حضرت ہا جرہ کے متعلق بعض اہم حقائق(قسط7)
بائبل کے بیانات کا تنقیدی جائزہ
فرعون نے سب مہمانوں کے لیے تحائف تیار کیے۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ سے وہ مرعوب بھی تھا اور ان کا مرہون منّت بھی۔ لہٰذا ان کے لیے وہ کچھ خاص کرنا چاہتا تھا۔ …چنانچہ اس نے حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات کر کے ان کو دوسری شادی کا مشورہ دیا۔ اور پھر دلہن کے طور پر اپنی بیٹی ہاجرہ تجویز کر دی
حاران سے کنعان۔ دوسرا سفر
(بائبل میں مسخ شدہ)
جب حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ سے ملنے کنعان سے حاران گئے تھےتو اس وقت ان کی عمر پچہترسال کے قریب تھی۔ ان کا باپ اس وقت بہت بوڑھا تھا۔ پانچ سال تک وہ اپنے بوڑھےباپ کے پاس رہے اور اس کی خدمت کی۔ باپ کی وفات کے بعد ایک دفعہ پھر ان کو حاران میں ابتلاپیش آگیا۔ اب ان کے رشتہ دار ان کو اذیت دینے لگے اور مجبور کرنے لگے کہ وہ اپنے باپ کے گھر سے نکل جائیں۔ مذہبی عداوت کے علاوہ اب ان کے مخالفین کا مقصد ان کو وراثت سے محروم کرنا بھی تھا۔ ان پریشان کن حالات میں ایک دفعہ پھر خداتعالیٰ نے ان کی راہنمائی فرمائی اور حکم دیا کہ تو اپنے رشتہ داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اس ملک میں چلا جا جو میں تجھےدکھاؤں گا۔ میںتجھےبڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوںگا…..زمین کے سب قبائل تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے۔ سو ابراہیم… چل پڑا… اور وہ 75 برس کا تھا جب وہ حاران سے روانہ ہوا۔ (پیدائش۔ باب 12 آیات 1 – 3)
پہلی دفعہ جب حضرت ابراہیمؑ حاران سے رخصت ہوئے تھےتو خداتعالیٰ نے ان کو کنعان کا وعدہ دیا تھا۔ لہٰذا وہ کنعان گئے ۔ اور اس وقت ان کی عمر50سال تھی۔ اب تقریباً 80 سال کی عمر میں جب خداتعالیٰ نے دوبارہ ان کو حاران سے کنعان جانے کا حکم دیا تو ان کو مصر کی سر زمین کا وعدہ دیا (لہٰذا وہ پہلے مصر گئے)۔ اس وعدے کے متعلق حاشر کی کتاب کا حوالہ ہم اوپر درج کر چکے ہیں۔ طالمود میں مصر کی سر زمین کے وعدے کے متعلق لکھا ہےکہ خدا نے ان سے کہا :’’اٹھ اور واپس سر زمین کنعان کو چلا جا۔ تم، تمہاری بیوی اور سب خانہ زاد، اور وہ سعید روحیں جو حاران میں تم پر ایمان لائیں، میں نے تمہیں مصر کے دریا سے لے کر عظیم دریائےفرات تک مصر کی سر زمین عطا کی ہے۔ چنانچہ ابراہیم خدا کے حکم کے مطابق اپنے بھائی کے بیٹے کو لے کر حاران سےکنعان کے لیے روانہ ہوگیا۔‘‘(حوالہ مندرجہ بالا از طالمود۔ صفحہ 45)
حضرت ابراہیمؑ کا سفرِ مصر
(بائبل میں مسخ شدہ)
