محمودہ باسط:ایک واقفِ زندگی، مبلغِ سلسلہ کی بیوی
امی کی وفات کے کچھ روز بعد ایک دوست نے پوچھا کہ جماعتی بزرگان کی وفات پر تو تم بہت جلدی مضمون لکھ دیتے رہے ہو، اپنی والدہ کی دفعہ کیا ہوا؟
میں نے انہیں کیا جواب دیا اور کیا کہہ کر ٹالا ، یہ اہم نہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ کسی کی وفات پر کچھ لکھنے کے لیے اس کی وفات کا یقین آنا بھی تو ضروری ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ تذکرہ میری ماں کا ہے، توجماعتی رسائل کا کام یہ تو نہیں کہ میرے ذاتی دکھ کا بوجھ ڈھوتے پھریں۔
مگر امی کی زندگی کا ایک پہلو ایسا ہے کہ اسے بیان کرنا افادۂ عام کا باعث ہوسکتا ہے۔ اور وہ ان کا اپنے واقفِ زندگی شوہر کے ساتھ ایک واقفِ زندگی ہی کی طرح نباہ کرنا ہے۔ 62 سال تک نباہ کرنا۔تو یہ نصف صدی سے بھی زیادہ کا قصہ ہے۔ دو چار برس کی بات نہیں۔
اس عنوان اور اس نیت اور ارادے کے باوجود اگر اس مضبوط عمارت کے بیان کی درزوں میں سے میرا ذاتی دکھ رستا ہوا نظر آئے تو ، میری تحریر کی کوتاہی اور انسانی کمزوری پر محمول کر تے ہوئے معاف کردیں۔ میں اپنے تجربات اور مشاہدات لکھ رہا ہوں، تو میری ذات اور میرا ذاتی دکھ کہیں نہ کہیں ضرور نظر آجائے گا۔
میر ی امی کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا اور بہت بڑا حصہ خودفراموشی کا ہے۔ اور دوسرا صرف فراموشی کا۔ دوسرا حصہ زندگی کے آخری حصہ میں لاحق ہوا جب dementia کے مرض نے پے در پے کاری ضربیں لگا ئیں۔ مگر امی کی زندگی کا بیشتر حصہ اس خود فراموشی پر مبنی ہے جو وقفِ زندگی کی روح ہے۔
انہوں نے خود کو فراموش رکھا اپنے شوہر کے لیے، اپنے ساس اور سسر کی خدمت کے لیے۔ اپنے شوہر کی برس ہا برس کی غیر موجودگی میں اپنے چھ بچوں کی پرورش کے لیے۔جماعتی خدمت کے لیے اور سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کے لیے۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو ابّو افریقہ میں تعینات تھے۔ سو میرااپنے والد سے پہلا تعارف ان تصویروں کے ذریعے ہوا جو امی بہت سنبھال کر رکھا کرتیں اور مجھے دکھایا کرتیں۔ بہت ہی محبت اور بہت فخر کے ساتھ۔ تصاویر تو صرف چہرے مہرے سے واقفیت کا کام کرسکتی ہیں، مگر میرے ابّو کی شخصیت سے مجھے متعارف کروانے کے لیے ابّو کے خط تھے جو میرے باقی بہن بھائی تو پڑھ لیا کرتے، مجھے امی خود سنایا کرتیں۔ لفظ لفظ پر قربان جایا کرتیں۔ اور پھر سب سے اہم تعارف اپنے والد سے ان باتوں کے ذریعے ہوتا جو امی بڑے اہتمام سے مجھے سناتیں۔
میری امی نے میرے ابّو کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ میں بہت معصومیت سے سوال کرتا کہ سب کے ابّو اُن کے ساتھ رہتے ہیں، میرے ابّو کیوں ساتھ نہیں رہتے۔ اس پر میری امی فخر سے مجھے بتاتیں کہ ’’بیٹا، آپ کے ابّو تو مبلغ ہیں۔ اسلام کی خدمت کے لیے افریقہ میں اکیلے رہتے ہیں۔ بہت بڑا کام کرتے ہیں۔ ان کے لیے دعائیں کیا کرو۔‘‘
ان باتوں نے میرے دل میں میرے ابّو کے لیے تو عزت اور قدر اور منزلت پیدا کر ہی دی، مگر ہمیشہ کے لیے وقفِ زندگی اور تبلیغِ اسلام کی عظمت کا احساس بھی اجاگر کردیا۔ اس کٹھن جدائی کو وہ کیوں کر جھیلتی تھیں، وہ بھی چھ بچوں کے ساتھ، اس کا شکوہ مجھے ایک دفعہ بھی امی کے منہ سےسننا یاد نہیں۔ بس ابّو ایک ہیرو تھے۔ ایک مبلغِ اسلام احمدیت۔ اور بس!
