خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ستمبر 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابو بکرصدیق ؓکے دَور خلافت کا ایک بہت بڑا ،بے مثال اور عظیم کارنامہ جمع قرآن کا تھا
٭…حضرت ابو بکر صدیق ؓکی ذات سے وابستہ پہلی مرتبہ سرانجام پانے والے کارنامے ’اوّلیات ابو بکر‘ کا بیان
٭ حضرت ابو بکرؓ تمام عالم اسلام کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا۔پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہ رکھتے تھے(حضرت مصلح موعودؓ)
٭…آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر کی فضیلت نماز اور روزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جوان کے دل میں ہے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ستمبر 2022ء بمطابق 16؍تبوک1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 16؍ستمبر 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کے کارناموں کا ذکر ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں ذمیوں کے حقوق کے متعلق کچھ تفصیل ہے ۔ ذمّی سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرکے اپنے مذہب پر قائم رہے اور مسلمانوں نے ان کی حفاظت کا ذمّہ لیا۔ یہ لوگ فوجی خدمت اور زکوٰة کی ادائیگی سے بری تھے۔چنانچہ ان ذمّیوں کے بالغ، تندرست اور قابلِ کار افرادسے چار درہم سالانہ جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔بوڑھے ،اپاہج، نادار محتاج اور بچے اس سے بری تھے بلکہ معذوروں اور محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دی جاتی تھی۔ عراق اور شام کی فتوحات کے دوران متعدد غیرمسلم آبادیاں جزیے کی ادائیگی پر آمادگی ظاہر کرکے ذمّی بن گئے تھے۔ ان سے جو معاہدے ہوئے ان میں یہ شقیں شامل تھیں کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ ان کا کوئی ایسا قلعہ گرایا جائے گا جس سے وہ ضرورت کے وقت دشمن سے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں۔ناقوس بجانے اور تہوار کے وقت صلیب نکالنے سے روکا نہ جائے گا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت کا ایک بہت بڑا،بےمثال اور عظیم کارنامہ جمع قرآن کا تھا۔ جنگِ یمامہ میں سات سَو کے لگ بھگ حفاظِ کرام صحابہ شہید ہوئے تو حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے جمع قرآن کے متعلق انشراحِ صدر عطا فرمایا۔ صحیح بخاری میں درج تفصیل کے مطابق جنگِ یمامہ کے بعد حضرت زید بن ثابت کو حضرت ابوبکرؓ نے بلایا اور انہیں بتایا کہ حضرت عمرؓ نے جمع قرآن کے متعلق مشورہ دیا ہے اور یوں یہ کام حضرت زید بن ثابت ؓکے سپرد فرمایا۔ حضرت زیدبن ثابتؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر حضرت ابوبکرؓ ایک پہاڑ کو اس کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لیے اس کام سے آسان ہوتا۔ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے قرآن کو کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے اکٹھا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کے ذریعہ جس قرآن کریم کو ایک جلد میں مرتب کروایا اس کوصحیفہ صدیقی کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ اور پھر ام المومنین حضرت حفصہؓ بنتِ عمرؓ کے پاس رہا ۔ صحیفہ صدیقی سے حضرت عثمانؓ نے چند نسخے نقل کروائے اور یہ نسخہ حضرت حفصہؓ کو واپس کردیا۔ جب 54؍ہجری میں مروان مدینے کا حاکم ہوا تو اس نے یہ نسخہ حضرت حفصہؓ سے لینا چاہا تاہم آپؓ نے انکار کردیا۔ حضرت حفصہؓ کی وفات کے بعد مروان نے یہ نسخہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے لےکر اسےضائع کردیا۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکرؓ پر رحم فرمائے انہوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو کتابی صورت میں محفوظ کیا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ دنیا میں کوئی تحریر اس تواتر سے موجود نہیں جس تواتر سے قرآن کریم موجود ہے۔فرمایا حضورﷺ کے زمانے میں سارا قرآن لکھا گیا تھا گوکہ ایک جلد میں نہ تھا چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کریم ’جمع‘ کرنے کا حکم دیا لکھنے کا حکم نہیں دیا گویا الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا لکھنے کا سوال نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں تمام مسلم دنیا کو ایک قراءت پر جمع کردیا گیا تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرصدیقؓ نے قرآن کریم کی تمام سورتوں کو نبی کریمﷺ سے سنی ہوئی ترتیب کےمطابق جمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔ پھرحضرت ابوبکرصدیقؓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلیفہ ثالث حضرت عثمانؓ کو توفیق عطا فرمائی تو آپؓ نے لغتِ قریش کے مطابق قرآن کو ایک قراءت میں جمع کیا اور اسے تمام ملکوں میں پھیلا دیا۔