حضرت ابراہیمؑ کے سفروں کی مندرجہ بالا تفصیل سے یہ ظاہر ہےکہ حاران میں جب ان کے باپ نے (50 سال کی عمر میں) ان کو گھر سے نکالا تھا تو خداتعالیٰ نے ان کو کنعان کی سر زمین عطا کی تھی۔ لہٰذا وہ حاران سے ہجرت کر کے کنعان گئے تھے۔ اور اب تقریباً 80سال کی عمر میں جب ان کو حاران میں پھر ابتلا پیش آیا۔ اور باپ کی وفات کے بعد ان کے رشتہ داروں نے ان کو گھر سے نکالا۔ تو خداتعالیٰ نے ان کو پھر کنعان جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی مصر کی سر زمین کا بھی وعدہ دیا۔ لہٰذا اب وہ حاران سے کنعان جاتے ہوئے پہلے مصر گئے اور پھر وہاں سے کنعان گئے۔ (حضرت ابراہیمؑ کو مصر کی زمین عطا کرنے کا ذکر پیدائش کے باب 15 کی آیات 18تا 21 میں سیاق و سباق سے ہٹ کر مبہم اندازمیں موجود ہے۔)مندرجہ بالا پس منظر سے ظاہر ہے کہ باپ کی وفات کے بعد جب خداتعالیٰ نے ان سے کہا کہ ’’اپنے وطن اور رشتہ داروں اور باپ کے گھر سے نکل کراس ملک میں چلاجا جو میں تجھےدکھاؤں گا‘‘ تو ’’وہ ملک‘‘ کنعان نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ کنعان کو تو وہ نہ صرف دیکھ چکے تھےبلکہ وہاں تو وہ آباد ہو چکے تھے۔ کنعان سے ہی تو وہ باپ سے ملنے حاران آئے تھےاور وہیں ان کو واپس جانا تھا۔ لہٰذا جس ملک کی طرف خداتعالیٰ نے اس بار حاران سے رخصت ہوتے وقت حضرت ابراہیمؑ کی راہنمائی فرمائی تھی وہ مصر تھا جس کی ملکیت کا وعدہ خداتعالیٰ نے ان کو دیا تھا۔ چنانچہ اب وہ حاران سے چلے تو پہلے مصر گئے اور پھر وہاں کچھ عرصہ ٹھہر کر کنعان کے لیے روانہ ہوئے۔ پیدائش کےاسی باب 15سے ظاہر ہےکہ بڑھاپے تک حضرت ابراہیمؑ کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی اور وہ اپنا وارث نہ ہونے کے بارے میں خداتعالیٰ سے دعائیں اور گلے شکوے کرتے رہتے تھے۔ پس ان دعاؤں اور مناجات کے نتیجےمیں ہی خداتعالیٰ نے ان کی راہنمائی مصر کی طرف کی تھی۔ اور جیسا کہ آگے ذکر کیا جائے گا۔ مصر کے اسی سفر کے دوران خداتعالیٰ نے اعجازی رنگ میں ان کی دوسری شادی کے سامان پیدا فرما دیےجس سے وہ بیٹا اور وارث پیدا ہواجس کے لیے وہ عمر بھر ترستے رہےتھے۔ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جب عراق [حاران] میں ظلم ہوئےاور ان کے چچا اور بھائیوں نے انہیں دکھ دیا تو خداتعالیٰ نے ان سے کہا کہ یہاں سے ہجرت کر کے فلسطین [کنعان] چلے جائیں۔ صرف حضرت لوطؑ آپ پر ایمان لائے تھے۔ وہ لوطؑ کو ساتھ لے کر چلے۔ آپ کی بیوی بھی ساتھ تھیں۔ راستہ میں مصر سے ہوتے ہوئےاور حضرت ہاجرہؓ سے شادی کر تے ہوئے فلسطین پہنچے‘‘۔ (تفسیر کبیر۔ جلد پنجم صفحہ 53)
مصر کے سفر میں ابہام اور اخفا
مصر کے سفر کے بارے میں یہود کے کاہنوں نے بہت ابہام پیدا کیا ہے اور عجیب و غریب قصے گھڑ کر حضرت ابراہیمؑ کی شادی کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں جو قصہ پیدائش کے باب بارہ میں درج ہےاس کے تجزیےسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بالکل جعلی اور غیر معقول افسانہ ہےجس کو بائبل کے مفسرین بھی نا قابلِ قبول اور بیہودہ قرار دیتے ہیں ( حوالہ ہم حصہ اول میں دے چکے ہیں)۔ دیگر اسرائیلی روایات میں تو اس سے بھی بڑھ کر بے بنیادباتیں بیان کر کے اس مصری سفر کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً:بعض روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیمؑ مصر گئے تو وہ اپنی بیوی سارہ کو ایک صندوق میں بند کر کے لے کر گئے تھےکیونکہ وہ بہت حسین و جمیل تھیں۔ مصر کی سرحد پر پہلے تو صندوق کو سمگل کرنے کی کوشش کی لیکن جب مصری حکام نے صندوق دیکھ لیا تو منت سماجت کی اور رشوت پیش کی کہ صندوق کو نہ کھولا جائے۔ جب مصری حکام نہ مانے اور صندوق کو کھولا گیا تو سارہ کے حسن کی روشنی نے سب کو حیران کردیا۔ مصری حکام سارہ کو حاصل کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر رقم پیش کرنے لگے۔ فرعون تک یہ خبر پہنچی تو سارہ کو اس کے سامنے پیش کیا گیا۔ سارہ نے اس سے کہا کہ ابراہیم میرا بھائی ہے۔ اس پر فرعون نے سارہ کو اپنے حرم میں داخل کر لیا اور اپنی ساری جائیداد سارہ کے نام کر دی اور گوشن کی سرزمین بھی سارہ کو دے دی۔ روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ فرعون سے نجات پانے کے لیے سارہ نے دعا کی تھی۔ چنانچہ جب فرعون سارہ کو ہاتھ لگانے لگتا تو ایک فرشتہ اس کو مکا مارتا۔ ایسا بار بار ہوااور آخری مکا بہت سخت تھا جس سے وہ زمین پر گر پڑا۔ بعض روایات کے مطابق فرعون کے خاندان اور نوکروں پر بھی فرشتے مکے برساتے رہےجس سے محل میں کہرام مچ گیا۔ اس پر فرعون نے سارہ سے پوچھا کہ سچ بتاؤ کہ ابراہیم سے تمہارا کیا رشتہ ہے۔ اب سارہ نے بتا دیا کہ وہ میاں بیوی ہیں۔ فرعون نے ان معجزات سے متاثر ہوکر اپنی بیٹی بطور لونڈی سارہ کو دے دی اور مزید تحائف اور سونا چاندی دے کر ان میاں بیوی کو مصر سے روانہ کر دیا۔بعض روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ جب فرشتہ فرعون کو مکے مارتا تھا تو یہ سب نظارہ حضرت ابراہیمؑ اپنے خیمہ میں بیٹھےدیکھ رہےتھےکیونکہ خداتعالیٰ نے محل کے در و دیوار ایسے بنا دیےتھےکہ وہ آر پار دیکھ سکتے تھے۔
(E. G. Hirsch, W. Bacher, J. Z. Lauterbach, J. Jacobs, M. W. Montgomery:Sarah in Pharaohs Harem. In: Sarah (Sarai). In: The Jewish Encyclopedia,http://jewishencyclopedia.com/articles/13194-sarah-sarai)&(Sarah in rabbinic literature & Sarah in Pharaohs Harem.Wikipedia, the free encyclopedia,https://en.wikipedia.org/wiki/Sarah)&(J. H. Parry & Company (publ.): Book of Jasher.Salt Lake City 1887. Chapters 15)
مصر کا سفر، اصل حالات
