سوختنی قربانی والے قصے کا تجزیہ اور تردید تو ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں ہم مندرجہ بالا خدائی عہد کے حوالے سے بعض سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔
کیا اسماعیلؑ خدائی عہد میں شامل نہ تھے؟
یہود و نصاریٰ کا یہ نظریہ ہے کہ خداتعالیٰ نے جو عہد حضرت ابراہیمؑ سے باندھا تھا اس میں صرف حضرت اسحاق اور ان کی نسل شامل تھی لیکن حضرت اسماعیل اور ان کی نسل اس خدائی عہد سے باہر تھی۔ چونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ ہے لہٰذا اس کا تفصیلی جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ خیال کیوں اور کیسے پیدا ہوااور اس کی حقیقت کیا ہے۔باب 17 میں درج تفصیل کے مطابق جب خداتعالیٰ نے یہ عہد حضرت ابراہیمؑ سے باندھا تو اس وقت حضرت اسحاقؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے جبکہ حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوچکے تھے اور وہ تیرہ سال کے تھے۔ جس دن یہ معاہدہ ہوااسی دن حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے ختنہ کروا لیا تھا اور اس طرح معاہدے میں مذکورہ شرط پوری کر دی تھی۔ لہٰذا وہ دونوں باپ بیٹا اسی دن سے معاہدے میں مذکورہ انعامات کے مستحق ہوگئے تھے۔ آگے اسی باب میں یہ بھی ذکر ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیل کی درازئ عمر کے لیے دعا کی تھی تو خداتعالیٰ نے حضرت اسماعیل کا نام لے کر بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ اسماعیل کے حق میں بھی تیری دعا سن لی ہے۔ دیکھ میں اس کو برکت دوںگا۔ اسے برومند کروںگا اور بہت بڑھاؤں گا۔ اوربارہ سردار اس سے پیدا ہوں گے۔ اور اسے بڑی قوم بناؤں گا۔لیکن میں اپنا عہد اسحاق سے باندھوں گا جو اگلے سال اسی وقت معین پر سارہ سے پیدا ہوگا۔لیکن میں اپنا عہد اسحاق سے باندھوں گا۔ (پیدائش۔ باب 17آیات 20۔21)مندرجہ بالا حوالے میں حضرت اسماعیلؑ سے وہی وعدے کیےگئے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ سے کیےگئے تھے۔ تاہم اس حوالے کا آخری فقرہ بہت اہم ہے جس میں خداتعالیٰ نے کہا لیکن میں اپنا عہد اسحاق سے باندھوں گا۔ اسی فقرے کے حوالے سے یہود ونصاریٰ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جو عہد خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے باندھا تھا وہ صرف حضرت اسحاق تک محدود تھا اور حضرت اسماعیل اس عہد سے باہر تھے۔ لیکن یہ استدلال دو لحاظ سے غلط اور ناقابل قبول ہے۔ایک تو یہ کہ وہ وعدہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کی نسل سے متعلق تھا۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا وہ بیٹا جو معاہدے کے وقت موجود تھا۔ جو اس وقت ان کی نسل کا واحد نمائندہ تھا۔ جس نے وہ معاہدہ ہوتے دیکھا اور جس نے معاہدے کی ختنہ والی شرط پر باپ کے ساتھ ہی عمل کیا۔ وہ بیٹا تو اس عہد سے باہر ہوا۔ لیکن وہ بیٹا جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہواتھا صرف وہی عہد کے اندرہو۔ اگر منشائے الٰہی یہ ہوتاکہ صرف اسحاق ہی اس خدائی عہد میں شامل ہوگا تو وہ اسحاق کی پیدائش کے بعد اپنا عہد باندھتا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اسحاق کی پیدائش کا انتظار نہیں کیا۔ اور اپنا عہد اسماعیل اور صرف اسماعیل کی پیدائش کے بعد باندھا۔ لہٰذا حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ تو اس معاہدے کے اولین شاملین میں سے تھے۔دوسرے یہ کہ پیدائش کے باب 17کی آیت 20 کے مطابق خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کو قبول کرتے ہوئے حضرت اسماعیل کے لیے الگ طور پر بھی ان انعامات کا وعدہ کیا تھا جو معاہدے کا حصہ تھے۔ اب یہ کیسے مان لیا جائے کہ خداتعالیٰ نے آیت 20میں تو حضرت اسماعیل سے ان انعامات کا وعدہ کیا لیکن اگلی ہی آیت میں ان سے وہ انعامات چھین لیے۔ اور اگر ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خداتعالیٰ ایک نعمت کا وعدہ کرے اور پھر ساتھ اس نعمت کو چھین بھی لے تو پھر ہمیں اس تضاد کی کوئی ایسی معقول وضاحت تلاش کرنی ہوگی جس سے ان دو آیات میں مطابقت پیدا ہوسکے۔
تضاد کی وضاحت
خداتعالیٰ نے جو وعدے حضرت ابراہیمؑ سے کیےاور جو وعدے حضرت اسماعیلؑ سے بطورِ خاص کیےوہ اوپر درج ہیں۔ ان دونوں کے وعدوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کنعان کی حکومت کا وعدہ ان وعدوں میں شامل نہیں جو حضرت اسماعیلؑ سے بطورِ خاص کیےگئے تھے۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ بنی اسماعیل کو کنعان کی حکومت ملنی نہ تھی بلکہ یہ تھی کہ دونوں بھائیوں کی اولاد بیک وقت کنعان کی حکمران نہ ہو سکتی تھی۔ انہوں نے یہ حکومت باری باری کرنی تھی۔ اس نقطے کو اگر پیش نظر رکھیں تو ان آیات کا تضاد دور ہوجاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے اصل میں یہ کہا تھا لیکن میں اپنا عہد پہلے اسحاق سے باندھوں گااور اسماعیل کی باری بعد میں آئے گی۔ اس فقرہ میں سے لفظ پہلے نکال کر ان آیات میں دانستہ تضاد پیدا کیا گیا ہے۔ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہودی علماء نے جب بھی حضرت ہاجرہ یا حضرت اسماعیلؑ کے واقعات میں تحریف کی ہے تو اس سے تضاد اور ابہام پیدا ہوا ہے۔ یہاں بھی حضرت اسماعیلؑ کو خدائی عہد سے باہر دکھانے کے لیے انہوں نے مندرجہ بالا فقرے میں سے پہلے کا لفظ نکالا تو اس سے تضاد پیدا ہوگیا۔ لیکن یہود کی اس تحریف سے خداتعالیٰ کا یہ پلان تو نہیں بدل سکتا تھا کہ کنعان کی حکومت پہلے بنی اسرائیل کو ملے گی اور بنی اسماعیل کی باری ان کے بعد آئے گی۔ چونکہ بنی اسحاق/اسرائیل کی باری شروع ہونے کو تھی اور بنی اسماعیل کی باری ابھی دو ہزار سال دور تھی لہٰذا کنعان کی حکومت کا ذکر ان وعدوں میں نہیں کیا گیا جو بطور خاص حضرت اسماعیلؑ کے متعلق کیےگئے تھے۔ ہماری اس وضاحت کی تصدیق کنعان کی تاریخ سے بھی ہوجاتی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کو توعرب کے بیابان میں منتقل کر دیا تاکہ وہ وہاں پھولے پھلیں اور ایک بڑی قوم بن کر کنعان پر حکومت کے لیے اپنی باری کا انتظار کریں۔ لیکن جب حضرت اسحاقؑ قحط کی وجہ سے کنعان کو چھوڑ کر مصر جانے لگے تو خداتعالیٰ نے ان کو روک کر کہا:’’ مصر کو نہ جا…اسی ملک میں قیام رکھ۔ اور میں تیرے ساتھ ہوںگا۔ اور تجھے برکت بخشوں گا کیونکہ میں تجھے اور تیری نسل کو یہ سب ملک بخشوں گا۔ اور میں اس قسم کو جو تیرے باپ ابراہیم سے کھائی پورا کروںگا… اس لیے کہ ابراہیم نے میری بات مانی اور میری نصیحت اور میرے حکموں اور قوانین اور آئین پر عمل کیا۔‘‘ (پیدائش۔ باب 26 آیات 2۔ 6)گویا حضرت اسحاق کی باری تو اسی وقت شروع ہوچکی تھی اور خداتعالیٰ نے اپنا عہد پہلے حضرت اسحاق سے ہی باندھا۔ چنانچہ حضرت اسحاق کی اولاد پھولی پھلی اور بڑی قوم بنی جو بنی اسرائیل کہلائی۔ پھر خداتعالیٰ نے ان کو برکت بخشنے کے لیے حضرت موسیٰ جیسا عظیم نبی ان میں مبعوث کیا اور اپنی شریعت ان کو دی اور اس طرح خدا کی بادشاہت ان میں قائم کی۔ (تاہم خداتعالیٰ کی یہ برکت اور بادشاہت صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود تھی۔ دنیا کی دوسری قومیں اس خدائی برکت میں شامل نہ تھیں)۔ جب خدا کی بادشاہت بنی اسرائیل میں قائم ہوگئی تو اس کے بعد کنعان کی بادشاہت بھی ان کوعطا کی گئی جو کئی صدیوں تک ان میں قائم رہی۔ لیکن جب یہ قوم عدل وانصاف اور شریعت کے احکامات کو نظر انداز کرنے لگی تو بنی اسرائیل کی باری آہستہ آہستہ ختم ہوگئی اور بنی اسماعیل کی باری کا آغاز ہونے لگا۔ ایک دفعہ پھر وہی تاریخ دہرائی گئی اور بنی اسماعیل بھی انہی مراحل میں سے گزرے۔ وہ بھی خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق ایک بڑی قوم بنے۔ اور ان کو برکت بخشنے کے لیے ان میں بھی خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ جیسا ایک عظیم نبی مبعوث کیا جس نے ان کو شریعت دی اور اس طرح خدا کی بادشاہت ان میں قائم کی۔ لیکن اس دفعہ یہ برکت اور بادشاہت ساری دنیا کے لیے تھی۔ لہٰذا دنیا کی سب قوموں کو برکت دینے کا وعدہ خداتعالیٰ نے بنی اسماعیل کے وسیلہ سے پورا کیا۔ اور پھر جب بنی اسماعیل میں خدا کی بادشاہت قائم ہوگئی تو اس کے بعد ان کو بھی خداتعالیٰ نے وعدے کے مطابق کنعان کی بادشاہت عطا کی جو بنی اسرائیل کی نسبت کہیں زیادہ عرصے تک قائم رہی ہے۔اگر حضرت اسماعیلؑ اس خدائی عہد میں شامل نہ ہوتے (جیسا کہ یہود ونصاریٰ کا خیال ہے) تو بنی اسماعیل کے لیے یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ کنعان پر بنی اسرائیل سے بھی زیادہ لمبے عرصے تک حکومت کرتے۔ اور نہ ہی ان کے لیے یہ ممکن ہوتاکہ خدا کی بادشاہت بنی اسرائیل سے چھین لیتے۔ خدا کی بادشاہت میں اس انقلابی تبدیلی کے بارے میں تو یہود کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پہلے ہی ان کو خبردار کردیا تھا جب انہوں نے یہود سے کہا کہ’’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہتیرے پورب اور پچھم سے آ کر ابراہیم اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے مگر بادشاہت کے بیٹے باہر اندھیرے میں ڈالے جائیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔‘‘اور یہ کہ ’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوااور ہماری نظروں میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سےلے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے گی دے دی جائے گی۔‘‘ (متی۔ باب 8 آیات 11-12 اور باب21 آیات 42۔43)
٭…٭…(باقی آئندہ)…٭…٭