فرقان بٹالین(قسط سوم)
سب پریشان تھے کہ عید ہے اور اس موقع پر گوشت میسر نہیں رات کو فرقان بٹالین والوں کو آلو کہیں سے مل گئے وہی پکالیے اور اس کا شوربہ بنالیا جب سب کھانا کھانےکے لیے بیٹھے اس شوربہ میں گوشت کا ذائقہ آیا
(گذشتہ سے پیوستہ)ایک روز محترم کیپٹن نعمت اللہ صاحب شریف نےمجھ سے پوچھا بھائی سلام آپ کا بٹالین میں کیا عہدہ ہے۔ میں نے کہا کہ میرا عہدہ ایک مجاہد کاہے۔ پھر وہ کہنے لگے میں کئی روز سے سوچ رہا ہوں کہ سلام صاحب کا کیا عہدہ ہے۔ اس پر میں نے جو جواب دیا وہ بڑا دلچسپ ہے۔ میں نے کہا کیپٹن صاحب آپ کی اس قسم کی سوچ ہوگی۔ مجھے تو کبھی اس قسم کی سوچ کا خیال بھی نہیں آیا۔ میں تو صرف خدمت کی سوچ کے تحت فرقان بٹالین میں آیا ہوں۔ آپ کے یہ بات کرنے سے میرا خیال فوراً اس طرف گیا کہ مومن کو کسی عہدہ سے غرض نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ تو ایک خادم ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے سامنے ایک بڑی اچھی مثال حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی ہے۔ وہ بہت بڑے جرنیل تھے اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فوج کا چارج لیا تو وہ بہت خوش ہوئے کہ پہلے مومنوں کی ایک بڑی جماعت کی ذمہ داری ان کے سپرد تھی اب وہ بوجھ اتر گیا ہے اور اب اکیلے خالد کی ذمہ داری رہ گئی ہے۔جس کے لیے انہیں کوئی فکر نہ تھی۔ جب وہ جرنیل تھے اس وقت بھی مجاہد تھے اور اب جبکہ وہ سپاہی بنے تب بھی مجاہد ہی ہیں۔ اس کے بعد میں نے کہا میں تو واقفِ زندگی ہوں۔ اس سے بڑا عہدہ کیا ہوسکتا ہے۔
ایک دفعہ مکرم صوبیدار عطاء اللہ صاحب کی رخصت کے دوران مجھے بھمبر ریئر ہیڈ کوارٹر کا چارج دیا گیا۔ تو محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے مجھے حکم دیا کہ بٹالین کا کچھ حصہ بھمبر لے آئیں اور ان کو مزید ٹریننگ دے کر محاذ پر بھجوائیں۔ اور ایک علیحدہ ہیڈ کوارٹر، ٹریننگ کے لیے بنالیں۔ چنانچہ میں نے اس سلسلے میں پاکستان آرمی کے سب ایریا کمانڈر مکرم مظفر خان صاحب (جو کہ کیمبل پور (حال اٹک) کے رہنے والے تھے) سے بات کی تو انہوں نے مجھے ایک جگہ دکھائی۔ جس میں ایک کنواں اور ساتھ کچھ باغ بھی تھا۔ اور ایک کمرہ بھی بنا ہوا تھا۔ جسے میں نے پسند کرلیا اور بعد میں دو مزید گارڈ منگوا کر ایک کمرہ بنوالیا۔ اور محاذ سے بلائے گئے جوانوں کی ٹریننگ شروع کروادی۔
چند دن کے بعد اس بھمبر کیمپ میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نگران فرقان بٹالین ،مکرم کیپٹن حمید احمد صاحب کلیم اور مکرم محمود احمد صاحب (آف کریام حال مقیم چک نمبر 88ج ب ضلع لائلپور) اور دیگر چار دوستوں کے ساتھ تشریف لائے۔ مثلاً مکرم چودھری نور الدین صاحب ذیلدار چک نمبر 6/11-L ضلع ساہیوال، مکرم ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب آف سانگھڑ، مکرم مولوی عصمت اللہ صاحب آف بہلول پور ضلع لائلپوراور چوتھا نام میں اب بھول گیا ہوں۔ تاہم وہ بھی عمر رسیدہ تھے۔ محترم صاحبزادہ صاحب نے مجھے کہا کہ کہیں سے چار گھوڑے مل سکتے ہیں تو ان کا انتظام کروادیں۔ اس پر میں اسی وقت سب ایریا کمانڈر محترم مظفر خان صاحب کے پاس گیا اور ان سے چار گھوڑوں کا مطالبہ کیا۔ وہ کہنے لگے آدھ گھنٹہ میں انشاء اللہ گھوڑے آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ میں نے واپس آکر محترم صاحبزادہ صاحب اور ان کے ساتھ آنے والے ساتھیوں کے ہمراہ کھانا کھایا اور اس کے ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد اے ٹی کمپنی کے چار جوان چار گھوڑے لے کر وہاں پہنچ گئے۔ محترم صاحبزادہ صاحب نے چاروں بزرگ مہمانوں کو گھوڑوں پر سوار کروایا اور خود پیدل چل پڑے۔ اس پر اے ٹی والوں نے کہا اگر آپ سات گھوڑوں کا کہتے تو اس کا بھی انتظام ہوجانا تھا۔ اس پر محترم صاحبزادہ صاحب نے کہا ہم تینوں( مرزا ناصر احمد ،کیپٹن حمید احمد کلیم، اور محمود احمد) تو جوان ہیں۔ اس لیےپیدل چل لیں گے۔ تین دن کے بعد مکرم صاحبزادہ صاحب اور ان کے دیگر ساتھی پاک فوج کے گھڑ سواروں کے ہمراہ واپس آئے۔تو میں نے ان گھڑ سوار فوجیوں سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اپنی یونٹ سے زیادہ آرام فرقان بٹالین والوں نے دیا ہے۔ اور محترم صاحبزادہ صاحب بار بار ہمیں ضرورت کا پوچھتے رہے۔ جب یہ محاذ سے واپس پہنچے تو ان کے آنے سے قبل سرائے عالمگیر کے لیے ٹرک جاچکے تھے۔ اب ان کو مزید 24گھنٹے بھمبر میں ہی قیام کرنا پڑا۔ اس وقت تک صرف ایک ہی کمرہ تھا۔ رات کو بارش آگئی۔ تو محترم صاحبزادہ صاحب کے ساتھیوں کے علاوہ پندرہ خدام بھی اس کمرہ میں آگئے اور سب نے مل کر وہاں رات بسر کی۔ اگلی صبح سویرے ہی پاکستان آرمی کے سب ایریا کمانڈر محترم مظفر خان صاحب محترم صاحبزادہ صاحب کے واپس آجانے کا علم ہونے پر ملاقات کے لیے آگئے اور دیکھا کہ تمام احباب کمرہ میں زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے فوراً دو تین چارپائیاں اپنے سنٹر سے منگوالیں اور محترم صاحبزادہ صاحب کمانڈر صاحب کے ساتھ چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ اور کمانڈر صاحب ناراض ہونے لگے کہ محترم مرزا صاحب نے رات ٹھہرنا تھا تو مجھے کیوں اطلاع نہ دی۔ بہرحال جتنی دیر سب ایریا کمانڈر وہاں رہے محترم صاحبزادہ صاحب ان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھے رہے۔ جب وہ واپس چلے گئے تو محترم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا اب چارپائیاں کھڑی کردیں اور زمین پر کمبل بچھادیں اور پھر ان کمبلوں پر بیٹھے اور لیٹے رہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ محترم صاحبزادہ صاحب کو ان پہاڑی علاقوں میں زیادہ پیدل چلنے کی وجہ سے پاؤں میں چھالے پڑگئے تھے۔ میں نے ان کے لیے دوائی منگواکردی جسے وہ تمام دن استعمال کرتے رہے۔ شام کو سرائے عالمگیر سے ٹرک بھی آگئے۔ جن پر محترم صاحبزادہ صاحب اور ان کے ساتھی سوار ہوکر واپس چلے گئے۔