مندرجہ بالا اسرائیلی روایات میں بیان کردہ مصر کے واقعات اس قدر غیر معقول اور مضحکہ خیز ہیں کہ ان کی تردید کی ضرورت نہیں۔ صاف ظاہر ہےکہ مصر کے سفر کے اصل واقعات کو چھپانے کے لیے یہ بے بنیاد کے قصے گھڑ کر پھیلائےگئے ہیں۔ اور اس کوشش میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سارہ جیسی مقدس شخصیات کے کردار کو بھی بری طرح مجروح کیا گیا ہے۔ تاہم بائبل اور بنی اسرائیل کی مستند روایات میں ایسے اشارے اور قرائن موجود ہیں جن پر غور کرنے سے مصر کے سفر کے اصل حالات کافی حد تک اخذ کیےجا سکتے ہیں۔ اور ذیل میں ہم ایک ایسی ہی کوشش کرنے جا رہےہیں۔
حضرت ابراہیمؑ مصر میں شاہی مہمان
پیدائش کے باب 13 اور 14 کے حوالے سے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ کنعان میں آنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ وسیع قطعات زمین کے مالک بن گئے تھے۔ حضرت لوطؑ کے سدوم منتقل ہونے کے بعد تو حضرت ابراہیمؑ کی ریاست کنعان میں چاروں طرف مزید پھیل گئی تھی۔ پھر جب چار بادشاہوںکے اتحاد کو انہوں نے شکست دی توعلاقے کے حکمرانوں میں ان کو ایک باعزت مقام حاصل ہوگیا۔ مستند روایات کے حوالے سے ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ کنعان میں تقریباً تیس سال قیام کے بعد حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ سے ملنے حاران گئے تھےاور وہاں پانچ سال قیام کیا تھا۔ اس دوران وہ خدائے واحد کی تبلیغ کرتے رہےاور 72 افراد ان پر ایمان لے آئے ۔ اور پھر باپ کی وفات کے بعد وہ باذن الٰہی ان سب ساتھیوں کو ساتھ لے کر حاران سے براستہ مصر کنعان کے لیے روانہ ہوئےتھے۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال سے زائد ہو گی۔ (واضح رہے کہ یہی وہ سفر ہےجس کو چھپانے کے لیے ایک جعلی قصہ پیدائش کے باب 12 میں داخل کیا گیا ہے۔ اس قصے کا تجزیہ اور تردید آگے کی جائے گی)مذکورہ بالا تناظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیمؑ اور ان کے ستر صحابہ پر مشتمل یہ قافلہ حاران سے مصر پہنچا تو کنعان کے ایک نامور رئیس کی حیثیت سے ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ اور فرعون نے ان کو شاہی مہمان کے طور پر رکھا۔ اپنے قیام کے دوران حضرت ابراہیمؑ فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں سے میل ملاقات کرتے رہے۔ یہ سب لوگ آپ کی مذہبی اقدار اور پُررعب شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔ دوسری طرف حضرت سارہ شاہی خواتین سے ملاقات کے لیے شاہی محل جاتی رہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود حضرت سارہ ایک حسین اور جاذب نظر شخصیت کی مالک تھیں۔ شاہی خواتین ان سے خاصی متاثر ہوئیں اور حضرت سارہ کو بھی شاہی خواتین اچھی لگیں۔ انہی خواتین میں ایک لڑکی فرعون کی بیٹی ہاجرہ تھی۔ بعض روایات کے مطابق ان ملاقاتوں کے دوران حضرت سارہ کے دل میں ہاجرہ کے لیے ایک خاص رغبت پیدا ہوگئی تھی اور وہ ہاجرہ کو پسند کرنے لگی تھیں۔
(E. G. Hirsch, W. Bacher, J. Z. Lauterbach, J. Jacobs, M. W. Montgomery:
Sarah: Her beauty in Arabic literature.
