حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق (قسط6)
بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ
حضرت اسماعیلؑ ہی وہ بیٹا اور وارث ثابت ہوتے ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا
حضرت ابراہیمؑ کا موعود بیٹا۔ اسماعیل یا اسحاق؟
کتاب پیدائش کے باب 15 کے حوالے سے ہم جانتے ہیںکہ حضرت ابراہیمؑ بوڑھے ہو چکے تھے اوران کی کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ خداتعالیٰ سے شکوہ کرتے رہتےتھے کہ وہ بے اولاد ہیںاور ان کا وارث ان کا بیٹا نہیں بلکہ ایک غلام ہوگا۔ بالآخر خداتعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سن لیا اور وعدہ دیا کہ ان کا وارث ان کا غلام نہیں بلکہ ان کا اپنا صلبی بیٹا ہو گا۔ اور پھر اگلے ہی باب میں یہ ذکر ہے کہ ان کی پہلی بیوی حضرت سارہ نے خود ان کی دوسری شادی حضرت ہاجرہ سے کروائی جس سے خداتعالیٰ نے ان کو بیٹا اسماعیل عطا فرما دیا۔ اور پھر آگے باب 21 میں لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے اسماعیل کی پیدائش کے چودہ سال بعد حضرت ابراہیمؑ کو غیر متوقع طور پر حضرت سارہ سے بھی ایک بیٹا اعجازی رنگ میں عطا فرما دیا جس کا نام اسحاق رکھا گیا۔
اب یہود ونصاریٰ کا یہ کہنا ہے کہ خداتعالیٰ نے جس خاص بیٹے اور وارث کا وعدہ حضرت ابراہیمؑ سے کیا تھا وہ موعود بیٹا اسماعیلؑ نہیں بلکہ اسحاقؑ تھے۔ آئیں بائبل سے ہی معلوم کرتےہیںکہ خداتعالیٰ اور حضرت ابراہیمؑ کے نزدیک اصل پسرموعود کون تھا۔
حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی خبر
حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے چودہ سال بعد خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو اچانک یہ خبر دی کہ ان کو پہلی بیوی سارہ سے بھی بیٹا دیا جائے گا۔ اور یہ تلقین کی کہ اس کا نام اسحاق رکھا جائے۔ یہ خبر بائبل میں اس طرح درج ہے:’’اور خدا نے ابرہام سے کہا کہ سارہ جو تیری بیوی ہے… اس کا نام سارہ ہوگا۔ اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوںگا…تب ابراہام سرنگوں ہوا اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کہ کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگااور کیا سارہ کے جو نوّے برس کی ہے اولاد ہوگی؟ اور ابرہام نے خدا سے کہا کہ کاش اسماعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے۔ تب خدا نے فرمایا کہ بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا۔ تو اس کا نام اضحاق رکھنا۔ ‘‘(پیدائش۔ باب17آیات 15سے19)مندرجہ بالا آیات میں حضرت ابراہیمؑ کو اسحاقؑ کی پیدائش کی خبر دی گئی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ جس بیٹے اور وارث کا وعدہ حضرت ابراہیمؑ کو ان کی دعاؤں کے بعد دیا گیا تھا وہ اسماعیلؑ نہیں بلکہ اسحاقؑ تھے۔ لیکن اگر اس حوالے کو ذرا غور سے پڑھیںتو اس سے ہی ان کے اس عقیدے کی تردید ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو یہ خبر دی کہ میں سارہ کو برکت دوںگا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا دوں گا۔ اس خبر میں الفاظ بھی قابلِ غور ہیں۔ دوسرے تراجم میں جو الفاظ ’بھی‘ کے متباد ل کے طور پر استعمال ہوئے ہیںان کا بھی مفہوم ’بھی‘ہے۔ مزید برآں یا علاوہ ازیں وغیرہ ہی بنتا ہے۔ ایسے الفاظ کسی وعدہ کو پوراکرتے وقت استعمال نہیں کیے جاتے بلکہ وعدہ پورا کرنے کے بعدجب کوئی چیز اضافی طور پر دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بھی دیتا ہوں۔ جن الفاظ میں اسحاق کی پیدائش کی خبر دی گئی ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنا وعدہ اسماعیل کی شکل میں پوراکر چکا تھا اور اسحاق کسی وعدے کے نتیجہ میں نہیں بلکہ وعدے کے علاوہ بطور احسان عطا کیے جا رہے تھے۔ مذکورہ بالا حقیقت اس رد عمل سے مزید واضح ہو جاتی ہے جوحضرت ابراہیمؑ نے اسحاقؑ کی پیدائش کی خبر پر دکھایا۔ وہ سارہ کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کے امکان پر سخت حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس خبر کو ناقابلِ یقین پا کر ہنس دیتے ہیںاور سرنگوں ہوکر (سجدہ میں گر کر) اسماعیلؑ کی زندگی کی دعا مانگنے لگتے ہیں۔ حتٰی کہ ان کا شک دور کرنے کے لیے خداتعالیٰ کو یہ کہنا پڑا ’’بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا۔‘‘ اسحاق کی خبر پر حضرت ابراہیمؑ کا انتہائی حیرت کا اظہار کرنا اور اسماعیل کی زندگی کی دعا کرنا ثابت کرتا ہےکہ وہ اسماعیلؑ کو ہی اپنا وہ بیٹا اور وارث سمجھتے تھے جس کا وعدہ ان کو دیا گیا تھا۔ اور وہ اس پر مطمئن اور خدا تعالیٰ کے شکر گزار تھے۔ اور اسماعیل کی زندگی کے لیے دعا گو تھے اور اسماعیل کے بعد وہ کسی اور بیٹے کی کوئی خواہش رکھتے تھے نہ امید۔
حضرت سارہ کا رد عمل
ہم دیکھ چکے ہیں کہ خداتعالیٰ اور حضرت ابراہیمؑ کے نزدیک تو حضرت اسماعیلؑ ہی وہ بیٹا اور وارث ثابت ہوتے ہیں جس کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اب اگر حضرت سارہ کا رد عمل دیکھیںتو اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اسماعیل کو ہی پسر موعود خیال کرتی تھیں۔ جب ان کو اپنے بیٹے کی خبر ملی تو یقین ان کو بھی نہیں آیا تھا۔ وہ بھی اس خبر پر ہنسی تھیںاور انتہائی حیرت سے کہا تھا :’’کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لیے شادمانی ہو سکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے؟ ‘‘(پیدائش۔ باب18 آیت 12)حضرت سارہ کا اپنے ہاں بیٹے کی خبر پر اس طرح حیرت اور بے یقینی کا اظہار کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں بالکل مایوس ہو چکی تھیں۔ اور یہی سمجھتی تھیںکہ اسماعیل ہی وہ وارث ہے جس کا وعدہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو دیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی مایوسی کی وجہ سے ہی تو سارہ نے اپنے خاوند کی دوسری شادی حضرت ہاجرہ سے کروائی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھیںکہ ان کے خاوند کو وارث کی اشد ضرورت ہے اور وہ خود اس کے لیے وارث پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
کیا سارہ ایمان کی طاقت سے حاملہ ہوئیں؟
یہود و نصاریٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت سارہ کو اپنے بیٹے کا یقین تھا۔ اور اسی یقین اور ایمان کی وجہ سے وہ حاملہ ہوئی تھیں۔ چنانچہ سینٹ پال نے کہا ہے کہ’’ایمان ہی سےسارہ نے بھی سِنِ یاس کے بعد حاملہ ہونے کی طاقت پائی اس لیے کہ اس نے وعدہ کرنے والے کو سچا جانا۔‘‘(عبرانیوں۔ باب11 آیت11)یہاں سینٹ پال نے عجب منطق دکھائی ہے کہ جس حمل کی خبر پر حضرت سارہ سخت حیران ہوئیں اور ہنسی تھیں اور ایسے شک کا اظہار کیا تھا کہ فرشتے کو کہنا پڑا کہ ’’کیا خدا کے لیے کوئی بات مشکل ہے؟‘‘اس حمل کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ ایمان کی طاقت سے تھا۔ خدا جانے یہ لوگ ایمان سے کیا مراد لیتے ہیں۔ وہ دونوں میاں بیوی تو اس وقت 100 اور 90 برس کے تھے۔ اور اس بڑھاپے میں حمل پر ایمان تو کیا اس کا تو کسی کوخیال تک نہیں آسکتا تھا ۔ہم دیکھ چکے ہیںکہ حضرت اسماعیل کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ اور سارہ کو قطعاً کسی اولاد کی امید نہ تھی۔ اور نہ ہی وہ ایسی کوئی خواہش رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سارہ کے ہاں بیٹے کی اس خبر کو دونوں نے حیرت انگیز اور ناقابلِ یقین پایا تھا۔ اگر سارہ کوئی ہلکی سی امید کی کرن بھی دیکھتیں تو وہ کبھی اپنے شوہر کی دوسری شادی نہ کرواتیں۔ وہ تو اپنی اولاد کے بارے میں اس قدر مایوس ہو چکی تھیںکہ اسحاق کی پیدائش کے بعد بھی ان کو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ ماں بن گئی ہیں۔ چنانچہ اسحاق کو دودھ پلاتے ہوئے اُنہوں نے کہا:’’خدا نے مجھے ہنسایا اور سب سننے والے میرےساتھ ہنسیں گے۔اور یہ بھی کہا کہ بھلا کوئی ابرہام سے کہہ سکتا تھا کہ سارہ لڑکوں کو دودھ پلائے گی۔ کیونکہ اس سے اس کےبڑھاپے میں میرے ایک بیٹا ہوا۔ ‘‘(پیدائش۔ باب 21 آیت 6۔7)اب ہم پوچھتے ہیںکہ کیا یہ حیرت اور مایوسی کا اظہار ایمان کی علامات ہیں؟ اگر اسحاق کی پیدائش سے پہلے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ سارہ بچوں کو دودھ پلائے گی۔ تو کہاں تھا یہ ایمان اور کس کے پاس تھا یہ ایمان ؟ پس حضرت اسحاقؑ کی ماں ہرگز کسی ایمان کی طاقت سے حاملہ نہ ہوئی تھیں۔ بلکہ وہ حضرت عیسیٰ کی ماں مریم کی طرح غیر متوقع طور پر تقریباً ناممکن حالات میں خداتعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت حاملہ ہوئی تھیں۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے ان پہلے اور آخری نبیوں کی پیدائش میں کسی گزشتہ وعدے یا ایمانی طاقت کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔
اسماعیلؑ کی پیدائش میں ایمانی طاقت
حضرت اسحاقؑ کی پیدائش میں تو کوئی ایمانی طاقت یا خدائی وعدہ شامل نہ تھا لیکن اس کے برعکس حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش میںتھا۔ حضرت یحییٰ کی پیدائش کی طرح ایمانی طاقت بھی تھی اور خدائی وعدہ بھی تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ ان دونوں کے باپ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت زکریاساری عمر بیٹے کے لیے ترستے رہے اور دعائیں مانگتے رہے یہاں تک کہ وہ دونوں انتہائی بڑھاپے کی عمر کو جا پہنچے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ دونوں خداتعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اور بالآخر دونوں کی دعائیں رنگ لائیں اور دونوں کو خدا نے بیٹے کا وعدہ دیا۔ اور پھر جلد ہی بیٹا بھی عطا فرما دیا۔ اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ حضرات اسماعیلؑ اور اسحاقؑ میں سے کس کی پیدائش میں ایمانی طاقت اور خدائی وعدہ شامل تھا۔
3۔ حصہ سوم
حضرت ابراہیمؑ کے اسفاراورہاجرہ سے شادی
حضرت ابراہیمؑ کی زندگی میں کئی ابتلا آئے اور ان کو کئی بار ہجرت کرنی پڑی لیکن بائبل میں ان کے سب سفروں کا ذکر نہیں۔ ان کے کنعان کے سفر کے بارے میں پیدائش کے باب 11کی آیت 31 میں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ اپنے باپ، بیوی اور لوط کے ساتھ اپنے وطن اُور سے روانہ ہوئے تاکہ کنعان کے ملک میں جائیں اور وہ حاران تک آئے اور وہیں رہنے لگے۔پھر باب 12کی پہلی پانچ آیات میں لکھا ہے کہ خداتعالیٰ کے حکم پر انہوں نے اپنا وطن اور باپ کا گھر چھوڑا اور وہ اپنی بیوی،لوط اور ’’ان آدمیوں کے ساتھجو ان کو حاران میں مل گئے تھے‘‘کنعان چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر 75 سال تھی۔ (ان صحابہ کی تعداد 72 تھی۔ حوالہ آگے آئے گا)