ابّو کے اس ابتدائی تعارف سے ابّو اور ان کے ساتھ تبلیغ اور وقف کی عظمت تو ذہن پر نقش ہو ہی گئی، ساتھ امی بھی لاشعوری طور پر ایک مجاہدہ کے طور پر نظر آنے لگیں۔ مجاہدہ۔ ہر دو معانی میں۔
ابّو کے اس غائبانہ تعارف سے جو امی کروایا کرتیں، فائدہ تو بہت ہوا۔ مگر یہ بھی ہوا کہ امی ہمیشہ کے لیے میرے اور ابّو کے بیچ میں ایک رابطہ اور وسیلہ بن گئیں۔ 47 سال تک ہم دونوں کے درمیان قائم رہنے والایہ وسیلہ کچھ روز ہوئے ٹوٹ گیا۔ اور یہ وسیلہ کیا ٹوٹا
جس کا دل ٹوٹنے کی باتیں تھیں
آج وہ آدمی ہی ٹوٹ گیا
تو اب امی کے ذکر کی طرف لوٹتے ہیں۔ اور چلتے ہیں ربوہ کے محلے دارالرحمت وسطی میں جہاں یہ خاتون ایک سادہ سے مکان بلکہ یوں کہیں کہ دو کمروں میں اپنے چھ بچوں سمیت خدا کی راہ میں ہجر کے دن کاٹتی تھی۔ مگر کیا ہی بھرپور دن تھے۔
چلچلاتی دوپہر ابھی ڈھلتی ہی تھی کہ صحن میں چھڑکاؤ ہوتا۔ چارپائیاں بچھائی جاتیں۔ پنکھا رکھا جاتا۔ یہ تیاری ہوتی ان بچوں کے آنے کی جو ہماری امی سے قرآن کریم پڑھنے آیا کرتے۔ یہ روزانہ کا معمول تھا۔ کسی کو قاعدہ یسرنا القرآن کا سبق دے رہی ہیں۔ کسی کو قرآن کریم پڑھا رہی ہیں۔ کسی کو سورتیں یاد کروارہی ہیں۔
امی ان بچوں کو قرآن ہی نہ پڑھاتیں بلکہ ان کی تربیت بھی کرتی جاتیں۔ بعض باتیں امی کی ایسی تھیں کہ شاید بظاہر سخت بھی لگتی ہوں، مگر ان میں بھی تربیت ہی مقصود ہوتی۔ مثلاً قرآن کریم پڑھتے ہوئے کسی بچے کا ناک بہہ رہا ہے( یا بہنے کو تیار ہےاور بچہ اسے مشکلوں سے ناک میں تھامے ہوئے ہے) تو اسے ہاتھ یا کپڑے کے پلو سے کبھی نہ پونچھنے دیتیں۔ ہمیشہ کہتیں کہ پانی سے ناک صاف کر کے ہاتھ دھو کے صاف ہو کر آؤ۔ کسی کے قاعدے یاقرآن کریم کے اوراق کے کونے مڑے ہوئے نظر آتے تو بھی ٹوکتیں کہ یہ کیوں کیا ہے۔ آئندہ کسی ورق کی ایسی حالت خراب نہیں کرنی۔ بعض بچوں کو تو خود قاعدے پر کاغذی جلد چڑھا دیتیں اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے قرآن کریم کی عظمت دلوں میں بٹھاتیں۔ غرض روزانہ شام کو امی تعلیم و تربیت کا ایک ادارہ بن جاتیں۔
مگر پھر امی صبح و شام ایک ادارہ ہی تو تھیں۔ چھ بچوں کی نمازوں کی باقاعدگی پر نظر رکھنا۔ کون پڑھ رہا ہے۔ کون سُستی دکھا رہا ہے۔ کون عشا کی نماز پڑھنے گیا تھا اور چند ہی لمحوں میں واپس آگیا ہے۔ کس نے دو رکوع پڑھنے تھے مگر چند منٹ بعد ہی اونچی آواز میں درود شریف پڑھتا پھر رہا ہے تا کہ امی کو لگے کہ اس نے دو رکوع پڑھ لیے ہیں۔ بہنوں کا پردہ کیسا ہے۔ ہم سب کے اخلاق کیسے ہیں۔ آئے گئے کو سلام کیا یا نہیں۔ مہمان کی عزت اس طرح کی یا نہیں جس طرح کرنی چاہیے ۔ کھانا کس طرح کھا یا۔ اپنے سامنے سے کھانا ڈالا یا یہاں وہاں چمچ گھمایا کیے۔ تمیز۔ سلیقہ۔ سب کچھ۔ امی ہر چیز پر کڑی نگاہ رکھتیں۔ وہ ایک واقفِ زندگی کے بچوں کی پرورش جو کررہی تھیں۔