حضرت ابوبکرؓ کی ذات سے وابستہ پہلی مرتبہ سرانجام پانے والے کارناموں کو ’اوّلیات ابو بکر‘ کہا جاتا ہے۔جو یہ ہیں کہ آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے۔مکّے میں سب سے پہلے اپنے گھر کے سامنے آپؓ نے مسجد بنائی۔مکّے میں سب سے پہلےحضورﷺ کی تائید میں کفّارِ مکّہ سے قتال کیا۔ سب سے پہلے آپؓ نے اسلام لانے کی پاداش میں ظلم و ستم سہنے والے متعدد غلاموں اور باندیوں کو آزاد کروایا۔سب سے پہلے قرآن کریم کو ایک جلد میں جمع کیا۔ سب سے پہلے آپؓ نے قرآن کا نام مصحف رکھا۔ سب سے پہلے خلیفہ راشد قرار پائے۔ رسول اللہﷺ کی زندگی میں سب سےپہلے امیرِ حج مقرر ہوئے۔ حضورﷺ کی زندگی میں سب سے پہلے نماز میں مسلمانوں کی امامت کی۔ اسلام میں سب سے پہلے بیت المال قائم کیا۔آپؓ اسلام کے پہلے خلیفہ ہیں جن کا مسلمانوں نے وظیفہ مقرر کیا۔ اسی طرح آپؓ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے اپنا جانشین نامزد فرمایا۔ آپؓ پہلے خلیفہ ہیں جن کی بیعتِ خلافت کے وقت ان کے والد زندہ تھے۔ اسلام میں آپؓ سب سے پہلے شخص تھے جنہیں حضورﷺ نے کوئی خطاب عطافرمایا۔ آپؓ پہلے شخص تھے جن کی چار پشتوں کو صحابیت کا درجہ ملا۔
حضرت ابوبکرؓ کا حلیہ حضرت عائشہؓ یوں بیان فرماتی ہیں کہ آپؓ گورے رنگ کےدبلے پتلے شخص تھے۔ رخساروں پر گوشت کم، کمر خمیدہ، آنکھیں اندر کی طرف اور پیشانی بلند تھی۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؓ اپنےبالوں پر خضاب لگاتے تھے۔ آپؓ نے ایک پرندے کو دیکھا تو فرمایا کہ کاش مَیں اس پرندے کی مانند ہوتا کہ نہ اس کا کوئی حساب ہوگا اور نہ یہ جواب دہ ہے۔
حضرت ابوبکرؓنے اپنی وفات کے وقت حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اے میری بیٹی! تُو جانتی ہے کہ لوگوں میں سےمجھے سب سے زیادہ محبوب تم ہو۔ مَیں نے اپنی فلاں جگہ کی زمین تمہیں ہبہ کی تھی لیکن تم نے اس پر قبضہ نہیں کیا۔ اب مَیں چاہتا ہوں کہ تم وہ جگہ لوٹادو تاکہ وہ میرے سب بچوں میں اللہ کی کتاب کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق تقسیم ہو اور مَیں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ مَیں نے اپنی اولاد میں سے کسی کودوسرے پر ترجیح نہیں دی۔
جب خلافت کی رِدا اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو پہنائی تو اگلے روز آپ حسبِ معمول کپڑوں کا تھان کندھے پر رکھے تجارت کے لیے نکلے۔راستے میں حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی جن کے کہنے پر آپؓ کے لیے وظیفہ مقرر کردیا گیا۔ وہ وظیفہ کیا تھا آپؓ کو دوچادریں ملتی تھیں جب وہ پرانی ہوجاتیں تو واپس کرکے دوسری لے لیتے۔ سفر کے لیے سواری اور خلافت سے پیشتر خرچ کے موافق خرچ لیا کرتے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ تمام عالَمِ اسلام کے بادشاہ تھے مگر ان کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرف نہ رکھتے تھے۔
آپؓ کے ہاتھ سے اگر لگام گِر جاتی تو آپؓ اونٹنی سے اترتے اور اسے خود اٹھاتے ۔ پوچھنے پر فرماتے کہ مجھے میرے محبوبﷺ نے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہ کرنا۔
حضورِاکرمﷺ نے ایک بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابوبکر کو ہم پر کیا فضیلت ہے؟جیسے نماز ہم پڑھتے ہیں اور جیسے روزہ ہم رکھتے ہیں وہ بھی ایسے ہی رکھتے ہیں تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر کی فضیلت نماز اور روزے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو ان کے دل میں ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑایک آیتِ قرآنی کی تفسیر میں حضرت ابوبکرؓ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ حیاتِ ثانی وہی ہے جس کو صوفی بقا کےنام سے موسوم کرتے ہیں۔ جب انسان اس درجے پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی روح کا نفخ بھی اس میں ہوتا ہے۔ ملائکہ کا اس پرنزول ہوتا ہے، یہی وہ راز ہے جس پر پیغمبرخدا ﷺنے حضرت ابوبکرؓ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابوبکر کو دیکھے۔ ابوبکر کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔
آنحضورﷺکی کامل اطاعت، عشقِ رسولؐ اور غیرت کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ رسول اللہﷺ کے گھر آئے تو حضرت عائشہؓ حضورﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر آپؓ سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کو مارنے کے لیے آگے بڑھے ۔ آنحضرتﷺ یہ دیکھ کر دونوں باپ بیٹی کے درمیان حائل ہوگئے اور عائشہؓ کو متوقع مار سے بچا لیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تو آنحضورﷺ نے ازراہِ مذاق حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ دیکھا! آج ہم نے تمہیں تمہارے ابّا سے کیسے بچایا۔ کچھ دنوں بعد حضرت ابوبکرؓ دوبارہ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ ہنسی خوشی حضورﷺ سے بات چیت کر رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ تم نے مجھے اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا اب اپنی خوشی میں بھی شریک کرلو۔ یہ سن کر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ہم نے شریک کیا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔
٭…٭…٭