ایک روز عصر کی نماز کے قریب بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے بھمبر اور اس کے گردونواح میں بمباری کی جس کے نتیجہ میں کچھ شہری شہید اور کچھ زخمی ہوئے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان آرمی اور فرقان بٹالین کے تمام جوان محفوظ رہے۔ بمباری کے بعد جب بمبوں کے پھٹنے والی جگہ کا معائنہ کیا گیا تو بھمبر نالہ کے قریب ایک جگہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ بمباری کے نتیجے میں زمین کا پانی نکل آیا ہے اور اس جگہ پر جو گڑھا بنا اس کی گولائی اٹھارہ قدم تھی اور گہرائی زمین میں پانی تک تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد ہماری حکومت کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کی صرف ایک مثال آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ احباب کو علم ہوجائے کہ کن مشکلات میں سے ہم گزررہے تھے۔ اس زمانہ میں آزاد کشمیر میں افواج کو کھانے کے لیے صرف آٹا اور مسور کی دال ہی ملتی تھی۔ متواتر آٹھ ماہ تک دونوں وقت استعما ل کرتے رہے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے حکومت کو ایسے ذرائع میسر کیے کہ دوسری دالیں،سبزیاں اور گوشت بھی ملنے لگا۔ اس وقت دودھ میسر نہ تھا صرف چائے کی پتی اور گڑ ملتا تھا۔ بعد میں محترم میجر محمد حیات صاحب نے GHQکو لکھا تو چالیس آدمیوں کے لیے ایک ڈبہ دودھ ملنا شروع ہوا اور جوانوں کو چائے ملنے لگی۔ اس وقت دیگر جگہوں پر پاکستان آرمی کو چائے کے لیے چینی میسر تھی۔ مگر آزاد کشمیر میں سفر کی بڑی مشکلات تھیں۔ بعد میں تو راشن لانے کے لیے گدھے اور خچر بھی مہیا کردیے گئے۔ تاہم بارشوں کے دنوں میں نالے پانی سے بھر جاتے اور راشن لانے میں بڑی دقت کاسامنا کرنا پڑتا۔
فرقان بٹالین کے پاس چونکہ کنواں تھا اس لیے پاکستان آرمی کے سپلائی والے اور سگنل والے نہانے کے لیے آجایا کرتے تھے۔سپلائی کے ایک حوالدار کلرک مکرم بابو خان صاحب وہاں کئی کئی گھنٹے ٹھہر اکرتے تھے۔ انہیں تبلیغ کرنے کا موقع بھی میسر آجاتا تھا۔ انہی دنوں میں عید کا دن بھی آگیا۔ سپلائی میں بھی گوشت نہ آیا اور نہ ارد گرد کے دیہات سے کوئی مرغ یا بکرا وغیرہ مل سکا۔ اسی طرح پاکستان آرمی کے دوستوں کو بھی کہیں سے گوشت نہ مل سکا۔ سب پریشان تھے کہ عید ہے اور اس موقع پر گوشت میسر نہیں۔ رات کو فرقان بٹالین والوں کو آلو کہیں سے مل گئے۔ وہی پکالیے اور اس کا شوربہ بنالیا۔ جب سب کھانا کھانےکے لیے بیٹھے اس شوربہ میں گوشت کا ذائقہ آیا۔ اس پر ہمارے دو ساتھی مکرم امام دین صاحب اور مکرم کریم داد صاحب چونک پڑے اور کہنے لگے اس میں تو گوشت کا ذائقہ ہے۔ اس پر میں نےکہا اس میں خدا تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے۔ ہم تمام دن بکرےیا مرغ کا گوشت اردگرد کے دیہات میں تلاش کرتے رہے۔ باوجود کافی تگ ودو کے گوشت نہ ملا۔ ذائقے بھی تو خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس نےہمیں آلو کے شوربہ میں گوشت کا ذائقہ ڈال دیا ہے۔فرقان بٹالین کے جوانوں نے یہ آلو کا شوربہ رات کو بھی کھایا اور اگلی صبح بھی یہی شوربہ استعمال کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہماری خواہش پوری ہوگئی۔ اس شوربہ میں سے کچھ شوربہ بچ گیا۔ صبح کے وقت جب مکرم بابو خان صاحب سپلائی والے آئے تو نہا کر انہوں نےپوچھا کہ بھائی کچھ کھانے کوہے اور ساتھ ہی بتایا کہ کل باوجود عید ہونےکے سپلائی میں گوشت نہیں ملا اور نہ پورے علاقہ سے ہمیں کسی بھی جگہ سے مل سکا۔ اس پر میں نے اپنے ساتھی مکرم کریم داد صاحب سے کہا ان کے لیے شوربہ اور روٹی لے آؤ۔ جب انہوں نے پہلا لقمہ ہی منہ میں ڈالا تو کہنے لگا کہ آپ نے اکیلے اکیلے گوشت کھالیا اور ہمیں نہیں کھلایا۔ اس پر میں نےکہا آپ تو سپلائی کے مالک ہیں اور آپ کو تو کسی چیز کی کمی نہیں۔ جب وہ کھانا کھا چکا تو میں نے بتایا کہ آلو کا شوربہ تھا۔ ہمیں باوجود کوشش کے کہیں سےگوشت نہ مل سکا تو اللہ تعالیٰ نے جو سب ذائقوں کا مالک ہے اس نے اس آلو کے شوربہ میں ہی گوشت کا ذائقہ بنادیا۔ اس کے باوجود مکرم بابو خان صاحب یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا کہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے بار بار یقین دلانے پر بمشکل ماننے پر راضی ہوا۔
ان دنوں سرائے عالمگیر سے ایک ٹرک ڈاک لے کر روزانہ محاذِ کشمیر پر آتا جاتا تھا جس کے ذریعہ ڈاک اور خورونوش کی اشیاء بھجوائی جاتی تھیں۔اور آنے جانےوالے فوجی بھی اس ٹرک کے ذریعہ ہی آتے جاتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد پاکستان آرمی سے آنے والے محترم میجر محمد حیات صاحب،کیپٹن حمید احمد کلیم صاحب،محترم کیپٹن عبداللہ صاحب مہار اور کیپٹن راجہ عبدالحمید صاحب اپنی یونٹوں میں واپس چلے گئے۔ مجھے اور میرے دو ساتھیوں کو بھی محاذ پر بلا لیا گیا۔ جانے والے افسران کی جگہ دیگر انسٹرکٹر صاحبان ریئر ہیڈ کوارٹر بھجوادیے گئے۔ مجھے برکت کمپنی کاحوالدار میجر لگا دیا گیا۔ اور محترم حوالدار نور احمد صاحب میرے بھمبر قیام کے دوران ہی برکت کمپنی کے کمانڈر مقرر کردیے گئے۔ اب وہ کیپٹن نور احمد صاحب کے نام سے برکت کمپنی کی کمانڈ کررہے تھے محترم حوالدار مشتاق احمد صاحب (جو کہ محترم کیپٹن حمید احمد صاحب کلیم کے بھائی ہیں) اب بطور کیپٹن شوکت کمپنی کی کمانڈ کررہے ہیں۔ پھر محترم کیپٹن نعمت اللہ صاحب شریف بھی اپنی رخصت مکمل ہونے پر اپنی یونٹ میں واپس چلے گئے ان کی جگہ پر محترم جمعدار شریف احمد صاحب بطور کمانڈنگ آفیسر فرقان بٹالین مقر ر ہوئے۔
محترم میجر محمد حیات صاحب قیصرانی کے زمانہ میں میرے سب سے بڑےبھائی محترم چودھری عبدالرحمٰن صاحب سابق حوالدار 4/7راجپورت رجمنٹ پنشنر بھی تین ماہ کے لیے فرقان بٹالین میں آئے۔ان کو تنویر کمپنی میں کوارٹر ماسٹر حوالدار مقرر کردیا گیا۔ تین ماہ گزرنے کے بعد انہوں نے واپس جانے کے لیے اجازت مانگی۔ مگر فرقان بٹالین کی ضرورت کےپیشِ نظر ان کوواپسی کی اجازت نہ مل سکی اور انہیں مزید قیام کےلیے کہا گیا۔ ایک دن انہوں نے واپس جانے کے لیے مجھے مجبور کرنا چاہا اور کہا کہ گھر میں ہمارا بہت نقصان ہورہا ہے۔ فصل کے دن ہیں اور کام کے لیے نوکر بھی نہیں مل رہا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس پر میں نے کہا بھائی صاحب اگر تو آپ فرقان بٹالین میں خداتعالیٰ کی خاطر آئے ہیں تو خداتعالیٰ خود ہی کوئی انتظام کردے گا اور آپ کا کوئی نقصان نہیں ہونے دے گا۔ اور اگر آپ دکھاوے کے لیے یہاں آئے ہیں تو ہم آپ کے نقصان کے ذمہ دار نہ بن سکتے ہیں اورنہ ہی خداتعالیٰ۔ چند دن کے بعد بٹالین کی ضرورت پوری ہوگئی اور انہیں واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ دوسری طرف دیکھیں خداتعالیٰ نے ایسا انتظام کردیا کہ ہمارے گاؤں کا ایک آدمی جو اَب بہاولپور ضلع کے کسی گاؤں میں رہتا تھا اور مہاجر ہونے کی وجہ سے اسے زرعی زمین وہیں الاٹ ہوئی تھی وہ ملاقات کے لیے ہمارے گاؤں چک نمبر 88ج ب ہسیانہ ضلع لائلپور آیا۔ ان کا نام محترم غلام محمد صاحب تھا۔ وہ گامی کے نام سے معروف تھے۔ اس نےآتے ہی پوچھا کہ بھائی عبدالرحمٰن صاحب کہاں ہیں۔ میرے دوسرے بھائی محترم محبوب الرحمٰن صاحب جو کہ ان دنوں گاؤں مقیم تھے اور زراعت کا کام کررہےتھے انہوں نےکہا بھائی تو آزادکشمیر میں مجاہد فورس( فرقان بٹالین) میں گئے ہوئے ہیں۔اس پر اس نے اپنے واپس جانے کا ارادہ ترک کردیا اور ہمارا دوسرا ہل اس نے چلانا شروع کردیا۔ اور زمین تیار ہونے پر گندم کی بوائی کرائی۔ اور پھر تمام سردیاں کماد سے گڑ بناتے رہے اور پھر گندم کے پکنے پر اس کی کٹوائی کروائی اور گندم کی فصل اٹھوا کر اپنے گھر واپس گئے۔ وہ ہمارے گھر میں تقریباً دس ماہ تک رہے۔ اور ہر قسم کے کام میں مدد دیتے رہے۔ محترم بھائی عبدالرحمٰن صاحب نے تین ماہ سے چند دن زائد فرقان بٹالین میں گزارے۔ جبکہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک آدمی کو بہاولپور سےدس ماہ کے لیے بھجوادیا۔
جنگِ آزادکشمیر
1948ء کے آخر میں یا 1949ء کے شروع میں کشمیر حاصل کرنے کے لیے پاکستان آرمی نے حملہ کی ایک سکیم بنائی۔ جس کے لیے بھاری مشین گنیں اور توپ خانہ کے یونٹ مدد کے لیے اس علاقہ میں تعینات کردیے گئے۔ حملہ کے لیے جو سکیم بنائی گئی اس کے تحت گائیڈ پلاٹون فرقان بٹالین سے لی گئی۔ سکیم کے تحت سب سےپہلے پاک آرمی کا توپ خانہ فائر کرے گا۔اس کے بعد فرقان بٹالین کی گائیڈ پلاٹون کی راہنمائی میں تمام دستے باقاعدہ دشمن کے علاقے میں ایڈوانس کریں گے۔ اور اس طرح کشمیر کو دشمن سے خالی کروالیا جائے گا۔ اس وقت فرقان بٹالین کے کمانڈر محترم شریف احمد صاحب تھے۔ انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ آپ فرقان بٹالین سے جوان منتخب کرلیں۔ اس وقت بہت سے جوانوں نے اس کام کے لیے خود کو پیش کردیا۔ تاہم سب کو موقع نہ مل سکا۔ مناسب جوان اس کام کے لیے منتخب کرلیے اور گائیڈ پلاٹون تیار ہوگئی۔ یہ پلاٹون نہ صرف اپنے دستوں کو راستہ کی راہنمائی کرنے لگی بلکہ حملہ کی صورت میں ایڈوانس پارٹی کے طور پر اگلے مورچوں میں دفاعی ذمہ داری بھی ادا کرنے لگی۔ سکیم کے تحت جب تیاری مکمل ہوگئی تو اس محاذ پر پہلی بار حسبِ پروگرام بھارتی افواج پر توپ خانہ کا بھرپور فائر کھول دیاگیا۔ انڈین آرمی اس اچانک حملہ کے نتیجہ میں سخت گھبراگئی کیونکہ اس سے قبل ان پر کبھی توپ خانہ کا فائر نہ ہوا تھا۔ انہوں نے بد حواسی میں اپنے اگلے مورچے خالی کردیے اور پیچھے ہٹ گئے۔ اس دوران پاکستان آرمی کے توپ خانہ نے بھارتی علاقہ کا ایک بیٹری پتن پل ( ایسا پل جو عارضی طور پر کشتیوں کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے) توڑدیا اور بھارتی سپلائی لائن بند ہوگئی۔ جس کی وجہ سے بھارتی فوج کو مجبوراً سات میل اپنے علاقہ میں واپس ہٹنا پڑا۔ پاکستان آرمی اور فرقان بٹالین کے جوانوں نے اس وادی پر قبضہ کرلیا۔ اور ان کے مورچوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد ایک وادی جو کہ بارہ میل کے علاقہ پر مشتمل تھی اس پر بھی قبضہ کرکے دشمن کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ اور راتوں رات ہمارے جوانوں نے اپنے پختہ مورچے بنالیے۔ دشمن کو اُس وقت پتا چلا جب باؤنڈری کمیشن والے وہاں پہنچے۔ کیونکہ پاکستان کی فارورڈ اور آؤٹ پوزیشنیں دشمن کی پہاڑی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اس پہاڑی کو پاکستان کا علاقہ شمار کرلیا گیا۔ ان دنوں محترم چودھری عبدالمالک صاحب نے ( مربی سلسلہ جو بعد میں انڈونیشیا اور پاکستان کے مختلف شہروںمیں تعینات رہے) جو اس وقت جامعۃ المبشرین کے طالب علم اور فرقان بٹالین کی برکت کمپنی کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے اس وقت جو خدمات سرانجام دیں وہ قابلِ ذکر ہیں۔ محترم چودھری صاحب رات کے وقت پاکستان آرمی اور فرقان بٹالین کے تھکے ماندے جوانوں کے لیے کھانے اور چائے کا بہترین انتظام کرتے رہے الحمدللہ۔ پاکستان آرمی کے افسران نے اس خدمت پر فرقان بٹالین کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ اس کی وجہ سے سپاہی پھر سے تازہ دم ہوجاتے تھے۔
ایک دفعہ آزادکشمیر گورنمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار بھمبر آئے تو انہیں فرقان بٹالین کی طرف سے سلامی دی گئی۔ اس وقت بھمبر میں محترم جمعدار شیر احمد خاں صاحب کمانڈر تھے۔ مذکورہ افسر نے جوانوں سے مختصر خطاب بھی کیا۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق اگلے روز محاذ جنگ پر اگلے مورچوں کا معائنہ کرنا تھا۔ نصف شب کے قریب ان کے پروگرام کا علم ہوا۔ تو فرقان بٹالین کا ایک دستہ بھمبر سے چل کر اگلی صبح فرقان بٹالین کے باغسر کیمپ پہنچ گیا۔ ان کی آمد پر اسی دستہ نے ان کو سلامی دی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں تو سواری کے ذریعہ آیا ہوں اور یہ پیدل ہی یہاں پہنچ گئے اور بڑی حیرانی سے پوچھا کہ یہ جوان تو کل بھمبر میں تھے اور آج یہاں ہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ فرقان بٹالین نے اس تمام علاقہ کا اچھی طرح سروے کرکے فاصلوں کو سمیٹ لیا ہے۔ اور کم سے کم وقت میں دوسری جگہ پہنچنا ان کا معمول بن گیا ہے۔ اور نہایت مستعدی اور احتیاط سے یہ اپنا کام مکمل کرلیتے ہیں اور اسی خوبی کی وجہ سے اکثر گائیڈ فرقان بٹالین سے لیے جاتے ہیں۔
