’’ اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِ یْمَانِ ‘‘
( حیا صرف عورت کے پردے کی حد تک محدود نہیں ہے)
حیا کہنے کو تو ایک چھوٹا سا حرف ہے لیکن اس کی گہرائی کو خا ص طور پر ایک ماں ایک بیٹی اورایک بہن کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس طرح سے معاشرہ ایک گندی کھائی میں دن بدن گرتا جا رہا ہے،حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے جسےعملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔
خا کسار نے ماں ،بیٹی اور بہن کو اس لیے مخاطب کیا کیونکہ نئی نسل کی بقا اور ان کی دینی تر بیت عورت کے ہاتھ میں ہے۔وہ عورتیں جن کی گودوں سے انبیاءؑ کے وجود پروان چڑھے اور ان انبیاءؑ نے خدا ئےواحدو یگانہ سے وحی پاکر معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے اور زندہ خدا کی پہچان کروانے کی اعلی مثالیں قائم کیں۔ خدا نے اپنے انبیاءؑ کے ذ ریعے سے بنی نوع انسان کو اچھی باتوں کو کرنے اور بری باتوں سے رکنےکے احکام دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل آیت ۹۱ میں فرما تا ہے۔
وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
ترجمہ:اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔پھر فرمایا:
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِ ثْمَ وَالْبَغْیَ
( سورۃ الا عراف آیت ۳۴)
ترجمہ: تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو۔اسی طرح گناہ اور ناحق بغاوت کو بھی۔
عام حیا کے حرف کو بولا جائے تو عورتوں کے ذہن میں پردہ اور لباس کا تصور ہی آ تا ہے۔لیکن ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا کے وسیع مطالب ہیں۔حیا اصل میں اصلاح کا دوسرا نام ہے۔ہمارے آ قا ومولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کو بڑی خو بصورتی سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ ؓسے فرمایا اللہ تعا لیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔صحا بہ ؓ نے عرض کیا ہم حیا کرتے ہیں اے اللہ کے نبی! الحمد للہ۔آپؐ نے فر مایا یو ں نہیں بلکہ جو شخص اللہ تعا لیٰ سے حیا رکھتا ہے وہ اپنے سر اور اس میں سمائے ہو ئے خیالات کی حفا ظت کرے۔پیٹ اور اس میں جو خوراک وہ بھرتا ہے اس کی حفاظت کرے اور ابتلا کو یادرکھنا چاہئے۔جو شخص آخرت پر نظر رکھتا ہے وہ دنیاوی زندگی کی زینت کے خیال کو چھوڑ دیتا ہے پس جس نے یہ طرز زندگی اختیار کیا اس نے واقعی اللہ تعا لیٰ سے حیا کی۔
(حد یقۃ الصا لحین حد یث نمبر ۸۲۸)
عزیزبہنو!حیا ایک ایسی مقناطیسی قوت ہے جو کہ ہر مومن کے دل میں خدا تعا لیٰ کے خوف کو اُ جا گر کرکے اُسے برا ئیوں سے روکتی ہےاور اسی خوف کے نتیجہ میں وہ خدا کے ہر حکم کو بجا لانے کی کو شش کر تا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد بار ذ کر فرمایا ہے۔اگر آج ہم مائیں بیٹیاں اس کی روح کو نہیں سمجھیں گی تو نسلوں کو دین سے دور کررہی ہو ں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوسری شرطِ بیعت یہ مقرر فرمائی کہ یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیا نت اور فساد اور بغا وت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذ بہ پیش آ وے۔
پس اے احمدی بہنو ! اگر آج ہم نے حیا کے نمونوں کوقائم رکھنا ہے تو اس شرط کو عملی رنگ دینا ہو گا۔ حیا وہ ہے کہ انسان اپنے دماغوں کو شیطانی وساوس سے دُور رکھے،ہروہ کام جو کسی بھی طریق سے قرآنی علوم کے منا فی ہو اُسے ترک کرےتب ہی ایمان کا وہ مے خانہ کھلتا ہے جس کو لبالب پینے سے پیاس کا احسا س اَور بڑ ھتا جا تا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا بیان فرما تی ہیں۔کہ رسول اللہ ؐنے انصاری عورتوں کی تعریف فرمائی۔فرمایا انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ شرم و حیا انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے نہیں روکتی۔