سفروں کے بارے میں اخفا
بائبل کی مندرجہ بالا آیات میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حاران سے کنعان کا ایک ہی دفعہ سفراختیار کیا ہو۔ حالانکہ جب وہ باپ کے ساتھ حاران گئے اور باپ کو وہاں چھوڑ کر (پہلی بار) کنعان گئے۔ تو اس وقت نہ تو وہ 75 سال کے ہوسکتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس 72 صحابہ کی جماعت ہو سکتی تھی۔ مندرجہ بالا آیات میں پہلے اور آخری سفروں کا کچھ مبہم سا ذکر کر کے اور باقی سفروں کو غائب کر کے بہت بڑا ابہام پیداکیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بائبل میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا اکثر حصہ مفقود یا مبہم ہے۔ ان کی زندگی کے پہلے 75 سال تو بالکل ہی غائب ہیں۔ اور باقی زندگی میں جعلی قصے داخل کر کے ابہام پیدا کیا گیا ہے۔ حصہ دوم میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت ہاجرہ کے ماضی کو غائب کرنے اور ان کے بارے میں جعلی قصے بنانے کا مقصد ان کے شاہانہ پس منظر کو غائب کر کے ان کو لونڈی ظاہر کرنا تھا۔ بالکل اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کے سفروں کے متعلق اخفا اور ابہام پیدا کرنے کا مقصد حضرت ہاجرہ سے ان کی شادی کو غائب کرنا تھا۔ لیکن جس طرح اسرائیل کی مستند روایات نے حضرت ہاجرہ کے شاہانہ پس منظر کو بیان کر کے بائبل کے جھوٹے اور جعلی بیانات کا پول کھول دیا ہے اسی طرح اسرائیل کی مستند روایات نے حضرت ابراہیمؑ کے ان سفروں کو ظاہر کر دیا ہے جن کو بائبل میں چھپایا گیا ہے یا جعلی قصے داخل کر کے مسخ کیا گیا ہے۔ چنانچہ حصہ سوم میں ہم بنی اسرائیل کی مستند روایات کی روشنی میں حضرت ابراہیمؑ کے ان سفروں کے حالات دیکھیںگے جو کتاب پیدائش میں مخفی یا مسخ شدہ ہیں۔ اسی طرح ان کے مصر کے سفر کے بھی اصل حالات دیکھیںگے جن میں حضرت ہاجرہ سے ان کی شادی ہوئی۔ اسی حصہ میں حضرت سارہ کے اس مثبت کردار کا بھی ذکر کیا جائے گا جو انہوں نے حضرت ہاجرہ کی شادی میں ادا کیا۔ اور اس بات کی بھی وضاحت کی جائے گی کہ اگر حضرت ہاجرہ مصر کی شہزادی تھیںتو بادشاہ نے ان کے لیے لونڈی کا لفظ کیوں استعمال کیا۔
اسرائیلی روایات اور کنعان کے اسفار
ہم بیان کر چکے ہیں کہ بائبل میں حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے بہت سے واقعات چھپائے یا مسخ کیے گئے ہیں۔ ان مخفی یا مسخ شدہ واقعات میں خاص طور پر ان کے کنعان اور مصر کے سفر شامل ہیں۔ ان سفروں کے بارے میں ہمیں اسرائیلی روایات سے بہت اہم معلومات ملتی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہم اسرائیلی روایات کی دو اہم اور معتبر کتب سے حوالے پیش کرتے ہیں۔
حا شر کی کتاب
