حضرت مسیح موعودؑ اور اسلام کی پُر امن تعلیم
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ دسمبر 2015ء)
پس اس زمانے میں قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے کام لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کام لیا ہے۔ اور یہی کام ہر احمدی کا ہے کہ ہر طبقے اور ہر مزاج تک اس پیغام کو پہنچائیں اور ہر جگہ اس کام کو سرانجام دیتے ہوئے آپ علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کریں۔ اس وقت مَیں بعض مثالیں پیش کرتا ہوں جو اسلام کی امن کی تعلیم کی خوبصورتی ظاہر کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ: 257) کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ پھر فرمایا:وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (یونس: 100) اور اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہی مشیت کو نازل کرتا تو جس قدر لوگ زمین پر موجود ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔ پس جب خدا بھی مجبور نہیں کرتا تو کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لے آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو پھر ہر ایک زمین پر جو موجود ہے وہ ایمان لے آتا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ تمہارے کہنے سے بھی یہ نہیں ہو گا۔
پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور یہی ایک تعلیم ہے جو بڑے واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اسلام میں جبر نہیں ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبّر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ کیا اُس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ: 257) یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں۔ کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو۔ ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزر گئی اور دین اسلام کے مٹادینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الٰہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے‘‘۔ (اگر جبر میں ہو تو دل سے سچائی نہیں دکھائی جا سکتی، وفا کا تعلق نہیں ظاہر کیا جا سکتا) فرمایا ’’لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 11-12)پھر آپؑ فرماتے ہیں:
’’اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں‘‘۔ یعنی تین قسم کی لڑائیاں ہیں جب اسلام میں سختی ہوئی یا سختی کرنے کی اجازت ہے۔ ’’دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خودمختیاری‘‘۔ (اگر تم پر کوئی حملہ کرے تو اس وقت اپنی حفاظت اور دفاع کرنے کے لئے ہتھیار اٹھایا جا سکتاہے)۔ ’’بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون‘‘۔ (اس وقت جب کسی کو سزا دینی ہو اور دوسروں نے حملہ کیا ہے خون بہایا ہے تو بہرحال سزا کے طور پر چاہے وہ جنگ ہے یا عام حالات ہیں اس وقت ہتھیار استعمال کیا گیا ہے یا سزا دی گئی ہے یا قتل کیا گیا ہے) اور نمبر تین’’بطور آزادی قائم کرنے کے۔ یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 12)اب وہ دشمن لوگ جو اس بات پر قتل کرتے تھے کہ تم مسلمان کیوں ہو گئے؟ تم نے مذہب بدل لیا اس لئے مسلمان ہونے کی وجہ سے تمہیں قتل کرتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں اس لئے ان کے خلاف بھی تلوار اٹھائی جا سکتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ان تین وجوہات کے علاوہ کوئی وجہ نہیں جہاں تلوار اٹھائی جائے یا سختی کی جائے۔ فرمایا کہ’’قرآن میں صاف حکم ہے کہ دین کے پھیلانے کے لئے تلوار مت اٹھاؤ اور دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو۔ اور یہ مت خیال کرو کہ ابتدا میں اسلام میں تلوار کا حکم ہوا کیونکہ وہ تلوار دین کو پھیلانے کے لئے نہیں کھینچی گئی تھی بلکہ دشمنوں کے حملوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور یا امن قائم کرنے کے لئے کھینچی گئی تھی۔ مگر دین کے لئے جبر کرنا کبھی مقصدنہ تھا۔‘‘(ستارہ قیصرہ، روحانی خزائن جلد15صفحہ120-121)فرمایا: ’’جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں‘‘۔ (اس کا اعتراف نہیں کرتے) ’’اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے‘‘۔ (جانور ہیں )۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ167حاشیہ)پس قرآن کریم کا جبر سے دین میں شامل نہ کرنے کا یہ اعلان معترضین کے اعتراض کے ردّ کے لئے کافی ہے اور جو عقلمند ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کو غلط طریق پر بدنام کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں حتی کہ عیسائی پادری نے بھی یہ کہا کہ اسلام کی یہ پرامن تعلیم جو ہے اس کا بہت زیادہ پرچار کرو۔ اور جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا پرچار کرو تو اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات پوری ہو رہی ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں پر مطلع ہو جائیں گے۔ جب ان کو پتا لگتا ہے کہ اصل تعلیم کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں بھی آپ علیہ السلام نے توجہ دلائی کہ ’’دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرو‘‘۔ دین کی خوبیوں کو پیش کرو اور وہ تبھی پیش ہو سکتی ہیں جب خود علم ہو۔ اپنے علم کو بڑھاؤ۔ اور دوسرا فرمایا ’’اور نیک نمونوں سے اپنی طرف کھینچو‘‘۔ اپنے نیک نمونے قائم کرو تاکہ ہمیں دیکھ کے لوگ ہماری طرف آئیں۔ پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ دین کی ذاتی خوبیوں کو پیش کرنے کے لئے قرآن کریم کا علم حاصل کریں اور پھر اپنے نیک نمونے قائم کر کے دنیا کو اپنی طرف کھینچیں اور یہی علم اور عمل ہے جس سے اس زمانے میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آتے ہوئے قرآن کریم اور اسلام کی حفاظت کے کام میں حصہ دار بن سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن قائم کرنا ہے تو قرآن کریم کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔
٭…٭…٭