الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍ستمبر2013ء میں مکرم خواجہ منظور صادق صاحب کے قلم سے محترم خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب کی دینی اور قومی خدمات کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم ڈار صاحب کا تعلق کشمیر کے علاقے ناسنور سے تھا جو آج بھی احمدیت کا گڑھ ہے۔ آپ کے دادا حضرت حاجی عمر ڈار صاحبؓ ایک تاجر تھے اور اس سلسلے میں سیالکوٹ بھی جایا کرتے تھے جہاں ان کے ہم زلف رمضان بٹ صاحب بھی محلّہ کشمیریاں میں مقیم تھے۔ اسی محلّے میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بھی رہتے تھے۔ غالباً 1894ء میں حضرت عمرڈار صاحبؓ حج کے ارادے سے بمبئی پہنچے تو معلوم ہوا کہ راستہ بوجہ طاعون بند ہے۔ چنانچہ آپ سیالکوٹ آگئے اور پھر حضرت مولوی صاحبؓ کی تحریک پر اُن کے ہمراہ قادیان چلے گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں شامل ہوئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ بعض لوگ حج بھی کرتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں مگر رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ آپ کا اپنے بھائی کے ساتھ زمین کا جھگڑا تھا۔ آپ اس نصیحت سے اتنے متأثر ہوئے کہ حضور علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی اور اپنے بھائیوں کے ساتھ زمین کا جھگڑا ختم کردیا۔ اس کے بعد آپؓ کا اوڑھنا بچھونا دعوت الی اللہ ہوگیا۔ آپؓ کی تبلیغ سے ناسنور اور ملحقہ علاقوں میں بڑی بڑی اور مضبوط جماعتیں قائم ہوئیں۔ آپؓ موصی تھے چنانچہ کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنی صداقت کے پانچویں نشان کا ذکر کرتے ہوئے یہ پیشگوئی درج فرمائی ہے: ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن‘‘۔ اس کی تفصیل میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں کہ ثلج عربی لفظ ہے جس کے معنی ایسی برف کے ہیں جو آسمان سے پڑتی ہے، سردی اور بارش اس کے لوازم میں سے ہوتی ہے۔ نو ماہ پہلے شائع کی جانے والی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ موسم بہار جب آیا تو کشمیر اور یورپ و امریکہ کے ملکوں میں برفباری حد سے زیادہ ہوئی۔ چنانچہ ایک خط آج ہی بنام حاجی عمر ڈار صاحب (جو باشندۂ کشمیر ہیں اور اس وقت قادیان میں ہیں، عبدالرحمٰن ان کے بیٹے کی طرف سے) کشمیر سے آیا ہے کہ ان دنوں میں اس قدر برف پڑی ہے کہ تین گز تک زمین پر چڑھ گئی ہے۔ کشمیر کے رہنے والے حیران ہیں کہ بہار کے موسم میں اس قدر برف کا گرنا خارق عادت ہے۔
حضرت عمر ڈار صاحبؓ کے بیٹوں حضرت عبدالقادر ڈار صاحبؓ اور حضرت عبدالرحمٰن ڈار صاحبؓ کو بھی اصحاب احمدؑ میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے۔
محترم عبدالغفار ڈار صاحب مارچ 1916ء میں حضرت عبدالقادر ڈار صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئے۔ مڈل پاس کیا تو آپ کی خواہش پر بارہ سال کی عمر میں قادیان بھجوادیے گئے جہاں آپ نے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کے گھر میں رہنے کی سعادت پائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ 1938ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ آپ کا خاندانی پیشہ چونکہ تجارت تھا اس لیے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپ بھی کاروبار شروع کردیں۔ تاہم آپ کا رجحان لندن آنے کا تھا۔ البتہ یہ بھی خیال تھا کہ ریاست کشمیر کے کسی سکول میں ٹیچر لگ جائیں۔ چنانچہ آپ نے طے کیا کہ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں مشورے کے لیے لکھا جائے اور جو بھی ارشاد ہو اُس پر عمل کرلیا جائے۔ جب آپ نے حضورؓ کی خدمت میں صورتحال عرض کی تو حضورؓ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ آپ محترم چودھری عبدالواحد صاحب مدیر اخبار ’’اصلاح‘‘ سے ملیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے کشمیر کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اُن میں ہفت روزہ اخبار ’’اصلاح‘‘ کا اجراء بھی تھا جو 1934ء میں جاری کیا گیا۔ حضورؓ نے آپ کو اخبار کا نائب مدیر مقرر فرمایا۔ بعد میں بطور مدیر بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی۔ اخبار میں خدمت کے دوران آپ کو حضرت قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا اور چند معروضات پیش کرنے کا بھی موقع ملا ۔ نیز کشمیری زعماء اور بااثر شخصیات سے ذاتی تعلقات قائم ہوئے۔ چنانچہ بعد میں خلفائے کرام کوا گر کسی کشمیری لیڈر سے رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اکثر محترم ڈار صاحب کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی کشمیر نوازی کی یہ بھی ایک مثال ہے کہ حضورؓ نے آزادکشمیر کے بانی صدر اور تحریک آزادیٔ کشمیر کے معمار محترم خواجہ غلام نبی گلکار صاحب اور محترم خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب کو جماعت احمدیہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کا تاحیات اعزازی ممبر نامزد فرمایا۔
تقسیم ہند کے بعد جب کشمیر کی حکومت کے جابرانہ احکامات کی وجہ سے اخبار ’’اصلاح‘‘ بند کرکے محترم ڈار صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے تو حضرت مصلح موعودؓ کے مشورے سے آپ بھیس بدل کر پاکستان آگئے۔ اُن دنوں سرحدی راستے مسدود تھے اور کسی کو ازخود پاکستان جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اچانک جولائی 1948ء میں ایک کانوائے روانہ ہوا جس میں شامل ایک خاندان کا ایک فرد پہلے ہی کسی طرح پاکستان پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ آپ اُس شخص کا بھیس بدل کر قافلے میں شامل ہوئے۔ آپ کے پاس انگریزی زبان میں تیار کردہ ایک میمورنڈم بھی تھا جو پاکستان میں آئے ہوئے اقوام متحدہ کے کشمیر کمیشن تک پہنچانے کی کوشش کرنی تھی۔ راستے میں تلاشی کے وقت آپ نے کافی محنت کرکے اس میمورنڈم کی حفاظت کی اور آخر قافلہ سیالکوٹ پہنچ گیا۔
سیالکوٹ میں سارے قافلے والے اپنے خاندانوں کے ہمراہ چلے گئے لیکن چونکہ آپ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لاہور جانا چاہتے تھے اس لیے اکیلے رہنے پر پاکستان کے خفیہ اداروں کے کارندوں کو شک پڑا تو انہوں نے آپ کو گھیر لیا اور زبردستی ڈی ایس پی کے دفتر میں لے گئے۔ آپ نے ہرچند وہاں اپنے رشتہ داروں اور تعلق داروں کا حوالہ دیا لیکن ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوپایا تھا کہ آپ کو یاد آیا کہ سیالکوٹ میں محترم ایم ایم احمد صاحب ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں۔ جب آپ نے اُن کا حوالہ دیا تو آپ کی محترم میاں صاحب سے فون پر بات کروائی گئی اور پھر میاں صاحب کے حکم پر اُن کی کوٹھی پر پہنچا دیا گیا۔ اگلے روز آپ لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضورؓ دورے پر کوئٹہ تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ بھی کوئٹہ چلے آئے اور حضورؓ کی خدمت میں کشمیر کے حالات عرض کیے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے سانحہ جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات عرض کیے تو حضورؓ بہت رنجیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ جموں کا یہ سانحہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کے بالمقابل زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ سانحہ جموں میں کئی احمدی بھی شہید ہوئے تھے۔ مَیں نے میمورنڈم اور ایک کتابچہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ کتابچہ ایک کانگریسی مسلمان نے لکھا تھا جس میں تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ آزادکشمیر حکومت کا قیام مرزا بشیرالدین محمود احمد سابق صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے زرخیز دماغ کی پیداوار ہے۔ سرینگر میں اس ٹریکٹ کی شیخ عبداللہ کی حکومت نے بھی خوب اشاعت کی تھی۔