مہمان نوازی امی کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تھا۔اس میں تو امی نے ایسے نمونے قائم کیے جو سبھی کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ گھر میں جو کچھ بھی ہے مہمان کے سامنے رکھ دیا۔چائے پیے بغیر کسی کو نہ جانے دیا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تب امی خود بھی چائے کی بہت شوقین تھیں۔ آج تک باورچی خانے سے ہر وقت Richbru اور لپٹن کی خوشبو کا سارے گھرمیں پھیلنا یاد ہے۔ شاید میں خود بھی جو دن بھر میں کئی پیالیاں چائے کی پی جاتا ہوں، وہ اسی چائے کی خوشبو کی تلاش میں پیتا ہوں جو امی کے باورچی خانے سے اٹھا کرتی تھی اور جس کی بھاپ کسی معصوم ذہن پر میٹھی سی درد دینے والے آبلےچھوڑ گئی ہوئی ہے۔ مگر کیا کریں کہ بھانت بھانت کی چائے پی۔ اچھی سے اچھی۔ اسام کی۔ بنگال کی۔ سیلون کی۔ کینیا کے باغات کی۔ نہیں آئی تو وہ خوشبو نہیں آئی جو امی کے باورچی خانے میں ابلتی چائے سے اٹھا کرتی تھی۔
اس مہمان نوازی میں بھی بعض اوقات ایک عجیب ادا ہوتی۔ مہمان کے پاس بیٹھے بیٹھے میری بڑی بہنوں کو کہہ دیتیں کہ چائے لے آؤ اور ساتھ کچھ اوربھی لے آنا۔ بہنیں باورچی خانے میں چھپ کر ایک دوسرے سے پوچھتیں کہ امی کو کیسے بتایا جائے کہ چائے کے ساتھ ’’کچھ اور‘‘ جیسی ’’عیاشی‘‘ سے تو ہم کئی دن سے نا آشنا چلے آتے ہیں۔ کہاں سے لے آئیں۔ مگر یہ بھی امی کی کفایت شعاری اور سگھڑاپے کا کمال تھا کہ یہ ’’کچھ اور‘‘ کسی نہ کسی الماری کسی نعمت خانے سے نکل ہی آیا کرتا۔
امی بہت ہی محنت کش خاتون تھیں۔ خاتون کیا، ایک مشین تھیں۔ سورج کی پہلی کرن تو بعد میں کہیں پھوٹتی ، امی کا کارخانہ ٔ حیات اس سے بھی پہلے چل پڑتا۔تہجد، نمازِفجر، تلاوتِ قرآن کریم۔ ہمیں سکول کے لیے تیار کرنا۔ سکول بھیجنا اور پھر ہمارے آنے سے پہلے کھانے کی تیاری۔ گھر کا جھاڑو بہارو۔ صفائیاں۔ اور گرمیوں میں کمرے کے فرش پر ٹھنڈا پانی چھوڑنا کہ ہم گرمی سے آئیں تو کچھ دیر کے لیے ٹھنڈا فرش باعثِ تسکین ہو۔
اوپر کفایت شعاری کی بات ہوئی تو آسودہ حال گھرانوں میں پلنے والی نئی نسل کو شاید معلوم نہ ہو کہ جن گھروں پر تنگدستی کا راج ہو، وہاں اچار ایک بہت معزز عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ روٹی کے ساتھ کچھ اور نہ بھی ہو تو اچار ہر کمی کو دور کردیتا ہے۔ آموں کے موسم کے آغاز میں امی بہت سی امبیاں لے آتیں اور پھر انہیں کاٹ کر سوکھنے کے لیے چارپائیوں پر پھیلا دیتیں۔ اس عمل میں کچھ دن لگتے اور اس عرصہ میں گھر بھر میں سوکھتی امبیوں کی خوشبو گھرکی فضا میں پھیلی رہتی۔ پھر ایک دن امی بہت سے مرتبان سامنے رکھتیں اور ان امبیوں کی خوشبو کے ساتھ میتھے اور اجوائن اور سرسوں کے تیل کی خوش بوئیں بھی شامل ہوجاتیں۔ اور یوں سال بھر کے لیے اچار تیار ہوجاتا۔ ہمیں تو حسبِ توفیق ہمیشہ کھانا پکا ہی دیتیں۔ مگر خود امی کو ہم نے بہت دفعہ روٹی کے ساتھ صرف اچار کھاتے دیکھا ۔ کہتی تو یہی تھیں کہ میرا صرف اچار کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ ٹھیک ہی کہتی ہوں گی۔ کیونکہ کبھی اچار ڈالنے کے عمل میں اکتاہٹ یا بیزاری نہیں دیکھی۔ یہ نہیں کہ ساتھ ساتھ تنگ دستی کے شکوے کررہی ہوں۔ الٹا ایسے شوق کا مظاہرہ ہوتا جیسے یہ امی کا من پسند مشغلہ ہے۔
بات من پسند مشغلے کی ہے، تو سلائی کڑھائی امی کا واقعۃً پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اور امی نے اس شوق کو بھی کفایت شعاری کی داستان رقم کرنے پر لگا دیا ہوا تھا۔ ہم سب بہن بھائیوں کے کپڑے خود سی کر دیتیں۔ بہنوں کو بھی سلائی سکھائی۔ خود مجھے سکول کے زمانے تک امی کے سیے ہوئے کپڑے پہننا پڑے۔ ’’پڑے‘‘ اس لیے کہ ذرا ہوش کی عمر کو پہنچ کر میں ان پر ناک بھوں چڑھایا کرتا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ امی ہمارے لیے اپنی محدود استطاعت کے مطابق بہترین ملبوسات مہیا کررہی ہیں۔ یہ احساس تو بہت بعد میں ہوا۔اور کچھ دن ہوئےیہ احساس بہت ہی بڑھ گیا ہے۔ اللہ انہیں بہت جزا دے کہ انہوں نے میرے ابّو کو ہزاروں میل دور بیٹھے پریشانی کا شکار کرنے کی بجائے اپنی تمام صلاحیتیں اس واقفِ زندگی شوہر اور اس کے گھر بار اور اس کی اولادکے لیے وقف کردیں۔