حضرت خلیفۃا لمسیح الخا مس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’حیا بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایمان کا حصہ ہے۔آج کل کی دنیاوی ایجادات…،ٹی وی ہے،انٹرنیٹ و غیرہ ہے اس نے حیا کے معیار کی تا ریخ ہی بدل دی ہے۔کھلی کھلی بے حیا ئی دکھانے کے بعد بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ بے حیا ئی نہیں ہے۔پس ایک احمدی کے حیا کا معیار نہیں ہو نا چا ہئے جو ٹی وی اورانٹرنیٹ پر کو ئی دیکھتا ہے۔یہ حیا نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس میں گرفتاری ہے۔( خطبہ جمہ ۱۵ جنوری ۲۰۱۰ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ تعا لیٰ بیان فر ما تے ہیں۔’’ حیا کے مفہوم کو سمجھنا چاہئے۔جن کے دلوں میں حیا ہو وہ دوسروں کے ہاتھ لوٹا نا نہیں چاہتے،اللہ ان کے ہاتھ کیسے لوٹا دے گا…لازماً اس میں داخل ہے اللہ ان کے خا لی ہا تھ لو ٹانے سے شرماتا ہے جو اس کے بندوں کے خا لی ہا تھ لوٹا نے سے شرماتے ہیں۔اور جتنا وہ شرماتے ہیں اسی نسبت سے اللہ اس سے شرماتا ہے۔ ( الفضل انٹرنیشنل ۱۱ دسمبر ۱۹۹۸ء صفحہ۸)
اس ارشاد نے حیا کا ایک اورخو بصورت پہلوعیاں کر دیا۔یعنی ایک دوسرے کے کام آ نا ایک دوسرے کی دلجوئی کرنا ایک دوسرے کی تکلیف کا احساس کرنا بھی حیا ہے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کی خواہشات کو اہمیت دینا اور اپنے نفس کو مارتے ہوئے کسی دوسرے کے لیے قربانی دینا اصل اللہ تعا لیٰ کی حیا ہے،ہمارے لو گوں میں اکثر یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ جانے انجانے میں اپنی ضد اور اپنی اناؤں کو اوراس قدر چھوٹی چھو ٹی با توں کو خا طر میں لاتے ہیں کہ اُن کی طرف سے کیے جانے والے کام میں کو ئی برکت نہیں رہتی نہ ہی اُس میں خو بصورتی پیدا ہوتی ہے۔ایک حدیث میں ہے۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتی ہے اور حیا جس چیزمیں بھی ہواسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔( حدیقۃ الصا لحین صفحہ ۶۴۸)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:’’ اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جس سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تم سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور تمہیں ایک بڑی عزت کے مقام میں داخل کر یں گے۔(النساء :۳۲)
حیا کا یہ مضمون اس قدر اپنے اندر تقویٰ کے معیار کو چُھپائے ہو ئے ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جا تی ہے۔بے حیائی وہ گناہ ِکبیرہ ہے کہ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا وہ کیسے کیسے ان گناہوں کی را ہوں پر چلتا جا تا ہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں بیان فر ما یا:’’پس ہر احمدی عورت اور مرد سے میں یہ کہتا ہوں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہترین لباس وہ ہے جو تقویٰ کا لباس ہے۔اُسے پہننے کی کو شش کریں تا کہ اللہ تعا لیٰ کی ستّاری ہمیشہ ڈ ھانکے رکھے اور شیطان جو پردے اُ تارنے کی کوشش کر رہا ہے جو انسان کو ننگا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اللہ تعا لیٰ نے فرمایا کہ جو مومن نہیں ہے شیطان ان کا دوست ہے۔اگر تو ایمان ہے اور زمانہ کے امام کو بھی مانا ہے تو پھر ہمیں ایک خا ص کوشش سے شیطان سے بچنےکی کوشش کرنی ہو گی۔( خطبہ جمعہ فر مودہ ۳ اپریل ۲۰۰۹ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴ اپریل ۲۰۰۹ء)
اے میری بہنو! چلیں آج ہم یہ وعدہ کریں کہ ہم حیا کے ہر اُس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کریں گی جس کا اللہ تعا لیٰ نےقرآن کریم میں ہمیں بار بار حکم دیا ہے۔
دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جا ئے گا