متفرق مضامین

وہ شخص تر و تازہ گلابوں کی طرح ہے

(مبارک صدیقی)

قارئین کرام! خاکسار کو مورخہ 28؍اگست 2022ء کو ، حضرت سیدنا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ دوران ملاقات خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے چار سوالات پوچھے اور حضورِ انور نے تمام تر مصروفیات کے باوجود ازراہ شفقت میرے سوالات کے جوابات دیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ کا قدم قدم پر حافظ و ناصر ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ صبح نماز فجر سے رات نماز عشاء تک ہفتے کے ساتوں دن اور سال کے تین سو پینسٹھ دن ازحد مصروف رہنے والے پیارے حضور کیسے ہر ادنی سے ادنی خادم کو بھی مسکرا کر ملتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ جتنا کام ہمارے پیارے حضور کرتے ہیں یہ سب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔جتنا کام پیارے حضور جماعت احمدیہ کے افراد کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے کرتے ہیں ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم حضور انور کی ازحد ازحد ازحد اطاعت کریں۔

قارئین کرام خاکسار ملاقات کے بعد یہ جوابات اپنی یادداشت کے مطابق اپنی ذمہ داری پر آج ہی لکھ رہا ہے۔ملاقات میں خاکسار نے عرض کی کہ

حضور عالمِ برزخ کی مختلف تشریحات اور کیفیات پڑھی ہیں۔ میرے جیسے کم علم شخص کے لیے کچھ آسان طریقے سے بتائیں کیونکہ بعض تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ’’برزخ‘‘خلاوں میں موجود کوئی خوفناک اداس سی جگہ ہے اور مرنے والے روزِ قیامت تک وہیں رہیں گے۔ کل یونہی سوشل میڈیا پر ایک غیر احمدی عالم دین کا بیان سن رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ دراصل قبر ہی عالم برزخ ہے اور مرنے والے قیامت تک اسی عالم میں رہیں گے۔

حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا کہ میں آپ کو آسان سے طریقے سے سمجھاتا ہوں۔آپ برزخ کو ایک ویٹنگ روم (Waiting Room)نہ سمجھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نیکو کار اور گناہ گار لوگ ایک ہی ویٹنگ روم میں ہوں گے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔مرنے کے بعد نیک لوگ جنّت میں جائیں گے۔ اور جن کو سزا ملنی ہے۔ وہ دوزخ میں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واجب ہوگئی‘‘۔پھر ایک اور جنازہ گزرا تو آپؐ نے فرمایا:’’واجب ہوگئی‘‘۔صحابہ کرام ؓنے پوچھا یا رسول اللہ! کیا واجب ہو گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک پر جنت واجب ہوگئی اور دوسرے پر دوزخ۔ تو جب واجب ہو گئیں تو انسان اس کی کیفیات کو محسوس کرنا بھی شروع کر دے گا ۔

انسان کے مرنے کے ساتھ ہی جنت یا دوزخ شروع ہو جاتی ہے۔ تاہم قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تمام اجساد اکھٹے کیے جائیں گے اور اعمال نامے دیکھے جائیں گے تو جنت میں رہنے والے ان لوگوں کی جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی ان کے درجات بلند کیے جائیں گے۔

گناہ گار لوگ جو مرنے کے بعد قیامت تک دوزخ جیسی کیفیات میں رہ رہے ہوں گے اگران کی خطائیں معمولی ہوئیں تو روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف فرما کر انہیں جنت میں بھی داخل کر سکتا ہے اور جن کے گناہ بہت زیادہ ہوں گے قیامت کے روز حساب کتاب کے بعد انہیں ابھی اور سزا بھی کاٹنی ہو گی۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ وہ کسے اپنے فضل سے بخش دے۔وہ غفور الرحیم ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ میں نے آپ کو سمجھانے کے لیے آسان سے الفاظ میں سمجھایا ہے۔اصل الفاظ اور حوالہ جات کے لیے آپ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘بھی پڑھ لیں دوسرے سوال کے جواب میں اور حدیث سے اصل حوالہ بھی دیکھ لیں۔خاکسار نے حضور انور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور نہ صرف مجھے بہت اچھے طریقے سے ’’ برزخ‘‘ کی سمجھ آگئی ہے بلکہ بہت تسلی بھی ہوئی ہے کہ روز قیامت معمولی خطاکاروں کی بخشش کی بھی امید ہے۔

اس کے بعد خاکسار نے عرض کی کہ جماعتی شعرا کو چھوڑ کر حضور کو کس شاعر کا کلام پسند ہے یا پسند رہا ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ اس طرح کوئی ایک پسندیدہ شاعر تو نہیں بتا سکتا۔میں نے کچھ شعرا کو پڑھا ہے۔علامہ اقبال کے بھی بعض اچھے اشعار ہیں اور مرزا غالب کے بھی لیکن جیسا کہ میں نے مرزا حنیف احمد صاحب کی کتاب’’ادب المسیح‘‘ کا دیباچہ لکھتے ہوئے بھی اس بات کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ منظوم کلام میں جو روحانی لذت اور روحانی فیوض ہمیں حضرت اقدس حضرت مسیح موعودؑ کے کلام میں ملتے ہیں وہ بے مثال ہیں۔

خاکسار نے سوال کیا کہ حضور اگر کبھی الہ دین کا جن کوئی ایک خواہش پوچھے یا فرشتہ آکے ایک خواہش پوچھے تو انسان کو کیا خواہش کرنی چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ہر انسان کی خواہش اور ضرورت مختلف ہو سکتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ جب ان کی پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو آپ نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میری سب دعائیں قبول فرما۔

آخر پر خاکسار نے نہایت ادب و احترام سے عرض کی کہ حضور اگر اجازت عطا فرمائیں تو ایک معصومانہ سا دلچسپ سوال پوچھ لوں؟حضور نے ازراہ شفقت اجازت عطا فرمائی۔خاکسار نے عرض کی کہ

اگر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کسی دو گھنٹے دور کی مسافت کے سفر پر جانا ہو۔ دو بندوں میں سے کسی ایک کو ساتھ لے کر جانا ضروری ہو۔پہلا شاعر ہو اور بہت ہی بے وزن شاعری سناتا ہو۔دوسرا گلوکار نظمیں پڑھنے والا ہو اور بہت ہی بری آواز والا اور شدید بے سرا ہو تو حضور کس کو ساتھ لے کر جائیں گے؟

میرے اس سوال پر حضور انور نے توقف فرمایا، مسکرائے اور پھر فرمانے لگے۔میں دونوں کو کہوں گا کہ چپ کر کے بیٹھ جاؤ۔بولنا نہیں ہے۔اور خود میں سفر میں استغفار کرتا رہوں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button