مضامین

لاڈلی قمیص۔قمیصِ یو سف

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

’’حضرت یوسفؑ کے تمام کام قمیص ہی سے متعلق رہے… باریک بین لوگ اس قسم کی باتوں کو خوب سمجھتے ہیں‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ)

اللہ تعالیٰ کی مَیں ہی ایک ایسی لاڈلی قمیص ہوں جس کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے۔کسی اور قمیص کادور دور تک ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ سورہ یوسف میں میرا ذکر چھ دفعہ براہ راست اور ساتویں دفعہ بالواسطہ آیاہے۔ اس لیے میرا حق ہے کہ میں کہوں کہ قمیصِ یو سف ہی لاڈلی قمیص ہے۔ مجھے پیراہَن یوسُف، یوسف کا کرتہ یا قبا ئےیوسف کےنام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔میرا دعویٰ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت یوسفؑ نے پہنا۔مجھے اپنے اُوپر اس لیے بھی بہت فخر ہے کہ مجھے اُس وجود نے زیب تن کیا جو کہ دنیا کے خوبصورت ترین وجودوں میں سے ایک تھا،جس کے حسن و جمال کے قصے دُنیا کی بہت سی کتابوں اورزبانوں میں پائے جاتے ہیں۔اگر میں کہوں کہ میرا پہننے والا فرشتہ صفت انسان تھا تو کوئی بھی اس کو رد نہیں کر سکتا،کیونکہ قرآن کریم نے خود گواہی دی ہے جیسا کہ ارشاد ہے : اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیۡمٌکہ یہ تو ایک معزز فرشتہ کے سوا کچھ نہیں۔ میں قاضی کہلانے کی مستحق ہوں کیونکہ میں نے خدا کے ایک نبی یوسفؑ پر لگنے والے الزام سے اس کو بری کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں ہوں تو بےزبان ! لیکن گواہی پھر بھی میری ہی چلی۔اگر مجھے گواہ کے طور پر نہ پیش کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کے نبی یوسفؑ پرایک ایسا الزام لگ جاتاجو کہ رہتی دُنیا تک موجود رہتا۔ آج کی دنیا کو میں یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہوں کہ اس جدید دور کے جو تحقیقات کےنت نئے طور طریقےآرہےہیں۔ جن میں ایک DNAکاٹیسٹ بھی ہے۔ جس سے کسی بھی مجرم تک رسائی حاصل کرنا آسان ہو جاتاہے،وہ ضرور اختیار کرنے چاہئیں تاکہ انصاف کاحصول آسان بنایا جا سکے۔جیسا کہ میری گواہی کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کرنا آسان ہوا اورحضرت یوسفؑ کوالزام سے بری کیا گیا۔ ہاں!میں ہی وہ سچی اور اُجلی قمیص ہوںجس نے حضرت یوسفؑ کی طرف منسوب کیا گیا جھوٹا خون قبول کرنے سے انکار کردیا۔اسی لیے آپؑ کے والد محترم اورپیارے نبی حضرت یعقوبؑ نے مجھے جب خون میں لت پت دیکھا تو کہا جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍکہ وہ تو یوسفؑ کی قمیص پر جھوٹا خون لگا لائے ہیں۔ میں نے دعویٰ کیا ہے کہ میں اس لیے لاڈلی ہوں کیونکہ میراذکر خداتعالیٰ کی کتاب میں سات دفعہ آتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہاں کہاں میرا ذکر آیاہے۔پہلا ذکرسورہ یوسف آیت نمبر19 میں اس وقت آتا ہے جب جھوٹا خون مجھ پر لگایا گیا۔ جیسا کہ آتا ہے: وَ جَآءُوۡ عَلٰی قَمِیۡصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ؕ قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا ؕ فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌؕ وَ اللّٰہُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ۔ اور وہ اس کی قمیص پر جھوٹا خون لگا لائے۔ اس نے کہا بلکہ تمہارے نفوس نے ایک بہت سنگین بات تمہارے لیے معمولی اور آسان بنا دی ہے۔ پس صبرجمیل کے سوا میں کیا کر سکتا ہوں اور اللہ ہی ہے جس سے مدد مانگی جائے جو تم بیان کرتے ہو۔دوسرا ذکر اس وقت آتا ہے جب یوسفؑ اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے اور الزام لگانے والی عورت نے جس کا نام زلیخا لیا جاتا ہے مجھے پیچھے سے کھینچا۔ جیساکہ سورہ یوسف کی آیت 26 میں ارشاد ہے: وَ اسۡتَبَقَا الۡبَابَ وَ قَدَّتۡ قَمِیۡصَہٗ مِنۡ دُبُرٍ وَّ اَلۡفَیَا سَیِّدَہَا لَدَا الۡبَابِ ؕاور وہ دونوں دروازے کی طرف لپکے اور اس عورت نے پیچھے سےاُسے کھینچتے ہوئے اس کی قمیص پھاڑ دی اور ان دونوں نے اس کے سرتاج کو دروازے کے پاس پایا۔ میرا تذکرہ تیسری اور چوتھی بار سورہ یوسف آیت نمبر 27 اور 28میں ان الفاظ میں کیا گیاہے جیسا کہ فرمایا: قَالَ ہِیَ رَاوَدَتۡنِیۡ عَنۡ نَّفۡسِیۡ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ اِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ قُبُلٍ فَصَدَقَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ۔اس (یعنی یوسف) نے کہا اِسی نے مجھے میرے نفس کے بارہ میں پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ اور اس کے گھر والوں ہی میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر اُس کی قمیص سامنے سے پھٹی ہوئی ہے تو یہی سچ کہتی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے۔ وَاِنۡ کَانَ قَمِیۡصُہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ فَکَذَبَتۡ وَ ہُوَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ اور اگر اُس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو یہ جھوٹ بول رہی ہے اوروہ سچوں میں سے ہے۔پانچویں بار مجھے اس وقت قرآن کریم میں لکھا گیا ہے جب میں یوسفؑ پر لگائے گئے الزام کے خلاف ان الفاظ میں گواہی دے رہی تھی: فَلَمَّا رَاٰ قَمِیۡصَہٗ قُدَّ مِنۡ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنۡ کَیۡدِکُنَّ ؕ اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ۔(سورہ یوسف آیت نمبر 29) پس جب اس نے اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی دیکھی تو بیوی سےکہا یقیناً یہ تمہاری چالبازی سے ہوا۔ یقیناً تمہاری چالبازی (اے عورتو!) بہت بڑی ہوتی ہے۔چھٹی دفعہ مجھے اس وقت تحریر میں لایا گیا ہے جب کہ حضرت یعقوبؑ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ان کا بیٹا حضرت یوسفؑ ابھی تک حیات ہے اور گھر والوں کو بلا رہا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًاۚ وَ اۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ۔(سورہ یوسف آیت نمبر 94) میری یہ قمیص ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے سامنے اسے ڈال دو، اس پر حقیقت واضح ہوجائے گی اور میرے پاس اپنے سب گھر والوں کو لے آؤ۔ ساتویں دفعہ بالواسطہ میرا ذکر اس وقت آتا ہے جب میرے آقا و مالک حضرت یوسفؑ نے مجھے اُتار کر اپنے بھائیوں کو دیا اور کہا کہ اسے حضرت یعقوب ؑ کے سامنے رکھنا تو اس کو معلوم ہو جائے گا کہ میں زندہ ہوں۔ جیسا کہ لکھا ہے: فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰٮہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ ۚۙ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔(سورہ یوسف آیت نمبر 97 ) پھر جب خوشخبری دینے والا آیااور اس نے اُس قمیص کو اس کے سامنے ڈال دیا تو اس پر حقیقت واضح ہوگئی۔ اس نے کہا کیا میں تمہیں نہیں کہتا تھا کہ میں یقیناً اللہ کی طرف سے ان باتوں کا علم رکھتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سورت یوسف کی تفسیر میں قمیصِ یوسف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’حضرت یوسفؑ کے تمام کام قمیص ہی سے متعلق رہے۔ باپ کے پاس بھی بھائی قمیص ہی سے پُر خون لے کر گئےتھے کہ بھیڑیا کھا گیا۔پھر مصر میں بھی جب ایک عورت نے اتہام لگایا تو قمیص ہی سے بریت ہوئی۔اب جب ان کی خوشحالی کا وقت آیا تو اب بھی قمیص ہی بھیجا۔ باریک بین لوگ اس قسم کی باتوں کو خوب سمجھتے ہیں‘‘۔(حقائق الفرقان جلددوم صفحہ 406)

