اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍اپریل 2013ء)
ہم احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق چودھویں صدی میں بھیج دیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں قرآنِ کریم کے علم و عرفان کے خزائن کو وضاحت سے اپنی کتب میں بیان کر کے حق و باطل کے فرق کو ظاہر کر کے، اسلام کی برتری دنیا کے تمام ادیان پر ثابت کر کے، دشمنوں کو کھلے چیلنج دے کر اور اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کی مہر ثبت کر کے، دشمنوں کے منہ بند کر کے، ایک لمبا عرصہ زندگی گزار کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا اور اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی تائیدات سے تا قیامت جاری رہنے والا سلسلہ چھوڑ گیا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی راہوں پر آگے سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارضی و سماوی تائیدات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں مختلف آفات کی صورت میں بھی ظاہر ہوئیں، اُن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کیا اہلِ پاکستان کے لئے اور عامۃ المسلمین کے لئے یہ زلزلے، یہ آفات، یہ سیلاب، یہ دنیا میں مسلمانوں کی بے وقعتی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟اب گزشتہ دنوں جو زلزلہ آیا، وہ صرف ایک ملک میں نہیں تھا۔ پاکستان میں بھی اُس سے نقصان ہوا۔ ایران میں بھی ہوا۔ افغانستان میں، شرقِ اوسط کے ممالک میں، بلکہ انڈونیشیا تک چلا گیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر چل رہی ہے اس پر مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ توبہ کی ضرورت ہے۔ استغفار کی ضرورت ہے۔ نام نہاد علماء سے ڈرنے کی بجائے اُنہیں آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمیں اسلام کی تعلیم کے خلاف باتیں بتاتے ہو۔ کہیں ایک واقعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے ایسا بیان کر دیں کہ آپ نے ایسا کیا جو یہ تعلیم دیتے ہیں، یا ایسی تعلیم دی جو آجکل کے علماء دے رہے ہیں۔ پس یہ اسلام جو علماء ہمیں بتاتے ہیں، وہ اسلام نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کی تعریف تو محبت، پیار، امن، سلامتی اور تکلیفوں کو دور کرنا ہے، نہ کہ اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان تکلیفوں کو اَور زیادہ کرنا ہے۔
پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ تقویٰ کو تلاش کر کے اُس پر قدم مارنے کی کوشش کرے۔ موت کو سامنے رکھے جس کا کوئی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میری اتنی زندگی ہے۔ اور وہ عمل کرے جو خداتعالیٰ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے آپ کی اہمیت اور مسلمانوں کو آپ کے ماننے کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ ترقی وہی لوگ کریں گے جو سچے دل سے عمل کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کو مانیں گے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بت کو عظمت دی گئی ہے، اس کی امانی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات، صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کے لیے ہے، اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت ان کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بہ تازہ پھل دے۔ اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کے لیے تو فرمایا: ألَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ۔ تُؤْ تِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا۔ (ابراہیم: 25 تا 26)یعنی کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اﷲ نے مثال یعنی مثال دینِ کامل کی کہ وہ بات درختِ پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہواور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے۔ اَصْلُھَا ثَابِتٌ سے یہ مراد ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے۔ کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو۔ مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اُس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اَور کیا ہوگا؟ اس وقت مسلمان اَسْلَمْنَا میں تو بے شک داخل ہیں مگر اٰمَنَّاکی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتاہے جب ایک نور ساتھ ہو۔ غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے مَیں بھیجا گیا ہوں اس لیے میرے معاملہ میں تکذیب کے لیے جلدی نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 565-566۔ ایڈیشن 2003ء )
پھر آپ نے طاعون کے نشان کی مثال دی ہے کہ’’طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہے وہ یہ ہے۔ اِنَّ اللّٰہ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِہِمْ۔ (الرعد: 12) یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر لعنت ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے۔ خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ۔ کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کرسکتے۔ پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو۔ جس کی نسبت فرمایاہے۔ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ (عبس: 35)‘‘۔(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 566۔ ایڈیشن 2003ء ) اُس دن یعنی قیامت والے دن بھائی بھائی سے دور ہٹے گا، بھاگے گا۔
فرمایا: ’’دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تقویٰ، طہارت کو بجا نہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترکِ شر اور حصولِ خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے، وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آ سکتا۔ اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا، یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقتِ اسلام اور غایتِ نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے اور وہ اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآنِ شریف میں احکام دئیے ہیں اُسی طرح سے آخری زمانے میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے۔ قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق (جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآنِ شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے) صرف یہ ہے کہ قرآنِ شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفۂ آخری کو مسیح موعود کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس قرآنِ شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اُس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے، وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 551۔ ایڈیشن 2003ء …)
… فرمایا:’’اے لوگو! میں ربّ قدیر کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ پس کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اُس غیّور کبیر سے خوف کرے، یا غفلت کے ساتھ ہم سے گزر جاؤ گے؟ اور تم نے اپنے مکروں کو انتہا تک پہنچا دیا اور شکاریوں کی طرح حیلہ بازی میں بڑی دیر لگائی۔ پس کیا تم نے بجز خذلان اور محرومی کے کچھ اَور بھی دیکھا؟ اور کیا تم نے وہ امر پایا جس کو ڈھونڈا بغیر اس کے کہ ایمان کو ضائع کرو۔‘‘ (وہ باتیں جو ڈھونڈیں، کیا تم نے پالیں؟ اس کے بغیر کہ تمہارا ایمان بھی ضائع نہ ہو) ’’پس اے مسلمانوں کی اولاد! خدا سے ڈرو۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے کیسے میری بات کو پورا کیا۔ اور اپنی بخشش میرے لئے بہت دکھلائی۔ پس تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا کے نشانوں کی طرف منہ نہیں کرتے۔ اور میرے لئے ملامت کے تیر پیکان پر رکھتے ہو۔ کیا تم نے اپنے زعم کا بطلان نہیں دیکھا اور اپنے وہم کی خطا تم پر ظاہر نہیں ہوئی؟پس اس کے بعد مذمّت کے لئے کھڑے مت ہو اور بعد آزمائش کے جھوٹ کو مت تراشو، اور زبانوں کو بند کرو اگر تم متقی ہو۔ اُس آدمی کی طرح توبہ کرو جو شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے انجام اور بدعاقبت سے ڈرتا ہے اور خدا توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے۔‘‘(حجۃ اللہ،روحانی خزائن جلد 12صفحہ 192-193)
اللہ تعالیٰ عامّۃ المسلمین کے دل کھولے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھنے والے ہوں، تا جن حالات و مشکلات سے یہ گزر رہے ہیں اُن سے نجات پائیں۔ آفات کے جو جھٹکے ان کوخدا تعالیٰ لگا رہا ہے اُس کے اشاروں کو سمجھیں اور تکذیب اور ظلموں سے باز آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ تقویٰ پر چلیں اور اپنے قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور دنیا کوہر وقت تباہی سے ہوشیار کرتے رہیں
٭…٭…٭