پاکستان آکر محترم ڈار صاحب راولپنڈی میں مقیم ہوئے اور طویل عرصے تک مقامی جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ مالی قربانی اور نماز باجماعت کی پابندی آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نڈر، بےباک اور مخلص احمدی تھے۔ ببانگ دہل اپنے احمدی ہونے کا اظہار کرتے اور دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ آپ کی یادداشت بلا کی تھی۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی ہر چیز آخری عمر تک یاد تھی۔ نوّے سال کی عمر میں لکھی گئی آپ کی دو کتب ’’داستانِ کشمیر‘‘ اور ’’مجموعہ مضامین ‘‘ آپ کے غیرمعمولی حافظے کا ثبوت ہیں۔ آپ ایک ہمدرد اور غریب پرور وجود تھے۔ ہر ضرورتمند کی مدد کرنا اپنا فرض جانتے۔ مغربی ممالک کی سیاحت بھی کی، امریکہ کا گرین کارڈ ملا ہوا تھا لیکن آخر دم تک پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی اور یہیں سپرد خاک ہوئے۔
محترم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے محترم ڈار صاحب کی زندگی میں ہی آپ کو منظوم ہدیۂ عقیدت پیش کیا تھا۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
یار وفا شعار ہے عبدالغفار ڈار
ہر ایک کا غمگسار ہے عبدالغفار ڈار
خوش بخت خوش مزاج خوش اخلاق و خوش کلام
خوشبوؤں کا شہر یار ہے عبدالغفار ڈار
ہمدرد ہم جلیس ہے سب کا بصد خلوص
سب کا مشیرِ کار ہے عبدالغفار ڈار
دل کا غنی ہے مہمان نوازی ہے وصفِ خاص
بے نفس و بُردبار ہے عبدالغفار ڈار
عشقِ نبیؐ میں رہتا ہے سرشار جو سدا
وہ عبدِ کردگار ہے عبدالغفار ڈار
یا ربّ! تُو اپنے سایۂ رحمت میں رکھ اسے
دیں پر سدا نثار ہے عبدالغفار ڈار
………٭………٭………٭………
آسیبی تکون یا برمودا ٹرائی اینگل
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍نومبر2013ء میں برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 13؍دسمبر 2002ء اور یکم اکتوبر 2010ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں اس حوالے سے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
برمودا جزائر شمالی بحر اوقیانوس میں تین سو جزیروں کا مجموعہ ہے جس کا کُل رقبہ 53مربع کلومیٹر اور آبادی 63ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔دارالحکومت ہملٹن ہے۔ ان جزائر کو ہسپانوی جہازراں جوآن ڈی برموڈیز نے 1503ء میں دریافت کیا تھا۔ برمودا ٹرائی اینگل جسے آسیبی تکون بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا پُراسرار سمندری علاقہ ہے جہاں فزکس کا کوئی قانون کام نہیں کرتا۔ اس تکون کا رقبہ گیارہ لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جس کے ایک طرف برمودا جزیرہ، دوسری طرف امریکہ کا شہر میامی اور تیسری طرف بورٹوریکو واقع ہے۔ اس خطّے کو برمودا ٹرائی اینگل کا نام 1964ء میں دیا گیا۔ کرسٹوفرکولمبس نے 1492ء میں اس علاقے کا سفر کیا تو لکھا کہ اس سمندری خطّے میں ایسی پُراسرار قوّت موجود ہے جو ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
یہاں ہر طرف عجیب و غریب روشنیوں کا ہجوم رہتا ہے۔ طیارے اور بحری جہاز ایسے غائب ہوتے ہیں کہ اُن کا نام و نشان نہیں ملتا۔ یہاں اب تک جتنے بھی جہاز غائب ہوئے ہیں اُن کا آخری پیغام یہی موصول ہوا تھا کہ ’’اب ہم سفید پانی پر آگئے ہیں۔‘‘
ریکارڈ کے مطابق پہلا بحری جہاز مارچ 1918ء میں لاپتہ ہوا تھا جو امریکی تھا۔ اب تک دو سو سے زائد مافوق الفطرت واقعات اس علاقے سے وابستہ ہوچکے ہیں جن میں سب سے نمایاں واقعہ 5؍دسمبر1945ء کو ہوا جس میں امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈوبمبار طیارے یہاں پہنچ کر غائب ہوگئے۔ اس واقعے میں چودہ افراد ہلاک ہوئے۔ جہاز جب روانہ ہوئے تو موسم سازگار تھا لیکن پھر اچانک خطرناک ہوگیا اور ہوابازوں کے لیے سمت تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔
خلائی سیاروں سے مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں بڑے بڑے سمندری طوفان آناً فاناً جنم لیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوجاتے ہیں۔ اس علاقے میں زلزلوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ یہاں(میتھین) ہائیڈریٹس گیس غیرمعمولی مقدار میں پائی جاتی ہے جو پانی کی کمیت کو تبدیل کردیتی ہے جس سے جہاز بغیر کوئی نشان چھوڑے لمحوں میں غائب ہوجاتے ہیں۔
………٭………٭………٭………