ملبوسات کا ذکر ہے تو ربوہ کے لنڈے بازار کا شکریہ ادا نہ کرنا زیادتی ہوگی، کہ اس نے امی کا بہت ساتھ دیا اور وہاں سے ہمیں بہت سے ملبوسات میسر آئے۔ امی ریلوے پھاٹک کے کنارے لگے اس بازار سے کپڑے چھانٹ کر لاتیں۔ بالخصوص سردیوں کے سویٹر اور جرسیاں۔ انہیں صاف ستھرا کر کے ہمیں پہناتیں۔ ہم انہیں سالوں پہنتے۔ سالوں یوں کہ چھ بچوں میں بڑے بچے کے سائز کا کپڑا آجائے تو چھ سال تک کسی نہ کسی کو پورا آتا رہتا۔ جب وہ سویٹر جواب دینے لگتے تو انہیں ادھیڑ کر اُون کے گولے بنا لیتیں اور پھر اُون بُننے والی سلائیاں لے کر اسی اُون سے نیا سویٹر یا مفلر یا ٹوپی بُن دیا کرتیں۔
پھر جب یہ بھی اپنی عمر پوری کر لیتے تو دوبارہ ادھیڑ کر اس اُون کے کمبل بنوالیتیں۔ پھر یہ کمبل تو حقیقۃً سالوں چلتے۔ اب بھی کہیں نہ کہیں یہ رنگ برنگے (اور بعض بد رنگے) کمبل موجود ہوں۔بدرنگے یوں کہ چار سویٹر کم پڑ گئے تو ایک آدھ اونی مفلر بھی ادھیڑکر اس میں جھونک دیا گیا اور سرخ کمبل میں مہندی رنگ کی پٹی سی لگ گئی۔ یوں ہمارا گزارا بہت اچھا ہوتا رہا اور اللہ نے ہمارے ماں باپ کی سفید پوشی کا بھرم رکھا۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہماری خواہشیں پوری ہونے سے رہ گئی ہوں۔ میرے ہوش سنبھالتے تک کشائش ہمارے گھر کے پردوں کی اوٹ سے جھانکنے لگی تھی۔مجھے hat پہننے کا شوق چرایا تو امی نے ربوہ بھر میں گھوم کر فلاں گفٹ سنٹر اور فلاں جنرل سٹور اور نہ جانے کون کون سی دوکان چھان ڈالی۔ اور تب تک دم نہ لیا جب تک میری خواہش پوری نہ ہوگئی۔میرا بستہ میری پسند کا ڈھونڈا اور دلوایا۔ ہماری تعلیم کے لیے جو کرسکتی تھیں، کیا۔
ہم سب بہن بھائیوں کی تربیت پر اپنی پوری طاقت خرچ کردی۔ اس معاملے میں بہت باریکی سے نظر رکھتیں۔ ماہِ رمضان کی ایک صبح کی بات ہے۔ سب روزہ رکھ کر آرام کررہے تھے۔ میں اٹھ کر سکول جانے کے لیے تیار ہوا اور جیب خرچ لینے امی کے پاس گیا۔ امی سب کو روزہ رکھوا کر سو رہی تھیں۔میں نے ان کے آرام کے خیال سے انہیں اٹھایا نہیں اور خود ہی وہاں دیکھا جہاں سے امی مجھے جیب خرچ دیا کرتی تھیں۔ اور ایک روپیہ خود ہی اٹھا لیا اور سکول کے لیے روانہ ہوگیا۔
ابھی میں کمرے سے باہر نکلا ہی تھا کہ امی میرے پیچھے آئیں اور مجھے واپس بلا کر کہا کہ جیب خرچ تو لیتے جاؤ۔ میں نے بتایا کہ میں نے لے لیاہے۔ امی نے اس بات پر خوش ہونے کی بجائے کہ میں نے ان کے آرام کا خیال کیا، مجھے سختی سے ٹوکا اور کہا: ’’بغیر اجازت کچھ بھی اٹھانے سے چوری کی عادت پڑتی ہے۔ تم ایک مربی کے بیٹے ہو۔ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔‘‘