In: Sarah (Sarai). In: The Jewish Encyclopedia,
http://jewishencyclopedia.com/articles/13194-sarah-sarai)
فرعون کے محل میں بلائیں
حضرت ابراہیمؑ کے قیام کے دوران کئی بار ایسا ہواکہ محل کے اندر کچھ پریشان کن واقعات رونما ہوئے۔ پیدائش کے باب 12 کے مطابق خدا نے فرعون اور اس کے خاندان پر بڑی بڑی بلائیں نازل کیں۔ دیگر مستند اسرائیلی روایات میں بھی کچھ ایسی ہی بلائوں کا ذکر ہےجن میں شاہی خاندان مبتلا ہوتا رہا تھا۔ پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ محل کے اندر کچھ پریشان کن واقعات رونما ہوئےتھے۔ تاہم ان بلائوں کو حضرت سارہ سے جوڑنے کے لیے جو قصے روایات میں بیان کیے گئے ہیں وہ عقلی،نقلی اور اخلاقی لحاظ سے بالکل قابلِ قبول نہیں۔ اور جیساکہ ہم بیان کر چکے ہیں خود بائبل کے مفسرین نے بھی ان قصوں کو ناقابل قبول اور بیہودہ قرار دیا ہے۔ ان سب قصوں میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سارہ جیسی مقدس ہستیوں کو کذب بیانی اور دھوکا دہی کا مرتکب دکھایا گیا ہے۔ اور ان کے اس گناہ کی سزا فرعون اور اس کے خاندان کو ملتی دکھائی گئی ہے۔پس یہ قصے تو یقیناً غلط اورغیر معقول ہیں اور اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ ان فضول قصوں کے پردے میں اصل حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ خداتعالیٰ کے عظیم انبیاء میں سے تھے۔ اور اگر خداتعالیٰ نے اپنے ایک عظیم نبی کے تعلق میں فرعون پر کچھ بلائیں نازل کی تھیں تو ان کی حکمت اور پس منظر سمجھنے کے لیے ہمیں کسی ایسے ہی عظیم نبی کی مثال پر غور کرنا چاہیے۔ اور ایسی مثال مذہبی صحائف میں موجود ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں۔
حضرت موسیٰ کے وقت میں بلائیں
بائبل کی کتاب خروج سے ہم جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل مصر میں ظلم وستم کا نشانہ بن رہےتھے۔ خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اس قوم کو حضرت موسیٰؑ کے ذریعے نجات دلا کر اپنی برکات سے نوازے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھیجا تا کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے مصر سے باہر جا کر عبادت کرنے کی اجازت طلب کریں۔ جب حضرت موسیٰ فرعون کے پاس گئے تو اس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ فرعون کا تکبر توڑنے اور اسے حضرت موسیٰؑ کے حق میں مرعوب کرنے کے لیے خداتعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم پر بلائیں اور وبائیں نازل کیں۔ان وباؤں سے پریشان اور مرعوب ہوکر فرعون حضرت موسیٰؑ کو بلاتا۔ اجازت دینے کا وعدہ کرتا اور ان سے دعا کی درخواست کرتا۔ حضرت موسیٰؑ دعا کرتے اور ان کی دعا سے وہ مصیبتیں دور ہوجاتیں۔ لیکن فرعون پھر اکڑ جاتا اور اجازت دینے سے انکار کر دیتا۔ ایسا کئی بار ہوا۔ وہ فرعون بہت متکبر تھا اور باوجود ایسے اعجاز دیکھنے کے اجازت دینے سے انکار کرتا رہا۔ اور بالآخر جب بلائوں سے تنگ آ کر اس نے اجازت دے دی اور حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے چل پڑے تو وہ پھر بگڑ گیا اور لشکر لے کر ان کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اس پر خداتعالیٰ نے اس کو لشکر سمیت غرق کر دیا۔ (خروج۔ ابواب 7سے 14)
حضرت ابراہیمؑ کے وقت میں بلائیں