ایک دفعہ GHQ سے آرڈر آیا کہ آزادکشمیر کی جملہ افواج اپنے اپنے علاقے میں سڑکیں بنائیں تاکہ آنے جانے میں سہولت ہو اورکمک بروقت پہنچ سکے۔اس وقت تک وہاں باقاعدہ کوئی سڑک نہ تھی۔ اکثر فوجی پگڈنڈیوں کے ذریعہ ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے تھے۔ پھر پروگرام کے تحت سب دستوں نے اپنے اپنے علاقے میں سڑک کے لیے راستے ہموار کرنے شروع کردیے۔ اور بعض جگہوں پر پتھروں کو بھی توڑنا شروع کیا۔ ان دنوں پاکستان آرمی والے اتوار کو چھٹی کرتے تھے اور فرقان بٹالین کے جوان جمعہ کے روز چھٹی مناتے تھے۔ ایک دن جمعہ کے روز محترم کرنل افضل صاحب اور محترم میجر عطاء اللہ صاحب معائنہ کے لیے آئے اور فرقان بٹالین کے اعلیٰ عہدیداران کو کہنے لگے کہ پاکستان کےآرمی چیف جنرل گریسی صاحب فلاں تاریخ کو آزاد کشمیر کے ان علاقوں کا دورہ کرنے اور فوجی دستوں کا معائنہ کرنے کے لیے آرہے ہیں اور آپ نے چھٹی کی ہوئی ہے۔ سڑک اس وقت تک کیسے بنے گی۔ اس پر فرقان بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر محترم کیپٹن بابا شیر ولی صاحب نے کہا ہم مسلمان ہیں اور ہمیشہ جمعہ کی چھٹی مناتے ہیں۔ باقی رہا سڑک کا کام ہم انشاء اللہ سب سے پہلے او راچھی سڑک بنائیں گے۔ اس کی فکر مت کریں بلکہ میرا تو آپ کو بھی مشورہ ہے کہ آپ بھی جمعہ کی چھٹی کیا کریں کیونکہ جمعہ کا دن سب مسلمانوں کی قومی عید کا دن ہے۔ اس دورہ پر آنے والے افسران نے دوپہر کا کھانا فرقان بٹالین میں کھایا اور اگلے جمعہ کو انہوں نے اپنی بٹالین کو بھی چھٹی دے دی اور کہا کہ ساری بٹالین کے جوان باغسر جاکر فرقان بٹالین کے ساتھ نماز جمعہ پڑھیں۔ سوائے ڈیوٹی والوں کے باقی سب نے جمعہ کی نماز سے پہلے ہی باغسر کا رُخ کرلیا۔ ان کے علاوہ وطنِ عزیز کے دفاع میں شامل محترم کشمیرا خان صاحب پٹھان کی ڈیڑھ سو کے قریب جوانوں پر مشتمل رضاکار فورس بھی وہیں باغسر پہنچ گئی اور نماز جمعہ وہیں ادا کی۔ امامت کے فرائض محترم کیپٹن قاضی عبدالرحمٰن صاحب آف دوالمیال ضلع جہلم (جو کہ محترم ملک مبارک احمد صاحب استادجامعہ احمدیہ ربوہ اور محترم ملک بشارت احمد صاحب نائب وکیل المال ثانی تحریک جدید ربوہ کے والد تھے) نے اداکیے۔ اور سب فوجیوں کو اپنی ذمہ داریوں کے حوالہ سے مناسب رنگ میں صحابہ کرامؓ کے واقعات سناتے ہوئے جہاد کی توجہ دلائی۔ تمام فوجیوں نے ان کے خطاب کو پسند بھی کیا۔
1949ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ کے 125 کے قریب طلباء اور دس ان کے اساتذہ ٹریننگ کے لیے فرقان بٹالین کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ اس وقت محترم بابا شیر ولی صاحب کمانڈنگ آفیسر تھے۔ اور میں برکت کمپنی کی ایک پلاٹون کی کمانڈکررہا تھا۔ سکول کے طلباء اور اساتذہ کو مکرم صوبیدار عطاء اللہ صاحب کے سپرد کیا گیا۔ وہ اس وقت عظمت کمپنی کے کمانڈر تھے اور ٹریننگ کا شعبہ ان کے سپرد تھا۔ مجھے بھی عارضی طور پر ایک ماہ کے لیے عظمت کمپنی میں جانے کا حکم مل گیا۔ میں نے ان سب کے رہنے کے لیے تین پلاٹون بنادیں اور ٹریننگ کے لیے پانچ گروپ بنالیے۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ اس ایک ماہ میں کل سترہ دن پریڈ ہوئی۔ کیونکہ بارشوں کے دن تھے۔ ہرروز آٹھ گھنٹے پریڈ کروائی جاتی تھی۔ اس ایک ماہ میں وہ سب خداتعالیٰ کے فضل سے بڑے اچھے سپاہی بن گئےتھے۔ ان میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب ( جو کہ بعد میں ناظر بیت المال خرچ اور ناظر اعلیٰ ثانی ربوہ رہے) اور ان کا بیٹا مکرم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب ( جو کہ بعد میں وکیل المال ثانی تحریک جدید رہے) بھی شامل تھے۔ خلافت ثالثہ میں ایک دن جب محترم حضرت صوفی غلام محمد صاحب مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کے لیے تشریف لائے تو اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ بھائی سلام صاحب کو سلام کریں یہ ہم دونوں کے استاد ہیں۔
انہی دنوں میں حضرت امیر المومنین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ فرقان بٹالین کے معائنہ کے لیے کشمیر تشریف لے گئے۔ حضور نے اپنے دست مبارک سے فرقان بٹالین کو جھنڈا عطا فرمایا۔ کلر پارٹی نے حضور سےجھنڈا وصول کیا او راسے اس مقام پر لے جا کر نصب کیا جو اس کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے بعد حضور جھنڈے کے پاس تشریف لے گئے اور بٹالین نے مارچ پاسٹ کیا اور سلامی دی۔ اس کے بعد ایک گھنٹہ کا ایک فوجی ایکسرسائز کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ جس میں مختلف قسم کی فوجی مشقیں تھیں۔ ان مشقوں میں چھ مختلف کام میں نے سرانجام دیے اور یہ ایک گھنٹہ کا پروگرام 56 منٹ میں بخیروخوبی اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس کے بعد حضورؓ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جھنڈے کے لیے اسلام میں کوئی سلامی نہیں ہے۔ نہ آنحضرتﷺ اور نہ آپؐ کے خلفاء اور نہ آپؐ کے صحابہؓ نے کبھی جھنڈے کو سلامی دی۔ ہاں آنحضرتﷺ اور آپؐ کے صحابہ نے جو جھنڈے کا احترام کیا ہے وہ آپ نے بھی کرنا ہے۔ آپ بہت خوش قسمت ہیں جن کو میں نے اسلام کا جھنڈا دیا ہے۔ اس پریڈ کے موقع پر پاکستان آرمی کے بھی بعض افسروں کو بلایا گیا تھا۔ فوجی مشقوں کے بعد سب نے وہیں کھانا کھایا۔ اس موقع پر شامل آرمی افسروں نے کہا اس قسم کا فوجی مظاہرہ پاکستان آرمی میں کبھی نہیں دیکھا اور مزید یہ کہ ایک گھنٹے کا پروگرام چھپن منٹ میں ختم ہوگیا ہو۔ حالانکہ ایک گھنٹہ کے پروگرام میں تو خواہ مخواہ سوا یا ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتاہے۔ کھانے کے بعد حضور نے نماز ظہر وعصر قصر کرکے پڑھائیں اور مقامی لوگوں نےپوری نماز ادا کی۔ اس کے بعد حضور بلند وبالا پہاڑیوں پر تشریف لے گئے اور وہاں اگلے مورچوں سے دشمن کے مورچے اور دفاعی پوزیشنیں دیکھیں۔ اسی شام حضور واپس لاہور تشریف لے گئے۔ حضور کی آمد سے فرقان بٹالین کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوگئے۔اور اپنے کام میں پہلے سے زیادہ مستعدی دکھانے لگے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