امی خود بہت تعلیم یافتہ نہیں تھیں۔ مگر اپنے سب بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ نیا تعلیمی سال شروع ہونے لگتا تو نئی کلاسوں کی کتابوں کے حصول کی کوشش میں لگ جاتیں۔وہ یوں کہ اپنے جاننے والوں یا رشتہ داروں میں جن کے بچے ہم سے اگلی کلاس میں ہوتے، ان کی کتابیں ہمارے لیے لے لیتیں۔ البتہ کاپیاں (notebooks) تو نئی ہی درکار ہوتیں۔ وہ بھی مہیا کرتیں۔ دستے (loose paper)خریدتیں اور انہیں بیچ سے سلائی لگا کر ان کی شیرازہ بندی یوں کر دیتیں کہ وہ ایک نوٹ بک کی شکل اختیار کرجاتا۔ اگرچہ یوں نوٹ بک بنانا ہمارےزمانے کا عام رواج تھا، مگر بچوں کے لیےیہ دستےمہیاکرنابھی ایک قربانی مانگتا تھا۔ مگر امی نے ہمارے لیے کیسی کیسی قربانی نہیں دی؟
میری اچھی تعلیم کے لیے امی کی ایک کوشش کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ کہ اس سے وابستہ ایک دکھ میں نے اور امی دونوں نے اٹھایا۔ مگر اس میں بھی امی کا مجھ پر ایک بہت بڑا احسان تھا۔
ہم زیمبیا سے پاکستان واپس آئے تو میری عمر بارہ سال تھی۔ ابّو کی تقرری ربوہ میں ہوگئی جہاں اس وقت تک کوئی انگریزی سکول نہ تھا۔ میری تعلیم بچپن سے ہی انگریزی میڈیم تھی۔ اس خیال سے کہ میری تعلیم کا حرج نہ ہو، امی نے مجھے کراچی میں ایک انگریزی سکول میں داخل کروایا اور مجھے بھائی اور بھابی کے سپرد کے خود ربوہ چلی گئیں۔ مانا کہ بچے بورڈنگ سکول بھی اسی عمر میں جایا کرتے ہیں، مگر ان کے ذہن بچپن ہی سے اس طرز پر تیار کیے جاتے ہیں۔ میری امی نےتو مجھے اپنی چھاتی سے چمٹا کر پالا تھا۔ مجھے لاڈ میں بگاڑا تھا۔میرے ذہن میں امی سے جدا ہونے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ امی سے جدائی کا یہ دھچکا میرے دل پرنہایت گراں گزرا۔ اگرچہ میرے بھائی اور بھابی اور ان کے جرمنی چلے جانے کے بعد میری ایک بہن اور بہنوئی نے میرا بہت خیال رکھا، بہت محبت دی، مگر میرےدل و دماغ امی کی جدائی سے ایسے مجروح ہوئے کہ اس کے گہرے نقش آج تک قائم ہیں۔ میں دن میں بھی اور راتوں کو بھی امی کی جدائی میں بہت تڑپا اور چھپ چھپ کربہت رویا۔ اتنا کہ امی کی وفات پر میرے لیے صبر کرلینے کا مرحلہ آسان ہوگیا۔ شاید امی کی جدائی والے سب آنسو میں نے اس دور میں بہا دیے تھے۔
یوں امی نے اچھی تعلیم کی خاطر قربانی دے کر (اور لے کر)مجھے اس دن کے لیےبھی تیار کردیا جب امی جدا ہوں گی اور کبھی نہ ملیں گی۔ گرمیوں یا سردیوں کی چھٹیوں میں بھی نہیں۔کبھی بھی نہیں۔
جب میں نے میٹرک کر لیا اور کالج کی تعلیم کے لیے دوبارہ ربوہ آیا تو امی مجھے دوبارہ ملیں اور میں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہوگیا۔ میں امی کے بچھڑ جانے کی ہر ممکنہ صورت سے ایسا خوف زدہ تھا کہ میں راتوں کو اٹھ کرچھپ چھپ کر یہ تک دیکھتا کہ امی کی سانس چل رہی ہے یا نہیں۔ اور کیسی عجیب بات ہے کہ امی کی وفات کی اطلاع مجھے نرس نے فون پر ان الفاظ میں دی:
’’Asif, your mum has stopped breathing!‘‘
اکثر پاکستانی ماؤں کی طرح میری امی مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں۔ بچپن سے میرے ذہن میں یہی بات ڈالی۔ تا وقتیکہ کالج کا زمانہ آگیا۔ میں نے کچھ عرصہ امی کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی کوشش میں سائنس کے مضامین پڑھے بھی مگر میرے رحجانات فطری طور پر ادبیات کی طرف تھے۔ میں بہت کوشش کے باوجود انہیں تبدیل نہ کرسکا۔ کئی دن کی شش و پنج کے بعد میں نے ایک صبح ناشتے پر یہ اعلان کردیا کہ میں سائنس نہیں پڑھوں گا۔ میں فلسفہ اور لٹریچر پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں نے ڈاکٹر نہیں بننا!