وقت گزرنے کے ساتھ میری طرف بعض فضول وعبث باتیں بھی منسوب کی گئیں جس کو میں ہر گز ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مثلاً یہ کہا جاتاہے کہ میں وہ قمیص ہوں جو کہ جنّت سے اس وقت اُتری جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں برہنہ کرکےڈالا گیاتو انہوں نے مجھے اس وقت پہنا۔یہ بھی میری طرف منسوب کیا جاتاہےکہ حضرت ابراہیمؑ مجھے اپنے استعمال میں اپنی وفات تک لاتے رہے۔ آپؑ کی وفات کے بعد حضرت اسحٰق علیہ السلام کے پاس یہ قمیص آ گئی۔ان کی وفات کے بعد حضرت یعقوبؑ کے حصے میں آئی۔ حضرت یعقوبؑ نے اس قمیص کو ایک تعویذ بنا کرحضرت یوسف ؑکے گلے میں ڈال دیا تھا تاکہ آپؑ لوگوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں۔ جب آپؑ کو کنویں میں ڈالا گیا تو اس وقت آپؑ کے بھائیوں نے آپؑ کا کرتہ اُتارلیا تھا۔اس وقت جبرئیلؑ تشریف لائے اور اس تعویذ کو دوبارہ قمیص کی شکل میں تبدیل کرکے آپؑ کے جسم کو ڈھانپا گیا۔ایک اور بات پیراہن یوسف ؑکی طرف یہ بھی منسوب کی جاتی ہے کہ اس کو جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا گیا تو آپؑ کی بینائی واپس آگئی، گویا کہ یہ قمیص ِیوسف کا یا حضرت یوسف ؑکا معجزہ تھا۔لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں یہ سب کچھ ایسے ہی لوگوں نے بڑھا چڑھا کرمیری طرف منسوب کیا ہے۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اَلۡقٰٮہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ کے ظاہری معنے تو یہی ہیں۔کہ ان کے منہ پرڈال دی۔لیکن قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو کچھ ظاہر ہوا۔حضرت یوسفؑ کا معجزہ نہ تھابلکہ حضرت یعقوبؑ کاتھا۔ورنہ قمیص سے آنکھیں اچھی ہونے پر انہیں چاہیے تھاکہ کہتے کہ دیکھو یوسف نے کتنا بڑا معجزہ دکھایا ہے۔کہ اس کی قمیص سے میری آنکھیں اچھی ہوگئی ہیں۔مگر وہ قمیص ڈالنے کے نتیجہ میں کہتے یہ ہیں کہ دیکھو میری بات سچّی ہوگئی کہ یوسف زندہ ہے…فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا سے یہ مراد نہیں کہ اندھے تھے پھربینا ہوگئے۔ بلکہ یہ کہ جس امر کو پہلے ایمان سے تسلیم کرتے تھے۔اب ظاہری علم کے ماتحت امر واقع کی طرح اس کو ماننے لگ گئے۔ ‘‘(تفسیر کبیرجلد3صفحہ358)