یہودی علماء نے تورات کی شرح اور تفسیر میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ مدراش کہلاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک حاشر کی کتاب بھی ہے۔ اس میں حضرت ابراہیمؑ کے کنعان سفروں کی جو تفصیل لکھی ہے اس کے اہم نکات یہ ہیں:’’ ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا کہ نمرود کے خطرے سے بچنے کے لیے ہمیں کنعان چلے جانا چاہیے۔ باپ نے بیٹے کی بات مان لی اور وہ سارہ اور لوط کو لے کر چل پڑے۔ لیکن جب وہ حاران پہنچے تو وہ جگہ ان کو پسند آگئی اور وہ وہیںرہنے لگے۔ تین سال بعد خداتعالیٰ نے ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ حاران کو چھوڑ کر آگے کنعان چلا جائے۔چنانچہ وہ اپنی بیوی اور لوط ؑکو لے کرکنعان روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر پچاس (50) سال تھی۔ کنعان میں خدا نے وعدے کے مطابق ان کو زمین کے وسیع خطے عطا کیے۔ جب ان کی عمر ستر (70) سال کے قریب ہوئی تو خدا نے ان کووعدہ دیا کہ (مصر کی) سر زمین مٹزرائم سے لے کر دریائے فرات تک کا علاقہ ان کو وراثت میں دیا جائے گا۔ پھر وہ اپنی بیوی اور لوط کو لے کر اپنے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے کے لیے واپس حاران گئے اور وہاں پانچ سال رہے۔ اس دوران وہ وہاں بت پرستی کے خلاف تبلیغ کرتے رہے اور 72 افراد ان پر ایمان لے آئے تھے۔حاران میں خداتعالیٰ پھر حضرت ابراہیمؑ سے مخاطب ہوا اور حکم دیاکہ وہ اپنے وطن اور باپ کے گھر کو چھوڑ کر اس سر زمین میں واپس چلا جائے جس کو وہ پہلے دیکھ چکا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر حضرت ابراہیمؑ اپنی بیوی، لوط اور 72 متبعین کو لے کر حاران سے کنعان کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر75سال تھی۔
(J. H. Parry & Company (publ.): Book of Jasher
Salt Lake City 1887. Chapters 12 & 13)
کتاب طالمود
دوسرا حوالہ ہم طالمود سے پیش کرتے ہیں جو تورات کی تفسیر اور بنی اسرائیل کی روایات کی بہت مشہور کتاب ہے۔ اس میں حضرت ابراہیمؑ کے کنعان کے سفر کے جو حالات درج ہیں وہ ان حالات کی تائید کرتے ہیں جو حاشر کی کتاب میں لکھے ہیں۔ تاہم اس میں کچھ نئی باتیں بھی ہیں۔ اس طالمودی بیان کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے:’’حضرت ابراہیمؑ آگ سے بچ گئے تو نمرود بہت متاثر ہوا۔ اس نےابراہیم کو تحائف دیئے اور خاموشی سے چلا گیا۔ دو سال بعد نمرودنے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ ابراہیم اور اس کی نسل اس کی بادشاہت کو تباہ کر دیں گے۔ اس پر نمرود نے اپنے سپاہی مقرر کر دیئے کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کو خفیہ طور پر قتل کردیں۔ حضرت ابراہیمؑ کو ان کے ایک وفادار غلام نے خبردار کر دیا اور وہ نوح کے گھر میں چھپ گئے۔ وہاں ان کا باپ خفیہ طور پر ان سے ملنے آیا کرتا تھا۔ایک دن ان کا باپ آیا تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ یہاں میری جان خطرے میں ہے۔ ہمیں کنعان چلے جانا چاہیے۔ باپ مان گیا اور وہ اپنے باپ بیوی اور لوط ؑکو لے کر اُور سے روانہ ہو کر پہلے حاران پہنچے۔ یہ علاقہ بہت خوشگوار اور ذرخیز تھا۔ لوگ بھی اچھے ملنسار تھے۔ لہٰذا وہ حاران میں ہی رہنے لگے۔ ان کو وہاںرہتےتین سال ہوئے تھے کہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی اور لوط کو لے کر کنعان چلے جائیں۔ خداتعالیٰ نے ان کو وعدہ دیا کہ ان کی اولاد کثرت سے دنیا میں پھیلے گی اورکنعان کی حکومت ان کو دی جائے گی۔ چنانچہ وہ حاران سے کنعان کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال تھی۔ کنعان میں حضرت ابراہیمؑ آباد ہو گئے۔ انہوں نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے معبد بنائے اور خدا نے ان کو وعدے دیئے کہ ان کی نسل ستاروں کی طرح پھیل جائے گی اور اس سر زمین کی ملکیت ان کو دی جائے گی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیمؑ اپنے ماں باپ سے ملنے کنعان سے حاران گئے اور وہاں پانچ سال رہے۔ اس قیام کے دوران وہ خدائے واحد کا پرچار کرتے رہے اور بہت سے مقامی لوگ ان پر ایمان لائے۔