حضرت موسیٰؑ کے وقت میں جس مقصد کے لیے خداتعالیٰ نے فرعون پر بلائیں نازل کی تھیں اس سے ہم ان بلائوں کی حکمت اور پس منظر سمجھ سکتے ہیں جو خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے وقت میں فرعون پر نازل کی تھیں۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں خداتعالیٰ نے ان مصائب کے ذریعے فرعون کو اپنے نبی کے حق میں مرعوب کیا تھا۔ اور اپنے نبی کی دعاؤں سے ان مصائب کو دور کر کے فرعون کو اپنے نبی کا مرہون منت بنایا تھا۔ اور اس طرح خداتعالیٰ نے اپنے اس پلان کے لیے راہ ہموار کی تھی جو اس نے قوم بنی اسرائیل کو مصائب سے نجات دلا کر اپنی برکات بخشنے کے لیے بنایا تھا۔ (اعمال۔ باب 3۔ آیات 25۔ 26)۔اس مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کے وقت میں بھی خداتعالیٰ نے وہ بلائیں فرعون کو مرعوب کرنے کے لیے نازل کی تھیں اور اس طرح اس نے اپنے اس پلان کے حق میں راہ ہموار کی تھی جو اس نے حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے زمین کی سب قوموں کو برکت دینے کے لیے بنایا تھا (پیدائش: 18 / 18)۔ پس حضرت ابراہیمؑ کا مصر کا سفر فرعون کے ہاں قیام بلاؤں کا نزول اور ان کی دعاؤں سے بلاؤں کا ازالہ، اور پھر ہاجرہ سے شادی وغیرہ سب امور اسی خدائی پلان کا حصہ تھے۔چنانچہ پیدائش کے باب 15 کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ بوڑھے ہوچکے تھےاور ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ خداتعالیٰ سے اپنے وارث کے لیے دعائیں مانگتے تھےاور خداتعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کو وارث عطا کرے گا۔ مستند روایات سے ہم یہ جان چکے ہیں کہ کنعان میں لمبے قیام کے بعد وہ اپنے باپ سے ملنے کنعان سے حاران گئے تھےاور وہاں پانچ سال ٹھہرے تھے۔ اسی قیام کے دوران انہوں نے اپنے وارث کے لیے خصوصی دعائیں مانگی تھیں۔ اور پھر خداتعالیٰ نے ان کو حاران سے براستہ مصر واپس کنعان جانے کا اشارہ فرمایا تھا۔ مصر پہنچنے پر خداتعالیٰ نے کچھ ایسے حالات پیدا فرما دیےجن سے فرعون اور اس کا خاندان حضرت ابراہیمؑ سے بہت مرعوب ہوا۔ اور پھر ان کے سامنے ان کی دوسری شادی کی تجویز پیش ہوگئی جو انہوں نے حضرت سارہ کے مشورہ پر قبول کر لی۔ اور پھر اس شادی سے وہ وارث پیدا ہوگیا جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور جس کے وسیلے سے دنیا کی سب قوموں کو برکت دینا مقدر تھا۔ اس اجمال کی تفصیل روایات اور قرائن کی روشنی میں کچھ اس طرح سامنے آتی ہے۔
حضرت ابراہیمؑ مصر میں
حضرت ابراہیمؑ کا ستر افراد پر مشتمل قافلہ جب حاران سے چل کر مصر پہنچا تو کنعان کی ایک مشہور شخصیت کے طور پر ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا اور فرعون نے ان کو شاہی مہمان کے طور پر رکھا۔ یہ فرعون ایک شریف انسان تھا اور جیسا کہ ہم اسرائیلی روایات میں دیکھ چکے ہیں وہ خدا کو مانتا تھا۔ وہ حضرت ابراہیمؑ کے مذہبی اوراخلاقی اقدار سے بہت متاثر ہوا۔ تاہم منشائےالٰہی یہ تھا کہ فرعون اور اس کے خاندان کو اپنے اس نبی کے عظیم روحانی مقام اور اعجازی کمالات سے متعارف کروایا جائے۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے وہاں قیام کے دوران کئی دفعہ ایسا ہواکہ محل کے اندر کوئی ایسی ہی بلایا وبا پھیلی جیسی صدیوں بعد حضرت موسیٰؑ کے دور میںپھیلی تھی۔تاہم حضرت ابراہیمؑ کے وقت میں یہ بلا؍ وباصرف فرعون کے محل اور خاندان تک محدود رہی۔ جب بھی یہ بلا ؍وباظاہرہوتی حضرت ابراہیمؑ شاہی خاندان کی مدد کو آتے اور دعا کرتے۔ ان کی دعاؤں سے ان کو اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔ ان اعجازی نشانات کو دیکھ کر فرعون اور اس کا خاندان حضرت ابراہیمؑ سے مرعوب اور ان کی روحانی عظمت کا قائل ہوگیا۔
دوسری شادی کی تجویز