حضرت یوسفؑ کی قمیص کا ذکر عہد نامہ قدیم میں

’’اور یُوں ہُوا کہ جب یُوسف اپنے بھائیوں کے پاس پہنچا تو اُنہوں نے اس کی بُو قلمُون قبا کو جو وہ پہنے تھا اُتار لِیا۔ اور اسے اُٹھا کر گڑھے میں ڈال دِیا۔ وہ گڑھا سُوکھا تھا۔ اُس میں ذرا بھی پانی نہ تھا…پھر اُنہوں نے یُوسف کی قبا لے کر اور ایک بکرا ذبح کر کے اُسے اس کے خُون سے تر کیا۔اور اُنہوں نے اُس بُوقلمُون قبا کو بھجوا دیا۔ سو وہ اُسے ان کے باپ کے پاس لے آئے اور کہا کہ ہم کو یہ چیز پڑی ملی۔ اب تُو پہچان کہ یہ تیرے بیٹے کی قبا ہے یا نہیں؟اور اُس نے اُسے پہچان لیا اور کہا کہ یہ تو میرے بیٹے کی قبا ہے۔ کوئی بُرا درِندہ اُسے کھا گیا ہے۔ یُوسف بیشک پھاڑا گیا۔‘‘(پیدائش باب 37آیت نمبر23تا33)

اسی طرح آگے لکھا ہے:’’تب اُس عورت نے اُس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔ وہ اپنا پیراہن اُس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نِکل گیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ وہ اپنا پیراہن اُس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ تو اُس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بُلاکر اُن سے کہا کہ دیکھو وہ ایک عِبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لئے ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یہ مُجھ سے ہم بِستر ہونے کو اندر گُھس آیا اور مَیں بلند آواز چِلاّنے لگی۔ جب اُس نے دیکھا کہ مَیں زور زور سے چِلاّ رہی ہُوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نِکل گیا۔ اور وہ اُس کا پیراہن اُس کے آقا کے گھر لَوٹنے تک اپنے پاس رکھّے رہی۔تب اُس نے یہ باتیں اُس سے کہیں کہ یہ عِبری غُلام جو تُو لایا ہے میرے پاس اندر گُھس آیا کہ مُجھ سے مذاق کرے۔ جب مَیں زور زور سے چِلاّنے لگی تو وہ اپنا پیراہن میرے ہی پاس چھوڑ کر باہر بھاگ گیا۔‘‘(پیدائش باب39آیت نمبر12تا18)حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ بائبل کے اس بیان پرکہ’’اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نِکل گیا۔ ‘‘لکھتے ہیںکہ’’بائبل کو اس جگہ بھی قرآن کریم سے اختلاف ہے۔اس میں لکھا ہے کہ حضرت یوسفؑ اپنا پیراہن عزیز کی بیوی کے پاس چھوڑ کر بھاگ گئے۔مگر جب ہم اس امر کومدّنظررکھیں کہ عبرانیوں میں عام طور پر ایک کرتہ ہی پہننے کا رواج تھا۔تواس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ وہ ننگےبھاگےجو ایک نہایت معیوب امر ہے۔اور اس کی امید حضرت یوسف علیہ السلام سے نہیں کی جاسکتی۔پس قرآن کریم کا بیان عقلاً بھی زیادہ قابل تسلیم ہے کہ ان کا کرتہ پھٹ گیا تھا وہ اسے پھینک کر نہیں بھاگے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد3صفحہ300)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button