حاران میں ایک دفعہ پھر خداتعالیٰ ابراہیمؑ سے مخاطب ہوا اور حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی، غلاموں اور سب متبعین کو لے کر واپس کنعان چلا جائے۔ اور ساتھ ہی خداتعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مصر کےدریا سے لے کر بڑے دریا فرات تک کی زمین تجھے عطا کی ہے۔چنانچہ خدا کے حکم کے مطابق حضرت ابراہیمؑ اپنے بھتیجے لوط کے ساتھ حاران سے واپس کنعان کے لیے روانہ ہو گئے۔‘‘
(H. Polano: The Talmud. Selections from that ancient book, its commentaries, teachings, poetry and legends. London 1973, p. 42-.45)
کنعان کے اسفار اور ان کا پس منظر
مندرجہ بالا اسرائیلی روایات سے حضرت ابراہیمؑ کے ان سفروں کا ایک اجمالی خاکہ ہمارے سامنے آ تا ہے جن کو بائبل میں چھپایا گیا ہے۔ تاہم ان سفروں کے بعض پہلو قرآن کریم میں زیادہ وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم ان اسرائیلی روایات کے ساتھ اسلامی روایات کو بھی مد نظر رکھیںتو حضرت ابراہیمؑ کے سفروں کی تفصیل، ترتیب اور ان کا پس منظر کھل کر سامنے آتا ہے۔ آئیں ہم ان سفروں کو اسرائیلی اور اسلامی روایات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
اُور سے حاران تک کا سفر
حضرت ابراہیمؑ صوبہ چلڈیا کے شہر اُور کے رہنے والے تھے۔ باپ ان کا بت پرست ہی نہیں، بت ساز اور بت فروش بھی تھا۔ یہ خود توحید کے بہت بڑے علمبردار تھے اور بت پرستی کے خلاف لوگوں سے بحث کرتے رہتےتھے۔ جب بت خانے میں بتوں کو توڑنے کا واقعہ ہوا تو لوگ مشتعل ہو گئے اور بات بادشاہ نمرود تک جا پہنچی۔ اس نے حکم دیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے۔ آگ سے تو یہ معجزانہ طور پر بچ گئے لیکن بعد میں نمرود نے ایک خواب کی بنا پران کو خفیہ طور پر قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ ان حالات میں خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ کنعان کی طرف حجرت کر جائیں۔ چنانچہ یہ اپنے باپ ،بھتیجے،لوط اور بیوی سارہ کو لے کر کنعان کے لیے روانہ ہو گئے اور راستے میں حاران پہنچ کر اپنے عزیز و اقارب کے ہاں ٹھہر گئے۔ (حوالہ از طالمود۔ سورہ انبیاء۔ آیات 58 سے72۔ سورۃ الصافات آیات 90 سے 98)
حاران سے کنعان۔ پہلا سفر
(بائبل میں مذکور نہیں)
حاران تجارت اور بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ چونکہ حضرت ابراہیمؑ کا باپ بت پرستی کا دلدادہ تھا لہٰذا اس نے وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔(ممکن ہے کہ باپ کا ارادہ شروع سے حاران تک ہی جانے کا ہو کیونکہ اس کے بہت سے رشتہ دار وہاں آباد تھے) بہرحال حضرت ابراہیمؑ بھی باپ کے ساتھ حاران میں رہنے لگے۔ بت پرستی کے متعلق باپ بیٹے میں اکثر بحث ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن حضرت ابراہیمؑ نے بت پرستی کے خلاف ایسے مضبوط دلائل دیےکہ باپ برداشت نہ کرسکا اور طیش میں آگیا۔ اس نے حکم دیا کہ وہ اس کے گھر سے نکل جائیں ورنہ وہ ان کو قتل کر دے گا یا سنگسار کروا دے گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی اور لوط کو لیا اور تین سال باپ کے ساتھ رہنے کے بعد اس کا گھر چھوڑ دیا۔ رخصت ہوتے وقت انہوں نے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے خداتعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔(حوالہ مندرجہ بالا از طالمود۔ سورہ مریم۔ آیات 43 سے 49)