کچھ عرصہ شاہی مہمان رہنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے آگے کنعان جانے کی تیاری شروع کر دی۔ فرعون نے سب مہمانوں کے لیے تحائف تیار کیے۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ سے وہ مرعوب بھی تھا اور ان کا مرہون منّت بھی۔ لہٰذا ان کے لیے وہ کچھ خاص کرنا چاہتا تھا۔ اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کے معزز مہمان کی کوئی اولاد نہیں اور یہ کہ ان کی بیوی بوڑھی اور بانجھ ہے۔ چنانچہ اس نے حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات کر کے ان کو دوسری شادی کا مشورہ دیا۔ اور پھر دلہن کے طور پر اپنی بیٹی ہاجرہ تجویز کر دی۔اصولی طور پر تو حضرت ابراہیمؑ کو اس تجویز پر کوئی اعتراض نہ ہوسکتا تھا لیکن ضروری تھا کہ اس معاملے میں ان کی پہلی بیوی سارہ کو اعتماد میں لیا جاتا۔ فرعون کو معلوم تھا کہ حضرت سارہ کے تعاون کے بغیر اس کی تجویز پر عمل درآمد بہت مشکل ہو گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی یہ تجویز حضرت سارہ پر بہت گراں گزرے گی۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اس تجویز کو حضرت سارہ کے سامنے بہت نرم الفاظ میں اور عاجزانہ انداز میںپیش کرے گا تاکہ وہ جذبات سے ہٹ کر اس پر غور کر سکیں۔
مشکل کا ازالہ
خداتعالیٰ نے ایسے حالات تو پیدا کر دیےکہ فرعون نے مرعوب ہو کر اپنی بیٹی حضرت ابراہیمؑ کی دوسری شادی کے لیے تجویز کر دی۔ لیکن حضرت سارہ کا منفی رد عمل اس شادی میں بہت بڑی رکاوٹ بن سکتا تھا۔ سوکن تو بہت ہی کڑوا کریلا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس بات کا قوی امکان تھا کہ فرعون کے نرم الفاظ اور عاجزانہ انداز کے باوجود حضرت سارہ اس رشتہ پر اعتراض کر دیتیں۔ اور اس صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے لیے اس کو برداشت کرنا بہت مشکل ہو جاتا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اس مشکل کا ازالہ بھی ابتدامیں ہی فرما دیا ۔جیوئش انسائیکلوپیڈیا کے حوالے سے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ جب حضرت سارہ محل میں شاہی خواتین سے ملنے جایا کرتی تھیں تو اس دوران وہ ہاجرہ کو پسند کرنے لگی تھیں۔ سارہ کے دل میں ہاجرہ کے لیے یہ رغبت خداتعالیٰ نے اس لیے ڈال دی تا کہ آگے چل کر جب وہ کٹھن مرحلہ آئے تو ہاجرہ ان کے لیے بطور سوکن قابلِ قبول ٹھہر جائے۔
موسیٰؑ کے لیے بھی یہی ترکیب
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت سارہ کے دل کو متاثر کیا اور ہاجرہ کے لیے اس میں رغبت پیدا کی۔ اور اس طرح حضرت ابراہیمؑ کی دوسری شادی کے لیے راہ ہموار کی اور حالات کو ساز گار بنایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کے دور میں بھی یہی ترکیب استعمال کر کے خداتعالیٰ نے ننھےموسیٰؑ کی زندگی بچا نے کے لیے حالات کو ساز گار بنایا تھا اور راہ ہموار کی تھی۔چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے دور میں فرعون نے حکم دے رکھا تھا کہ اسرائیلی لڑکیوں کو تو زندہ رہنے دیا جائے لیکن لڑکوں کو قتل کر دیا جائے۔ جب موسیٰ پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے خداتعالیٰ کے حکم پر ننھےموسیٰ کو ایک تابوت میں ڈال کر دریا میں بہا دیا ۔ اس تابوت کو جب فرعون کے اہل خانہ نے دریا میں سے نکالا تو خداتعالیٰ نے ان کے دلوں کو متاثر کیا اور ننھے موسیٰ کی محبت فرعون کی بیوی/بیٹی کے دل میں ایسی ڈالی کہ انہوں نے فرعون کو مجبور کیا کہ وہ ننھے موسیٰ کو قتل نہ کرے۔ اور فرعون کو اپنے حکم میں استثنا کرتے ہوئے ننھےموسیٰ کو زندہ چھوڑنا پڑا ۔ (قرآن کریم۔ سورہ طٰہٰ۔ آیت 40۔سورہ القصص۔ آیات 9۔ 10)
(باقی آئندہ)