مجھے اس لمحے تک یہ تو پتہ تھا کہ میری امی کو مجھے ڈاکٹر بنانے کی بہت زیادہ خواہش ہے۔ مگر یہ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ چونکہ میں امی کا آخری بچہ ہوں لہذا یہ امی کا آخری خواب ہے۔امی نے میرا یہ اعلان سنا۔خاموشی سے اپنا ناشتہ اٹھایا اور باورچی خانے میں چلی گئیں۔
میں کچھ دیربعد ڈرتا ڈرتا باورچی خانے میں گیا۔ امی ایک الماری پر اپنی کہنیاں ٹیکے، اپنی ہتھیلیوں میں اپنا منہ چھپائے ایسے بلک بلک کر رو رہی تھیں جیسے ان کا جوان بیٹا ان کے سامنے قتل کرکے پھینک دیا گیا ہو۔سسکیوں کے بیچ بیچ میں کہتی جاتیں: ’’میرےکَر نُوں کیدی نظر لگ گئی؟ میرے وَلوں کی کمی رہ گئی؟‘‘
امی نے کئی سال اکیلے رہ کر ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم پر اپنی استطاعت کے مطابق خوب محنت کی تھی۔ ہم میں سے کوئی بھی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکا تھا۔ میرے اس اعلان سے امی کو لگا کہ انہوں نے اپنے واقفِ زندگی شوہر کا کوئی بہت بڑا بھرم توڑ دیا ہے۔ جو آخری امید تھی وہ بھی جاتی رہی۔
مگر بچوں کی خواہش کے آگے ہارجانے میں بھی ماؤں کے لیے کوئی انجانی لذت رکھی گئی ہے۔ امی نے ہتھیار ڈال دیے۔ دعائیں دیں۔ میری مرضی کے مطابق پڑھنے دیا۔ جب میں نے ایم اے کرلیا تو امی پھولے نہ سماتی تھیں۔ مجھے بھی کچھ تسلی ہو گئی کہ امی کا جو ڈاکٹر بچہ امی کی آنکھوں کے آگے ہلاک ہواتھا، اللہ نے اس کا نعم البدل امی کو دے دیا ہے۔ ماں جو تھی۔ ورنہ میں کیا اور میرا ایم اے کیا۔ یہ تو مجھے ہی معلوم ہے۔ مگر ماؤں کی لاج رکھنےمیں خدا تعالیٰ ستاری کے عجیب رنگ دکھاتا ہے۔ خدا تعالیٰ آئندہ بھی میرا پردہ رکھے۔
ہم ربوہ میں جس مکان میں رہتے تھے، وہ یونہی یکلخت کھڑا نہیں ہوگیا تھا۔ ہوتے ہوتے ہوا تھا۔ ایک کمرہ بنا۔ پھر باورچی خانہ بنا۔ پھر ایک اور کمرہ ۔ پھر کہیں ایک اور کچا سا کمرہ ڈال لیا۔ ان کمروں کی چھتیں کچی تھیں۔لوگ برسات میں طرح طرح کے پکوان پکایا کرتے مگر ہمارے لیے تو برسات چھت ٹپکنے کا نام تھا۔ کہیں نہ کہیں سے پانی راہ پاجاتا اور کمروں کے اندر دیواروں پر پھیلنے لگتا۔ ابّو پردیس میں تھے۔ مستری مزدور بلانے کی استطاعت تھی نہیں ۔ ایسے میں امی مٹی اور تُوڑی گوندھ کر گارا تیار کرتیں۔ پھر رات ہونے کا انتظار کرتیں کہ بے پردگی نہ ہو۔ جب اندھیرا پھیل جاتا تو اچھی طرح چادر لپیٹ کر چھت پر چڑھتیں، نیچے میرے بڑے بہن بھائیوں کی ڈیوٹی ہوتی کہ تسلوں میں گارا اور بالٹیوں میں پانی کی ترسیل جاری رکھیں۔ امی اوپر بیٹھ کر لپائی کرتی جاتیں۔ اور کام ختم ہو جانے پرخاموشی سے نیچے اتر آتیں۔
امی تلاوت قرآن کریم میں نہ صرف خود بہت باقاعدہ تھیں، بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس باقاعدگی کی عادت ڈالی۔ اور بہت سے دوسرے بچوں کو بھی۔ ہم زیمبیا رہے، تو امی نے وہاں بھی قرآن کریم ناظرہ سکھانے کا کام جاری رکھا۔ ایسے ایسے بچوں بلکہ بڑی عمر کی مقامی خواتین کو بھی قاعدہ یسرنا القران اور پھر قرآن کریم پڑھا ڈالا جو عربی تو کیا، اردو تک سے واقف نہ تھیں۔ بلکہ انگریزی کے معاملہ میں بھی تقریباً ناخواندہ تھیں۔