قابلِ توجہ
کتاب طالمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے تین سال بعد خداتعالیٰ کے حکم پر باپ کا گھر چھوڑا تھا لیکن قرآن کریم بتاتا ہے کہ باپ بیٹے میں بحث ہوئی تھی اور باپ نے طیش میں آ کر ان کو گھر سے نکالا تھا۔ باپ کے گھر سے بے دخل ہو نے کے بعد حضرت ابراہیمؑ اس اجنبی شہر میں بے یار و مددگار تھے۔ اردگرد کے سب لوگ اور رشتہ دار بت پرست اور ان کے مخالف تھے۔ ان حالات میں خداتعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی اور کنعان جانے کا حکم دیا۔ اور یہ وعدہ بھی دیا کہ کنعان میں ان کو حکومت ملے گی اور ان کی نسل دنیا میں کثرت سے پھیلے گی۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی بیوی اور لوط کو لیا اور کنعان روانہ ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر 50 سال تھی جیسا کہ کتاب حاشر میں مذکور ہے۔
کنعان سے حاران کا سفر۔ ( بائبل میں مذکور نہیں)
حضرت ابراہیمؑ کنعان میں آ کر آباد ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو بہت برکت بخشی۔ جلد ہی وہ وسیع قطعات زمین کے مالک بن گئے اور ان کا شمار علاقے کے بااثر رؤساء میں ہونے لگا۔ ان کی طاقت اور اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب علاقے کے بادشاہوں کی آپس میں جنگ ہوئی تو حضرت ابراہیمؑ نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے اپنے تین سو اٹھارہ جوانوں کے ساتھ حملہ آور بادشاہوں کو شکست دی تھی اور یروشلم کے بادشاہ صادق سالم سے خراج تحسین وصول کیا تھا جیسا کہ پیدائش کے باب تیرہ اور چودہ میں مذکور ہے۔ کنعان میں تقریباً پچیس تیس سال قیام کرنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ اپنے بوڑھے باپ سے ملنے حاران گئے اور پانچ سال وہاں ٹھہرے رہے۔ ان کی بیوی حضرت سارہ اور حضرت لوط بھی ساتھ تھے۔ بائبل میں تو حضرت ابراہیمؑ کے اس سفر کا ذکر نہیں لیکن مندرجہ بالا اسرائیلی روایات میں اس سفر کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ حاران میں اپنے اس پانچ سالہ قیام کے دوران وہ توحید کی تبلیغ کرتے رہے اور انہوں نے وہاں 72 افراد پر مشتمل خدائے واحد کے پرستاروں کی ایک جماعت قائم کر لی تھی۔بائبل کے بعض محققین کے مطابق حاران میں اس دوسرے قیام کے دوران ان کا باپ فوت ہوگیا تھا *۔ اس وقت وہ خود بھی کافی بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ باپ کی وفات کے بعد قدرتی طور پر ان کو اپنی تنہائی اور بےاولاد ہونے کا شدید احساس ہوا۔ اس غم اور پریشانی کے عالم میں انہوں نے خداتعالیٰ سے اپنے بے اولاد ہونے کے شکوے کیے اور اپنے وارث کے لیے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں۔ اور خداتعالیٰ نے ان کی دعاؤں کے جواب میں ان کو بیٹے کی بشارت دی (پیدائش۔ باب 15)۔ اور یہی وہ غم کی گھڑی تھی جب انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ جس سے خداتعالیٰ نے بعد میں اُنہیں منع فرما دیا تھا۔ ( حوالہ مندرجہ بالا از کتاب حاشر۔ سورہ الشعراء۔ آیت 87 اور سورہ توبہ آیت 114)
*(Abraham. In: Aid to Bible Understanding. New York, 1971, p. 23)
٭…٭…باقی آئندہ٭…٭