پھر واپس ربوہ جا کر بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1999 میں انگلستان آگئیں تو یہاں بھی احمدی بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی رہیں۔
میرے بیٹے عزیزم رومان کو بڑی توجہ سے قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔ سب کو بہت فخر سے بتاتیں کہ میں نے اسے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کروادیا ہے۔ جب میری بیٹیوں کی باری آئی اور انہیں قرآن کریم پڑھانے کا کام میری اہلیہ کے سپرد کیا، تو پہلے اس سے قرآن کریم پڑھوا کر اچھی طرح تسلی کی کہ تجویدمیں کوئی سقم تو نہیں ۔ پھر یہ اہم کام اس کے سپرد کیا۔یوں میرے تینوں بچوں کے قرآن کریم سیکھنے میں امی کی محنت اور توجہ شامل ہو گئ۔اور میرے بچے بھی ان سینکڑوں بچوں میں شامل ہوگئے جن کی آنکھیں ناظرے سے روشن کرنے میں اللہ تعالیٰ نے امی کو وسیلہ بنایا تھا۔
امی نے اپنے سب بچوں کو اپنی محبت سے مالا مال رکھا۔ شادیاں ہوگئیں تو دامادوں اور بہوؤں سے بہت شفقت اور محبت کا سلوک کیا۔ بہوؤں کو بیٹیوں کی طرح رکھا اور بہوؤں نے بھی اس محبت کا بہت پاس رکھا۔
ایک نہایت بھرپور زندگی گزارنے کے بعد آخری عمر میں امی کو dementia لاحق ہوگیا۔ کب ہوا، یہ معین طور پر کہنا مشکل ہے کہ اس کے آثار ہوتے ہوتے نمایاں ہوتے ہیں۔ آغاز میں جب امی کہتیں کہ ’’بھئی کوئی ناشتہ ہی کروادو‘‘، تو ہم یہی سمجھتے کہ امی چائے کے ساتھ کچھ ہلکی پھلکی چیز کھانا چاہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ امی کی مراد صبح والا ناشتہ ہی ہوتا اور ان کو یاد نہ ہوتا کہ انہوں نے ناشتہ کر لیا ہوا ہے۔ اور یہ بھی کہ یہ ناشتے کا وقت نہیں ہے۔
اُن دنوں امی اور ابّو ساتھ رہتے تھے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ اوپر گزرے ذکر سے یہ گمان نہ گزرے کہ ہمارے ابّو ہم سے بے نیاز افریقہ میں رہتے تھے اور امی سختیاں جھیلتی تھیں۔ ہمارے ابّو کا تنہا افریقہ میں رہنا بجائے خود ایک صبر آزما کام اور قربانی تھا۔ وہ افریقہ میں رہے، یا ہمارے ساتھ رہے، ہماری امی اور ہم سب کے لیے ابّو نے حسبِ توفیق و استطاعت بہترین زندگی مہیا کرنے کی کوشش کی۔ وہاں بیٹھے جو سہولت کا سامان کرسکتے تھے، کرتے رہے۔ ہماری امی کا بہت خیال رکھا۔ ان کی قربانی کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کا ہر عمل اس قدردانی کا آئینہ دار رہا۔
امی بہت سالوں سے arthritis کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہو بیٹھی تھیں۔ wheelchair استعمال کرنا پڑتی۔ دونوں تنہا ہوتے اور کہیں آس پاس جانا پڑتا تو ابّو خود ان کی ویل چئیر چلاتے۔ امی جب کہتیں کہ مجھے شرمندہ کرتے ہیں، تو ابّو کہتے کہ تم نے میرے ماں باپ کی جس طرح خدمت کی ہے، یہ اس کا کسی بھی طرح بدل نہیں لیکن میرے دل کو تھوڑی تسلی ہی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ابّو نے جس طرح امی کا خیال رکھا وہ خیرکم خیرکم لاہلہ کی ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ dementia کس مجبوری اور بے چارگی کا نام ہے۔ یہ مجبوری اور بے چارگی کسی طفیلیے کی طرح دھیرے دھیرے اپنے شکار سے لپٹتی جاتی اور اپنی گرفت مضبوط کرتی چلی جاتی ہے۔ عموماً چند ماہ یا دو ایک سال میں شکار ڈھے جاتا ہے۔ مگر امی نے تقریباً سات سال اس بیماری کا نہایت صبر سے مقابلہ کیا۔ مگر جب بنیاد ہل جائے تو دیواریں کب تک کھڑی رہ سکتی ہیں؟
امی کسی اور دنیا میں جاچکی تھیں۔ ان کی اپنی دنیا۔ یہ زمانہ امی کے لیے تو ایک آزمائش تھا ہی، ہم سب کے لیے بھی صبر آزما تھا کہ امی سامنے ہوتیں مگر کسی اور دنیا کی باتیں کرتیں۔ امی کو سب تکلیفیں بھول گئیں۔ پھر امی کو سب کچھ بھولتا چلا گیا۔ ہمارے ابّو کو آخری عمر تک پہچانتی رہیں۔ کیسے نہ پہچانتیں؟ ان کی محبت میں باسٹھ برس مبتلا رہی تھیں ۔ تنگدستی ، خوشحالی، غریب الوطنی، خوشی ، غم سب میں یہ ایک ہی تو ساتھی رہا تھا۔ اسے کیسے بھول جاتیں؟
امی کو درثمین، کلامِ محمود، درِ عدن کے بہت سے اشعار زبانی یاد تھے۔ اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی امی زیادہ تر خاموش بیٹھی رہتیں۔ اور پھر کبھی اچانک درثمین کے اشعار لحن سے پڑھنے کی آواز آتی۔ ابھی کل میرے بھائی نے ایسے ایک لمحے کی ریکارڈنگ بھیجی۔ یہ امی کی پر سوز مگرشکستہ ہوچکی آواز میں ہے :
دنیا بھی اک سرا ہے، بچھڑے گاجو ملا ہے۔ گر سو برس رہا ہے، آخر کو پھر جدا ہے۔ شکوے کی کچھ نہیں جا۔ یہ گھر ہی بے بقا ہے۔ یہ روز کر مبارک، سبحان من یرانی۔
اے ہمارے خدا! یہ روز واقعی مبارک کر دے۔ اُس عورت کے لیے جس نے تمام عمر تجھ پر بھروسا کر تے ہوئے گزاری۔ ہم جو اس عورت کے سوگواروں میں ہیں، ہمیں بھی یہ تسلی دے کر کہ تو نے ہماری ماں کو اپنے پیاروں میں جگہ دے دی ہے، ہمارے لیے بھی یہ روز کر مبارک۔
اور اے ہمارے خدا! شکوے کی تو واقعی کوئی گنجائش نہیں۔ امی نے لمبی عمر پائی۔ بھرپور زندگی گزاری۔ قرآن پڑھا اور پڑھایا۔اپنی توفیق کے مطابق تیرے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے دلوں میں خلافت کی محبت اور احترام کے بیج بوئے۔ہم کس بات پر شکوہ کریں؟ ہم صرف تیرے شکرگزار ہیں۔
والدین کی خدمت کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے ناپا تولا جائے۔ اور پھر والدین کا حق تو کبھی ادا ہو ہی نہیں سکتا۔امی کی بیماری میں میری اہلیہ، میری بھابی، میرے بھائی اور میری بہنوں نے امی کی خدمت کی بہت توفیق پائی۔اور میں جو امی ہی کے لاڈ کا بگاڑا ہوا تھا۔ کچھ نہ کرسکا۔
امی کی آخری بیماری کے آخری دنوں میں، میں نے تنہائی کے ایک لمحے میں امی سے اپنے نکمے پن کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی ۔ امی کھوئی کھوئی ، پژمردہ آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہیں۔ کوئی جواب نہ دیا۔مجھے میرے احساسِ گناہ میں چھوڑ کر چلی گئیں۔
اے اللہ! میری امی سے کہنا مجھے معاف کردیں۔ وہ ہمیشہ کی طرح مجھے ضرور معاف کردیں گی۔ اور تُو تو ہزار ماؤں سے بھی کہیں بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔تُو بھی مجھے معاف کردینا۔ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